محمد ضیافت خاں ۔ 

شاید آٹھویں جماعت میں تھے اور یہ غالباً 1994 کا واقعہ ہے جب بڑے بھائی صاحب نے اپنے دوستوں سے تولی پیر کی سیر کا پروگرام ترتیب دے دیا۔ خبر،، لیک،، ہونے پر ہم منتیں ترلے کرنے لگے۔ لیکن بھائ صاحب ،، ناخن ہر بال نہ جمنے،، دیں۔ پھر ہم نے سفارش دھونس دھاندلی کے حربے آزمائے۔  بھائ صاحب نے،، حق کی آواز ،، کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوشش کی۔ لیکن ہم نے،، کھُریاں،، رگڑ کر ان کو شیشے میں اتار ہی دیا۔ یہ کوی مئی کے وسط کا دن تھا۔ اذان فجر کے ساتھ دوستوں کی،، گُرگُر،، سٹارٹ ہوئ۔ کھانا پینا پیک ہوا اور کم از کم پندرہ مجاہدین عازم تولی پیر ہوئے۔  شاید،،دواری،، کے صحت افزا مقام پر نماز فجر ادا ہوئی۔ حکم یہ تھا کہ بلا ضرورت کھانا بھی نہیں اور پینا بھی نہیں کیونکہ راستہ طویل اور ذرائع مشکل ہیں۔  دوسرا پڑوا ۔۔ چھوءا ،، کے جنگل کے اوپر چراہ گاہ کے وسط میں تھا۔  سر سبز چراگاہ میں گھوڑے، گائیں، بھینسیں روزی روٹی کے چکر میں تھیں۔ ،، امیر کارواں،، ۔نے ہمیں بھی نوشتے کی اجازت دی۔ خوب کھایا چشمے کا ٹھنڈا ٹھار پانی پیا اور پھر چل سو چل۔

براستہ علی سوجل ،، مالو مال،، ( ایک چراہ گاہ سے دوسری)  ہمارا تیسرا اور کم و بیش تین گھنٹے کا مسلسل سفر جا کر ،، ستے ناڑے،، ( سات چشمے)  اختتام پذیر ہوا۔ یہ تولی پیر کا مشرقی زیریں حصہ ہے۔ یہ تولی پیر کے مقابلے اتنا نیچے ہے کہ تولی پیر کی طرف دیکھتے ہوئے جیسے ٹوپی سر سے گر جائے گی۔  یہاں ہمیں ۔۔ امیر۔۔ کی اجازتِ کے بعد کھانے کی اجازتِ ملی۔ حالانکہ کھانا ہر بندے کا اپنا تھا۔ اور ،،امیر،، کی،، پھنے خانی،، باہمی مشاورت سے اپنے سر مسلط کی گئی تھی۔ 

،، ستے ناڑے،، پر کھانا کھاتے ہوئے چند خواتین پانی بھرنے آئیں اور چشمے پر اجنبیوں کا قبضہ دیکھ کر چند بڑی مونچھوں والے ،، پہاڑیوں،، کو بلا لائیں  ،، امیر،، نے مشکل سے جان چھڑائ۔ کچھ تعارف کے بعد پتہ چلا یہ نمبردار جمشید خان کا ایریا ہے۔  وہ ہمارے پرانوں کو اچھی طرح جانتے تھے سو انھوں نے کھانے پینے اور بھینس کے دودھ کی پیش کش کی۔  جو کہ،، امیر،، حضرت نے شکریہ کے ساتھ ٹھکرا دی۔ 

اگلا اور آخری مرحلہ تولی پیر کی طرف ،،سُکھڑ،، چڑھائی کا تھا جس کو سر کرتے ہوئے ہون گھنٹہ لگا۔ 

اب آنکھوں کو خیرہ کر دینے والا سر سبز و طویل ،، تلا،، (میدان) تھا۔ مویشیوں سے اٹا اٹ بھرا ہوا۔ اور عین وسط میں بہتا چشمہ۔ پہلے تولی پیر زیارت پر دعا خیر ہوئ۔ کئ لوگ مخانے تقسیمِ کر رہے تھے۔  تولی پیر کے حسن نے ہمیں اتنا جذباتی کر دیا کہ اطاعتِ امیر کی بیڑیاں اتار کر جدھر کو منہ ہوا بھاگ دوڑ شروع کردی۔  

امیر صاحب اوئے اوئے ہی کرتے رہ گئے۔ ہم میں سے ہلکے پھلکے کو ہوا میں اچھالنا بھی نصیب ہوا۔ 

پھر یوں ہوا کہ ہمارے ایک سینیئر نے چیلنج دے دیا کہ ہاتھ کے دو انگوٹھوں سے دھاگا کون توڑے گا۔ یہ چیلینج امام العصر جناب جمیل صاحب نے قبول کیا۔ اس سازش کے نتیجے میں جب ان کے ہاتھ باندھ کر تنگ کا ایک سوٹا ان کی کلائیوں اور تانگوں سے گزار کر اُن کو تولی پیر کی ڈھلوان سطح پر کشش ثقل کے حوالے کیا گیا تو وہ بے قابو فٹ بال کی طرح قلابازیاں کھانے لگے۔  باندھنے والے حضراتِ کا شجرہ نسب شاید زبانی یاد تھا۔ ،، چوداں پیڑیاں دادکے آور نانکے،، کو خوب ثواب دارین پہنچایا۔ آخر ان سے بعد از رہائی کوئ نقصان نہ پہنچانے پر،، ڈنڈا،، نکالا گیا۔ 

کھانا کھایا، کبڈی کھیلی، بینی پکڑی،، 

اتنے میں یکا یک اس سر سبز و شاداب میدان کو دھند اور بادلوں نے لپیٹ لیا۔ ساتھ ہی ،، بڑی مونچھوں،، والی ایک اور ٹیم نازل ہوئی۔ جن کے،، ڈوبے،، (شلور کی جیب) میں پستول کے آثار بھی دکھائی دئیے۔  الزام وہی پرانا تھا ,,  توس کُڑیں چھڑنے آ,, بڑی مشکل سے، امیر حضرت،، نے کامیاب مزاکرات کئے۔ 

سردی یک لخت اتنی تیز ہو گئ کہ اپنے لباس اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر نظر ائے۔ امیر کی اجازتِ سے جنگل سے سوکھی لکڑیاں اکٹھی کر کے ، مچ،، (آگ) پخائ گئی۔ لیکن پھر بادل کا مزاج بدلا اور بارش کا خطرہ منڈلانے لگا۔ واپسی کے سفر کا سوچ کر اور بھی،،ہوا،، نکلے جا رہی تھی۔  لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ بارش اور چاندی کی آنکھ مچولی میں وہ چراہ گاہیں عبور کی گئیں جو دن کی روشنی میں گزا آئے تھے۔ 

چھوا کے جنگل کے قریب اگر ایک پرائمری سکول نہ ہوتا اور اس میں رکھے ٹاٹ نہ ہوتے تو ہم نے ٹھنڈ سے مر جانا تھا۔ ٹاٹوں سے نکلتی دھول مٹی کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں تھی۔ 

جب ہم جاگے تو ہم میں سے ہر ایک،، بوجا، ،،  یعنی بندر بنا ہوا تھا۔  صبح تڑکے اپنے گھروں میں چور دروازے سے داخل ہوئے اور گیارے بجے تک سوتے رہے۔ ذرائع رسل و رسائل نہ ہونے کی وجہ سے ،، ہمیں مجاہد فی سبیل اللہ ڈکلیئر،، کر کے دعا خیر ہو چکی تھی۔ زندہ دیکھ کر سب کو حیرت ہوئی۔  کیونکہ ان دنوں،،گیدڑ بلوں،، اور اکا دکا چیتے کی چیر پھاڑ کے واقعات عام ہوتے تھے۔  

اب جبکہ اس سفر کو تیس سال ہونے کو ہیں۔ سوچا گوگل سے ذرا اس فاصلے کو پیدل نپواتے ہیں۔ گوگل کے نتائج تصاویر سے ظاہر ہیں۔ جبکہ ہم نے یہ فاصلہ سات گھنٹے میں طے کیا تھا۔ (یکطرفہ). 

اب یہ معرکہ اسی راستے پھر طے کرنے کا ارادہ ہے۔ یعنی سال 2022۔ انشا اللہ۔ 

امیر کا قلمدان اپنے ہاتھ رکھنے کا ارادہ ہے۔ سفر کتھیاڑہ سے ہی شروع اور کتھیاڑہ پر ہی ختم ہو گا۔ 

فنانسنگ کے دروازے کھلے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact