سجاد افضل
     آج جبکہ ہر طرف غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال دئیے ناصرف یہ کہ چوری ڈاکہ زنی اور لوٹ مار بڑھنے کے خدشات ہیں بلکہ خودکشیوں اور خود سوزیوں میں بے انتہاء اضافہ ہوگا
     ایسے میں ہمارے عوامی حلقوں کی بحثیں اپنے من پسند انتہائی کمینے اور عوام دشمن لیڈروں کی پسندوناپسند سے آگے نہیں بڑھ رہیں
     یہ وہ لاٹ ہے جو ضیاء الحق کی نیولبرل اکنامیکل پالیسیوں کی پیداوار ہے
     چار عشروں سے زائد عرصے کی محنت سے ضیاءالحقی بوئے گئیے بیج آج تناور درخت بن کر اپنے کڑوے پھل دے رہے ہیں
      پورا معاشرہ غیر سیاسی رویوں کا شکار ہو کر عقل و منطق کی طرف سفر کرنے کے بجائے اندھی عقیدت کی گہری کھائی میں گر چکا ہے
     اب کس سے کہا جائے کیا کہا جائے اور کس لیے کہا جائے ؟؟؟
     معاشرے کو زوال کی اتھاہ گہرائیوں سے نکالنے کے لیے باشعور سیاسی کارکن ہی واحد ذریعہ ہوتے ہیں جو ایک سرجن کا کردار ادا کرکے مریض معاشرے کے امراض کا علاج کرتے ہیں
    اب وہ سیاسی کارکن ڈھونڈے سے نہیں ملتے جو خال خال لوگ پائے جاتے ہیں انہیں ایسے ایسے القابات و الزامات سے نوازا جاتا ہے کہ عام لوگ ان سے خائف رہتے ہیں اور یوں بالادست طبقات کے پھیلائے ہوئے زہر آلود پروپیگنڈے کے باعث انہیں دیوار سے لگا دیا جاتا ہے
       سو جو لوگ اب بھی امید سے ہیں اور مزید چہروں کی تبدیلی میں کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں ان سے گزارش ہے کہ
     اس طوفان کو کوئی نہیں روک سکتا یہ محض پانچ دس سالوں کی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں ہے عوام کو اس حالت میں پہنچانے کے لیے نصف صدی کی ریاستی پالیسیاں ہیں
    جب انڈسٹری نہیں لگائی گئی ذرائع پیداوار کو ترقی نہیں دی گئی ایکسپورٹس پر توجہ نہیں دی گئی طویل المیعاد منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور تمام تر معیشت کا انحصار بیرونی قرضوں پر کیا گیا اور ان قرضوں سے بھی چوکیدار کا خرچہ سب سے زیادہ کیا جاتا رہا
   پڑوسی ممالک سے دشمنیاں پال کر چوکیدار اپنا نظام چلاتا رہا اور پورا ملک سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے کرایے کے قاتل کے طور پر کام کرتا رہا تو لازم ہے کے اس کے نتائج بھگتے جائیں
       لہذا عوام ڈیفالٹ ہو چکے ہاں حکمران ابھی ڈیفالٹ نہیں ہوئے کہ ان کے آقا انہیں ضرورت کی خاطر بچانے کے جتن کررہے ہیں جو شاید زیادہ عرصہ نہ بچ سکیں
      ریاست جموں کشمیر کے باسیوں کے لیے مگر اب بھی بہت سے مواقع ہیں کہ اگر وہ اپنا قبلہ درست کرنا چاہیں اور صحیح سمت پر جدوجہد کے لیے کمربستہ ہو جائیں تو کامیابیاں و کامرانیاں ان کی دہلیز پر دستک دے سکتی ہیں
        قومی وحدت قومی آزادی اور عوامی خوشحالی کے لیے تو ہم شاید جلد تیار نہیں ہیں لیکن وقتی ریلیف اور جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے دو سیکٹرز میں فوری توجہ درکار ہے
     اول یہ کہ ایل او سی پر اپنے وطن کے دوسرے حصے سے تجارت بحال کرکے انتہائی کم مسافت سے سستی اشیاء خوردونوش مہیا کی جانے کی جدوجہد کی جائے
      اور دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر میں معاشی ایمرجنسی کا نفاذ کرکے تمام غیر پیداواری اخراجات کو روک کر مقامی ذرائع پیداوار پر توجہ دے کر مقامی سطح پر منڈی قائم کروانے کی جدوجہد کی جائے
      ہردو سیکٹرز میں بھرپور عوامی تحریک کے ذریعے حکومت وقت پر دباؤ بڑھا کر فیصلے کروائے جائیں اور ایک محدود رقبے کی قلیل سی آبادی کو جینے کا حق دلوایا جائے
       مزید آگے بڑھنے کے راستے ادھر ہی سے نکلیں گے
      گر نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact