پروفیسرعبدالشکورشاہ               
تصاویر : سوشل میڈیا                
آزادکشمیر وادی نیلم میں شونٹھر کا درہ کبھی تجارتی اور سفری سرگرمیوں کا محور و مرکز ہوا کر تا تھا۔ 1947 سے قبل شونٹھردرہ گلگت بلتستان اور وادی کشمیرکے درمیان شاہرہ ریشم تصور کیا جاتا تھا۔ ڈوگرہ دور میں یہاں ایک سرائے بھی ہوا کرتی تھی جسکی نسبت مقامی لوگ آج بھی اس مقام کو بنگلہ پکارتے ہیں۔ شونٹھر پاس پار کرنے کے لیے مسافر یہاں عارضی قیام کرتے تھے۔ ہری پربت کے دامن میں موجود یہ علاقہ قدرتی جڑی بوٹیوں، معدنیات اور نایاب جنگلی حیات اور جنگلات کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ ڈوگرہ دور میں اس علاقے کے قدرتی خزانوں کی حفاظت کے لیے ایک چوکی بھی قائم کی جاتی تھی۔ مگر بدقسمتی سے قدرتی خزانوں سے مالامال یہ خطہ اب معدومی، محرومی،افلاس، کسم پرسی اور ویرانے کامنظر پیش کر تا ہے۔ دررہ شونٹھر مظفر آباد سے تقریباً 190 کلو میٹر فاصلے پر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ سطح سمندر سے 10,200 فٹ بلند ہے۔ شونٹھر پاس پر اس کی بلندی14500فٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ڈوگرہ دور گلگت بلتستان کے لوگ اس راستے سے ہوتے ہوئے موجودہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے اناج لایا کرتے تھے۔ اس دور میں گھوڑے اور خچریں ہی زریعے نقل وحمل ہوا کرتی تھیں۔فوجی سازوسامان کی منتقلی کے لیے مقامی لوگوں سے جبرابیگار لی جاتی تھی اور یہ سلسلہ بھٹو دور تک جاری رہا۔ اس بیگار کا نشانہ صرف شونٹھر کے لوگ ہی نہیں بلکہ موجودہ آزادکشمیر کے سبھی علاقے کے لوگوں بھی بنتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعدیہ درہ پنجاب سے آنے والے خانہ بدوشوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ یہ خانہ بدوش مئی کے وسط میں شونٹھر پاس عبور کر کے استور کی چراگاہوں کا رخ کرتے اور ستمبر کے وسط تک قیام کرتے ہیں۔گرمیوں میں گلگت بلتستان کے مویشی تاجروں کے علاوہ پنجاب کے کچھ تاجر اسی راستے کو استعمال کرتے ہوئے چین کو گدھے سپلائی کرتے ہیں۔ڈوگرہ دور میں یہ راستہ علم کی پیاس بجھانے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو دو الگ انتظامی یونٹس میں تقسیم کرکے دونوں خطوں کو الگ کر دیا مگر قدرتی راستوں کی حقیقت، اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔2008تک پابندیوں کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں معطل رہیں۔مشرف دور کے بعد پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی اور گلگت بلتستان کو عارضی صوبے کا درجہ دیا گیااور عام انتخابات کے بعدوزیراعلی منتخب ہوا۔ وزیراعلی مہدی شاہ نے شونٹھر تا استور روڈ کے لیے کوشاں رہے۔قدیم قدرتی راستے کی بحالی حکومت پاکستان و آزادکشمیر نے شونٹھر تا استور سرنگ نکالنے کے اعلانات کیے مگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔رابطہ راستوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے نہ صرف ہم سیاحت کے شعبے سے خاطر خواہ معاشی بہتری لانے سے قاصر ہیں بلکہ دونوں خطوں کی عوام کے درمیان باہمی روابط استوار کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ گلگت بلتستان اپنے پہاڑی سلسلوں، گلیشئرز، قدرتی وسائل اور آبی ذخائر سے مالا مال ہونے کی وجہ سے پاکستان کے لیے دنیا بھر میں نہ صرف ایک پہچان ہے بلکہ سیاحت کے زریعے معاشی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

معاشی انقلاب کے لیے رابطہ سڑکوں کا جال انتہائی اہم ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین روڈ اینڈ بلیٹ منصوبے پر تن دہی سے کاربند ہے۔ سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی عوام نقل مکانی پر مجبور ہے۔قیام پاکستان سے شاہراہ قراقرم کی تعمیر تک گلگت بلتستان کو براہ راست ملانے کے لیے کوئی سڑک موجود نہ تھی۔گلگت بلتستان، آزادکشمیر، پاکستان اور چین کے لیے شونٹھر ٹنل اانتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ دیگر راستے یا تو غیر محفوظ ہیں یا بہت طویل ہیں۔یہ ٹنل وادی نیلم کے زریعے گلگت بلتستان کو اسلام آباد سے ملائے گی۔شونٹھر ٹنل کی تعمیر سے گلگت بلتستان، اسلام آباد اور وادی نیلم کے لیے نہ صرف ایک متبادل راستہ ہے بلکہ یہ ٹنل خطے کی تعمیر ترقی، بیروزگاری کے خاتمے، احساس محرومی کو ختم کرنے، تجارت اور سیاحت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ سفری دورانیہ کو بھی کم کر دے گی۔ گلگت بلتستان سے راولپنڈی کے لیے سفر کا دورانیہ بھی تقریبا 8گھنٹے کم ہو جائے گا۔اس سے ایک طرف ہمارا ایندھن بچے گا دوسری جانب طوالت کم ہو گی۔ سی پیک کی تعمیر کے پیچھے چینی مفادات میں دو اہم فائدے ایندھن کے استعمال کو بچانا اور سفری طوالت کو کم کرنا ہیں۔ کم اخراجات اور طوالت میں کمی کی وجہ سے گلگت بلتستان، وادی نیلم اور پاکستان کے درمیان تجارت کو فروغ ملے گا۔

معاشی فوائد کے علاوہ اس ٹنل کی تعمیر سے تینوں خطوں، آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور پاکستان کی عوام میں روابط بحال ہو ں گے، ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد ہو گا، دوریاں اور غلط فہمیوں کو ختم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ قومی اور ملکی یگانگت اور یکجہتی قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ گلگت بلتستان میں موجود فرقہ وارانہ اور انتہاپسندانہ گروہوں نے سفر کو غیر محفوظ بنارکھا ہے۔ یہ ٹنل فرقہ واریت، انتہاپسندی، بد امنی اور دہشت گردی کی روک تھام میں بھی معاون ثابت ہو گی۔ 2013میں چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے نیلم ویلی روڈ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت سے سفارش کی یقین دہانی کروائی۔ اگست2017 میں ایک پروپوزل کے زریعے سڑک محفوظ، قابل تعمیر اور کم لاگت کے ساتھ بنانے کی سفارش کی گئی۔گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے سیاستدانوں نے بھی ایک روڈ کی تعمیر پر زور دیا مگر کوئی عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔مسلم لیگ ن کے وزیر اعلی گلگت بلتستان نے بلاوجہ اس منصوبے کو رد کیا۔زیادہ برف باری کو بہانہ بنا کر ہم سڑکیں بنانا بند نہیں کر سکتے۔ دنیا بھر کا اگر موازنہ کیا جائے تو بہت سارے ممالک میں کہیں زیادہ برف باری ہوتی ہے مگر وہ سڑکیں نہ صرف تعمیر کرتے ہیں بلکہ انہیں ہر وقت ٹریفک کے لیے بحال بھی رکھتے ہیں۔


شونٹھر جھیل کا ایک دل کش منظر 

مسلم لیگ ن خواہ آزادکشمیر میں ہو یا گلگت بلتستان میں ان کے پاس سڑک بحال نہ کرنے کے لیے برف ہی بہانہ ہے۔دنیا میں اب بر ف کو نعمت خداوندی سمجھا جانے لگا ہے کیونکہ اب اس سے بجلی بنائی جاتی ہے اور ہم بجلی کے بجائے برف سے بہانے بناتے ہیں۔جناب عمران خان صاحب اپنے سیاحت کے تصور کو اس ٹنل کی تعمیر سے حقیت میں بدل سکتے ہیں۔موجودہ وزیراعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے شونٹھر ٹنل کو فیڈرل پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے پر زور دیا ہے۔ شونٹھر ٹنل کے ساتھ بابوسر ٹنل کا سروے بھی متوقع ہے۔شونٹھر ٹنل آزادکشمیرو گلگت بلتستان، شمالی پنجاب اور اسلام آباد کے لیے سی پیک کے منصوبوں میں سب سے اہم ہے۔ اس کے لیے سعودی عرب نے بھی15 ارب کی خطیر رقم فراہم کی ہے۔شونٹھر وادی کے علاقے میں کاشت کیا جانے والا آلواور دیگر اجناس شونٹھر ٹنل کے زریعے گلگت بلتستان کے راستے چین تک رسائی حاصل کریں گی جس کے نتیجے میں معاشی بہتری لانے اور بے روزگاری ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ شونٹھر ٹنل استور کے راستے شاہراہ ریشم تک رسائی کا زریعہ بنے گی۔ اس راستے سے وادی نیلم سے زیادہ فائدہ گلگت بلتستان کے دوردراز علاقوں چلاس اور استور اور اسلام آباد کو ہو گا۔چلاس اور استور کے لوگ شونٹھر پاس کو پیدل عبور کر کے نیلم ویلی اور پھر وہاں سے اسلام آباد جاتے ہیں۔ شونٹھر ٹنل کی تعمیر سے سفر 12گھنٹے کم ہو جائے گا۔

 اس منصوبے کے معاشی فوائد کے علاوہ بہت سارے دفاعی فوائد بھی ہیں۔دنیا کا سب سے بڑا اور انتہائی دفاعی اہمیت کا حامل سیاہ چین محاذ پاکستا اور چین دونوں کو نیلم ویلی براستہ شونٹھر ٹنل زیادہ قریب پڑتا ہے۔یہ وہ محاذ ہے جہاں سے پاکستان اور چین باآسانی بھارت میں داخل ہو سکتے ہیں۔سیاہ چین کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مشرف دور میں اسی محاذ سے بھارت کو مشکلات سے دوچارکیا گیا تھا۔ بھارت چین جنگ کی صورت میں بھی چین یہ راستہ بھارت کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ راولپنڈی سے کاغان کے راستے سیاہ چین سکردو پہنچے کے لیے 540میل کا طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ شونٹھر ٹنل سے یہ فاصلہ کم ہو کر 223 میل ہو جائے گا اور سفر کا دورانیہ 12گھنٹے کم ہو جائے گا۔ شونٹھر ٹنل آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو ملانے کے لیے واحد اور انتہائی اہم زریعہ ہے۔نیلم ویلی میں آئے روز بھارتی گولہ باری کی وجہ سے وہاں کی عوام محصور ہو کر رہ جاتی ہے۔ نیلم ویلی روڈ واحد دفاعی روڈ ہے جس کے زریعے پاکستان بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے بنائے گئے بائی پاس بھی محفوظ نہیں ہیں۔

 بھارت کے ساتھ جنگ اور نیلم ویلی روڈ کی بندش کی صورت میں ہم گلگت بلتستان سے بذریعہ شونٹھر ٹنل اپنادفاع کر سکتے ہیں۔ دفاعی اعتبار سے پاک بھارت جنگ کے دوران چین براستہ گلگت بلتستان شونٹھر ٹنل کے زریعے ہماری بروقت اور اہم دفاعی مدد کر سکتا ہے۔ شونٹھر ٹنل کی دفاعی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ شونٹھر ویلی مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے بہت قریب ہے۔ یہ راستہ نہ صرف وادی نیلم، گلگت بلتستان بلکہ پاکستا ن اور چین کے لیے بھی دفاعی اور معاشی لحاظ سے بہت اہم ہے.

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact