Friday, April 26
Shadow

ام الاساتذہ محمودہ ناہید کے نام /تحریر : محمد تعظیم دانش

تحریر : محمد تعظیم دانش

 دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر 

 آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر 

  نپولین نے کہا تھا : تم مجھے اچھی مائیں دو ، میں تمہیں بہترین قوم دوں گا  ماں کی یہ اہمیت اس لیے ہے کہ انسانوں کا بچپن ماں کی گود میں بسر ہوتا ہے اور انسان کا بچپن جیسا ہوتا ہے  اس کی باقی زندگی بھی ویسے ہی ہوتی ہے  لیکن بچپن صرف ایک ’’اجمال‘‘ ہے صرف ایک ’’امکان‘‘ ہے استاد کی اہمیت یہ ہے کہ وہ اس اجمال کی تفصیل فراہم کرتا ہے اور امکان کو حقیقت بناتا ہے  اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ماں بچپن کی ’’استاد‘‘ ہے اور استاد ایسی ’’ماں ‘‘ ہے جس کا اثر پوری زندگی پر پھیلا ہوا ہوتا ہے ماں کی گود سے اٹھ کر بچہ سب سے پہلے مدرسہ یعنی استاد کے پاس جاتا ہے اور وہاں سے اس کی شعوری زندگی کا آغاز ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ استاد کی اہمیت زندگی میں ماں سے بھی بڑھ جاتی ہے  جب کہ تعلیمی اداروں کے نام کے بعد لوگ تعلیمی اداروں کی عمارت اور وہاں فراہم کی گئی سہولتوں کو دیکھتے ہیں اس کے بعد لوگوں کی نظر نصاب پر جاتی ہے ان چیزوں پر توانائی صرف کرنے کے بعد اگر تھوڑی بہت توانائی بچ جاتی ہے تو لوگ ’’استاد‘‘ کو دیکھنے کی زحمت کرتے ہیں اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم منہ کے بل گرا پڑا ہے اور اس سے ایسے طالب علم برآمد ہورہے ہیں جن کی زندگی اور ترجیحات کی فہرست میں یا تو علم کہیں موجود ہی نہیں اور موجود ہے تو بہت نیچے  لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ایک اچھے استاد سے مراد کیا ہے ؟

  اس سوال کا جواب ایک فقرے میں دینا ہو تو کہا جائے گا کہ ایک اچھا استاد وہ ہے جو اپنی معلومات کو علم بنا دے اور علم کو عمل میں ڈھال کر طلبہ کیلیے نمونہ عمل بن جائے لیکن اس تعریف کا مفہوم کیا ہے ؟

بلاشبہ صرف معلومات بھی طلبہ کو متاثر کرتی ہیں ، مگر معلومات کی فراہمی اور ان پر اصرار اور انحصار سے صرف ’’رٹوطوطے‘‘ پیدا ہوتے ہیں صرف علم ہی طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار اور متحرک کرتا ہے چنانچہ ایک استاد کا فرض ہے کہ وہ معلومات کو علم میں ڈھالے ۔ معلومات کو علم میں ڈھالنے کے دو معنی ہیں ۔ ایک یہ کہ استاد طلبہ کی معلومات کو مربوط کرے او ر ان کو ایک تناظریا ورلڈ ویویا 

پیدا کرنا سکھائے ۔ دوسرے یہ کہ وہ علم کو زندگی کی تعبیر کیلیے بروکار لائے ۔ علم کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ دماغوں کو مسخر کرتا ہے ۔ چنانچہ جس استاد کے پاس علم ہوتا ہے وہ طلبہ پر گہرے اثرات ڈالتا ہے ۔ آج کل لوگ شکایت کرتے ہیں کہ طالب علم استاتذہ کی عزت نہین کرتے۔ بلاشبہ اس کی ذمے داری طالب علموں اور ان کے والدین پر عائد ہوتی ہے، لیکن خود اساتذہ بھی اس صورت حال کے ذمے دار ہیں ۔ اس مسئلے کی بنیادی بات یہ ہے کہ جیسے ہی طالب علم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے استاد اور خود اس کی علمی سطح میں زیادہ فرق نہیں ہے تو وہ استاد کی عزت کرنا چھوڑ دیتا ہے ۔

یہ خیال ہمیشہ شعور کی سطح پر نہیں ہوتا ، لیکن اس کا اثر طالب علم پر مرتب ہوکر رہتا ہے ۔ البتہ وہ استاد جس کی علمی سطح بلند ہوتی ہے ، برے سے برا طالب علم بھی خود کو اس کی عزت پر ’’مجبور ‘‘ پاتا ہے ۔ لیکن طالب علموں کی قلب ماہیت کے لیے صرف علم کافی نہیں ۔ طالب علم جب دیکھتے ہیں کہ استاد کے قول اور فعل میں تضاد ہے تو اس کا ’’علمی اثر‘‘ ضرور قبول کرلیتے ہیں مگر ’’اخلاقی اثر‘‘ قبول نہیں کرتے اور اخلاقی اثر کے بغیر شخصیتوں کی قلب و ماہیت ممکن نہیں ہوتی ۔ چنانچہ اساتذہ کیلیے ضروری ہے کہ وہ خود کو طلبہ کیلیے ’’نمونہ عمل‘‘ بنائیں ۔ جب کوئی استاد علم اور عمل کا جامع بن جاتا ہے تو پھر وہ بجائے خود ایک چھوٹی سی تہذیب بن جاتا ہے ، جیتی جاگتی تہذیب ۔ پھر اس کے اثرات نسل درنسل منتقل ہوتے ہیں ۔ غیر نبیوں میں اس کی سب سے بڑی مثال سقراط ہے ۔ ہمارے صوفیا میں اس کی نظیر شیخ محی الدین ابن عربی اور حضرت مجدد الف ثانی ہیں ۔ لیکن ایک اچھے استاد کی معنویت اور اہمیت صرف انہی خصوصیات تک محدود نہیں ۔

 ایک اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو کلاس روم کو ’’خود کلامی‘‘ کے جبر کا شکار نہیں ہونے دیتا، اور کلاس روم میں ’’مکالمے‘‘ کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ مکالمہ تدریس کے مشینی عمل کو تخلیقی بنادیتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں سبق کا مواد وہی رہتا ہے مگر اس کی تفہیم میں تنوع پیدا ہوتا رہتا ہے ۔ اس صورت حال کا استاد کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ’’سکھانے ‘‘ کے ساتھ ساتھ خود بھی کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک استاد جتنا نمو پذیر ہوسکتا ہے بڑھ سکتا ہے اتنا کسی اور شعبے سے وابستہ شخص نہیں ہوسکتا ۔ استاد کے اس شخصی فائدے کا فیضان طلبہ تک بھی پہنچتا ہے لیکن چوں کہ فی زمانہ تدریس کے اس پہلو پر لوگوں کی توجہ نہیں رہی ، اس لیے کلاس رومز میں مکالمے کی جگہ خود کلامی لے لی ہے۔ بعض اساتذہ طلبہ سے کہتے ضرور ہیں کہ وہ سوال کریں ،  مگر جب طالب علم واقعی سوال کرنے لگتے ہیں تو اکثر اساتذہ اس کا برا مناتے ہیں ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سوال ان کے علم اور تعبیر کو چیلنج کرتا ہے اور انہیں مطالعہ جاری رکھنے اور مسلسل سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔ چنانچہ اساتذہ عام طور پر سوالات کے عمل کو توہین کا سلسلہ بناکر اس کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کرتے ہیں ۔ بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ بعض اساتذہ کے پاس علم تو ہوتا ہے مگر اس کے باوجود وہ اچھے استاد نہیں ہوتے ۔ اس کی ایک وجہ ان کے علم اور عمل کا تضاد ہوتا ہے ، لیکن اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ طالب علموں سے اتنے فاصلے پر کھڑے رہتے ہیں کہ طالب علم اور استاد ایک اکائی نہیں بن پاتے اس کے برعکس بعض اساتذہ کا علم زیادہ نہیں ہوتا مگر وہ طلبہ کے ساتھ ’’تعلق‘‘ پیدا کرلیتے ہیں ۔ چنانچہ ایسے اساتذہ کم علمی کے باوجود طلبہ پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔

 یہ خیال عام ہے کہ سزا کے خوف سے طالب علموں کو پڑھنے پر مائل کیا جاسکتا ہے ۔ سزا کا خوف صرف حافظے  کے عمل میں مددگار ہوتا ہے ۔ لیکن خوف علم کے انجذاب میں ایک رکاوٹ بن جاتا ہے ۔ چنانچہ اچھا استاد ہمیشہ سزا کے امکان کو بروئے کار لانے سے گریزاں رہتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ طالب علم میں علم کی ’’لذت ‘‘ پیدا کردے ، تاکہ وہ علم کی زیادہ سے زیادہ اپنے وجود کا حصہ بنا کر اس میں اضافے پر مائل ہوسکے۔

 رسولﷺ کی تعلیم کا ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ آپ ہمیشہ مخاطب کی سطح کے مطابق خطاب فرماتے ۔ اس خوبی کے بغیر کوئی شخص اچھا استاد بن ہی نہیں سکتا۔ تاریخ میں بڑے اساتذہ نے ہمیشہ اس خوبی کا بھی مظاہرہ کیا ہے کہ وہ ایک ہی بات کو مختلف الفاظ اور اصطلاحوں میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ایک استاد کو ایک سطح کے طلبہ کو پڑھاتے پڑھاتے اپنے مواد پر اتنا حاوی ہوجانا چاہیے کہ وہ اس مواد کو مختلف پیرایوں میں بیان کرسکے۔

 ایک اچھے استاد میں یہ خوبی بھی ہونی چاہیے کہ وہ جماعت کے کسی ایک حصے کے بجائے پوری جماعت کے لیے کفایت کرنے والا ہو اور وہ اپنے علم و عمل سے اوسط درجے کا ، اوسط درجے کی صلاحیت کے حامل طلبہ کو ذہین اور ذہین طلبہ کو عبقری بننے میں مدد دے ۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے بچوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوچکا ہے اور اس کی بنیادی وجہ استاد کے ادارے کا انہدام ہے۔ چنانچہ استاد کے کردار کو مستحکم کئے بغیر نہ صرف یہ کہ تعلیم و تربیت کے عمل کو موثر نہیں بنایا جاسکتا ، بلکہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں ماؤں کی محنت کو ضائع ہونے سے بھی نہیں روکا جاسکتا۔

یہ محض لفاظی نہیں بلکہ ایک شخصیت کا جب بھی تصور آتا ہے تو الفاظ ہاتھ باندھ کر آگے کھڑے ہو جاتے ہیں اور الفاظ کا انتخاب مشکل ہو جاتا کہ اس شخصیت کو کن الفاظ سے تعبیر کروں۔

دھیرکوٹ کی تاریخ  80 کی دہائی میں سال 1982-83 سے سال 2004 تک مذکورہ بالا موضوعات ، کیفیات ، تقاضوں سے ہم آہنگ بِنتِ حوّا نے اپنے مسکن سے دور دھیرکوٹ انگلش میڈیم پرائیویٹ گرین ہلز پبلک سکول کی اس وقت داغ بیل ڈالی جب ضلع باغ میں اس کا تصور  نہ تھا علمی ادبی پیشہ ورانہ مہارت سے کامیاب بانی و پرنسپل  ہزاروں طلباء و طالبات کے علاوہ ٹیچرز سٹاف کو بھی عصرِ حاضر سے ہم آہنگ نصابی و غیر نصابی تعلیم سے آراستہ کیا جو آج کشمیر پاکستان اور بیرونِ ملک  پُرتعیّش مسانید و مناصب پر براجمان ہیں۔ عوام اور طلباء میں جو شعور و تدریک منتقل کیا اس کا نقد نتیجہ یہ بھی نکلا کہ چمیاٹی کے مقام پر ایور گرین پبلک سکول اور منہاسہ کے مقام پر بھی برانچ قائم کی دریں اثناء خاصی بندشوں، ممانعتوں ، رجعت و رکاوٹوں اور سخت رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر چٹان کی طرح سینہ تان کر حکمتِ عملی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور تعلیم و تدریس کے مقدس شعبے پر آنچ نہ آنے دی۔ آج کوئی مانے نہ مانے مگر محترمہ نے تعلیم و تدریس کے میدان میں وہ فقید المثال شمع فروزاں کی ہے کہ ماضی میں جو ان کے شاگرد تھے آج وہ سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔

محتر مہ محمود ہ جب تک پرنسپل ادارہ رہیں تو واحد یہ گرین ہلز پبلک سکول تھا  تعلیمی بورڈ میرپور آزاد کشمیر سے ہر سال نمایاں پوزیشن اسی سکول کے طلباء کی ہوتیں تھیں اور یوں اس ادارہ کی ایک تاریخ ساز ساکھ جَلی حروف میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ 

 یہ فیضانِ نظر ہے کہ مکتب کی کرامت

خذف ریزروں سے کرلیتے ہیں لعل و گوہر پیدا 

کرنل (ر) اسماعیل خان صاحب نے ایک پروگرام میں میڈم محمودہ ناہید صاحبہ کے اعزاز میں یوں بھی فرمایا تھا کہ دھیرکوٹ کی تاریخ میں دو ایسی شخصیات ہیں جن کی عوام میں بہت مانگ ہے، مردوں میں پیر سید غلام یسین شاہ صاحب بخاری (مرحوم) اور عورتوں میں میڈم محمودہ ناہید صاحبہ ۔۔

محترمہ موصوفہ مظفرآباد آزاد کشمیر کی سکونتی ہیں جن کی لاہور میں شادی ہوئی اور ان ایام میں نزد ترامڑی چوک اسلام آباد رہائش پذیر ہیں کووڈ انیس  کے وبائی عارضہ سے متاثر ہوکر تقریباً رو بہ صحت قدرے ضرور ہیں تاہم پِیرگی کے باعث نقاہت کا شکار ہیں بدیں وجہ معقول آمدورفت سے قدرے قاصر ہیں۔

پِیرانہ سالی کی اس نہج کے باوصف آرندہ مہمانوں کے استقبال سے الوداع ہونے تک مکمل وقت و ماحول فراہم فرماتی ہیں اگر کوئی ترسیدہ و تشنہِ علم ہو تو آج بھی میڈم کی صحبت و مجالست ایک اوپن یونیورسٹی کی مثل ہے موصوفہ و ممدوحہ کی اظہار و گفتار، نسشت و برخاست ، اندازِ بیاں اور اسلوبیاتی نشست سے آج بھی سیکھنے والا بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

آپ تمامی قارئین کی آمین کا سہارا لیتے ہوئے التماسِ دعا ہے کہ اللّٰہ پاک میڈم محمودہ ناہید صاحبہ کو صحت یابی سے مزیّن عمرِ خضری نصیب فرمائیں اور تادمِ زیست صحنِ گلشن کے چمنستانی پھولوں کی طرح ہنستا مسکراتا شاد و آباد رکھیں۔

یہ تحریر محترمہ ثوبیہ عباسی کی تحریک اور فرمائش پر لکھی گئی ہے 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact