Saturday, April 27
Shadow

گورنمنٹ ماڈل سائنس کالج راولاکوٹ کا تعلیمی و تفریحی دورہ۔۔ پروفیسر محمد ایاز کیانی

رپورٹ ۔۔ پروفیسر محمد ایاز کیانی
چلتے رہو کہ چلنا ہی شرط سفر ہے یاں
عارف کوئی سفر سفر رائیگاں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سات سمندر پار” اور “دھنک پر قدم” جیسے لازوال سفرناموں کی مصنفہ بیگم اختر ریاض الدین نے کہیں لکھا تھا “دنیا کے حسین سفر ہمیشہ مجھ پر مسلط رہے ہیں”
سفر چاہے بیرون ممالک کا ہو اندرون ملک کا اگر مناسب وسائل اور اچھے ہم سفر میسر ہوں تو سفر کی ساری کلفتیں راحتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور راستے کی دشواریاں اور مسائل خوش گوار یادیں بن جاتی ہیں۔بعض اسفار منزلوں سے زیادہ حسین اور خوبصورت ہوتے ہیں۔
آج میں جس سفر کی روداد  قلم بند کرنے چلا ہوں ہو وہ جہاں ایک اختیاری سفر تھا وہیں پر ایک ذمہ داری کے بوجھ تلے دبی مجبوری بھی تھی۔ جب کبھی ایسی کیفیت ہو  کہ جزا و سزا  کے آپ تنہا ہی سزاوار ہوں تو احساس ذمہ داری آپ کو زیادہ ریلکس نہیں ہونے دیتا ایسا ہی ایک منفرد سفر گورنمنٹ ماڈل  سائنس کالج راولاکوٹ کی طالبات کا دو روزہ مطالعاتی دورہ کے حوالے سے ترتیب دیا گیا۔
26 اکتوبر کو صبح نو بجے کالج کیمپس سے اس دورے کا آغاز ہوا۔جب تمام طالبات بس میں سوار ہو چکیں تو پرنسپل ادارہ نے بس میں آکر تمام طالبات سے مختصر بات کی اور سفر کے حوالے سے ضروری ہدایات اور رہنمائی دی۔یوں دعائے سفر سے اس تفریح دورے کا آغاز ہوا۔ساڑھے نو بجے کھائیگلہ سے دو طالبات کو شریک سفر کیا گیا۔یوں 24 طالبات اور سٹاف سمیت 29 افراد پر مشتمل ہمارا یہ قافلہ دوتھان، اکھوڑبن سے ہوتا ہوا ساڑھے دس بجے ہجیرہ شہر میں داخل ہوا۔ ہجیرہ ضلع پونچھ کی ایک تحصیل اور نہایت گنجان آباد شہر ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ گزرتی ہوئی سڑک اپنی تنگ دامانی کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں مشکلات کا باعث ہے۔مگر کاروباری سرگرمیوں کے حوالے سے یہ شہر آزاد کشمیر کے چند قابل ذکر شہروں میں سے ایک ہے۔شہر میں کئی سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے فروغِ تعلیم میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اس شہر سے گزر کر ہمارا قافلہ ایک مختصر سے سفر کے بعد دریائے پونچھ کے ساتھ ساتھ متوازی سفر کرتے ہوئے دھر بازار اور منڈھول سے گزرا۔دریائے پونچھ کے دونوں اطراف آباد یہ علاقہ اپنی خوبصورتی اور دیدہ زیبی میں یکتا ہے۔ایک طرف دریا کی روانی اور پرسوز آواز ایک سماں باندھ رہی تھی تو دوسری طرف ہموار میدان اور نہایت دلفریب اور دلکش قدرتی ڈھلوانیں موسم خزاں میں بھی آنکھوں کے لیے خیرہ کن مناظر مہیا کر رہی تھیں۔یہاں کے لوگ  مہمان نوازی کے حوالے سے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔کھیتی باڑی اور مشقت کا رجحان جس کی روایت اب قصہ ماضی ہے اب بھی یہاں کے لوگ کسی نہ کسی سطح پر اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کی زمین نے ابھی تک وفا کی ریت نبھاتے ہوئے اناج کی پیداوار جاری رکھی ہوئی ہے۔گندم مکئی اور چاول یہاں کی اہم فصلیں ہیں۔منڈھول سے گزرتے ہوئے کیلے کے باغات بھی اپنے پھل سمیت دعوت نظارہ دے رہے تھے۔ہم نے پہلی ٹھیکی دریائے پونچھ کے کنارے منڈھول سے کچھ آگے لی۔یہاں پر بچوں نے دریائے پونچھ کی شوریدہ موجوں کی روانی کو قریب سے ملاحظہ کیا کچھ مناظر کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا اور مقبوضہ پونچھ سے آنے والے دریا سے داستان الم بھی سننے کی کوشش کی۔۔۔
تھوڑی دیر کے بعد ہم آگے کی طرف عازم سفر ہوئے۔تتہ پانی کے مقام پر ہم  نسبتاً زیادہ دیر کے لیے رکے۔یہاں بچوں نے دریا کے کنارے گرم پانی کے چشمے کو دیکھا۔گندھک کی مخصوص بو کے ساتھ پانی سے بھاپ نکل رہی تھی روایت مشہور ہے کہ اس پانی سے غسل کرنے سے بہت سارے جسمانی عوارض سے شفا مل جاتی ہے ان روایات میں کتنی صداقت ہے اس حوالے سے فوری تصدیق ممکن نہ تھی البتہ دریا کے کنارے  زمین سے ابلتا ہوا پانی نکلنا قدرت کاملہ کا ایک شاہکار ضرور تھا۔یہ اللہ پاک کی قدرت کاملہ ہی ہے جو زمین سے ٹھنڈے اور گرم پانی کے چشمے جاری کیے ہوئے ہے۔ایک خوش گوار تبدیلی یہ تھی کہ پرانے بوسیدہ پل کی جگہ نئے پختہ پل نے لے لی تھی دریا کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی سہولت اور تفریح طبع کے لیے چھوٹا سا پارک اور عام ضروریات کی چند دکانیں بھی تعمیر کر دی گئی ہیں۔
پل عبور کر کے ہمارا قافلہ ضلع کوٹلی کے اولین پڑاؤ تتہ پانی بازار میں داخل ہو گیا۔بازار سے گزرنے کے بعد ہم مختلف دیدہ زیب پہاڑی سلسلوں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کوٹلی شہر کی طرف عازم سفر تھے۔تمام شرکاء سفر راستے کے مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور خوش گپیوں  میں  محو تھے۔تتہ پانی سے  پھگواڑی تک بلند و بالا پہاڑی سلسلے ہیں اور آبادی نسبتاً کم ہے۔کئی جگہوں پر مٹی کے بنے پرانے گھر بھی نظر آ رہے  تھے تقریبا ساڑھے بارہ بجے ہم مدیت المساجد کوٹلی پہنچے۔شاردہ کی پہاڑی ڈھلوان سے کوٹلی شہر کا نظارہ بہت دلکش ہوتا ہے  مگر رضوان نے شارٹ کٹ لیتے ہوئے سرساوہ روڈ سے دریائے پونچھ کے متوازی شہر میں داخلے کا پروگرام بنایا ۔یوں ہم دریا کے ساتھ ساتھ لاری اڈے والی سائیڈ سے شہر میں داخل ہوئے۔ کوٹلی آبادی کے اعتبار سے آزاد کشمیر کا سب سے بڑا ضلع ہے۔یہاں کے  لوگ ہنس مکھ ،ہمدرد اور مہمان نواز ہیں۔شہر میں  لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے پوسٹ گریجویٹ کالجز قائم ہیں آزاد کشمیر یونیورسٹی کا کیمپس بھی یہاں قائم ہے۔اگہار شریف کے پیر صاحب کا یہاں کے مجموعی مذہبی ماحول پر کافی گہرے اثرت ہیں۔ایک ہی سٹائل کی مسجدیں ہیں۔ہم شہر کو باہر سے ہی الوداع کہتے ہوئے بائی پاس سے میرپور روڈ پر رواں ہوگئے۔تھوڑی دیر کے بعد ناڑ اور پھر گل پور  بائی پاس سے ہوتے ہوئے ہم شاہراہِ میرپور پر براستہ اسلام گڑھ ،چکسواری عازم سفر ہوئے ۔گل پور سے تھوڑے سے فاصلے پر راج دھانی کے مقام پر ہم نے گاڑی رکوائی۔یہاں سڑک کے کنارے اورسیز کشمیری تارکینِ وطن میں سے ایک مقامی فرد چوہدری فاضل نے کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک پارک بنوایا ہے ۔پارک کے ساتھ ایک قطعہ زمین قبرستان کے لیے مخصوص ہے۔پورے آزاد کشمیر میں پرائیویٹ سیکٹر میں یہ واحد پارک ہے جو ایک فرد نے اپنی گرہ سے تعمیر کروایا ہے۔کئی کنالوں پر مشتمل اس پارک میں موسم خزاں کے کسی قسم کے اثرات نہ دیکھے گئے یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہاں ازلی بہاروں کا رہن بسیرا ہے ۔انواع و اقسام کے کئی درخت اور ہری بھری دلکش گھاس کا قالین فرش زمرد کا منظر پیش کر رہا تھا۔صفائی ستھرائی کا نہایت اعلیٰ انتظام تھا۔۔۔۔۔۔۔باغ کی ہمہ وقت نگہداشت کے لیے دو مالی تعینات تھے۔ایک ملازم عبدالغنی نے بتایا کہ ہم دونوں کو تیس تیس ہزار ماہانہ تنخواہ ملتی ہے مگر دلچسپ بات یہ تھی کہ انھیں یہ تنخواہ ماہانہ کی بجائے ہفتہ وار بنیادوں پر ملتی ہے۔۔اس نے بتایا کہ ہم اپنے مالک سے بہت خوش ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہم لوگوں کی خوشی دیکھ کر روحانی اطمینان محسوس کرتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ ہم اپنا کام پوری لگن ،تن دہی اور دلچسپی سے کرتے ہیں ۔اس پارک کے ساتھ منسلک قبرستان میں دفن ہونے والے افراد کی تدفین کے سارے اخراجات چوہدری فاضل صاحب اپنی جیب سے کرتے ہیں۔۔یہ پارک باقی اضلاع کے مخیر حضرات اور حکومت آزاد کشمیر کے لیے بھی بھرپور تحریک کا باعث ہے۔۔۔۔
یہاں سے نکل کر ہمارا قافلہ اسلام گڑھ چکسواری اور کاکڑا ٹاؤن سے ہوتے ہوئے جڑی کس پارک سے تھوڑا پہلے ایک ڈھابہ نما ہوٹل پہ رکا۔چونکہ بچوں کا اصرار تھا کہ صرف نظاروں سے پیٹ کا دوزخ نہیں بھرا جا سکتا بلکہ اس کے لیے گندم کی بھی ضرورت ہے حالانکہ اسی گندم کی لذت نے انسان کو جنت کی ابدی راحتوں سے نکال کر زمین کی آزمائشوں میں لا کر پھینک دیا۔چونکہ ہمارے پاس وقت کم تھا اس لیے دستیاب مینیو سے ہی انتخاب کرنا پڑا۔ اس پر کافی ناگواری کے ریمارکس بھی سہنے پڑے مگر اب اس کی عادت ہو چکی ہے لہذا احتجاج کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے۔۔
کھانے سے فراغت کے بعد ہمارا قافلہ ایک دفعہ پھر میرپور شہر کی طرف طرف رواں دواں تھا کھانے کی لذت کی تاثیر تھی یا کوئی اور وجہ تھی طالبات نے جڑی کس پارک  دیکھنے سے صاف منع کردیا۔ یوں ہم  منگلا ڈیم کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے عصر کے وقت میرپور شہر میں داخل ہوئے ۔بائیں ہاتھ پر تعلیمی بورڈ میرپور کا بورڈ دیکھ کر طالبات کافی چیں بہ چیں ہوئیں کہ انہی دفاتر میں  ہمارے” نامہ اعمال” لکھنے والے منکیر نکیر تشریف رکھتے ہیں۔۔  میرپور بورڈ کی عمارت سے گزرتے ہوئے ہم شہر میرپور کے بیچوں بیچ ہوتے ہوئے میرپور کرکٹ سٹیڈیم ،ڈسٹرکٹ کمپلیکس،شہید چوک گورنمنٹ کالج میرپور، میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو باہر باہر سے دیکھتے ہوئے شہر کی بلند و بالا عمارتوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے شہر سے باہر “آصفہ بھٹو زرداری” پارک پہنچے۔۔میرپور شہر کی شاہانہ عمارات اور پر شکوہ طرزِ تعمیر کو طالبات نے بہت پسند کیا۔۔۔۔پارک میں پہنچے تو کسی نے پھبتی کسی سر یہ لوگ سندھ سے یہاں کیسے آگئے اور نام بھی ٹو ان ون۔۔ہم نے اپنا پنڈ چھڑاتے ہوئے ٹکٹ لیے گاڑی پارک کروائی اور تمام طالبات اور اساتذہ پارک کی سیر کو نکل گئے۔۔۔میرپور کے شہریوں اور سیاحوں کے لیے یہ ایک نہایت خوبصورت سہولت ہے کہ وہ زندگی کی یکسانیت سے اکتا کر چند لمحات یہاں کی کھلی فضا میں گزار سکیں۔یہاں بچوں کے لیے اونٹ اور گھوڑوں کی سواری کے مناسب انتظامات موجود تھے۔شام کے سائے آہستہ آہستہ گہرے ہوتے جا رہے تھے ہوا میں  ہلکی ہلکی خنکی تھی یہاں کی رونق اور چہل پہل سے سب بچے بہت محظوظ ہوئے۔جب رات کی سیاہی چھانے لگی تو ہم نے تمام طالبات کو جمع کیا اور واپسی کے لیے بس میں سوار ہو گئے۔۔تھوڑی دیر کے بعد ہم منگلا کینٹ سے دینہ کی طرف عازم سفر ہوئے۔۔یہاں پر سب بچوں کا اصرار تھا کہ قلعہ روہتاس کی طرف چلا جائے حالانکہ رات تقریباً سیاہ چادر اوڑھ چکی تھی یوں ہم تھوڑی ہی دیر میں قلعہ روہتاس پہنچ گئے۔اگرچہ گیٹ بند کیے جا چکے تھے اور انتظامی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ یہاں جنگلی جانور ہوتے ہیں جن بھوت بھی ہوتے ہیں ۔۔مگر ہمارے پاس مراجعت کا آپشن نہ تھا لہذا اصرار کیا کہ کوئی صورت بنائی جائے تھوڑی سی گفت وشنید کے بعد معاملات طے پا گئے اور خطرات ٹل گئے۔یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے 1542 میں تعمیر کروایا تھا۔اپنےمنفرد طرزِ تعمیر کی وجہ سے اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی یہ آج بھی ایک شاہکار ہے ۔خطہ پوٹھوہار کے باسی مغلیہ سلطنت کے وفادار تھے۔۔مقامی قبائل قلعہ کی تعمیر نہیں چاہتے تھے۔۔۔تمام قبائل بالخصوص گھگھڑ قبیلہ بہت سرکش اور باغی تھا اور قلعہ کی تعمیر میں سب سے زیادہ مزاحمت بھی اسی قبیلہ نے کی مگر شیر شاہ سوری نے تمام تر مشکلات کے باوجود خطیر رقم سے  یہ تاریخی قلعہ تعمیر کر دکھایا۔۔کہتے ہیں کہ اگر اس بادشاہ کو پانچ سال کی بجائے تھوڑا زیادہ عرصہ مل جاتا تو برصغیر کے کونے کونے میں روڈز کا بہترین نیٹ ورک قائم کر لیتا۔۔اس قلعہ میں کئی تاریخی ابواب ہیں جن میں کابلی گیٹ،شیشی گیٹ،رانی محل،شاہ چاند والی گیٹ،اور حویلی مان سنگھ مشہور ہیں۔


محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام یہ تاریخی قلعہ عدم توجہی اور لاپرواہی کی وجہ سے شکست وریخت کا شکار ہے۔۔۔اس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔رات ساڑھے سات بجے ہم قلعہ روہتاس کو اس کے حال پر چھوڑ کر شیر شاہ کی جی ٹی روڈ پر پہنچ گئے۔راستے میں گجر خان ،مندرہ اور روات میں مناسب رہائش کی تلاش کی کوشش کی مگر مزہبی تنظیم کے لانگ مارچ سے نبٹنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری ان علاقوں میں تعینات ہونے کی وجہ سے ہوٹلز پہ جگہیں دستیاب نہ تھی لہذا ہم نے راولپنڈی پہنچ کر ہی دم لیا۔رات کے کھانے کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
دوسرے دن صبح سات بجے تک سب لوگ تیار ہوگئے۔تقریبا ساڑھے سات بجے ہم لوگوں نے براستہ راول چوک کشمیر ایکسپریس وے کے ذریعے شہر اقتدار کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ہماری منزل فیصل مسجد تھی۔ٹریفک کا سارا دباؤ اس شاہراہِ پر ہونے کی وجہ سے ٹریفک کا بہاؤ بہت سستی کا شکار تھا۔ بجے اللہ اللہ کرکے  نو بجے ہم لوگ فیصل مسجد اسلام آباد پہنچ گئے۔شہر اقتدار کے سکون کی خاطر باقی مخلوق کی زندگی اجیرن کر دینے کی روایت نہ جانے کب تک جاری رہے گی؟
شاہ فیصل مسجد سعودی فرمانروا شاہ فیصل کی طرف سے پاکستانی عوام کے لیے ایک تحفہ ہے ۔مسلمانوں کی بدقسمتی تھی کہ یہ عظیم مسلم رہنما جو اتحاد امت کا داعی تھا راستے سے ہٹا دیا گیا۔۔یہ مسجد اب تفریح گاہ زیادہ ہے اور مسجد کم۔۔۔۔۔یہاں پہنچ کر سب سے پہلے ناشتے کی فکردامن گیر ہوئی۔۔۔کسی نہ کسی طرح یہ معرکہ سر ہوا۔۔ناشتے سے فراغت کے بعد سب لوگ مسجد کے اندر چلے گئے۔میں کتابوں کی ایک دکان میں گھس گیا۔منتظم بضد تھے کہ میں جلد از جلد باہر نکل جاؤں چونکہ انھیں ضروری”تقاضا”لاحق تھا میں نے گرد اور جالوں سے اٹی الماریوں سے دو تین کتابیں اٹھائیں جب کتابوں کی قیمت پوچھی تو انھوں نے کہا کہ یہ لائبریری ہے اور میں ملازم ہوں تب کھلا کہ گرد کا راز کیا ہے۔۔ہمارے ہاں عمومی طور پر سرکاری لائبریریوں کی اب یہی حالت ہے۔۔
یہاں سے نکل کر تمام شرکائے سفر گاڑی پر سوار ہوئے۔ ہماری اگلی منزل پاکستان نیشنل میوزیم اور لوک ورثہ تھی۔میوزیم میں طالبات کے لئے سیکھنے کے لئے بہت کچھ موجود تھا سب نے اپنی اپنی طلب کے مطابق کسب  فیض کیا اس کے بعد شرکاء سفر نے  لوک ورثہ  کا رخ کیا جو میوزیم کے قریب ہی واقع تھا۔یہاں پر پچاس سال اور اس سے پرانی تہذیب کے نقوش تصاویر کی صورت میں موجود تھے مجھے پاکستان کے مختلف علاقوں کی پرانی تہذیب اور رہن سہن کے طور طریقے دکھائے گئے تھے ان جگہوں پر مختصر قیام کے بعد سب لوگ گاڑی میں سوار ہوئے اور اس طرح ہم لوگ مری کی طرف عازم سفر ہوئے تقریباً دو بجے مجھے ہم مری پہنچ چکے تھے یہاں سے کھانا پیک کروایا گیا اور سب شرکاء نے گاڑی میں بیٹھ کر ہی آتش شکم بجھائی اور یوں ایک دفعہ پھر ہم ایوبیہ  کی اور  چل پڑے۔دیار کے بلند و بالا درخت  بل کھاتی سڑک مری کی دلکش اور سحر انگیز خوبصورتی اپنے اندر عجیب حسن لیے ہوئے تھی۔۔خنکی کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا گرم شالیں نکل آئیں۔تھوڑی دیر کے بعد ہم لوگ ایوبیہ پہنچ گئے ۔اس وقت شام ڈھل رہی تھی گاڑی سے اترتے ہی ڈارون کے آباؤ اجداد نے ہمارا استقبال کیا۔۔۔یہاں پر بچوں نے گھڑ سواری کی،نشانہ بازی کے جوہر دکھائے۔۔۔۔ایک جھولے پر ہمیں بھی بٹھا دیا گیا۔تھوڑی دیر کے لیے دنیا کی بے ثباتی پر مکمل یقین ہو چلا اور خیالات کا سلسلہ معلق ہوتا ہوا محسوس ہوا۔مگر نسیان کے پتلے جو ٹھرے رقت اور تقویٰ کے اثرات عارضی ثابت ہوئے۔واپسی پر ایک اور پک نک پوائنٹ پر رکے۔سورج کا راج ختم ہو رہا تھا اور غروب آفتاب کا یہ منظر دیدنی تھا قدرت اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ جلوہ افروز تھی آسمان سے باتیں کرتی چوٹیاں،دیار کے درختوں کی خوب صورتی اور دلکش نظارے عجیب کیف کا باعث تھے۔یہاں پر شرکاء سفر نے سردی سے بچاؤ کے لیے چائے پینے کا ارادہ کیا۔۔سردی اپنے جوبن پہ تھی ۔چائے میں ڈبے کا ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دودھ استعمال کیا گیا تھا۔۔۔۔ایوبیہ سے مال روڈ مری پہ واپس پہنچے تو رات نے مکمل سیاہ چادر اوڑھ لی تھی۔۔یہاں پر گاڑی پارک کی گئی اور طے پایا کہ رات گیارہ بجے کھانا کھانے کے بعد واپسی کا سفر شروع ہو گا۔۔۔اس وقت تک حسب حثیت شاپنگ اور ونڈو شاپنگ کا اوپن آپشن تھا۔۔میں نے رضوان اورماجد کے ساتھ تھوڑی دیر مٹر گشت کی ۔۔۔۔مگر سردی نے زیادہ گھومنے کی اجازت نہ دی۔۔تو ایک ہوٹل کا رخ کیا تاکہ کھانے کا اہتمام کیا جا سکے۔۔مینیجر ایک سلجھا ہوا مہذب انسان تھا۔اس کے ساتھ معاملات طے کرنے میں زیادہ دشواری نہ ہوئی ۔۔ہوٹل نہایت صاف ستھرا اور فرنیچر بہت مناسب تھا۔۔۔۔سردی کی شدت نے شرکاء کو زیادہ دیر گھومنے کی اجازت نہ دی تھوڑی دیر کے بعد سب لوگ ہوٹل میں پہنچ گئے ۔۔۔۔کچھ دیر میں کھانا تیار ہو گیا سب نے پرسکون ماحول میں کھانا تناول کیا۔سب نے کھانے کی  دل کھول کر تعریف کی  اور کہا کہ اس کھانے نے آدم کی پچھلی کوتاہیوں کا ازالہ کر دیا ہے ۔۔۔
رات پونے بارہ بجے سب لوگ گاڑی میں سوار ہو گئے ایک دفعہ پھر سفر کی دعا سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔بیریوٹ،علیوٹ سے اترتے ہوئے دھیرکوٹ کے زیریں علاقے نہایت روشن لگ رہے تھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے  زمین پر تارے اگ آئے ہوں۔پونے تین بجے ہم غازی آباد پہنچے یہاں پر گاڑی روک لی گئی اور روشنی کا انتظار کیا جانے لگا۔۔تقرییا پانچ بجے ہم دوبارہ گاڑی پر سوار ہوئے اور ساڑھے چھ بجے جب سورج راولاکوٹ پر طلوع ہو رہا تھا ہم شہر میں داخل ہوئے۔تمام طالبات کو اپنے اپنے گھروں کو بھیج کر یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact