Saturday, April 27
Shadow

Tag: تبصرہ

رباب عائشہ کی کتاب سدا بہار چہرے

رباب عائشہ کی کتاب سدا بہار چہرے

تبصرے
رباب عائشہ کی کتاب سدا بہار چہرے اردو ادب میں نادر اضافہ | تبصرہ نگار :قانتہ رابعہ  تبصرہ نگار :قانتہ رابعہ  افسانہ اور کہانی سے کہیں زیادہ چہروں کا مطالعہ دلچسپ ہے ،خواہ دنیا کی بھیڑ میں ملیں یا کتابوں کے صفحات پر ہر چہرہ ایک کہانی تو اب پرانی کہاوت ہوگئی اب یوں کہنا چاہئے ہر چہرہ ،کہانی در کہانی پہلے کہتے تھے اک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ! اب کہنا چاہئیے ہر چہرے پر  ہے دکھ اور سکھ کا سنجوگ لوگ اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی ،جن سے معاملہ اچھائی کا ہو انہیں اچھائی کی سند دے دی جاتی ہے اور وہی لوگ جن کے ساتھ برائی سے پیش آتے ہیں تو انہی لوگوں کو برا کہہ دیا جاتا ہے لیکن اللہ نے کچھ لوگوں کے اندر خیر اور بھلائی کا مادہ اتنا زیادہ رکھا ہوتا ہے کہ وہ خلق خدا سے صرف بھلائی کا ہی تعلق رکھتے ہیں ،ان کے اندر موجود بھلائیوں کا پلڑا اتنا غیر معمولی ہوت...
نصرت نسیم کی کتاب حاشیہ خیال پر ایک نظر/ تبصرہ نگار: پروفیسر محمد اکبر خان

نصرت نسیم کی کتاب حاشیہ خیال پر ایک نظر/ تبصرہ نگار: پروفیسر محمد اکبر خان

تبصرے
کتاب :    حاشیہ خیال تبصرہ :   محمد اکبر خانمصنفہ:    نصرت نسیمموضوع :   تبصرہ کتبقیمت :       400 روپےصفحات:    144 ناشر: شعیب سنز بک پبلشرز سوات (پاکستان)تقسیم کار:  پریس فار پیس فاونڈیشنتبصرہ نویسی ایک مستقل فن ہے.یہ حقیقت تو ہم سب جانتے ہیں کہ فی زمانہ کتب بینی تقریباً آخری سانسیں لے رہی ہے ایسے میں وہ لوگ جو نہ صرف کتاب پڑھتے ہیں بلکہ اس پر تبصرہ بھی لکھتے ہیں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔کتاب پر تبصرہ لکھنا یا اس کے بارے میں اپنے تاثرات کو ضبط تحریر میں لانا ایک مشکل معرکہ سر کرنے سے کسی صورت کم نہیں۔.گویم مشکل وگرنہ گویم مشکلوالا معاملہ ہے۔ بعض مقامات پر میری نظر سے گزرا ہے کہ تبصرہ نگاری بھی ایک قسم کا تنقیدی عمل ہے البتہ میری دانست میں یہ بات  کلی طور پر درست نہیں بلکہ میری ناقص رائے ہے کہ تبصرہ...
لفظے چند ،برائے حاشیہ خیال  (از نصرت نسیم)/ تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ

لفظے چند ،برائے حاشیہ خیال (از نصرت نسیم)/ تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ

تبصرے
تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ۔ آج کا بہت بڑا اہم اور المیہ یہ ہے کہ کتاب لکھنے والے تو لکھ رہے ہیں کہ ایک قلمکار کے لیے لکھنا ایسا ہی ہے جیسے طعام و کلام اور سانس لینا ۔۔قلم کی حرمت کا خیال رکھنے والوں کا قلم رکنے کے لیے نہیں ہوتا  مگر صد افسوس کہ ڈھیروں سرمایہ لگا کر جب اپنے قیمتی وقت کا کچھ حصہ کتاب لکھنے کے بعد کتاب شائع ہو جاتی ہے  تو کتاب کو ہاتھوں میں لینے والے نہیں ملتے ۔مل بھی جائیں تو باذوق قاری خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔وہ دور گزر گئے جب کتاب کی اشاعت مشکل کام تھا اور اس کی  تشہیر کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے پھر بھی کتاب سے عشق رکھنے والے قاری کو کتاب کی اشاعت کے بارے میں پل پل کی خبر ہوتی تھی اور جب تک کتاب ہاتھوں میں آکر نظروں سے گزر نہ جائے اس کے سیاق و سباق اور چنیدہ حصے اہل ذوق کو نہ سنا دئے جائیں، کتاب پر دو چار لوگوں سے تبصرہ نہ کرلیا جائے ،روح کو تسکین نہیں ملتی تھی۔  آج کے سوش...
امانت علی کے سفرنامہ انجانی راہوں کا مسافر پر ثناء ادریس چغتائی کا تبصرہ

امانت علی کے سفرنامہ انجانی راہوں کا مسافر پر ثناء ادریس چغتائی کا تبصرہ

تبصرے
تبصرہ نگار : ثناء ادریس چغتائی ۔ کراچیکتاب کا نام : انجانی راہوں کا مسافرمصنف : امانت علیصنف : سفر نامہناشر : پریس فار پیس فاؤنڈیشن ( برطانیہ)قیمت : 600 روپے ( پاکستانی قارئین کے لئے)  پانچ پاؤنڈ ( انٹرنیشنل قارئین کے لئے)تعارفِ مصنف :امانت علی صاحب کا تعلق ریاست جموں و کشمیر کے ایک خوبصورت گاؤں سے ہے ۔ جامعہ کشمیر سے انگریزی میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے اور پھر 2012 میں قسمت انہیں سرزمینِ حجاز لے آئی ۔ جہاں وہ المجمعہ یونیورسٹی ریاض میں بطور انگریزی لیکچرار تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ وہ اس شعبے سے بارہ سال سے وابستہ ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ قلم قرطاس سے ان کی گہری وابستگی ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔امانت علی صاحب ان لوگوں میں سے ہے جنہیں کچھ پانے ، کھوجنے اور نئی منزلیں تلاشنے کی جستجو ہے ۔ ان کا یہی وصف انہیں نئی راہوں کا مسافر بناتا ہے ۔ علا...
ٹہاکیاں نے پُھل، شکیل اعوان کی کتاب پر ممتاز غزنی کا تبصرہ

ٹہاکیاں نے پُھل، شکیل اعوان کی کتاب پر ممتاز غزنی کا تبصرہ

تبصرے
ٹہاکیاں نے پُھل ہماری طرف پہاڑی علاقوں میں چڑھائی والے پیدل راستے کو ٹہکی کہا جاتا ہے اورچڑھائی چڑھنے کو "ٹہکی چھکنا" کہتے ہیں۔اور ٹہاکہ ایسی ڈھلوان یا پہاڑ کو کہتے ہیں جہاں سے گرنے کے امکانات زیادہ ہوں۔ان ٹہاکوں پر گھاس بھی ہوتی ہے۔کہیں کہیں پھول بھی ہوتے ہیں۔ درخت اور جڑی بوٹیاں بھی ہوتی ہیں اور کچھ ٹہاکے بالکل خشک بھی ہوتے ہیں۔"ٹہاکیاں نے پُھل" ایک شعری مجموعہ ہے جس کے مصنف شکیل اعوان صاحب ہیں۔شکیل اعوان صاحب کو آپ سب جانتے ہی ہوں گے وہ سریلی آواز اور گائیگی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ وہ مشہور فوک گلوگار ہونے کے ساتھ ساتھ پہاڑی اور اردو زبان کے بہترین شاعر بھی واقع ہوئے ہیں۔ان کا یہ شعری مجموعہ پہاڑی ہندکو لہجے میں لکھی گئی غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے جس میں انھوں نے مادری زبان کے ٹھیٹھ الفاظ،محاورات،علاقائی مثالوں کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ:-روئی روئی ...
“عظیم ہمالیہ کے حضور” مصنّف : جاوید خان

“عظیم ہمالیہ کے حضور” مصنّف : جاوید خان

تبصرے
تبصرہ کتاب و تعارف مصنّف : پروفیسر محمد ایاز کیانی جاوید خان سے میرا کافی دیرینہ تعلق ہے ۔ مگر اس سے قبل یہ ملاقاتیں بے ترتیب تھیں ۔ ان میں قدرے باقاعدگی 2015 کے بعد آئی ۔ جب میرا اسلامیہ کالج کھڑک آنا جانا شروع ہوا۔ جہاں میری بیٹی زیر تعلیم تھی۔ آج سے تین سال قبل پاک چائنا فرینڈشپ  سینٹر اسلام آباد میں کتاب میلہ شروع ہوا تو جاوید خان کا فون آیا کہ اس بک فئیر میں چلنا چاہیے۔ ان کی تحریک پر میرا بھی پروگرام بن گیا ۔جاوید اسوقت ریڈفانڈیشن کالج میں پڑھاتے تھے۔ پروفیسر محمد ایاز کیانی کتابوں کی خریداری کے بعد جب ہم ایکسپوسینٹرسے باہر آئےتو جاوید خان کے ہاتھ میں کتابوں کے دوبھاری بھرکم کتابوں کے شاپرتھے۔ راستے میں زیادہ تفصیل سے بات چیت کاموقع ملا۔ جاوید نے بتایا کہ اسے مطالعےکا بہت شوق ہے۔ مگر وسائل ہمیشہ آڑے آتے ہیں۔ اس دوران یہ دلچسپ اور حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ جا...

تہذیب آیا لیکن تہذیب نہیں آئی

تبصرے
حکومت آزاد کشمیر کے ادارے  کشمیر اکیڈمی کے ادبی مجلے “ تہذیب “ کے بارے میں  بے باک تبصرہ  تبصرہ نگار بشیر مراد   کوئی بھی نام ہو بہت سوچ سمجھ کے رکھنا چاہےاگر بنا سوچےرکھ  ہی لیا جائے تو پھر لاج  بھی رکھنی چاہے فرض کیجیے کے کسی لاغربندے کانام رستم خان ہے تو اس پر سہراب خان نامی بندے کو ڈھونڈڈھانڈ کر پچھاڑنا فرض ہو جاتاہے۔ یہ الگ بات کہ فی زمانہ فرض ادا نہ کرنا بھی ہر  عاقل و بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ بات خواہ  مخواہ دھینگا مشتی کی جانب چل پڑی ہے پس ہم پر بھی فرض ہےکہ آمدم بر سر مطلب کا چلن اختیار کریں۔ ابھی آج ہی کلچرل اکیڈیمی کا رسالہ "تہذیب "بصورت ہدیہ شریف بذریعہ ڈاک شریف موصول ہوا۔پڑھ کر دکھ ہوا کہ ایک کلچرل ادارے کوابھی تک تہذیب  شریف نہیں آئی ۔ یوں تو تہذیب نامی یہ عمر رسیدہ جریدہ برس ہا برس سے  اسی بد تہذیبی اور بے ترتیبی  سے شائع ہونے کی سعادت حاصل کر رہاہے لیکن اس ش...
لینڈ اسکیپ آف کشمیر پر تبصرہ

لینڈ اسکیپ آف کشمیر پر تبصرہ

تبصرے
کتاب کا نام : لینڈ اسکیپ آف کشمیر:فوٹو گرافک مونو لاگ  مؤ لف : محمد ریحان خان// تبصرہ نگار :: ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی مناظر قدرت کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کا ہنر دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ مشکل اور فنی مہارت لیے ہوئے ہے۔ اس کے لیے اس کام میں دلچسپی بنیادی شرط ہے۔ قلم کارحسین مناظر کو دیکھ کر انہیں تحریر میں اس طرح پیش کرتا ہے کہ پڑھنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ از خود ان مناظر کے سامنے ہے اور ان کا نظارہ کر رہا ہے، جب کہ کیمرے کی آنکھ سے قدرت کے خوبصورت وخوب رُو اورحسین مناظرِ قدرت کو محفوظ کرنے والا پورٹریٹ فوٹو گرافر ، تصویر نگار اپنی تخلیق سے کوئی بھی خاص پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے ۔ وہ ایک باذوق اور حساس جذبات لیے ہوئے ہوتا ہے ، اُسے قدرت کے حسین اور خوبصورت منا ظر سے عشق ہوتا ہے ،یہ مناظر گویا اس کے محبوب ہوتے ہیں ، وہ کائنات کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھتا ہے اوراپنے ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact