Saturday, April 20
Shadow

Tag: غزل

غزل / فوزیہ اختر ردا- کولکاتا, انڈیا

غزل / فوزیہ اختر ردا- کولکاتا, انڈیا

شاعری
فوزیہ اختر ردا پھر تسلسل مری سوچوں کا بکھر جائے گاوہ تصور میں مرے ساتھ ہی مر جائے گاہاتھ میں ٹھہرا ہوا لمحہ بکھر جائے گا"وقت کا کیا ہے, گذرتا ہے, گذر جائے گا"جس کی خاطر ہے کیا میں نے سفر صدیوں کاکیا مرے واسطے کچھ پل وہ ٹھہر جائے گاپھر جدائی کے اُسی خوف نے آ گھیرا ہےاب کسی طور بھی اس دل سے نہ ڈر جائے گاماسوا میرے کوئی اور کہاں ہے اس کامجھ سے روٹھا بھی کسی دن تو کدھر جائے گاچند خوشیوں نے ردا دل کو جِلا بخشی ہےرُت جو بدلی تو یہ دل بھی مرا مر جائے گا ...
ڈاکٹر افتخار مغل مرحوم کی ایک غزل

ڈاکٹر افتخار مغل مرحوم کی ایک غزل

شاعری
غزل    ڈاکٹر افتخار مغل جمال گاہِ تغزل کی تاب و تب تری یاد پہ تنگنائے غزل میں سمائے کب تری یاد کسی کھنڈر سے گزرتی ہوا کا نم ترا غم شجر پہ گرتی ہوئی برف کا طرب تری یاد گزرگہوں کو اجڑنے نہیں دیا تو نے کبھی یہاں سے گزرتی تھی تُو اور اب تری یاد بہ فیضِ دردِ محبت میں خوش نسب میں نجیب مرا قبیلہ ترا غم، مرا نسب تری یاد بجز حکایتِ تُو ایں وجود چیزے نیست میں کُل کا کُل ترا قصہ میں سب کا سب تری یاد دریں گمان کدہ کُلُّ مَن عَلَیہَا فَان بس اک چھلاوہ مرا عشق ایک چھب تری یاد ...
ناز مظفر آبادی کی تازہ غزل

ناز مظفر آبادی کی تازہ غزل

شاعری, غزل
ناز مظفر آبادی  زیرِطبع ساتویں شعری مجموعہ"فاصلہ"سے  جو بن مطلب نہیں ملتا کسی سے  ہمیں مطلب نہیں اُس مطلبی سے  اُسے جب تک نہیں دیکھا تھا میں نے  شغف مجھ کو نہیں تھا شاعری سے  رگِ جاں سے بھی جو نزدیک تر تھے اب اُن سے رابطے ہیں واجبی سے  تمہاری بزم سے ہم تنگ آکر چلے جائیں گے اک دن خامشی سے  کبھی یہ بھول کر بھی مت سمجھنا کہ سمجھوتا کریں گے زندگی سے  بہت سے لوگ تائب ہو چکے ہیں  مرے منصف تمہاری منصفی سے  بظاہر اُس کے خط میں کچھ نہیں تھا  وہی دوچار جملے سرسری سے  اُٹھاتا ہے ہمیشہ فائدہ وہ  شرافت سے ہماری سادگی سے  عجب حالات میں نکلے بالآخر  کہ پہلے اُس کے دل پھر نوکری سے ...
زکریا شاذ کی تازہ غزل

زکریا شاذ کی تازہ غزل

شاعری, غزل
غزل زکریا شاذ  ملے ہی جن سے نہ سوزوگداز پڑھتے ہوئے ہم ان سے کیوں نہ کریں احتراز پڑھتے ہوئے کہیں کہیں سے پڑھوں میں کتاب اپنی بھی کہ اپنا بھی نہیں رکھتا لحاظ پڑھتے ہوئے تمام عمر جسے پوجا ہو خدا کی طرح وہ یاد آئے نہ کیسے نماز پڑھتے ہوئے کُھلی کتاب سا تھا جسم کوئی ہاتھوں میں سو کُھلتے جاتے تھے رازوں پہ راز پڑھتے ہوئے کوئی ورق نہیں ایسا جو تربتر نہ ملے یہ کون رویا ہماری بیاض پڑھتے ہوئے دُھنیں نہ خود ہی سر اپنا، لکھیں تو ایسا لکھیں سدا زمانہ کرے جس پہ ناز پڑھتے ہوئے یہ زندگی کسی مکتب سے کم نہیں دیکھی تمام عمر گزاری ہے شاذ پڑھتے ہوئے ...
ڈاکٹر محبو ب کاشمیری کی غزل

ڈاکٹر محبو ب کاشمیری کی غزل

شاعری, غزل
غزل  ڈاکٹر محبوب کاشمیری  موت سے  انگلی چھڑا  کر آئے  ہیں زند کچھ دن ترے  ہمسائے  ہیں بے  زبانی     مٹ      گئی      دیوار    کی  ہم   نئے  نعرے   بنا  کر   لائے  ہیں  باغ     میں   جشنِ  بہاراں  ہے  مگر  پھول   تو   بازار  سے   منگوائے   ہیں  کوزہ ء   دل   کب   کا   خالی   ہو  چکا آنکھ میں  آنسو  کہاں سے آئے  ہیں خود  بنائے  ہیں  یہ مٹی  کے  چراغ  کارخانوں   سے  نہیں   بنوائے   ہیں  سب کے چہروں میں تلاشا ہےتمہیں بےوفا  ،  ہرجائی   تک   کہلائے  ہیں ...
عطاء راٹھور عطار کی غزل

عطاء راٹھور عطار کی غزل

شاعری, غزل
غزل  عطاء راٹھور عطار ہر ایک دکھ سے بڑا دکھ ہے روزگار کا دکھ  یہ روز روز کا صدمہ، یہ بار بار کا دکھ بچھڑ کے ایک سے پٹری پہ لیٹنے والو ہمارےدل میں بھی جھانکو ہے تین چارکادکھ قبا  جو  پھول  کی اتری تو سب فسردہ ہیں  دکھائی کیوں نہیں دیتا  کسی کو خار کا دکھ  شدید دکھ جو رگِ جان پر ہے ناخن زن  دہکتی آگ میں جلتے ہوے چنار کا دکھ وطن میں آگ مسلسل لگی ہے دونوں طرف  ہمارے  دل  میں  سلگتا  ہے آر پار کا دکھ  یہ چاروں سمت سے پتھر جو آ رہے ہیں میاں ہمارا دکھ ہے کہ ہے نخلِ بار دار کا دکھ ...
غزل ۔ ڈاکٹر توقیر گیلانی

غزل ۔ ڈاکٹر توقیر گیلانی

شاعری, غزل
 ڈاکٹر توقیر گیلانی  جنوں ملا ، جنوں سے کچھ نہیں بنا ابھی ہمارے خوں سے کچھ نہیں بنا قدیم چھت جگہ جگہ سے گر گئی تو بیچ کے ستوں سے کچھ نہیں بنا ! پہاڑ ایک ایک کر کے کٹ گئے حسین وادیوں سے کچھ نہیں بنا ہماری نیتوں میں ہی فتور تھا ہمارا آیتوں سے کچھ نہیں بنا وہ بستیوں کو روند کر چلے گئے سفید پرچموں سے کچھ نہیں بنا نہیں نہیں یہ کچھ دنوں کی بات ہے ہمارا کچھ دنوں سے کچھ نہیں بنا تم آؤ گے تو کچھ نہ کچھ بناؤ گے یہاں تو مدتوں سے کچھ نہیں بنا ہمارے حق میں اتنے ہاتھ اٹھ گئے ہمارے منکروں سے کچھ نہیں بنا ...
غزل / فاروق صابر

غزل / فاروق صابر

شاعری, غزل
غزل  فاروق صابر تاریک ہیں حالات ذرا دیکھ کے چلنا ہر آن ہیں خطرات ذرا دیکھ کے چلنا یہ راہِ محبت ہے میاں کیسی مسّرت؟  ہر گام ہیں صدمات ذرا دیکھ کے چلنا اِک شہر خطرناک ہے پھر چاروں طرف سے پڑتے ہیں مضافات ذرا دیکھ کے چلنا اے عشق تُو اس دشت میں تنہا تو نہیں ہے میں بھی ہوں ترے ساتھ ذرا دیکھ کے چلنا تقدیس لبادے میں ہے کردار میں تلبیس دنیا ہے یہ کم ذات ذرا دیکھ کے چلنا نادان مشینوں کو خدا مان رہے ہیں معبود ہیں آلات ذرا دیکھ کے چلنا مجبور ہیں حالات کے مارے ہوۓ مزدور گھر اُن کا ہے فٹ پاتھ ذرا دیکھ کے چلنا وہ جبر مسلسل ہے کہ ہر آنکھ ہے پُرنم اشکوں کی ہے برسات ذرا دیکھ کے چلنا لازم ہے کہ بدلے گا یہ دستور بھی صابر بدلیں گے یہ دن رات ذرا دیکھ کے چلنا ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact