Tuesday, April 16
Shadow

Tag: سیاست

برادری ازم کا زہر

برادری ازم کا زہر

آرٹیکل
شوکت باغی ایڈوکیٹ اللّہ تعالٰی نے انسان کو مُختلف قبائل اور گروہ کی صورت میں میں ایک مخصوص ترتیب اور نظم ونسق سے پیدا کیا۔ جس کا مقصد یقینًا پہچان کی حد تک تھا، جیسے قُرآن حکیم میں بیان ہُوا۔ لیکن ساتھ ہی اس بنیاد پر فخر اور تفریق (برادری ازم) سے جگہ جگہ سختی سے منع اور اس کو ردّ کیا گیا۔ اور  اللّہ رب العزت نے کامیابی کا پیمانہ تقوٰی قرار دِیا۔  اس کالے ناگ نے بہت سے با صلاحیت لوگوں کو صرف اس لیے نگل لیا کہ اُن کا تعلق مُخالف سیاسی پارٹی ، تعداد میں کم افراد کے قبیلہ  یا کم بااثر افراد کے قبیلہ سے ہوتا ہے۔ اور بہت سی جگہوں پر اپنی برادری ،قبیلہ یا اپنے مخصوص زہنی غلاموں کو نوازنے کے لیے میرٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہُوۓ ایسے ایسے نا اہل لوگوں کو  معاشرے پر سانپ کی صورت میں مسلط کر دیا جاتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اسی سلسلہ کی اگلی شکل حزب اقتدار لوگوں کی طرف سےکبھی ...
مسئلہ کشمیر اور ہمارے دانشور ادیب

مسئلہ کشمیر اور ہمارے دانشور ادیب

ادیب, دانشور, شخصیات
  پروفیسر فتح محمد ملک صاحب طرز انشاءپرداز اشفاق احمد کے ایک افسانے کی مرکزی کردار مظلوم کشمیری لڑکی شازیہ اُردو کے نامور ادیبوں اور شاعروں کے پاس یکے بعد دیگرے جاتی ہے اور ان میں سے ہر ایک کی خدمت میں کشمیری مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ پیش کرتی ہے ۔ مگر سارے کے سارے ادیب کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کے پاس اپنا اپنا بہانہ ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک کوئی کہتا ہے کہ “میری لائن انسان دوستی ہے سیاست نہیں”کوئی کہتا ہے کہ “یہ میری فیلڈ نہیں ہے میں گرامر،عروض اور ساختیات کا سٹوڈنٹ ہوں”۔یہ لڑکی ستیاجیت رائے اور گلزار جیسے فلم سازوں کے پاس بھی کشمیریوں کی مظلومیت کی فریاد لے کر جاتی ہے۔ مگر یہ لوگ بھی اس کی بات سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔بالآخر یہ لڑکی افسانے کے واحد متکلم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ...
اصلی چہرہ

اصلی چہرہ

تصویر کہانی
تحریر: راجہ ندیم سرور  سیاست اور جمہوریت کے نام پر اس ملک میں کیا کیا ہوتا رہا۔ اگرچہ سب لوگ باخبر تھے مگر زبان سب نے سی رکھی تھی صرف اس لیے کہ کہیں وہ بھی نشانہ نہ بن جائیں۔ کہیں تعلقات خراب نہ ہو جائیں۔ کہیں مل کر کھانے کا یہ قصہ تمام نہ ہو جائے۔ یہ تباہی ٩٠ کی دہائی سے پہلے ہرگز نہ تھی۔ نوے کی دہائی کے ساتھ شروع ہونے والی قتل و غارت۔ غنڈہ گردی۔ بھتہ خوری۔ رشوت ستانی۔ اقربا پروری۔ منی لانڈرنگ اور سفارش کلچر نے سب کچھ یکسر بدل کر رکھ دیا۔ دنیا اکیسوی صدی میں جب داخل ہو رہی تھی تو ایک بدلی ہوئی دنیا۔ تعلیم و تربیت۔ سائنس و ٹیکنالوجی۔ علوم و فنون جبکہ ہم اوپر بیان ہونے والی ہولناکیوں کو لے کر داخل ہوئے۔ چنانچہ دنیا نے ترقی کی جدید خطوط پر اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگی استوار کی۔ چاند پر کمندیں ڈالیں۔ طب اور سائنس میں نئی نئی ایجادات کیں اور پوری دنیا کے انسانوں کی زندگی کو ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact