Saturday, April 20
Shadow

خیالا ت کی پر چھائیاں تحریر: مریم جاوید چغتائی

مریم جاوید چغتائی
مرد ظالم ہوتا ہے مرد حاکم ہوتا ہے، مرد خود کو عورت کا خُدا سمجھتا ہے۔ ایسے کتنے ہی جملے۔۔۔ ہم کتنی آسانی سے کہہ دیتے ہیں مگر کبھی سوچا کہ مرد کس قدر مشقت کرتا ہے۔ اپنی عورت کا سائبان بننے کے لئے؟ اُسے معاشرے کی سردوگرم سے بچا کر رکھتا ہے اپنا آپ مارتا ہے کماتا ہے اور اس پیسے سے اپنے گھر کی عورت کے لئے دنیا کی ہر سہولت خریدتا ہے قدر کریں اسکی جس کی وجہ سے آپ ایک محفوظ چھت تلے بیٹھ کر ایک آسائش بھری زندگی گزار رہی ہیں۔ مرد پتھر تھوڑی ہوتا ہے مرد کیا ہے؟؟ مرد بھی تو انسان ہے مرد کے سینے میں بھی تو دل ہوتا ہے۔ مرد ہمارے گھروں میں باپ، بھائی، بیٹا، شوہر، کہیں روپ میں ہمارے محافظ ہوتے ہیں باپ ہے تو سایہ شفقت گھر کا سربراہ، بھائی ہے تو لاڈ اٹھانے والے بہنوں کا مان عزت کی حفاظت کرنے والا، بیٹا ہے تو احترام کرنے والا پیار دینے والا، شوہر ہے تو قدردان ایک سچا ساتھی دکھ سُکھ بانٹنے والا، مرد چاہے جس روپ میں بھی ہو عورت کا محافظ ہوتا ہے
عورت کو اگر کوئی دکھ کوئی غم ہو تو وہ دو چار آنسو بہا کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی ہے مگر مرد کسی کے سامنے رو بھی نہیں سکتا کیونکہ بچپن سے ہی مرد کو سیکھایا جاتا ہے کہ وہ مرد ہے مرد کبھی روتا نہیں مرد کو چاہے کتنی تکلیف کیوں نا ہو مرد کبھی اپنا درد سامنے نہیں لائے گا آخر کیوں؟؟ مرد میں بھی وہی احساسات وہی جذبات ہوتے ہیں جو ایک عورت میں ہوتے ہیں پھر عورت اپنا دُکھ بانٹ بھی دیتی رو کہ دل کا بوجھ بھی ہلکا کر لیتی اور مرد اگر دو آنسو بہا بھی دے تو کہا جاتا کہ مرد بنو مرد روتا نہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی بُرائی ہے ایک ایسی خامی جو شاید کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ مرد کی صرف پیدائش پر خوشی ہوتی ہے اس کے بعد جب سے بالغ ہوتا ہے تو پہلے ماں کے لئے جان مارتا ہے پھر چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے درد برداشت کرتا ہے پھر بیوی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے زمانے کے ستم برداشت کرتا ہے اور پھر بچوں کے لئے اپنی ہڈیاں گال دیتا ہے عورت کو پرایا کہا جاتا ہے ایک بیٹی جب جنم لیتی ہے تو اُسے پرایا ہی کہا جاتا ہے مگر حقیقتاً دیکھا جائے تو بیٹی تو ایک گھر سے دوسرے گھر جاتی ہے اور اگر کوئی پرایا ہوتا تو وہ بیٹا ہوتا ہے جب پیدا ہوتا ہے تو اُسے اُس کی ذمہ داریاں بتائی جاتی ہیں کہ گھر کے فلاں انسان کی ذمہ داری بھی تم پر ہے فلاں کی ذمہ داری بھی تم نے نبھانی ہے اور ایسے جوانی میں قدم رکھتے ہی وہ گھر سے روزی روٹی کے لئے نکل پڑتا ہے تپتی دھوپ شدید گرمی ہو بارش ہو یا سردی ہو بنا اپنی جان کی پروا کیے وہ اپنے گھر والوں کے لئے محنت مزدوری کرتا ہے اپنے گھر والوں سے کہیں دور اپنے والدین کی اپنے بہن بھائیوں کی جدائی میں کیوں کہ اُسے اُس کی ذمہ داریاں یاد کرائی جاتیں ہیں اور وہ اپنوں سے دور اپنوں ہی کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لئے اُن کی جدائی برداشت کرتا ہے اور کہیں شہزادے جو گھر کے بہت ہی لاڈلے ہوتے ہیں انہیں بھی پردیس جانا پڑتا ہے اپنوں سے دور اپنوں کی خاطر،،، کیونکہ وہ مرد ہی ہوتا ہے کہ جیسے خود تکالیف سہہ کر بھی اپنوں کے سکون کے لئے دن رات محنت کرنی پڑتی ہے کہ اُس کے اپنوں کو کسی چیز کی کمی نہ ہو اُس کے اپنے کسی تکلیف میں نہ ہوں اُس کے اپنوں کو دنیا کی ہر آسائش میسر ہو۔ مرد بچپن سے ہی اپنے ذہن میں رکھتا ہے کہ مجھے بڑا ہو کر یہ بننا، پھر گھر بنانا، فلاں فلاں خواب دیکھتا ہے کہیں ذمہ داریاں اُس کے کندھوں پہ ہوتیں ہیں اور اپنے سارے غم اپنے سارے دُکھ چھپائے وہ دن دُگنی رات چوکنی محنت کرتا ہے۔اور بنا شکایت کے اپنوں کی خوشیوں کو دوبالا کرتا ہے مگر ہم نہیں سمجھتے ہم مرد کو پتھر سمجھتے، مرد پیسہ کمانے والی مشین ہے، کہیں گھروں میں میں نے دیکھا ہے کہ جب مرد وقت پہ پیسے نہ بھیجے گھر پر تو گھر والوں کے ناک آسمان پر ہوتے ہیں کیوں وقت پہ پیسے نہیں آئے؟ کیوں ہماری خواہشات ادھوری رہ گئی مگر ہمیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ شاید وہ کسی مشکل میں ہو شاید اُسے کوئی پریشانی لاحق ہو اُس کی طبعیت ناساز ہو مگر گھر والوں کو غرض کہاں۔ کیوں مرد اپنا دُکھ نہیں بانٹتا کیوں مرد سب کے سامنے رو نہیں سکتا کیوں کیا وہ انسان نہیں ہوتا عورت کی زندگی بے شک بہت آسان بہت سکون بھری ہوتی ہے مگر وہ صرف مرد کی بدولت۔ اگر عورت بنا خوف کے گھر سے نکلتی ہے تو صرف ایک مرد کی بدولت کیونکہ اُسے پتہ ہوتا ہے کہ اُس کے محافظ ہیں اُس کا خیال رکھنے والے سائبان ہیں اُن پہ سایہ کرنے والے۔ عورت اگر عزت دار پُر سکون زندگی بسر کر رہی ہے تو صرف ایک عزت دار اور باہمت مرد کی وجہ سے۔ مگر ایک تلخ حقیقت خوش اِس سے پھر بھی کوئی نہ ہوا، ماں کہتی ہے “بیوی دے تھلے لگا اے” بہن بھائی کہتے ہیں اِس نے ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے؟ بیوی کہتی ہے کہ میری تو قسمت ہی خراب تھی جو تجھ سے شادی ہو گئی اور بچے کہتے ہیں اباجی آپ کوئی ڈھنگ کا کام کر لیتے تو آج ہم مزے میں ہوتے۔یہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت ذرا کڑوی ہوتی ہے مگر باخدا میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے دھوپ میں چھاؤں کرنے والے، بارش سردی سے بچانے والے، مشکلات سے انگلی پکڑ کر باہر لینے والے، جب سب ساتھ چھوڑ دیں تب ساتھ کھڑے ہونے والے، وہ محافظ جو میرے گھر میں باپ، بھائی کے روپ میں ہیں قدر کریں اِن رشتوں کی اللہ پاک ہر ایک کے سروں پہ ان ہستیوں کا سایہ سلامت رکھے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact