Thursday, April 25
Shadow

یوں ہی خوشیاں ملتی ہیں/  کہانی کار/  شکیلہ تبسم

کہانی کار  شکیلہ تبسم

تصویر بشکریہ  : دارالاحساس ؛راولاکوٹ آزاد کشمیر

یہ ننھے بچے۔۔۔

یہ پھول بچے۔۔۔۔

ان کی آنکھوں میں خواب ہیں پر۔۔۔۔

اڑاں کا کوئی یقیں نہیں ہے۔

یتیمی ان کا قصور ہے نہ۔۔۔۔

نہ ان سے کوئی جرم ہوا ہے۔

خوشیوں پہ بھی حق ہے ان کا۔۔۔

کل کو یہ بھی راج کریں گے۔

اڑاں کے گر آج گر یہ سکھیں۔.

اڑاں کے گر یہ یوں سکھیں گے۔.

ہاتھ ان کے گر تھام لیں ہم۔

ان کی آنکھوں میں جمتی نمی کو۔۔۔

اپنی پوروں سے پونچھ لیں ہم۔۔۔

ان کی آنکھوں میں خواب رکھییں۔۔

سجا دیں دامن خوشیوں سے ان کا۔۔۔

یہ ننھے بچے۔۔۔

یہ پیارے بچے۔۔۔

ہمارے بچے۔۔۔۔

یہ سارے بچے۔۔۔۔۔

اللہ پاک نے انسان کو بڑا خوبصورت دل اور اچھا سا دماغ عطا کیا ہے۔ دل و دماغ انسانی جسم کے وہ نایاب عضو ہیں کہ اگر یہ اچھے ہیں تو انسان کی اپنی زندگی نہ صرف خیر و برکت کا باعث ہوتی ہے بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی آسانیاں بانٹنے کا سبب بن جاتا ہے۔ اللہ پاک نے اپنے ذکر کے بعد انسان کا سکون خدمتِ خلق میں رکھا ہے۔ کسی کی آنکھ سے ایک آنسو اپنے دامن میں جذب کر کے؛ کسی کے لبوں پہ تبسم بکھیر کے؛ کسی کی آنکھوں میں خواب سجا کے؛ کسی کی امید بن کے؛ کسی کو اپنائیت کا یقیں دلا کے جو خوشی جو سکوں ملتا ہے اس کا نہ کوئی بدل ہے نہ اس کے بیاں کے لیے الفاظ۔

بہت چھوٹی چھوٹی خوشیاں بہت بڑے معنی رکھتی ہیں اور اللہ کے ہاں کون سی بات کیا مقام رکھتی ہے اس کا اندازہ عقلِ انساں کی بساط نہیں۔

ہمارے ایک بھائی (جو ہمیشہ اپنا نام نہ ظاہر کرنے کو کہتے ہیں) ہر معاملے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ کسی کی مدد کرنی ہو ان کا سپیشل کنٹریبیویشن اس مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

اللہ پاک انسان کی نیت دیکھتا ہے اور جب اسے اپنی مخلوق کے حق میں معاون پاتا ہے تو پھر اس کے روز و شب میں ایسی برکتیں نازل کرتا ہے کہ اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ اسے اللہ پاک کیسے کیسے دے رہا ہے۔

گزشتہ دنوں چنار ریسٹ ہاؤس میں ایک شادی ہوئی جو دو بہنوں کی تھی۔ اس شادی کی خاص بات یہ تھی کہ دیگر مہمانوں کے ساتھ اس تقریب میں ”دارالاحساس“کے بچوں کو مدعو کیا گیا۔ یہ شادی ہمارے انھی بھائی کی بہنوں کی تھی۔ شادی کی دعوت مجھے بھی تھی میں نے معذرت کر لی لیکن جب ان بھائی نے بتایا کہ یہ سپیشل مہمان آئیں گے تو بہت خوشی ہوئی۔ مذید انھوں نے ان خاص الخاص مہمانوں کو جاتے سمہے تحفہ دینے کا بھی پروگرام بنایا۔

مگر انتظامیہِ ادارہ نے ان بچوں کو بھیجنے پہ معذرت کا اظہار کیا۔ جب میں نے سنا تو بہت دکھ ہوا کہ خدایا! کیا ایک دن کی خوشی پہ بھی ان بچوں کا حق نہیں۔مگر حقیقت کی نظر سے سوچا تو انتظامیہ کی دور اندیشی کو داد دینی پڑی۔ ہمارے ہاں تو ایسا رواج ہی نہیں۔ ہم فضول رسموں پہ لاکھوں لٹا دیتے ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ان سے کسی کو خوشیاں دے کہ اپنے لیے دعائیں ہی دعائیں لے سکتے ہیں۔

پھر ان بچوں کے لیے کھانا ہی بھیجا گیا۔ ایک ایک چیز اہتمام کے ساتھ۔ یوں جیسے زرا بھی کمی ہو گئی تو تقریب کے انتظامات فلاپ ہو جائیں گے۔بچوں کو ہر روز ادارے میں کھانا ملتا ہے۔ مگریہ کھانا بہت خاص تھا۔ یہ احساس بہت خاص تھا کہ ہم کسی کے لیے اہم ہیں۔ وہ پیار اہم تھا جس کے ساتھ ایک ایک چیز سلیقے سے رکھی گئی بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ ان کی مسکراہٹ نایاب تھی۔ ان کے لیے ایک خوبصورت ٹفن کا تحفہ اہم تھا جو ان کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ انھیں ہر روز جب جب وہ ٹفن کھولیں گے انھیں محبت کا احساس دلاۓ گا۔

ہم سب ایک خوبصورت معاشرے کے متمنی ہیں۔ باہمی تعاون اور محبتوں کے رواج سے معاشرہ بہت حد تک بہت حسیں ہوجاتا ہے۔ درد ختم نہ بھی درد کی شدت کم ہو جاتی ہے۔ محرومی کا ازالہ نہ بھی ہو سکے۔ محرومی کے احساس کو کم کیا جا سکتا ہے۔

جب آپ اپنی خوشیوں پہ لاکھوں خرچ کر رہے ہوں تو ہزار ان کے لیے بھی الگ کر لیجیے جو خوشیوں سے محروم ہیں۔جب آپ اپنے بچوں کے لیے 500 کی چیز لے رہے ہوں تو 100 کی چیز ان بچوں کے لیے لے لیں جن کے سر پہ دستِ پدری نہیں۔

کسی یتیم کے سر پہ ہاتھ رکھیں۔

شکریہ بھائی۔۔ آپ نے اپنے حصے کا دیا جلا کے ہم سب کو ترغیب دی۔ خوشیاں بانٹنے سے خوشیاں دگنی ہو جاتی ہیں۔

اللہ پاک ہم سب کو توفیق سے نوازے۔ اور آسانیاں عطا فرما کے آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact