Tuesday, April 16
Shadow

Tag: خواب

زندگی خواہشات اور خواب تحریر:  مریم جاوید چغتائی

زندگی خواہشات اور خواب تحریر: مریم جاوید چغتائی

آرٹیکل
تحریر:  مریم جاوید چغتائیکیا زندگی خواہشات کا نام ہے؟  ہاں شاید خواہشیں پوری ہونا نہ ہونا الگ بات ہے مگر اک چھوٹی سی زندگی ہوتی انسان کے پاس اس میں خواہشات بھی ہونی چاہئے اور  خواب بھی دیکھنے چاہئے ایسی ہزاروں خواہشات ہزاروں خواب ہوتے انسان کی زندگی میں کہ جنہیں وہ پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا کچھ پوری ہو جاتیں اور کچھ ادھوری رہ جاتیں خواہشات کے ہونے پروان چڑھنے اور پھر پورے کرنے کا سفر بہت مشکل ہوتا بعض افراد ہار مان جاتے اور اپنے خوابوں اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ دیتے مگر کچھ باہمت لوگ جنہیں کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہوتا خود کو منوانے کے لیے جی جان لگا دیتے آخر دم تک کوشش کرتے اور کامیابی حاصل کر لیتےرب عزوجلﷻ نے یہی قانون بنایا ہے کہ جو وہ اپنے بندے کے حق میں بہتر سمجھتا ہے وہ اُسے دیتا ہے اور جو اُس کے حق میں بہتر نہیں ہوتا وہ جی جان لگا دے مگر حاصل نہیں کر پاتا انسان کی زندگی خواہشوں او...
بار وفا—تحریر : پروفیسر رضوانہ انجم

بار وفا—تحریر : پروفیسر رضوانہ انجم

افسانے, کہانی
پروفیسررضوانہ انجم مہرو نے زبیر احمد کی بریل پر پھسلتی سانولی انگلیوں کو دلچسپی سے دیکھا۔وہ تیس نابینا بچوں کو لائیبریری کے پیریڈ میں بریل سے کہانی پڑھ کر سنا رہا تھا۔درمیانے سائز کے کمرے میں اسکی مردانہ آواز کا اتار چڑھاؤ،جملوں کی ادائیگی،تلفظ ایک چھوٹے سے جادو کی طرح بچوں کو متحئیر کر رہا تھا۔تیس بے نور آنکھوں والے بچوں کو جنکا نہ تصور تھا نہ تخئیل۔۔۔پرستان کی سیر کرانا بہت مشکل کام تھا۔وہ آنکھیں جنہوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھے تھے انھیں سبز مخملیں گھاس،نیلے پانیوں والی جھیلوں،ہیرے جواہرات کے پھلوں سے لدے درختوں،درختوں پر کوکتے خوش رنگ پرندوں اور آسمان سے چھم چھم اترتی گلابی،سنہری،کاسنی پروں اور لباس والی پریوں کی لفظی تصویریں دکھانا بے حد مشکل تھا۔۔۔ لیکن مہرو کو لگا کہ درمیانے قد کاٹھ کے مالک اور لگ بھگ چالیس سالہ زبیر احمد کو اس فن میں کمال حاصل تھا۔۔۔۔ شاید وہ کمرے کے درو...
سوچ میں ڈوبے نین تمہارے

سوچ میں ڈوبے نین تمہارے

شاعری, غزل
write your article here فاروق اسیر غزل آنکھ دوارے خواب ستارے اچھے لگتے ہیں سوچ میں ڈوبے نین تمہارے اچھے لگتے ہیں پیار میں اک دوجے کی بپتا من میں کُھبتی ہے باہم ہوں جو سوچ کے دھارے اچھے لگتے ہیں من مندر میں میرے بھی اک دیوی رہتی ہے سوچ کے اُس کو منظر سارے اچھے لگتے ہیں تیرے سنگ جن رستوں پر ہم گھوما کرتے تھے ابھی تلک وہ رستے سارے اچھے لگتے ہیں تیری یادیں وابستہ فاروق اُ ن راہوں سے جب بھی جاؤں جھیل کنارے اچھے لگتے ہیں
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact