Friday, April 26
Shadow

Tag: کشمیر

لینڈ اسکیپ آف کشمیر پر تبصرہ

لینڈ اسکیپ آف کشمیر پر تبصرہ

تبصرے
کتاب کا نام : لینڈ اسکیپ آف کشمیر:فوٹو گرافک مونو لاگ  مؤ لف : محمد ریحان خان// تبصرہ نگار :: ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی مناظر قدرت کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کا ہنر دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ مشکل اور فنی مہارت لیے ہوئے ہے۔ اس کے لیے اس کام میں دلچسپی بنیادی شرط ہے۔ قلم کارحسین مناظر کو دیکھ کر انہیں تحریر میں اس طرح پیش کرتا ہے کہ پڑھنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ از خود ان مناظر کے سامنے ہے اور ان کا نظارہ کر رہا ہے، جب کہ کیمرے کی آنکھ سے قدرت کے خوبصورت وخوب رُو اورحسین مناظرِ قدرت کو محفوظ کرنے والا پورٹریٹ فوٹو گرافر ، تصویر نگار اپنی تخلیق سے کوئی بھی خاص پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے ۔ وہ ایک باذوق اور حساس جذبات لیے ہوئے ہوتا ہے ، اُسے قدرت کے حسین اور خوبصورت منا ظر سے عشق ہوتا ہے ،یہ مناظر گویا اس کے محبوب ہوتے ہیں ، وہ کائنات کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھتا ہے اوراپنے ...
کشمیر کی پہلی شہید بیٹی

کشمیر کی پہلی شہید بیٹی

آرٹیکل
ڈوڈہ کے وانی خاندان کی بیٹی کو جدوجہد آزادی کشمیر کے لیے اپنی جان کا نزرانہ پیش کرنے والی کشمیری قوم کی پہلی بیٹی کا اعزاز حاصل ہے  خالد شبیر 1947ء میں تقسیمِ برصغیر کے دوران لاکھوں نہتے مسلمانوں کو جنونی ہندووں نے جموں میں انتہائی وحشت و بربریت کا نشانہ بنا کر شہید کیا۔عفت مآب مسلمان خواتین کی آبروریزی کی گئی۔مساجد،درس گاہیں، رہائشی عمارتیں نذرآتش کی گئی۔ یہ ایک ایسا زخم ہے جسے جموں و کشمیر کے لوگ کبھی نہیں بھلا سکتے ۔ جو زندہ بچ کر پاکستان پہنچ بھی گئے وہ بھی اپنے پیاروں سے ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئے ۔ آگ اور خون کا ایسا کھیل کھیلا گیا جسے آج بھی بیان کرنا مشکل ہے۔ اُس منظر کو آنکھوں سے دیکھنے والے نور محمد جیسے بزرگوں کیلئے بہت مشکل ہے، جس نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بیان کیا ہے ۔ اس وقت ان کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔ 1947ء میں جموں میں ہندو جنونیوں کے ہاتھوں مسلمانوں ...
بدھ مت کی قدیم درس گاہ

بدھ مت کی قدیم درس گاہ

تصویر کہانی
کہانی کار : نعمان جنجوعہ - منڈھول آزاد کشمیر منڈھول کا اسٹوپا  یہ کنشک عہد (78ء تا 123ء) میں تعمیر ہونے والی بدھ مت کی قدیم درسگاہ ہے۔ جسے "سٹوپا" یا "گومپا" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تاریخی عمارت وادی منڈھول پونچھ آزادکشمیر میں واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ کنشک (Kanshaka) ، جو بذاتِ خود بدھ مذہب تھا۔ اس نے جب کشمیر فتح کیا ۔ تو اس دور افتادہ خوبصورت علاقے (کشمیر) کو اپنا مرجع سمجھا۔ یہاں مختلف عمارتوں کے علاوہ کنشک پورہ شہر بھی تعمیر کروایا ۔ اور کابل سے لیکر پاٹلی پتر تک کا علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ یہ تاریخی عمارت حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ اور چند رجعت پسند عناصر کی ناجائز تجاوزات کا شکار ہے۔ تقریبا دو ہزارسال پرانی یہ بودھ درسگاہ اپنی اصل ساخت اور خوبصورتی کھو رہی ہے۔ اور ایک بڑا حصہ ڈھے جانے کا بھی اندیشہ ہے۔ منڈھول کے باسیوں میں یہ عمارت "دیرہ" کے نام سے ج...
ہجرت کے دکھ

ہجرت کے دکھ

آرٹیکل, تقسیم کشمیر
کشمیر کے منقسم خاندانوں کا مشترکہ المیہ تنویر حسین چوہدری  کشمیریوں کی کئی نسلیں ایک آزاد وطن میں واپس جانے کا خواب لئے دنیا سے رخصت ہو گئیں - ہم بھی یہی سپنا آنکھوں میں سجاۓ اس بات کے منتظر ہیں کہ کب ہجر اور غلامی کی یہ سیاہ رات ختم ہو گی کشمیر میں اپنے وطن کے لئے ہجرت کرنے والوں کے کیسے کیسے ارمان تھے ۔ جو سینے میں لیے اپنی حیات پوری کر چکے۔ میں اس تحریر میں اپنے خاندان کے کچھ واقعات کا احوال آپ کے سامنے رکھوں گا - میرے دادا حضور حضرت سائیں محمد انسان اور انسانیت سے اتنا انس کرتے تھے ۔ کہ کبھی کسی کی غلطی پر بھی اسے برا نہیں کہتے تھے۔ بلکہ کہا کرتے تھے “اللہ تیرا بھلا کرے ”-۔انکی زندگی صرف قرآن الکریم کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ ایسا ان کی اوائل عمری ہی سے تھا. جب میرے دادا حضور اور میرے والد گرامی نے تیسری بار 1965 میں ہجرت کی۔ یہ ہجرت انہوں نے پونچھ، مہنڈر سے کی - پھر آ...
رشحاتِ نشتر اورمحمد خاں نشترؔ

رشحاتِ نشتر اورمحمد خاں نشترؔ

تبصرے
ڈاکٹرعبدالکریم ’رشحاتِ نشتر‘ بنیادی طور پر مظفرآباد شہر کی تاریخ ہے ۔1947ء کے بعد کی سیاسی ،سماجی ،معاشرتی،اخلاقی او ر اقتصادی زندگی کے بارہ میں نشتر لکھنا چاہتے تھے۔ لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ یہ کتاب ایک بیٹے کا اپنے باپ کو خراج عقیدت ہے جس نے لفظ لفظ ،سطر سطر ،ورق ورق اکٹھا کیا ،سینے سے لگایا اور اسے کتابی شکل میں پیش کر دیا۔ میں نشتر سے نہیں ملا ۔ وہ عشروں پہلے جہانِ فانی سے چلے گئے ۔اس کتاب کے ذریعے’کشمیر ڈائجسٹ‘سے تعارف ہوا جس کے شماروں کی اہمیت وقت کے ساتھ بڑھ گئی ہے ۔ نشتر کا تذکرہ اسلام ،پاکستان اور اردو کا تذکرہ ہے ۔ نشتر کی شاعری ایک نظریے،ایک مقصد کے گرد گھومتی ہے۔ اور انھوں نے صرف اردو کو سینے سے لگایا ۔ ان کی نثر بھی اردو کے گرد گھومتی رہی ۔ان کی نثر میں کتنی جاذبیت ،روانی ،ٹھہراؤ ،رچاؤ ہے اس کا ایک رخ میں آپ کوان کے ان خطوط کی صورت میں کبھی سنا دوں گا جو انھوں نے ڈ...
چار بوتل خون

چار بوتل خون

آرٹیکل, افسانے
صغیر قمر  شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔بارش اور دھند کی وجہ سے ماحول جلد تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔ سری نگر کی سڑکوں پر حسب معمول ویرانی نظر آ رہی ہے۔ اکا دکا گاڑی یا رکشا گزرنے سے خاموشی ٹوٹ جاتی ہے۔ غلام قادر نے ورکشاپ کا دروازہ بڑی بے دلی سے بند کیا۔ اس نے اپنی پھٹی پرانی فیرن کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دن بھر کی کمائی جو اسے ورکشاپ کے مالک نے دی تھی جیب میں پڑی تھی۔ غلام قادر نے حقارت سے کندھے اچکائے‘ جیسے اسے یہ چند روپے محنت کے بدلے نہیں بھیک میں دیے گئے ہوں۔”آج کل تو اتنی بھیک بھی کوئی نہیں دیتا۔“ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور بیساکھی اٹھا کر چل پڑا۔اس کی بیساکھی کی آواز نے ماحول کے سکتے کو پھر توڑ دیا۔ آج نہ جانے کیوں اس کے دل میں یہ خیال در آیا تھا کہ وہ لال چوک سے ہو کر گزرے گا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ جب سے کشمیر میں تحریک نے زور پکڑا ہے‘ لال چوک مں موت کا سناٹا رہتا ہے...
سرکش بیل اورزمینداری

سرکش بیل اورزمینداری

تصویر کہانی
کہانی کار :  اعجاز الرحمن یہ تصویر آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے گاؤں بڑا لی کس کی ہے۔  جس میں راقم اپنی آبا ئی زمینوں پر ہل چلا کر ماضی کی یادیں تازہ کر رہا ہے ۔ہمارا بچپن ایک فطری ماحول میں گزرا ہے۔ایک خالص دیہاتی ماحول میں پل کر بڑے ہوۓ ۔ہمارے بچپن کی ایک خوبصورت یاد کھیتی باڑی ہے ۔ اپنی زمینوں کو بیلوں کے ذریعے کاشت کرنا آزاد کشمیر کے بیشتر علاقوں میں عام رواج تھا ۔ تقریباً  ہرگھر میں بیلوں کی ایک  جوڑی ہوتی تھی ۔پھر بیلوں کی جگہ ٹریکٹر نے لے لی ۔ آہستہ آہستہ زمینداری کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔  کیونکہ لوگوں کا ذریعہ معاش ملازمت ہے۔  اور لوگوں کی بڑی تعداد بیرون ملک بھی چلی آئی۔ ہم بھی اپنی تعطیلات گزارنے انگلستان سے جب اپنے آبائی وطن کشمیر جاتے ہیں توگا ؤں کے قدرتی ماحول سے محظوظ ہوتے ہیں ۔بیلوں کی جوڑی تھوڑا سرکش مزاج رکھتی تھی،  اس لئے ان کو راہ راست پر رکھنے کے لئے مزید افرادی...
دومیل کی بارہ دری

دومیل کی بارہ دری

تصویر کہانی
کہانی کار :  محمد امتیاز ظفر  مظفرآباد میں دو دریاؤں کے سنگم پر دومیل کے مقام پر ایک تاریخی بارہ دری موجود ہے۔ یہ بارہ دری  ریاست جموں وکشمیر کے دوسرے ڈوگرہ حکمران  رنبیر سنگھ نے 1885 میں تعمیر کروائی تھی ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تقسیم ہندوستان کے وقت جب کانگرنسی رہنما جواہر لال نہرو کشمیر آۓ ۔ تو چوتھے اور آخری ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ نے انھیں تین دن تک یہاں قید رکھا تھا - بعض مؤرخیں کے مطابق نہرو کو اس بارہ دری میں نہیں رکھا گیا تھا۔ بلکہ گڑھی  دوپٹہ کے ڈاک بنگلہ میں قید رکھا  گیا تھا ۔ اور یہ بھی کہا جا تا ہے کہ نہرو کے شیخ عبداللہ سے تعلقات تھے۔ جن کی وجہ سے ہری سنگھ کا خیال تھا کہ نہرو کشمیر میں شیخ عبداللہ سے مل کر ہندوستان کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔ ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact