Thursday, April 25
Shadow

Tag: قانتہ رابعہ

“لمحوں کی دھول “از رباب عائشہ/تبصرہ : قانتہ رابعہ

“لمحوں کی دھول “از رباب عائشہ/تبصرہ : قانتہ رابعہ

تبصرے
تبصرہ : قانتہ رابعہ "زندگی صرف ایک بار ملتی ہے کسی کے لیے یہ زہر کی مانند ہے اور کسی کے لیے تریاق ،کامیاب ہے وہ جو دوسروں کی زندگی سے سبق سیکھتا ہے ناکامی کا ہو تو بچنے کی کوشش اور قابل رشک ہو،تو اسے اپنانے کی"۔  کسی بھی نامور شخصیت کی داستان حیات بالعموم اس کے مرنے کے بعد لکھی جاتی ہے لکھنے والا جو لکھتا ہے وہ سو فیصد ویسی نہیں ہوتی جو زندگی گزارنے والے نے گزاری۔   انیس بیس کا فرق رہتا بھی ہے لیکن جو داستان حیات لکھنے والے نے خود لکھی وہ ایک فلم کرنے والے کیمرہ کی مانند ہوتی ہے جس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔  میری رائے میں بہترین کتاب وہ ہے جو شروع کریں تو ادھوری چھوڑنا مشکل ہو جائے ۔کتاب ہاتھ سے رکھنا پڑے تو دھیان گیان اسی طرف رہے۔  میرے پاس بھی کسی ناول کے کرداروں سے مزین  ،افسانوں جیسی دلچسپ  اور کہانیوں جیسی سادگی لئے معروف  خاتو...
کتاب : اک سفر جو تمام ہوا /تاثرات :مہوش اسد شیخ

کتاب : اک سفر جو تمام ہوا /تاثرات :مہوش اسد شیخ

آرٹیکل
تاثرات :مہوش اسد شیخپریس فار پیس نام ہے اعتماد کا۔ اس ادارے کی شائع کردہ کتب کی تو میں دیوانی ہوں، عمدہ کاغذ بہترین ڈیزائننگ، طباعت و اشاعت ۔ اس کے علاوہ ان کی شائع کردہ کتب کا مواد بھی معیاری ہوتا ہے۔ "اک سفر جو تمام ہوا" قانتہ رابعہ ایک معروف مصنفہ کی نئی کتاب ہے جو حالیہ ہی پبلش ہوئی ہے۔ قانتہ رابعہ صاحبہ کا نام ہر ماہ بیشتر رسائل و ڈائجسٹ میں دکھائی دیتا ہے، ماشا اللہ اب تک ان کی دو درجن کتب شایع ہو چکی ہیں۔ کئی کتب پر مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ بچپن میں بچوں سے اکثر پوچھا جاتا ہے آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے اگر آج کوئی مجھ سے یہ سوال کرے تو بے اختیار میرے منھ سے نکلے گا ،"قانتہ رابعہ بنوں گی"۔ میں بھی ان کے طرح تسلسل سے اور بہترین لکھنا چاہتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے وہ معاشرے کے ہر فرد کی نفسیات جانتی ہیں۔ سوچ پڑھنے کی ماہر ہیں۔ان کی تحاریر ایسی ہوتی ہیں جیسے ہمیں گھریلو واقعات سنائے جا رہے...
بشری تسنیم کی کتاب “پیغام صبح” پر قانتہ رابعہ کا  تبصرہ

بشری تسنیم کی کتاب “پیغام صبح” پر قانتہ رابعہ کا  تبصرہ

تبصرے
تبصرہ نگار: قانتہ رابعہبشری تسنیم کا نام ہر اہل فکر کے لیے جانا پہچانا ہے۔ اپنی تحریر میں خواہ وہ افسانے ہوں یا کالم، گوشہءتسنیم ہو یا پیغام صبح، ایک واضح سوچ رکھتی ہیں۔ ان کی ہر تحریر کا مقصد رجوع الی اللہ اور معرفت الہی ہوتا ہے۔ زیر نظر کتاب جو ان کے واٹس ایپ کالمز کا مجموعہ ہے جو "پیغام صبح سیریز" کے نام سے واٹس ایپ کے بہت سے گروپس میں شیئر کی جاتی رہی ہے۔۔۔ روزانہ صبح سویرے اپنے رب سے تعلق کی نوعیت اور یاددہانی کی یہ اتنی موثر سیریز تھی کہ شیئر ہونے میں قارئین کے لئے لمحاتی تاخیر بھی گوارہ نہ تھی۔ان کالمز کے تمام موضوعات حساس دل سے لکھے وہ نکات ہیں کہ اگر ایک پر بھی عمل ہو تو زندگی جنت نہ سہی جنت کا راستہ ضرور بن جائے۔۔۔ ان کی تحریر میں اتنی  ادبی چاشنی ہے کہ کئی کئی منٹ ذہن ایک ہی فقرہ میں مشغول رہتا ہے۔۔۔ بار بار پڑھ کر بھی سرور کم نہیں ہوتا، جہاں ادبیت اور مقصد اکٹھے ہو جائیں وہاں ...
شجر ہائے سایہ دار/تحریر: قانتہ رابعہ

شجر ہائے سایہ دار/تحریر: قانتہ رابعہ

شخصیات
قانتہ رابعہاپنے والدین پر ان کے جانے کے بعد لکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے چار لفظ لکھے نہیں جاتے اور انکھیں جل تھل ہوجاتی ہیں۔میرے والدین آپس میں ماموں ،پھوپھو زاد تھے، متقی باعمل اور باذوق گھرانہ جس کا ذریعہ معاش  طب یونانی تھا ،اس  کے ساتھ مطالعہ کی عادت ہر چھوٹے بڑے کو تھی ۔میں نے اپنی زندگی میں،مطالعہ ،خوش مزاجی ،عبادات اور تعلق باللہ میں اپنے  والد سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا ۔حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد میں بہت آگے تھے۔ لمبی داڑھی اور قال اللہ قال رسول کہنے والوں کے نام سے ذہن میں قدرے درشت مزاج،ماتھے پر بل ڈالے اور خشک لوگوں کا تصور پیدا ہوتا ہے ،وہ اس کے بالکل متضاد تھے،بچوں بڑوں میں یکساں مقبول،لطائف کی پٹاری کھلی رکھتے، معمولی سی ہنسنے کی بات پر دل کھول کر ہنستے ،کھانے پینے پہننے اوڑھنے سے زیادہ ماہانہ بجٹ کتب اور رسائل کا ہوتا تھا،مہینے کی پہلی تاریخ سے رسائل و جرائد شروع ہو...
منزل ہے جن کی ستاروں سے آگے ،( از تسنیم جعفری) تبصرہ : قانتہ رابعہ

منزل ہے جن کی ستاروں سے آگے ،( از تسنیم جعفری) تبصرہ : قانتہ رابعہ

تبصرے
تبصرہ : قانتہ رابعہ گوجرہ تاریخ کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جو قوم اپنے ماضی اور تاریخ کو فراموش کر دیتی ہے اس کا حال اس شخص جیسا ہوجاتا ہے جس کی یاداشت کھو جائے ، ماضی میں وہ شخص کتنا ہی بڑا دانشور ،یا اہم کردار رہا ہو محض حافظہ کی رخصتی سے وہ دیوانہ اور پاگل سمجھا جانے لگتا ہے ہر کام میں اس کی رائے لینے والوں کے نزدیک بھی وہ دو کوڑی کا نہیں رہتا ۔ انفرادی سطح پر ہو یا قومی سطح پر ماضی کو یاد رکھنے والے اپنی تاریخ کو یاد رکھنے والے ہمیشہ سرخرو رہتے ہیں-کتاب ،منزل ہے جن کی ستاروں سے آگے ،انہی تابناک ہستیوں کے متعلق ہے جنہوں نے زندگی کے کسی نہ کسی شعبے میں انسانیت کا سر فخر سے بلند کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سب کا تعلق صنف نازک اور پاکستان کی سر زمین سے ہے -اسلام میں علم کی طلب میں خواتین یا مردوں کی تخصیص نہیں ہے یہ بطور انسان سب پر علم کے دروازے کھول کران میں س...
رباب عائشہ کی کتاب سدا بہار چہرے

رباب عائشہ کی کتاب سدا بہار چہرے

تبصرے
رباب عائشہ کی کتاب سدا بہار چہرے اردو ادب میں نادر اضافہ | تبصرہ نگار :قانتہ رابعہ  تبصرہ نگار :قانتہ رابعہ  افسانہ اور کہانی سے کہیں زیادہ چہروں کا مطالعہ دلچسپ ہے ،خواہ دنیا کی بھیڑ میں ملیں یا کتابوں کے صفحات پر ہر چہرہ ایک کہانی تو اب پرانی کہاوت ہوگئی اب یوں کہنا چاہئے ہر چہرہ ،کہانی در کہانی پہلے کہتے تھے اک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ! اب کہنا چاہئیے ہر چہرے پر  ہے دکھ اور سکھ کا سنجوگ لوگ اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ،جن سے معاملہ اچھائی کا ہو انہیں اچھائی کی سند دے دی جاتی ہے اور وہی لوگ جن کے ساتھ برائی سے پیش آتے ہیں تو انہی لوگوں کو برا کہہ دیا جاتا ہے لیکن اللہ نے کچھ لوگوں کے اندر خیر اور بھلائی کا مادہ اتنا زیادہ رکھا ہوتا ہے کہ وہ خلق خدا سے صرف بھلائی کا ہی تعلق رکھتے ہیں ،ان کے اندر موجود بھلائیوں کا پلڑا اتنا غیر معمولی ہوت...
لفظے چند ،برائے حاشیہ خیال  (از نصرت نسیم)/ تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ

لفظے چند ،برائے حاشیہ خیال (از نصرت نسیم)/ تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ

تبصرے
تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ۔ آج کا بہت بڑا اہم اور المیہ یہ ہے کہ کتاب لکھنے والے تو لکھ رہے ہیں کہ ایک قلمکار کے لیے لکھنا ایسا ہی ہے جیسے طعام و کلام اور سانس لینا ۔۔قلم کی حرمت کا خیال رکھنے والوں کا قلم رکنے کے لیے نہیں ہوتا  مگر صد افسوس کہ ڈھیروں سرمایہ لگا کر جب اپنے قیمتی وقت کا کچھ حصہ کتاب لکھنے کے بعد کتاب شائع ہو جاتی ہے  تو کتاب کو ہاتھوں میں لینے والے نہیں ملتے ۔مل بھی جائیں تو باذوق قاری خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔وہ دور گزر گئے جب کتاب کی اشاعت مشکل کام تھا اور اس کی  تشہیر کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے پھر بھی کتاب سے عشق رکھنے والے قاری کو کتاب کی اشاعت کے بارے میں پل پل کی خبر ہوتی تھی اور جب تک کتاب ہاتھوں میں آکر نظروں سے گزر نہ جائے اس کے سیاق و سباق اور چنیدہ حصے اہل ذوق کو نہ سنا دئے جائیں، کتاب پر دو چار لوگوں سے تبصرہ نہ کرلیا جائے ،روح کو تسکین نہیں ملتی تھی۔  آج کے سوش...
تماشائے اہل کرم وقلم- تحریر و تبصرہ : قانتہ رابعہ

تماشائے اہل کرم وقلم- تحریر و تبصرہ : قانتہ رابعہ

تبصرے
تحریر و تبصرہ : قانتہ رابعہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہر بندہ جدی پشتی مسافر ہی ہے۔ دنیا ہے ہی مسافرت کا گھر لیکن اس عارضی سفر کو  دائمی وسیلہ ظفر بنانا ہر بندہ بشر کا کام نہیں ہوتا کچھ لوگ ہمیشہ پا بہ رکاب رہتے ہیں اور کچھ کے لیے سفر انگریزی زبان کا سفر بن جاتا ہے ۔میرے ہاتھ میں اس وقت جو کتاب ہے اس کا نام ،تماشائے اہل کرم ،ہے اور اس کے مصنف محمد ایاز کیانی ہیں۔ جس طرح کسی کے چہرے مہرے کو دیکھ کر بندے کے باطن کے بارے میں بتانا مشکل ہے یہی معاملہ کسی بھی کتاب کے لیے بھی ہو سکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے  ہر مسافر کے سفر کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہےمحض ،،سیروتفریح، کے لیے کوئی کوچہ بہ کوچہ کو بکو نہیں پھرتا خوش قسمتی سے فاضل مصنف ابن بطوطہ کے قبیلے سے ہی ہیں کہ جن کے دربدر جانے کا مقصد صرف اور صرف مختلف دوست احباب کے ساتھ میل ملاقات اور ان کے علاقے میں سیاحت تھی۔ اس حساب سے آج کے افراتفری اور...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact