Friday, April 19
Shadow

سردار محمد یعقوب خان ، سابق صدرو وزیراعظم آزاد کشمیر، یعقوب سے یاقوت تک

سردار محمد یعقوب خان آزاد کشمیر کے سابق صدر اور وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی سواںخ عمری “ یعقوب سے یاقوت تک  “کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔ یہ کتاب304 صفحات پر مشتمل ہے اوراس کتاب کی تدوین ونظر ثانی سنئیر صحافی و سابق پریس سیکرٹری ہمراہ ریاست جموں کشمیر محمد بشارت محبوب نے کی ہے۔

کتاب” یعقوب سے یاقوت تک “کا جائزہ

ممتاز غزنی کے قلم سے

“یعقوب سے یاقوت تک “کا انتساب والدہ محترمہ عالم بی بی،والد محترم سردار گل محمد خان اور بڑے بھائی الحاج سردارزمان خان کے نام ہے۔مصنف نے اپنے آبائی گاؤں کے آباو اجداد اور ابتدائی علاقائی تاریخ ،ابتدائی علاقائی حالات تفصیلاً لکھے ہیں ۔ والدہ اور والد کےحالات زندگی لکھنے کے بعد اپنی ابتدائی تعلیم کا تفصیلاً ذکر کیا ہے۔پرائمری کے بعد کراچی میں اپنے بڑے بھائی الحاج سردار زمان خان کے پاس رہ کر اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ کام بھی کرتےہیں اس کی ساری تفصیل لکھی ہے۔الحاج سردار زمان خان کو کشمیر کے ایدھی کا لقب دیا اور ان کے حالات زندگی تفصیلاً ذکر کیا ہے۔

الحاج سردارزمان خان

چونکہ الحاج سردارزمان خان 1985 کے عام انتخابات میں تحریک عمل پارٹی کے پلیٹ فارم سے حلقہ ایل اے جموں 6 سے ممبر اسمبلی

منتخب ہوئے تھے۔اس لیے ان کی اسمبلی میں کئی گئی تقریریں کتاب میں شامل کی ہیں۔کراچی کالج میں تعلیم کے دوران ریفریجریشن اورائر کنڈیشن کا مکینیکل کورس کیا ۔ جس کی بنیاد پر سعودی عرب تشریف لے گئے۔سعودی عرب ملازمت کی ساری تفصیل اور اس دور کے سارے حالات و واقعات اس کتاب میں بڑی خوبصورتی سے شامل کیے ہیں۔فقراء واولیاء اللہ سے محبت کے حوالے خصوصی مضمون شامل کیا ہے ۔جس میں اپنے مرشد مولانا محمد یوسف ثانی آف منگ(سائیں شانی)  کا تعارف اور ان کے ساتھ تعلق کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔  آزاد پتن پر بیٹھے ایک مجذوب سائیں سلطان عرف “نہستی”کے حالات اور ان کے ساتھ نشست و برخاست کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔سعودی عرب سے ملازمت چھوڑکر وطن واپسی اور کراچی میں کاروبار اور پھر اس میں ترقی کی تمام تفصیل اس کتاب میں شامل ہے۔

انتخابی سیاست

سیاست میں باقاعدہ شمولیت اور تمام الیکشن کی تفصیل اس کتاب میں شامل ہے۔تحریک عمل پارٹی کے بعد مسلم کانفرنس میں شامل ہو کرغازی ملت سردار محمد ابراہیم کے مقابلے میں الیکشن لڑ کر جیت کر پھر ہار تسلیم کرنے کی وجوہات اور اور تفصیل شامل ہے2001 میں مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم دوبارہ کامیابی حاصل کی اور سردار سکندر حیات کی کابینہ وزیر صحت کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور وزیر صحت کی حیثیت سے جو کام کیے ان کی مکمل تفصیل شامل ہے۔وزیر صحت کے بعد جبوزیر صنعت حرفت کا قلمدان سنبھالا تو اس کی کارکردگی کی تفصیل شامل کی ہے2005 کے زلزلے کی تباہی کے بعد انفراسٹرکچر کے حوالے سے اپنی تگ و دو کا تفصیلاً ذکر کیا ہے۔

2006 کے الیکشن میں مسلم کانفرنس کے پارلیمانی بورڈ نے ٹکٹ نہ دیا تو آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ کر کامیابی حاصل کی اور یہ انکشاف بھی کیا کہ اس وقت  چوہدری شجاعت حسین اور خفیہ ایجنسی کی افسران کی موجودگی میں ٹکٹوں کااعلان ہوا۔لکھتے ہیں کہ مجھے شدید دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایجنسی کے آفیسر نے مجھے دفتر میں بلا کر بند کر دیااور خاموشی اختیار کرنے کی تلقین کی۔بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جیسے انجام کی دھمکی دی۔میں چپ چاپ باتیں سنتارہا ۔تین چار گھنٹے بعد اس کے دفتر سے نکل کر سیدھا سہیلی سرکار دربار پر گیا اور وہاں فاتحہ پڑھ کر حلقہ کی جانب روانہ ہوگیا۔

سردار عتیق خان کو اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ دیا لیکن ڈیڑھ سال نظر انداز رہنے کے بعد فزیکل پلاننگ و ہاؤسنگ اور آرسی ڈی پی  کا وزیر بنایا گیا جو ایک برائے نام وزارت تھی۔ لکھتے ہیں کہ سردار عتیق خان چین تک سرنگ،مقبوصہ کشمیر کو گیس،بھارت کو بجلی فراہم کرنے کا اعلان کرتے تو مجھ سےصبر نہ ہوتا اور میں ٹوک دیتا۔سردار عتیق غیر منطقی اور غیر حقیقی باتیں کرتے اور کہتے کہ یہ معرفت کی باتیں ہیں۔سردارعتیق خان کا جنات سے ملاقات کا دلچسپ واقعہ بھی لکھا ہے۔

2008 میں سردار عتیق خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بنے۔تب وزیر اعظم کاامیدوار کس نے نامزد کیا اس کی ساری تفصیل اس کتاب میں شامل ہے۔بحیثیت وزیر اعظم اپنی خدمات،غیر ملکی دورے،تین میڈیکل کالجز کے قیام کا اعلان اور آزاد کشمیر کی ترقی میں آصف علی زرداری کا ویژن تفصیلاً لکھا ہے۔نو ماہبعد وزارت عظمی سے کیوں مستعفی ہوئے۔پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کی کیا وجہ تھی۔2011 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے اور پھر صدر آزاد کشمیر کیسے منتخب ہوئے اور کس نے انکا نام تجویز کیا  یہ ساری تفصیل اس کتاب میں موجود ہے۔

بطور صدر کارکردگی

بطور صدر کارگردگی،یونیورسٹی آف پونچھ کا قیام،راولاکوٹ ڈویلپمنٹ پراجیکٹس پر خصوصی توجہ،گوئیں نالہ روڈ کی تکمیل،فرزانہ یعقوب کی بطور امیدوار نامزدگی اور صدر باپ کا بیٹی سےبطور ممبر اسمبلی حلف،پونچھ میڈیکل کالج کا قیام کے عنوان سے تفصیلاً مضامین شامل ہیں۔دورہ امریکا،دورہ مصر اور اوآئی سی کے اجلاس میں شرکت کی مکمل تفصیل اس کتاب میں شامل ہے۔یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کوٹلہ کا قیام,باغ ویمن یونیورسٹی کا قیام،میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں مختلف شعبوں کی ایکری ڈیٹیشن،نیلم فارورڈ کہوٹہ منگ اور جہلم کیمپس کا قیام،فارورڈ کہوٹہ حویلی کیمپس کا قیام،ہٹیاں بالا کیمپس کا قیام کی تفصیل اسکتاب میں شامل ہے۔

ذاتی زندگی

شادی خانہ آبادی کے علاؤہ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی تعلیم اور تعارف بھی لکھا ہےکتاب دلچسپ ہے اور بہت سارے حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے۔البتہ کتاب کے پہلے 47 صفحات صرف تبصروں پر مشتمل ہیں جو پڑھتےہوئے قاری اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔اور اسی طرح صفحہ نمبر 247 سے 304 چار تک “قانون ساز اسمبلی میں میرامتحرک کردار” کے عنوان سے اسمبلی فلور پر کی گئی تقریریں شامل کی گئی ہیں۔یعنی حاجی  صاحب کی اصل کہانی صفحہ نمبر48 سے شروع ہوکر صفحہ نمبر 247 پر ختم ہوتی  ہے۔کتاب کا نام پڑھ کر جو تجسس پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح ایک عام آدمی سیاست اور کاروبار کی بلندیوں پر پہنچ گیا وہ باتیں کم اور سیاسی باتیں زیادہ لکھی گئی ہیں۔ یعقوب سے یاقوت بننےکے گُر بہت کم ملتے ہیں جس کی وجہ شاید کتاب اتنی مقبول بھی نہیں ہو سکی۔

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact