شاعری افضل ضیائی
وطن کا قرض تھا اتنا کہ سر دیا جاتازمیں کو سرخ گلابوں سے بھر دیا جاتامیں جب بھی تخت نشینوں سے حق طلب کرتاتو میری گود کو مٹی سے بھر دیا جاتامسرتوں سے مستفید ھو نہیں سکتےنہیں ھے جب تلک تاوان بھر دیا جاتاشب وصال کا کیا المیہ بیان کروںاٹھا کے ایک طرف مجھ کو دھر دیا جاتاکمال طرز حکومت تھا اس ریاست کالباس کفن کا ،مٹی کا گھر دیا جاتاوثیقے توڑ کر بانٹو، زمین لوگوں میںجو نعرہ زن ھوا ؛ وہ قتل کر دیا جاتا
افضل ضیائی