غزل / فوزیہ اختر ردا- کولکاتا, انڈیا
فوزیہ اختر ردا
پھر تسلسل مری سوچوں کا بکھر جائے گاوہ تصور میں مرے ساتھ ہی مر جائے گاہاتھ میں ٹھہرا ہوا لمحہ بکھر جائے گا"وقت کا کیا ہے, گذرتا ہے, گذر جائے گا"جس کی خاطر ہے کیا میں نے سفر صدیوں کاکیا مرے واسطے کچھ پل وہ ٹھہر جائے گاپھر جدائی کے اُسی خوف نے آ گھیرا ہےاب کسی طور بھی اس دل سے نہ ڈر جائے گاماسوا میرے کوئی اور کہاں ہے اس کامجھ سے روٹھا بھی کسی دن تو کدھر جائے گاچند خوشیوں نے ردا دل کو جِلا بخشی ہےرُت جو بدلی تو یہ دل بھی مرا مر جائے گا
...