Friday, April 19
Shadow

ٹیٹوال کا کتّا- سعادت حسن منٹو

افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کے آبا علامہ اقبال کی طرح کشمیری الاصل تھے اور کاروبار کے سلسلہ میں کشمیرسے ترک وطن کرکے لاہورمیں آبسے اور پھر وہاں سے امرتسرچلے گئے۔ منٹوکی شادی بھی ایک کشمیری النسل لڑکی صفیہ سے ہوئی۔منٹو کو تقسیم کی وجہ سے بمبئی چھوڑکرلاہورآناپڑا۔ منٹونے کشمیرکو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔اس کے اس سلسلہ میں دوافسانے مشہور ہیں جو وادی نیلم کے گاﺅں ٹیٹوال کے گردگھومتے ہیں جو ہندوستانی کشمیرکاایک سرحدی گاﺅں ہے۔ان میں ’ٹیٹوال کا کتا‘ اور’آخری سیلیوٹ‘ شامل ہیں۔ یہ دونوں افسانے 1951 کے اواخرمیں لکھے گئے- ٹیٹو ال کا کتا سعادت حسین منٹو کا شاہکار افسانہ ہے جو کشمیر کی وادی نیلم کے ایک گاؤں کے پس منظر میں لکھا گیا – وادی نیلم اس علاقے کو ٹیٹوال سیکٹر بھی کہا جاتا ہے – ٹیٹوال اب بھارتی مقبوضہ کشمیر کا حصہ ہے اور وادی نیلم کے چلہانہ گاؤں سے  دیکھا جا سکتا ہے ۔

گاؤں ٹیٹوال/ فوٹو کریڈٹ : اے پی/کین سٹاک 

کئی دن سے طرفین اپنے اپنے مورچے پرجمے ہوئے تھے دن میں ادھر اور ادھر سے دس بار فائر ہو جاتے جن کی آواز کے ساتھ کوئی انسانی چیخ بلند نہیں ہوتی تھی ۔ موسم بہت خوشگوار تھا ۔ ہوا خودروپھولوں کی مہک میں بسی ہوئی تھی ۔ پہاڑیوں کی اونچائیوں اور ڈھلوان پر جنگ سے بہت بے خبر قدرت اپنے مقررہ اشغال میں مصروف تھی ۔ پرندے اسی طرح چہچہاتے تھے ‘ پھول اسی طرح کھل رہے تھے اور شہد کی سست رو مکھیاں اسی پرانے ڈھنگ سے ان پر اونگھ کر رس چوستی تھیں ۔

جب پہاڑیوں میں کسی فائر کی آواز گونجتی توچہچہاتے ہوئے پرندے چونک کراڑنے لگتے ‘ جیسے کسی کا ہاتھ ساز کے غلط تارسے جا ٹکر ایا ہے اور ان کی سماعت کو صدمہ پہنچانے کا موجب ہوا ہے ۔

ستمبر کا انجام اکبوتر کے آغاز سے بڑے گلابی انداز سے بغل گیر ہو رہا ہے ایسا لگتا تھا کہ موسم گرما اور سرمامیں صفائی ہو رہی ہے ۔ نیلے نیلے آسمان پر دھنکی ہوئی روئی ایسے پتلے پتلے اور ہلکے ہلکے بادل یوں تیرتے تھے ۔ جیسے اپنے سفید بجروں میں تفریح کر رہے ہیں ۔

پہاڑی مورچوں میں دونوں طرف کے سپاہی کئی دن سے بڑی کوفت محسوس کر رہے تھے ‘ کہ کوئی فیصلہ کن بات کیوں وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ اکتا کران کا جی چاہتا تھا کہ موقع بے موقع ایک دوسرے کو شعر سنائیں ۔ کوئی نہ سنے توایسے ہی گنگناتے رہیں ۔

پتھریلی زمین پر اوندھے یا سیدھے لیٹے رہتے تھے ۔ اور جب حکم ملتا ایک فائر کر دیتے تھے ۔ دونوں سیدھے لیٹے رہتے تھے ۔ اور جب حکم ملتا ایک فائر کر دیتے تھے ۔ دونوں کے مورچے بڑی محفوظ جگہ تھے ۔

گولیاں پوری رفتار سے آتی تھیں اور پتھروں کی ڈھال سے ٹکرا کروہیں چت ہو جاتی تھیں ۔ دونوں پہاڑیاں جن پر مورچے تھے قریب قریب ایک قدکی تھیں ۔ درمیان میں چھوٹی سی سبز پوش وادی تھی ۔ جس کے سینے پر ایک نالہ موٹے سانپ کی طرح لوٹتا رہتا تھا ۔ 

ہوائی جہازوں کا کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ تو پین ان کے پاس نہ ان کے پاس ‘ اس لئے دونوں طرف بے خوف و خطر آگ جلائی جاتی تھی ۔ ان سے دھوئیں اٹھتے اور ہواؤں میں گھل مل جاتے ۔ رات کو چونکہ بالکل خاموشی ہوتی تھی ۔ اس لئے کبھی کبھی دونوں مورچوں کے سپاہیوں کو ایک دوسرے کے کسی بات پر لگائے ہوئے قہقہے سنائی دے جاتے تھے۔ کبھی کوئی لہرآکلے گانے لگتا تو اس کی آواز رات کے سناٹے کو جگادیتی ۔ ایک کے پیچھے ایک باز گشت صدائیں گونجتیں تو ایسا لگتا کہ پہاڑیاں آموختہ دہرا رہی ہیں۔

چائے کا دور ختم ہو چکا تھا پتھروں کے چولہے میں چیڑہ کیہلکے پھلکے کوئلے قریب قریب سرد ہو چکے تھے ۔ آسمان صاف تھا موسم میں خنکی تھی ۔ ہوامیں پھولوں کی مہک نہیں تھی جیسے رات کو انہوں نے اپنے عطردان بند کر لئے تھے ۔ البتہ چیڑھ کے پسینے یعنی بیروزے کی بوتھی مگر یہ بھی کچھ ایسی ناگوار نہیں تھی ۔

سب کمبل اوڑھے سو رہے تھے مگر کچھ اس طرح کہ ہلکے سے اشارے پر اٹھ کر لڑنے مرنے کیلئے تیار ہو سکتے تھے جمعدار ہر نام سنگھ خود پہرے پر تھا ۔ اس کی اسکوپ گھڑی میں دو بجے تو اس نے گنڈاسنگھ کو جگایا اور پہرے پر متعین کر دیا ۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ سو جائے پر جب لیٹا تو آنکھوں سے نیند کو اتنا دور پایا جتنا کہ آسمان کے ستارے تھے ۔ جمعدار ہر نام سنگھ چت لیٹا ان کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔۔ اور گنگنانے لگا جتی لینی آن ستاریاں والی ۔۔۔۔۔۔ ستاریاں والی۔۔۔۔۔۔ دے ہر نام سنگھا ہویارا’ بھاویں تیری ہٹی وک جاوے

اور ہر نام سنگھ کو آسمان پر ہر طرف ستاروں والی جوتیاں بکھری نظرآئیں ۔ ستارے جو جھلمل کر رہے تھے۔

جتی لے دواں ستاریاں والی ۔۔۔۔۔۔ ستاریاں والی ۔۔۔۔۔۔ نی ہر نام کو رے

یہ گا کر وہ مسکرایا پھر یہ سوچ کر کہ نیند آئے گی اس نے اٹھ کر سب کو جگا دیا ۔ ناز کے ذکر نے اس کے دماغ میں ہلچل پیدا کر دی تھی ۔ وہ چاہتا تھا کہ اوٹ پٹانگ گفتگو ہو جس سے اس بول کی ہر نام کوری کیفیت پیدا ہو جائے ۔ چنانچہ باتیں شروع ہوئیں مگراکھڑی اکھڑی رہیں ۔ بنتا سنگھ جوان جو سب سے کم عمر تھا اور خوش آواز تھا ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گیا ۔ باقی اپنی بظاہر پر لطف باتیں کرتے اور جمائیاں لیتے رہے ۔ تھوڑی دیر کے بعد بنتا سنگھ نے ایک دم اپنی پر سوز آواز میں ہیر گانا شروع کر دی ۔

ہیر آکھیا جو گیا جوٹھ بولیں کون روٹھڑے یار مناؤندائی 

ایسا کوئی نہ ملیاں میں ڈھونڈتھکی جہیڑا گیاں نو موڑ لیاؤ ندائی

ایک باز توں کانگ نے کونچ کھوئی دیکھاں چپ اے کہ کرلاؤندانی

دکھاں والیاں نو گلاں سکھ دیا ں ‘ نی قصے جوڑ جہان سناؤ ندائی

پر تھوڑے وقفے کے بعد اس نے ہیر کی ان باتوں کا جواب رانجھے کی زبان میں گایا۔

جیہڑے بازتوں کانگ نے کونج کھوئی صبر شکر کرباز فنا ہویا

اینویں حال ہے اس فقیر دانی دھن مال گیاتے تباہ ہویا

کریں صدقے تے کم معلوم ہووے تیرا رب رسول گواہ ہویا

دنیا چھڈ اداسیاں پہن لیاں سید وارثوں ہن وارث شاہ ہویا

بنتا سنگھ نے جس طرح ایک دم ہیر گانا شروع کیا تھا اسی طرح وہ ایک دم خاموش ہو گیا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خاکستری پہاڑیوں نے بھی اداسیاں پہن لی ہیں ۔ جمعدار ہر نام سنگھ نے تھوڑی دیرکے بعد کسی غیر مرئی چیز کو موٹی سی گالی دی اور لیٹ گیا ۔

دفعتاًرات کے آخری پہر کیا سی اداس فضاء میں کتے کے بھونکنے کی آواز گونجی ۔ سب چونک پڑے ۔ آواز قریب سے آئی تھی ۔ ہر نام سنگھ نے بیٹھ کر کہا ۔ یہ کہاں سے آگیا بھونکو۔۔۔۔۔۔؟

کتاپھر بھونکا ۔ اب اس کی آواز اور بھی نزدیک آئی تھی چند لمحات کے بعدجھاڑیوں میں آہٹ ہوئی ۔ بنتا سنگھ اٹھا اور ان کی طرف بڑھا ۔ جب وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک آوارہ سا کتا تھا جس کی دم ہل رہی تھی ۔ وہ مسکرایا ‘ جمعدار صاحب میں ہوں کمزادھر بولا تو کہنے لگا ۔ میں چیڑ چھن چھن سب ہنسنے لگے جمعدارہر نام سنگھ نے کتے کو پچکارا ”ادھر آچیڑ جھن جھن”کتادم ہلاتا ہوا ہرنام سنگھ کے پاس چلا گیا اور سمجھ کر شائد کوئی کھانے کی چیز پھینکی گئی ہے ‘ زمین کے پتھر سونگھنے لگا’ جمعدار ہرنام سنگھ نے لپک کر اسے اٹھا لیا ۔ ”ٹھہر کہیں پاکستانی تو نہیں”۔۔۔۔۔۔ سب ہنسنے لگے ۔

سردار بنتا سنھ نے آگے بڑھ کر کتے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور جمعدار ہرنام سنگھ سے کہا ”نہیں جمعدار صاحب چیڑجھن جھن ہندوستانی ہے”۔ جمعدار ہرنام سنگھ ہنسا اور کتے سے مخاطب ہو ا”نشانی دکھااوئے”۔ کتا دم ہلانے لگا ۔ ہرنام سنگھ ذراکھل کے ہنسا” یہ کوئی نشانی نہیں دم تو سارے ہلاتے ہیں”۔ بنتا سنگھ نے کتے کی لرزاں دم پکڑلی ”شرنار تھی ہے بے چارہ” جمعدار ہرنام سنگھ نے بسکٹ پھینکا جو کتے نے فوراً دبوچ لیا ۔ ایک جوان نے ایک بوٹ کی ایڑی سے زمین کھودتے ہوئے کہا ۔”اب کتوں کو بھی یاہندوستانی ہونا پڑے گا یا پاکستانی۔”

جمعدار نے اپنے تھیلے سے ایک بسکٹ نکالا اور پھینکا پھر کہا۔۔۔۔۔۔ ”پاکستانیوں کی طرح پاکستانی کتے بھی گولی سے اڑادئیے جائیں گے۔”

ایک نے زور سے نعرہ بلند کیا ۔۔۔۔۔۔ ہندوستان زندہ باد۔ کتاجو بسکٹ اٹھانے کیلئے آگے بڑھا تھا ڈر کے پیچھے ہٹ گیا ۔ اس کی دم ٹانگوں کے اندر گھس گئی۔ جمعدار ہرنام سنھ ہنسا ‘ اپنے نعرے سے کیوں ڈرتا ہے چپڑ جھن جھن ۔۔۔۔۔۔کھا۔۔۔۔۔۔ لے ایک اور لے”

اس نے تھیلے سے ایک اور بسکٹ نکال کر اسے دیا ۔ باتوں باتوں میں صبح ہوگئی ۔ سورج ابھی نکلنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ چار سواجالا ہو گیا ۔ جس طرح بٹن دبانے سے ایک دم بجلی کی روشنی ہوتی ہے ۔ اسی طرح سورج کی شعاعیں دیکھتے ہی دیکھتے اس پہاڑی علاقے میں پھیل گئیں ۔ جس کا نام ٹیٹوال تھا ۔

اس علاقے میں کافی دیر سے لڑائی جا ری تھی ۔ ایک ایک پہاڑی کے لئے جوانوں کی جان جاتی ہے ۔ پھر بھی قبضہ غیر یقینی ہوتا ۔ آج یہ پہاڑی ان کے پاس ہے کل دشمن کے پاس ہے ۔ پرسوں پھر ان کے قبضے میں ۔ اس سے دوسرے روز وہ پھر دوسروں کے پاس چلی جاتی ہے۔

صوبیدار ہرنام سنگھ نے دور بین لگا کر آس پاس کا جائزہ لیا ۔ سامنے پہاڑی سے دھواں اٹھ رہا تھا ۔ اس کا مطلب تھا کہ چائے وغیرہ تیار ہو رہی ہے ۔ ادھر بھی ناشتے کی فکر ہو رہی تھی ۔ آگ سلگائی جا رہی تھی ۔ ادھر والوں کو بھی یقینا ادھر سے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا ۔

ناشتے پر سب جوانوں نے تھوڑا تھوڑا کتے کو دیا ۔ جو اس نے خوب پیٹ بھر کر کھایا ۔ سب اس سے دلچسپی لے رہے تھے ۔ جیسے وہ اس کو اپنا دوست بنانا چاہتے ہیں ۔ اس کے آنے سے کافی چہل پہل ہو گئی تھی ۔ ہر ایک اس کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد پچکار کر چیڑ جھن جھن کے نام سے پکارتا اور اسے پیار کرتا۔

شام کے قریب دوسری طرف پاکستانی مورچے میں صوبیدارہمت خان اپنی بڑی مونچھوں کو جن سے بے شمار کہانیاں وابستہ تھیں مروڑے دے کر ٹیٹوال کے نقشے کا بغور مطالعہ کر رہ اتھا ۔ اس کے ساتھ ہی وائر لیس اوپر یٹر بیٹھا تھا اور صوبیدار ہمت خان کیلئے پلاٹون کمانڈر سے ہدایات وصول کر رہا تھا ۔ کچھ دور ایک پتھر سے ٹیک لگائے اور اپنی بندوق لئے بشیر ہولے ہولے گنگنارتھا ۔

چن کتھے گزار آئی رات وے۔۔۔۔۔۔

چن کتھے گزارآئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشیرے نے مزے میں آکر اونچی آواز کی تو صوبیدار ہمت خان کی کڑک بلند ہوئی ۔ اوئے کہاں رہا ہے تو رات بھر۔۔۔۔۔۔؟

بشیر نے سوالیہ نظروں سے ہمت خان کو دیکھنا شروع کیا جو بشیر کے بجائے کسی اور سے مخاطب تھا ۔”بتااوئے۔۔۔۔۔۔” بشیر نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر وہ آوارہ کتا بیٹھا تھا جو کچھ دن ہوئے ان کے مورچے میں بن بلائے مہمان کی طرح آیا ور وہیں ٹک گیا تھا ۔ بشیر مسکرایا اور کتے سے مخاطب ہو کربولا۔

چن کتھے گزار آئی رات وے۔۔۔۔۔۔

چن کتھے گزار آئی رات وے۔۔۔۔۔۔

کتنے زور سے دم ہلانا شروع کی تو اس سے پتھریلی زمین پر جھاڑوسی پھیرنے لگا ۔ صوبیدار ہمت خان نے ایک کنکر اٹھاکر کتے کی طرف پھینکااور بولا” سالے کو دم ہلانے کے سوا اور کچھ آتا ہی نہیں” بشیر نے ایک دم کتے کی طرف غور سے دیکھا ۔ اس کی گردن میں کیا ہے ۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا مگر اس سے پہلے ایک اور جوان نے اٹھ کر کتے کو پکڑ کر اس کی گردن میں بندھی ہوئی رسی اتاری ۔ اس میں گنے کی ایک ٹکڑادیا ہوا تھا ۔ جس پر کچھ لکھا ہوا تھا ۔ صوبیدار ہمت خان نے یہ ٹکڑا لیا اور اپنے ان جوانوں سے پوچھا۔ ”لنڈے ہیں۔ جانتاہے تم میں سے کوئی پڑھنا۔” بشیر نے آگے بڑھ کر گتے کا ٹکڑا لیا ہاں کچھ کچھ پڑھ لیتا ہوں ۔ اور اس نے بری مشکل سے حرف جوڑ جوڑ کر پڑھا چپ چیڑ جھن جھن۔۔۔۔۔۔ یہا کیا ہوا؟ صوبیدار ہمت خان نے اپنی بڑی بڑی تاریخی مونچھوں کو زبردست مروڑادیا۔” کوڈ ورڈ ہوگا کوئی” پھر اس نے بشیر سے پوچھا” کچھ اور لکھا ہے بشیرے ” بشیر نے جو حروف شناسی میں مشغول تھا جواب دیا ۔۔۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہند۔۔۔۔۔۔ہند۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ہندوستانی۔۔۔۔۔۔ یہ ہندوستانی کتا ہے۔

صوبیدار ہمت خان نے سوچنا شروع کیا ۔ مطلب کیا ہوا اس کا؟ ۔۔۔۔۔۔کیا پڑھا تھا تم نے ۔۔۔۔۔۔ چپڑ؟ بشیر نے جو اب دیا ‘چپڑجھن جھن اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جوان نے بڑے عاقلانہ انداز میں کہا جوبات ہے اسی میں ہے ۔ صوبیدار ہمت خان کو یہ بات معقول معلوم ہوئی ۔ ہاں کچھ ایسا ہی لگتا ہے ۔ صوبیدار ہمت خان نے وائر لیس سیٹ لیا اور کانوں پر ہیڈ فون جما کر پلاٹون کمانڈر سے خود اس کتے کے بارے میں بات چیت کی ۔ وہ کیسے آیا تھا ؟ کس طرح ان کے پاس کئی دن پڑا رہا ۔ پھر ایکا ایکی غائب ہو گیا اور رات بھر غائب رہا ۔ اب آیا ہے تو اس کے گلے میں رسی نظر آئی جس میں گتے کا ایک ٹکڑا تھا ۔ اس پر جو عبارت لکھی تھی وہ اس نے تین چار مرتبہ دہرا کر پلاٹون کمانڈر کو سنائی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔

بشیر الگ کتے کے پاس بیٹھ کر اسے کبھی پچکار کر کبھی ڈرادھمکا کر پوچھتا رہا کہ وہ رات بھر کہاں غائب رہا اور اس کے گلے میں وہ رسی اور گتے کا ٹکڑا کس نے باندھا تھا۔ مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا ۔ وہ جو سوال کرتا اس کے جواب میں کتا اپنی دم ہلادیتا۔ آخر غصے میںآکر بشیر نے اسے پکڑ لیا اور زور سے جھٹکا دیا ۔ کتا تکلیف کے باعث چاؤں چاؤں کرنے لگا ۔

وائر لیس سے فارغ ہو کر صوبیدار ہمت خان نے کچھ دیر نقشے کا بغور مطالعہ کیا ‘ پھر فیصلہ کن انداز میں اٹھا اور سگریٹ کی ڈبیا کھول کر ڈھکنابشیر کو دیا ۔ ”بشیرے لکھ اس پر گورمکھی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کیڑے مکوڑوں میں۔۔۔۔۔۔” بشیر نے سگریٹ کی ڈبیا کا گتہ لیا ‘ صوبیدار ہمت خان نے مونچھوں کو مروڑ دے کر سوچنا شروع کیا ۔”لکھ دیا ۔۔۔۔۔۔بس لکھ دے۔۔۔۔۔۔” یہ کہہ کر اس نے جیب سے پنسل نکال کر بشیر کو دی ۔ ”کیا لکھنا چاہئے؟”

بشیرپنسل کے منہ کو لب لگا کر سوچنے لگا ۔۔۔۔۔۔ پھر ایک سوالیہ انداز میں بولا پٹرسن سن؟ لیکن فوراً ہی مطمئن ہو کر اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔چیڑ جھن جھن کا جواب پٹرسن سن ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ کیا یاد رکھیں گے اپنی ماں کے سکھڑے ”۔۔۔۔۔۔ بشیر نے پنسل سگریٹ کی ڈبیا پر جمائی ”پٹرسن سن”۔

یہ کہہ کر صوبیدار ہمت خان نے زور کا قہقہہ لگایا ” یہ۔۔۔۔۔۔ اور آگے لکھ یہ پاکستانی کتا ہے۔”

صوبیدار ہمت خان نے گتہ بشیر کے ہاتھ سے لیا ۔ پنسل اس میں ایک طرف چھید کیا اور رسی میں پرو کر کتے کی طرف بڑھا ۔ ”لے جا۔۔۔۔۔۔ یہ اپنی اولاد کے پاس ۔” یہ سن کر سب جوان خوب ہنسے ۔ صوبیدار ہمت خان نے کتے کے گلے میں رسی باندھ دی ۔ وہ اس دوران میں اپنی دم ہلاتا رہا ۔ اس کے بعد صوبیدار نے اسے کچھ کھانے کو دیا ور بڑے ناصحانہ انداز میں کہا ”دیکھو دوست غداری مت کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یاد رکھو غدار کی سزا موت ہوتی ہے۔” کتا دم ہلاتا رہا ۔ جب وہ اچھی طرح کھا چکا تو صوبیدار ہمت خان نے رسی سے پکڑ کر اس کا رخ پہاڑی کی اکلوتی پگڈنڈی کی طرف پھیر ااور کہا ۔”جاؤ ہمار خط دشمنوں تک پہنچا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر دیکھو واپس آجانا یہ تمہارے افسر کا حکم ہے سمجھے؟”

کتنے اپنی دم ہلائی اور آہستہ آہستے پگڈنڈی پر جو بل کھاتی ہوئی نیچے پہاڑی کے دامن میں جاتی تھی چلنے لگا ۔ صوبیدار ہمت خان نے اپنی بندوق اٹھا اور ہوا میں ایک فائر کیا ۔ فائر اور اس کی بازگشت دوسری طرف ہندوستانیوں کے مورچے میں سنی گئی ۔ اس کا مطلب ان کی سمجھ میں نہ آیا ۔ جمعدار ہرنام سنگھ معلوم نہیں کس بات پر چڑچڑا ہو رہا تھا ۔ یہ آواز سن کر اور بھی چڑ چڑا ہو گیا ۔ اس نے فائر کا حکم دے دیا ۔ چنانچہ آدھے گھنٹے تک دونوں مورچوں سے گولیوں کی بے کاربارش ہوتی رہی ۔ جب اس شغل سے اکتا گیا تو جمعدار ہرنام سنگھ نے فائر بند کرادیا ۔ اور داڑھی میں کنگھا کر نا شروع کر دیا ۔ اس سے فارغ ہو کر اس نے جالی کے اندر سارے بال بڑے سیلقے سے جمائے اور بنتا سنگھ سے پوچھا۔

”اوئے بنتاں سیا ۔ چپڑ جھن جھن کہاں گیا ؟” بنتا سنگھ نے چیڑھ کی خشک لکڑی سے پروزہ اپنے ناخنوں سے جدا کر تے ہوئے کہا ”کتے کو گھی ہضم نہیں ہوا” بنتا سنگھ اس محاورے کا مطلب نہ سمجھا ۔”ہم نے تو اسے گھی کی کوئی چیز نہیں کھلائی تھی ۔” یہ کہہ کر جمعدار ہرنام سنگھ بڑے زور سے ہنسا ۔” اوئے ان پڑھ تیرے ساتھ تو بات کرنا پچانویں کا گھاٹاہے۔”اتنے میں وہ سپاہی جو پہرے پر تھا اور دوربین لگائے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ایک دم چلایا ۔ ”وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ آرہا ہے”۔”کون؟” ”چیڑ جھن جھن ” پہرے کے سپاہی نے کہا ۔” کیا نام تھا اس کا ؟چیڑ جھن جھن” یہ کہہ کر جمعدار ہرنام سنگھ اٹھا ۔ بولا ”کیا کر رہا ہے؟” پہرے کے سپاہی نے جواب دیا ۔ ”آرہا ہے”

جمعدار ہرنام سنگھ نے دور بین اس کے ہاتھ سے لی اور دیکھنا شروع کیا ۔۔۔۔۔۔ ”ادھر ہی آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔رسی بندھی ہوئی ہے گلے میں۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔ یہ تو ادھر سے آرہا ہے دشمن کے مورچے سے ۔”

یہ کہہ کر اس نے کتے کو ماں کی بہت بڑی گالی دی ۔ اس کے بعد اس نے بندوق اٹھائی اور شست باندھ کر فائر کیا ۔ نشانہ چوک گیا ۔ گولی کتے سے کچھ فاصلے پر پتھروں کی کرچیں اڑاتی ہوئی زمین میں دفن ہو گئی ۔ وہ سہم کر رک گیا ۔

دوسرے مورچے میں صوبیدار ہمت خان نے دوربین سے دیکھا کہ کتا پگڈنڈی پر کھڑا ہے ۔ ایک اور فائر ہوا تو وہ دم دبا کر الٹی طرف بھاگا صوبیدار ہمت خان کے مورچے کی طرف ‘ وہ زور سے پکارا ” بہادر ڈرا نہیں کرتے” چل واپس اور اس نے اسے ڈرانے کیلئے ایک فائر کیا ۔ کتا رک گیا۔

ادھر سے جمعدار ہرنام سنگھ نے بندوق چلائی ۔ گولی کتے کے کان سے سنسناتی ہوئی گزر گئی ۔ اس نے اچھل کر زور زور سے دنوں کان پھڑپھڑا نے شروع کئے۔ ادھر سے ہمت خان نے دوسرا فائر کیا ۔ جواس کے اگلے پنجوں کے پاس پتھروں میں پیوست ہو گئی ۔ بوکھلا کر کھبی وہ ادھر دوڑا کھبی ادھر۔

اس کی بوکھلاہٹ سے ہمت خان اور ہرنام سنگھ دونں بہت مسرور ہو ئے اور خوب قہقہے لگاتے رہے ۔ کتے نے جمعدار ہرنام سنکھ کی طرف بھاگنا شروع کیا۔ اس نے اسے تو بڑے تاؤ میں آکر موٹی سی گالی دی اور اچھی طرح شست باندھ کر فائر کیا ۔ گولی کتے کی ٹانگ میں لگی ۔ ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی ۔اس نے اپنا رخ بدلا۔ لنگڑا لنگڑا کر صوبیدار ہمت خان کے مورچے کی طرف دوڑنے لگا تو ادھر سے بھی فائر ہوا۔ مگر وہ صرف ڈرانے کیلئے کیا گیا تھا۔

ہمت خان فائر کرتے ہی چلا یا ۔”بہادر پروا نہیں کیا کرتے زخموں کی ۔۔۔۔۔۔کھیل جاؤ اپنی جان پر ۔۔۔۔۔۔ جاؤ ۔۔۔۔۔۔ جاؤ ”

کتافائر سے گھبر کر مڑا ۔ ایک ٹانگ اس کی بالکل بیکار ہو گئی تھی باقی تین ٹانگوں کی مدد سے اس نے خود کو چند قدم دوسری طرف گھسیٹا کہ جمعدار ہر نام سنگھ نے نشانہ تاک کر گولی چلائی جس نے اسے وہیں ڈھیر کر دیا ۔

صوبیدار ہمت خان نے افسوس کے ساتھ کہا ”چچ چچ شہید ہو گیا بے چارہ۔” جمعدار ہرنام سنگھ نے بندوق کی گرم گرم نالی اپنے ہاتھ میں لی اور کہا ”وہی موت مرا جو کتے کی ہوتی ہے۔’

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact