Friday, April 19
Shadow

Tag: تبصرہ کتاب

احمد رضا انصاری چھوٹی عمر  اور بڑا کام/تبصرہ نگار : قانتہ رابعہ

احمد رضا انصاری چھوٹی عمر  اور بڑا کام/تبصرہ نگار : قانتہ رابعہ

تبصرے
قانتہ رابعہسوشل میڈیا پر بسا اوقات ایسی چیزوں کی اتنی زیادہ تشہیر کی گئی ہوتی ہے کہ جب تک وہ ہاتھ میں نہ آجائیں قرار نہیں اتا لیکن یہ بے قرار اس وقت پچھتاوے میں بدل جاتا ہے جب اس چیز کو دیکھ نہ لیا جائے کتب ہوں تو ان کا مطالعہ نہ کر لیا جائے۔ان کتابوں کے چند صفحات کے مطالعہ سے ہی اونچی دکان پھیکا پکوان جیسے محاورے ذہن میں دھمال ڈالتے ہیں ایسی کتب دیکھنے کیا سونگھنے  کے قابل بھی نہیں ہوتیںلیکن اسی سوشل میڈیا پر ایسی چیزوں کا بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ دسترس میں ہوتی ہیں تو حیرت اور رشک کے ملے جلے جذبات سے دل و دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ اگر یہ کتاب میرے مطالعے میں نہ ہوتی تو میں اس اس عمدہ کتاب سے لاعلم رہتی اور روح کو پیاسا ہی رہنے دیتی۔جی احمد رضا انصاری جسے میں نے اس سے قبل نہیں پڑھا تھالیکن پریس فار پیس اور محترم بھائی پروفیسر ظفر اقبال صاحب کی آدب دوستی کے طفیل نادر کتب کے نسخے موصول ہ...
نصرت نسیم کی  کتاب  “بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں”/ تبصرہ: پروفیسر خالدہ پروین

نصرت نسیم کی  کتاب  “بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں”/ تبصرہ: پروفیسر خالدہ پروین

تبصرے
کتاب کا نام ۔۔۔۔۔ بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیںصنفِ سخن ۔۔۔۔۔ خود نوشتمصنفہ ۔۔۔۔۔۔ نصرت نسیممبصرہ ۔۔۔۔۔۔ خالدہ پروینآپ بیتی یا خود نوشت ایک ایسی صنف ہے جس میں اپنی زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے مصنف اپنی ترجیحات اور لگاؤ کے مطابق سوچ وفکر ، عقائد ، تعلقات ، تجربات ، واقعات ، تہذیبی رنگ اور سیاسی فضا کو محفوظ کر لیتا ہے  یہی وجہ ہے کہ "جوش ملیح آبادی" نے "یادوں کی بارات" میں مذہبی عقائد ، روایات اور اپنے ذاتی تعلقات کو انتہائی بے باکی سے پیش کیا ، "شورش کاشمیری" نے "پسِ دیوارِ زنداں" میں اپنے عہد کا سیاسی ماحول ، قیدوبند کا زمانہ اور ظالم سامراج کے ظلم وستم محفوظ کر دیے ، "قدرت اللّٰہ شہاب" نے "شہاب نامہ" میں اپنی ذاتی زندگی ، تحریک آزادی کی فضا ، بیوروکریسی کے پلٹے ، آمریت کی کھینچا تانی کے ساتھ ساتھ روحانی رنگ کو خود نوشت کا حصہ بنا دیا ، "ممتاز مفتی" نے "علی پور کا ایلی" میں ہر چیز کو افسان...
لفظے چند ،برائے حاشیہ خیال  (از نصرت نسیم)/ تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ

لفظے چند ،برائے حاشیہ خیال (از نصرت نسیم)/ تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ

تبصرے
تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ۔ آج کا بہت بڑا اہم اور المیہ یہ ہے کہ کتاب لکھنے والے تو لکھ رہے ہیں کہ ایک قلمکار کے لیے لکھنا ایسا ہی ہے جیسے طعام و کلام اور سانس لینا ۔۔قلم کی حرمت کا خیال رکھنے والوں کا قلم رکنے کے لیے نہیں ہوتا  مگر صد افسوس کہ ڈھیروں سرمایہ لگا کر جب اپنے قیمتی وقت کا کچھ حصہ کتاب لکھنے کے بعد کتاب شائع ہو جاتی ہے  تو کتاب کو ہاتھوں میں لینے والے نہیں ملتے ۔مل بھی جائیں تو باذوق قاری خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔وہ دور گزر گئے جب کتاب کی اشاعت مشکل کام تھا اور اس کی  تشہیر کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے پھر بھی کتاب سے عشق رکھنے والے قاری کو کتاب کی اشاعت کے بارے میں پل پل کی خبر ہوتی تھی اور جب تک کتاب ہاتھوں میں آکر نظروں سے گزر نہ جائے اس کے سیاق و سباق اور چنیدہ حصے اہل ذوق کو نہ سنا دئے جائیں، کتاب پر دو چار لوگوں سے تبصرہ نہ کرلیا جائے ،روح کو تسکین نہیں ملتی تھی۔  آج کے سوش...
تسنیم عابدی کی کتاب پر صفی ربانی کا تبصرہ

تسنیم عابدی کی کتاب پر صفی ربانی کا تبصرہ

تبصرے
کتاب : ردا ئے ہجر ( شاعری ) شاعر تسنیم عابدی تبصرہ نگار : صفی ربانی  عصر نو کا اردو ادب بھی نو آبادیاتی تہذیبوں کی طرح مغرب سے بہت حد تک متاثر ہے۔ ایسے میں مشرقی شعری رویات میں پنپتے جذبوں پر وہی قہقہہ لگایا جاتا ہے جو جگ مگ کرتے شہروں میں کسی دیہاتی پر۔اپنا آپ نکھارنے کے لیے دوسروں سے متاثر ہونا تو اچھی بات ہے مگر خود فراموشی کی سزا مرگِ مفاجات ہے۔ "ردائے ہجر" میں لپٹی تسنیم عابدی کی شاعری میں وہی تہذیبی رکھ رکھاؤ ہے جو ان کی شخصیت میں ہے۔انہوں نے بدیسی زبان و اطوار کو اپنانے کی بجائے اپنی مٹی سے پھوٹتے چشموں سے اپنے گلشنِ شعری کی آبیاری کی ہے۔ صنفی امتیازات اور حقوقِ نسواں کے لیے احتجاج اب ایک فیشن بن چکا ہے۔جس میں ہر حرفوں کا سوداگر بلند بانگ نعرے لگا کر اپنے کھوٹے سکوں کو کھرا کرنے میں لگا ہے۔ جس کے سبب یہ انتہائی اہم اور حساس مسئلہ ڈگڈگی والے کا کھیل بن گیا ہے۔لیکن تسن...
“عظیم ہمالیہ کے حضور” مصنّف : جاوید خان

“عظیم ہمالیہ کے حضور” مصنّف : جاوید خان

تبصرے
تبصرہ کتاب و تعارف مصنّف : پروفیسر محمد ایاز کیانی جاوید خان سے میرا کافی دیرینہ تعلق ہے ۔ مگر اس سے قبل یہ ملاقاتیں بے ترتیب تھیں ۔ ان میں قدرے باقاعدگی 2015 کے بعد آئی ۔ جب میرا اسلامیہ کالج کھڑک آنا جانا شروع ہوا۔ جہاں میری بیٹی زیر تعلیم تھی۔ آج سے تین سال قبل پاک چائنا فرینڈشپ  سینٹر اسلام آباد میں کتاب میلہ شروع ہوا تو جاوید خان کا فون آیا کہ اس بک فئیر میں چلنا چاہیے۔ ان کی تحریک پر میرا بھی پروگرام بن گیا ۔جاوید اسوقت ریڈفانڈیشن کالج میں پڑھاتے تھے۔ پروفیسر محمد ایاز کیانی کتابوں کی خریداری کے بعد جب ہم ایکسپوسینٹرسے باہر آئےتو جاوید خان کے ہاتھ میں کتابوں کے دوبھاری بھرکم کتابوں کے شاپرتھے۔ راستے میں زیادہ تفصیل سے بات چیت کاموقع ملا۔ جاوید نے بتایا کہ اسے مطالعےکا بہت شوق ہے۔ مگر وسائل ہمیشہ آڑے آتے ہیں۔ اس دوران یہ دلچسپ اور حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ جا...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact