Friday, April 19
Shadow

Tag: سری نگر

احمد شمیم۔ شاعر – سری نگر – راولپنڈی

احمد شمیم۔ شاعر – سری نگر – راولپنڈی

رائٹرز
احمد شمیم‎احمد شمیم 1929 میں سرینگر میں پیدا ہوۓ۔میڑک کرنے کے بعد ایس پی کالج سرینگر میں داخلہ لیا اور کالج کے مباحثوں میں حصہ لینے لگے اور ساتھ ہی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کرنے لگے۔1947  میں آپ ایف۔اے کے طالب علم تھے جب تحریک آزادی عروج پر تھی،کئ بار سیاسی سرگرمیوں کے دوران ڈوگرہ فوج اور پولیس سے تشدد کا سامنا کیا -ایک دفعہ گرفتار کر کے تھانہ کوٹھی باغ میں بند کر دیا گیا۔احمد شمیم 1947 میں آزاد کشمیر آگۓ اور آزاد کشمیر ریڈیو تراڑ کھل میں کام کرتے رہے -وہاں سے محکمہ اطلاعات آزاد کشمیر میں ڈپٹی ڈا ئر یکٹر اور پھر ڈائریکٹر اطلاعات کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے -وہ ہفت روزہ آزاد کشمیر کے ایڈیٹر بھی رہے۔احمد شمیم کشمیری،فارسی،اردو،پنجابی کے علاوہ انگریزی زبان پر کامل دسترس رکھتے تھے۔انہوں نے انگریزی اور اردو میں کشمیر پر سینکڑوں مضامین تحریر کیے اور برسوں تک مظفرآباد میں مقیم رہے۔ان کے...
ڈاکٹر ترنم ریا ض۔ افسانہ نگار ۔ ناول نگار – شاعرہ – سری نگر

ڈاکٹر ترنم ریا ض۔ افسانہ نگار ۔ ناول نگار – شاعرہ – سری نگر

Writers, رائٹرز
ڈاکٹر ترنم ریا ض ڈاکٹر ترنم ریا ض کا اصلی نام فریدہ ترنم تھا آپ 9 اگست 1963 کو سرینگر، کشمیر میں پیدا ہوئیں ۔ابتدائی تعلیم کرا نگر سرینگر میں ہی حاصل کی. آپ نے اردو اور ایجوکیشن میں ایم اے کرنے کے بعد ایجوکیشن میں ہی پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی. آپ درس و تدریس، تحقیق اور برقی میڈیا سے وابستہ رہیں.  اردو ادب میں ترنم ریاض نے  ایک افسانہ نگار، ناول نگار،شاعرہ ،تبصرہ نگار،محقق ونقاد کی حیثیت سے نمایاں مقام حاصل کیا. ان کی تصانیف اعلیٰ ادبی معیار کی حامل ہیں. ترنم ریاض ایک غیر معمولی صلاحیت کی افسانہ نگارہیں. ان کے افسانوں میں معاشرتی شعور کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بصیرت اور متصوفانہ رنگ کی جھلک بھی ہے. ترنم ریاض کے یہاں متنوع زندگی کا گہرا تجربہ،فطرت انسانی کا شعور اور اظہار کی بے پناہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ تاریخ ، تخیل اور معاصر زندگی سے لپٹی ہوئی پیچیدہ حقیقت کو بیان کرنے کے لئے نئے نئے ف...
وادیٔ گل پوش مقبوضہ کشمیر کا ایک نایاب سفر۔ ڈاکٹرظفرحسین ظفر

وادیٔ گل پوش مقبوضہ کشمیر کا ایک نایاب سفر۔ ڈاکٹرظفرحسین ظفر

آرٹیکل, فطرت
ڈاکٹرظفرحسین ظفر ایک  سیانے کا قول ہے،رواں، ہر دم جواں زندگی کے لیے سفر شرط ہے. اور یہ سفر مثل جنت کشمیر کا ہو تو ’’وسیلہ ظفر‘‘ بن جاتا ہے۔ خوابوں اور خیالوں میں تو یہ سفر گزری تین دہائیوں میں جاری رہا، اکتوبر ۲۰۰۹ء میں آخر انہیں تعبیر مل گئی۔ ۸ اکتوبر کی صبح صادق سے ۱۶؍ اکتوبر کی صبح کاذب تک یہ سفر مکمل ہوا۔ کہتے ہیں بہت دُور، برف پوش پہاڑوں کے پار، سطح سمندر سے ساڑھے پانچ ہزار فٹ بلندی پر کبھی ایک جھیل ہوا کرتی تھی۔ چوراسی میل لمبی اور پچیس میل چوڑی اس جھیل کا نام ’’ستی سر‘‘ تھا۔ اس کا منبع پیر پنجال اور دوسرے پہاڑوں سے پگھلتی ہوئی ٹھنڈی میٹھی، صاف شفاف برف تھی یا بہتے جھرنے اور ابلتے چشمے۔ پیاری سی اس جھیل پہ ایک دیو، جلودبھو قابض تھا۔ گہرے نیلگوں پانیوں کا یہ حکمران آدم خور تھا۔ نسل انسانی اس کے خوف سے جھیل کے قریب جانے سے خوف زدہ رہی۔ پھر کہیں سے ’’کشپ رشی‘‘ آیا۔ م...
کشمیر: ملّی اتحاد کا خون

کشمیر: ملّی اتحاد کا خون

آرٹیکل, تقسیم کشمیر
مقابل تھا شیشے کا سنگ ِ گراں ش  م  احمد   شہر خاص سری نگر کی جامع مسجد کے میدان میں مسلم کانفرنس کا سالانہ سہ روزہ جلسہ مئی ۱۹۴۴کے وسط میں منعقد ہوا۔ جلسے میں محمد علی جناح کی ایک تاریخی تقریر ہوئی۔ اتفاق سےیہ سری نگر میں اُن کی آخری تقریر بھی تھی۔ فاضل مقرر کا خطاب صاف گوئی اور تلخ نوائی کا امتزاج تھا ۔ قائد اعظم اصلاً شیخ صاحب کو منانے اور اپنانے کے لئے اپنی تمام مصروفیات تر چھوڑ کر ڈھائی ماہ ( شیخ صاحب کے مطابق ڈیڑھ ماہ) تک کشمیر میں قیام پذیر رہے ۔ قائد دل سے چاہتے تھےکہ اُن کی اگوائی میں نیشنل کانفرنس کے رُوح رواں کی مسلم کانفرنس کے ساتھ سینہ صفائی اور مفاہمت بحسن وخو بی انجام پائے۔ا س کے لئے ملاقاتیں کا اہتمام کیا ، تبادلہ  ٔ آرائی کی مجلسیں ہوئیں، دلائل اور مباحث کے انبار لگ گئے مگر شیخ جی اپنے موقف میں ذرہ برابر تبدیلی کرنے یا ا س میں کوئی لچک لانے پر آمادہ نہ ہوئے ۔ ...
چار بوتل خون

چار بوتل خون

آرٹیکل, افسانے
صغیر قمر  شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔بارش اور دھند کی وجہ سے ماحول جلد تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔ سری نگر کی سڑکوں پر حسب معمول ویرانی نظر آ رہی ہے۔ اکا دکا گاڑی یا رکشا گزرنے سے خاموشی ٹوٹ جاتی ہے۔ غلام قادر نے ورکشاپ کا دروازہ بڑی بے دلی سے بند کیا۔ اس نے اپنی پھٹی پرانی فیرن کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دن بھر کی کمائی جو اسے ورکشاپ کے مالک نے دی تھی جیب میں پڑی تھی۔ غلام قادر نے حقارت سے کندھے اچکائے‘ جیسے اسے یہ چند روپے محنت کے بدلے نہیں بھیک میں دیے گئے ہوں۔”آج کل تو اتنی بھیک بھی کوئی نہیں دیتا۔“ اس نے دل ہی دل میں سوچا اور بیساکھی اٹھا کر چل پڑا۔اس کی بیساکھی کی آواز نے ماحول کے سکتے کو پھر توڑ دیا۔ آج نہ جانے کیوں اس کے دل میں یہ خیال در آیا تھا کہ وہ لال چوک سے ہو کر گزرے گا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ جب سے کشمیر میں تحریک نے زور پکڑا ہے‘ لال چوک مں موت کا سناٹا رہتا ہے...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact