Friday, April 26
Shadow

Tag: مظفرآباد

ایک کلاس روم بھی نہیں ہے

ایک کلاس روم بھی نہیں ہے

تصویر کہانی
یہ آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد تحصیل نصیر آباد کے گاؤں چمبہ کے گورنمنٹ بوائز مڈل اسکول کی تصاویر ہیں جہاں پر سینکڑوں کی تعداد میں بچے اپنی زندگی سے کھیلتے ھیں۔ 5اکتوبر 2005میں اس ادارے کی عمارت تباہ ھو گئی تھی جو حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے تا حال نہ بن سکی ۔ چند سوالات نام نہاد آزاد کشمیر کے حکام بالا کے نام۔ یہ سرد موسم یہ معصوم بچے جو اس ملک و قوم کا مستقبل ھیں کیا ان کا حق کلاس روم نہیں ھے ؟ کیا یہ انسانی معاشرے کا حصہ نہیں ؟ کیا یہ اس ریاست کے باشندگان نہیں ھیں ؟ کیا ان کا حق باقی دنیا کی طرح تعلیم حاصل کرنا اور جینا نہیں ھے؟ جہاں چھت بھی ھو اور چار دیواری بھی ھو سردی سے یہ پھول جیسے ننھے جسم بچ سکیں۔ ان کی تعلیم کے ساتھ صحت کا بھی خیال رکھا جا سکے۔ ہاں یہ تمام سہولیات وھاں میسر ھوتی ھیں جہاں انسان اور انسانیت کی قدر ھو؟ زلزلہ زدگان کی مد میں آنے والے کھربوں روپے تو ھڑپ ...
روحِ انقلاب اورجناب زاہد کلیم- تحریر ثمینہ اسماعیل

روحِ انقلاب اورجناب زاہد کلیم- تحریر ثمینہ اسماعیل

آرٹیکل
ثمینہ اسماعیل  محترم زاہد کلیم کا شمار اردوکے نامور شعرا میں ہوتا ہے ۔1952ءمیں آپ کی پیدایش مظفرآباد کے علمی و ادبی گھرانے میں ہوئی ۔آپ محمد خاں نشتر مرحوم کے صاحبزادے ہیں ۔بہ قول زاہد کلیم صاحب کے’ 1970ءکی دہائی میں انھوں نے قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کیا‘ ۔آپ کی شاعری میں جوش کا سا جوش موجود ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ جوش ملیح آبادی کے شاگرد تھے ۔زاہد کلیم نے 1972ءمیں جوش سے اصلاح لینی شروع کی اور یوں یہ سلسلہ اگست 1982ءتک جاری رہا ۔’روح انقلاب‘ جنابِ زاہد کلیم کی نعتیہ مسدس ہے ۔اس کتاب کو کافی شہرت نصیب ہوئی ۔یہ کتاب کتابت کی غلطیوں سے پاک ہے ۔زاہد کلیم صاحب کے تاریخی شعور کو یہ کتاب طشت از بام کرتی ہے ۔اس کتاب کو 2008ءمیں نیلم پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے ۔اس شعری مجموعے کا ابتدائیہ جناب جیلانی کامران نے تحریر کیا ہے ۔بہ قول راغب مراد آبادی’ زاہد صاحب کو زبان و بیاں پر کمال دسترس حا...
پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے زیراہتمام مستحق افراد میں کپڑوں کی تقسیم

پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے زیراہتمام مستحق افراد میں کپڑوں کی تقسیم

ہماری سرگرمیاں
مظفر آباد‎انسانیت کی خدمت کے لیے کوشاں سماجی ادارہ پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی جانب سے مظفرآباد کی یونین کونسل چھتر دومیل کے نواحی علاقے امبور سمیت چہلہ بانڈی اور پلیٹ کے مقامات  میں دو لاکھ سے زائد مالیت کے کپڑے مستحق افراد میں تقسیم کیے گئے ،یہ کپڑے پریس فار پیس فائونڈیشن یو کے کی جانب سے بھیجے گئے تھے ۔ان کپڑوں میں زنانہ اور مردانہ سوٹ ،بچوں کے کپڑے ،جیکٹس اور ،پینٹس  وغیرہ شامل تھے ۔یہ کپڑے 80سے زائد مستحق خاندانوں میں تقسیم کیے گئے ۔کپڑوں کی تقسیم کے دوران مستحق خاندانوں کو عزت اور تکریم کا خیال رکھا گیا تا کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔یہ کپڑے معذوروں ،بیوائوں ،یتیم بچوں ،بے سہارا خاندانوں میں تقسیم کیے گے ،جبکہ مختلف جگہوں پر مزدوری کرنے والے بچوں میں بھی کپڑے تقسیم کیے کئے۔پریس فار پیس فاؤنڈیشن گزشتہ کئی سالوں سے آزاد کشمیر بھر میں غریب خاندانوں تک کپڑے پہنچانے کا اہتمام کر رہی ہے ۔م...
مظفرآباد تباہی کے دہانے پر۔ ابرار حیدر

مظفرآباد تباہی کے دہانے پر۔ ابرار حیدر

آرٹیکل
تصاویر:  اشفاق شاہ - سوشل میڈیا/ سید قاسم سیلانی عظیم ہمالیہ اور پیر پنجال کے دامن میں فطرت انسانی کی تسکین کا سامان لیے ایک اہم شہر واقع ہے۔ جو زمانہ قدیم سے حملہ آوروں، تجارتی قافلوں، مذہبی راہنماﺅں ریشی سنت ، سادھوؤں اور اولیاءاللہ کی گزرگاہ رہا ہے۔ اور جسے اولین تاریخ میں اڈا بانڈا لکھا گیا۔ اور اب مظفرآباد کے نام سے جانا جاتا ہے۔وادی کشمیر میں کامبو جاس، بدھ ازم، شیو ازم، ہندو ازم اور دورِ اسلامی سمیت جتنے بھی ادوار گزرے، اس شہر پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ انٹرنیشنل سٹی مینیجمنٹ ایسوسی ایشن کی شائع کردہ کتاب The practice of Local Government Planning میں مظفرآباد کی جغرافیائی علاقائی وسعت اور اہمیت کے تناظر میں اسے گیٹ وے قرار دیا گیا۔مظفرآباد کوہالہ سے پنجاب، برارکوٹ سے خیبر پختونخواہ، چکوٹھی لائن آف کنٹرول سے سرینگر، اور سرینگر سے جموں امرتسر اور دلی کو ملانے کا ذریعہ ہے،...
یوم یکجہتی کشمیر کی کہانی

یوم یکجہتی کشمیر کی کہانی

آرٹیکل
سید ابرار گردیزی ۱۹۸۷ء کی بات ہے ،خونی لکیر کے اس پارمقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہدآزادی کی راہ ہموار ہورہی تھی، کشمیری جان گئے تھے کہ پر امن جدوجہد کے ذریعے بھارت سے آزادی پاناممکن نہیں،اس کے لیے مسلح جدوجہد ناگزیر ہے۔ بیس کیمپ اس سلسلے میں ہمیشہ کی طرح یکسر بے حس تھا، یہاں کے آقاؤں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جنھیں روزانہ صبح و شام آزاد کشمیر ریڈیو مظفرآباد ’’تم بھی اٹھو اہل وادی ‘ ‘کی صدائیں دیتا ہے، وہ نہ صرف اٹھ چکے ہیں بلکہ پوری طرح بیدار ہو چکے ہیں۔ تب قاضی حسین احمد جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت سنبھال چکے تھے ۔  ۱۹۸۹ء میں جہاد کا غلغلہ بلند ہوا اورجنت ارضی پر کئی دہائیوں سے دبی آزادی کی چنگاری شعلہ جوالہ بنی تو ہزاروں مجاہدین و مہاجرین قافلہ در قافلہ فلک بوس برفانی چوٹیاں عبور کر کے تحریک آزائ کشمیر کے بیس کیمپ آزاد کشمیرآنا شروع ہوئے تو مظفر آباد و اسلام آباد کے ایوان...
بچہ لائبریری، کتب بینی اور جاوید چوہدری

بچہ لائبریری، کتب بینی اور جاوید چوہدری

آرٹیکل
زبیر احمد ظہیر آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں جلال آباد نام کا خوبصورت پارک ہے، اس پارک سے خورشید نیشنل لائبریری کی عمارت جڑی ہوئی ہے ، قبل ازیں یہ لائبریری ایک چھوٹی سی مربع شکل کی عمارت میں ہوا کرتی تھی،اس پرانی عمارت کے ماتھے پر آج بھی خورشید نیشنل لائبریری کسی جھومر کی طرح کندہ ہے ۔ آج اس چھوٹی بچہ نما عمارت میں بچوں کی لائبریری قائم ہے ،یہ پوری قوم کیلئے فخر کی بات ہے کہ آزادکشمیر میں بھی کسی” عظیم دور اندیش شخصیت“ کو پہلی بار بچوں کوبڑا انسان بنانے کاخیال آیا ،بلکہ فی الواقع جدید قسم کی سہولتوں سے مزین لائبریری بنا دی ۔اس چلڈرن لائبریری میں ”بچوں کے ادب“ کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔ یہاں ہمارے بہت ہی پیارے مذہب ’اسلام‘ سے متعلق کتابوں کا ایک علیحدہ پورا سیکشن بھی موجود ہے ۔ جو غیر محسوس انداز میں بچوں کو اسلام کی دعوت دے رہا ہے ۔وہاں ہم نے ملٹی میڈیا ”پروجیکٹر “ کی سہولت ب...
مچھیارہ نیشنل پارک

مچھیارہ نیشنل پارک

تصویر کہانی
کہانی کار : سردار محمد سمیر ایڈوکیٹ / تصاویر: سن آف سردار آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے 35 کلومیٹر دورمچھیارہ  نیشنل پارک ہے۔ یہ پارک 1996 میں قائم ہوا۔ دریائے نیلم ، اور وادی نیلم اس کے مشرقی طرف ہیں۔ جبکہ وادی کاغان مغرب میں ہے۔ اس پارک کا رقبہ 33،437 ایکڑ ہے۔ اس میں سدا بہار جنگلات، خوبصورت میدان اور اونچے پہاڑ ہیں۔ بل کھاتی ندیاں، برفیلی چٹانیں ، نایاب پرندے و جانور بھی اس پارک کا حصہ ہیں۔ یہ پارک ہمالیہ پہاڑی سلسلہ کا ایک خوبصورت علاقہ بنتا ہے۔  اوسطا بارش ہر سال 1526.7 ملی میٹر ہے۔ سب سے زیادہ بارش ہونے والا مہینہ جولائی ہے ، نومبر میں سب سے کم بارش ہوتی ہے۔ مچھیارہ نیشنل پارک کے نایاب پرندے و جانور     گرے گورال ، کشمیری تیندوا ،  گلہری  ،  سرخ لومڑی، مارخور، برفیلی چیتا، کالا ریچھ ، جنگلی بکری، قصطوری وال...
رشحاتِ نشتر اورمحمد خاں نشترؔ

رشحاتِ نشتر اورمحمد خاں نشترؔ

تبصرے
ڈاکٹرعبدالکریم ’رشحاتِ نشتر‘ بنیادی طور پر مظفرآباد شہر کی تاریخ ہے ۔1947ء کے بعد کی سیاسی ،سماجی ،معاشرتی،اخلاقی او ر اقتصادی زندگی کے بارہ میں نشتر لکھنا چاہتے تھے۔ لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ یہ کتاب ایک بیٹے کا اپنے باپ کو خراج عقیدت ہے جس نے لفظ لفظ ،سطر سطر ،ورق ورق اکٹھا کیا ،سینے سے لگایا اور اسے کتابی شکل میں پیش کر دیا۔ میں نشتر سے نہیں ملا ۔ وہ عشروں پہلے جہانِ فانی سے چلے گئے ۔اس کتاب کے ذریعے’کشمیر ڈائجسٹ‘سے تعارف ہوا جس کے شماروں کی اہمیت وقت کے ساتھ بڑھ گئی ہے ۔ نشتر کا تذکرہ اسلام ،پاکستان اور اردو کا تذکرہ ہے ۔ نشتر کی شاعری ایک نظریے،ایک مقصد کے گرد گھومتی ہے۔ اور انھوں نے صرف اردو کو سینے سے لگایا ۔ ان کی نثر بھی اردو کے گرد گھومتی رہی ۔ان کی نثر میں کتنی جاذبیت ،روانی ،ٹھہراؤ ،رچاؤ ہے اس کا ایک رخ میں آپ کوان کے ان خطوط کی صورت میں کبھی سنا دوں گا جو انھوں نے ڈ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact