آٹھ مارچ کا نوحہ، ربیعہ فاطمہ بخاری
تحریر : ربیعہ فاطمہ بخاری
آٹھ مارچ کی آمد آمد ہے۔ مارچ اور اپریل کبھی بہار کا استعارہ ہوا کرتے تھے، پھولی ہوئی سرسوں کے سنہرے کھیتوں سے مُزیّن، رنگارنگ پھولوں پہ اُمڈتی بہار اور اُن کی خوشبو کا جادو فضا میں ہر سو پھیلا ہوا، بادِ صبا اور نسیمِ مُشکبار سے آراستہ، فضا بسنتی چولا اوڑھے ہوئے لہکتی اور مہکتی محسوس ہوتی، شعراء کے تخیّل کو ان رنگین نظّاروں سے مہمیز پہنچتی اور خوبصورت کلام تخلیق کئے جاتے، نثر نگاروں کے مزاج بہار کی خوشبو سے بوجھل ہو کے لطیف ترین تحاریر صفحہء قرطاس پہ بکھیرنے کا سبب بنتے، ہر سو بادِ بہاری سُبک خرامی سے بہتی محسوس ہوتی۔ لیکن۔۔۔۔!!
پھر یوں ہوا کہ وطنِ عزیز میں ایک نئی لیکن مسموم ہوا چل پڑی، جس نے بہار کی خوشبو، اُس کا اُجلا پن، اُسکی شگُفتگی، اُس کی نرمی، اُس کی ملائمت، اُس کی رنگینی سب کُچھ نگل لیا، باقی بچا تو ازل سے ایک دوسرے کے دُکھ درد کی ساتھی، ایک دوسرے ...