Thursday, April 18
Shadow

Tag: مقبوضہ کشمیر

وادیٔ گل پوش مقبوضہ کشمیر کا ایک نایاب سفر۔ ڈاکٹرظفرحسین ظفر

وادیٔ گل پوش مقبوضہ کشمیر کا ایک نایاب سفر۔ ڈاکٹرظفرحسین ظفر

آرٹیکل, فطرت
ڈاکٹرظفرحسین ظفر ایک  سیانے کا قول ہے،رواں، ہر دم جواں زندگی کے لیے سفر شرط ہے. اور یہ سفر مثل جنت کشمیر کا ہو تو ’’وسیلہ ظفر‘‘ بن جاتا ہے۔ خوابوں اور خیالوں میں تو یہ سفر گزری تین دہائیوں میں جاری رہا، اکتوبر ۲۰۰۹ء میں آخر انہیں تعبیر مل گئی۔ ۸ اکتوبر کی صبح صادق سے ۱۶؍ اکتوبر کی صبح کاذب تک یہ سفر مکمل ہوا۔ کہتے ہیں بہت دُور، برف پوش پہاڑوں کے پار، سطح سمندر سے ساڑھے پانچ ہزار فٹ بلندی پر کبھی ایک جھیل ہوا کرتی تھی۔ چوراسی میل لمبی اور پچیس میل چوڑی اس جھیل کا نام ’’ستی سر‘‘ تھا۔ اس کا منبع پیر پنجال اور دوسرے پہاڑوں سے پگھلتی ہوئی ٹھنڈی میٹھی، صاف شفاف برف تھی یا بہتے جھرنے اور ابلتے چشمے۔ پیاری سی اس جھیل پہ ایک دیو، جلودبھو قابض تھا۔ گہرے نیلگوں پانیوں کا یہ حکمران آدم خور تھا۔ نسل انسانی اس کے خوف سے جھیل کے قریب جانے سے خوف زدہ رہی۔ پھر کہیں سے ’’کشپ رشی‘‘ آیا۔ م...
یوم یکجہتی کشمیر کی کہانی

یوم یکجہتی کشمیر کی کہانی

آرٹیکل
سید ابرار گردیزی ۱۹۸۷ء کی بات ہے ،خونی لکیر کے اس پارمقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہدآزادی کی راہ ہموار ہورہی تھی، کشمیری جان گئے تھے کہ پر امن جدوجہد کے ذریعے بھارت سے آزادی پاناممکن نہیں،اس کے لیے مسلح جدوجہد ناگزیر ہے۔ بیس کیمپ اس سلسلے میں ہمیشہ کی طرح یکسر بے حس تھا، یہاں کے آقاؤں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جنھیں روزانہ صبح و شام آزاد کشمیر ریڈیو مظفرآباد ’’تم بھی اٹھو اہل وادی ‘ ‘کی صدائیں دیتا ہے، وہ نہ صرف اٹھ چکے ہیں بلکہ پوری طرح بیدار ہو چکے ہیں۔ تب قاضی حسین احمد جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت سنبھال چکے تھے ۔  ۱۹۸۹ء میں جہاد کا غلغلہ بلند ہوا اورجنت ارضی پر کئی دہائیوں سے دبی آزادی کی چنگاری شعلہ جوالہ بنی تو ہزاروں مجاہدین و مہاجرین قافلہ در قافلہ فلک بوس برفانی چوٹیاں عبور کر کے تحریک آزائ کشمیر کے بیس کیمپ آزاد کشمیرآنا شروع ہوئے تو مظفر آباد و اسلام آباد کے ایوان...
ہجرت کے دکھ

ہجرت کے دکھ

آرٹیکل, تقسیم کشمیر
کشمیر کے منقسم خاندانوں کا مشترکہ المیہ تنویر حسین چوہدری  کشمیریوں کی کئی نسلیں ایک آزاد وطن میں واپس جانے کا خواب لئے دنیا سے رخصت ہو گئیں - ہم بھی یہی سپنا آنکھوں میں سجاۓ اس بات کے منتظر ہیں کہ کب ہجر اور غلامی کی یہ سیاہ رات ختم ہو گی کشمیر میں اپنے وطن کے لئے ہجرت کرنے والوں کے کیسے کیسے ارمان تھے ۔ جو سینے میں لیے اپنی حیات پوری کر چکے۔ میں اس تحریر میں اپنے خاندان کے کچھ واقعات کا احوال آپ کے سامنے رکھوں گا - میرے دادا حضور حضرت سائیں محمد انسان اور انسانیت سے اتنا انس کرتے تھے ۔ کہ کبھی کسی کی غلطی پر بھی اسے برا نہیں کہتے تھے۔ بلکہ کہا کرتے تھے “اللہ تیرا بھلا کرے ”-۔انکی زندگی صرف قرآن الکریم کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ ایسا ان کی اوائل عمری ہی سے تھا. جب میرے دادا حضور اور میرے والد گرامی نے تیسری بار 1965 میں ہجرت کی۔ یہ ہجرت انہوں نے پونچھ، مہنڈر سے کی - پھر آ...
مہاجرین جموں کشمیر کی آبادکاری

مہاجرین جموں کشمیر کی آبادکاری

آرٹیکل, آزادکشمیر, مظفرآباد
 شبیر احمد ڈار       ریاست مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے ظلم و ستم اور غاصبانہ قبضے سے ہم سب ہی باخبر ہیں . اس ستم وظلم کی وجہ سے لاکھوں گھرانے اب تک ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے. تحریک آزادی کشمیر  کا جذبہ لے کر  آزادکشمیر میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے  انہیں "مہاجرین جموں کشمیر " کے نام سے پکارا جاتا . مہاجرین جموں کشمیر 1990-1989ء بھی ان میں شامل ہیں جنھوں نے اپنا گھر بار ، عزیز و اقارب ،زرمبادلہ سب کچھ تحریک آزادی کشمیر  کے لیے وقف کیا اور آج آزادکشمیر کے مختلف کیمپوں میں آباد ہیں .مہاجر ہونا ایک اعزاز کی بات ہے اور مہاجر ہونا سب سے مشکل  کام بھی  ہے .     مہاجرین جموں کشمیر 1990ء مقبوضہ کشمیر کے مختلف شہروں سے ہجرت کر کے بیس کیمپ آزادکشمیر میں داخل ہوئے ان میں زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مقبوضہ ضلع  پونچھ ، اوڑی ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact