Friday, April 26
Shadow

تئیس مارچ 1940ء / نورالھدیٰ سدوزئی

نورالھدیٰ سدوزئی
         (تھوراڑ آزاد کشمیر )
تئیس مارچ 1940ء کا دن تحریک پاکستان میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، اسی دن لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں 22 سے 24 مارچ 1940ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کا 27واں سالانہ اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمدعلی جناحؒ نے کی تھی۔
اس تاریخی اجلاس میں 23 مارچ کے دن بنگالی لیڈر مولوی فضل الحق نے ایک متفقہ قرارداد پیش کی جو تاریخ میں پہلے ‘ قرارداد لاہور’ اور پھر ‘قرارداد پاکستان’ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد میں برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی نصب العین کا فیصلہ کیا گیا تھا اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ “آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غوروغوض کے بعد اس ملک میں مسلمانوں کے لیے صرف ایسے آئین کو قابلِ عمل اور قابلِ قبول قرار دیتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل خطوں کی صورت میں حدبندی کا حامل ہو اور بوقتِ ضرورت ان میں اس طرح ردوبدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بہ اعتبار تعداد ہو ، جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے ہیں ، انہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خودمختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔”اس قرارداد میں ایک آزاد اور خودمختار پاکستان کا کہیں تصور نہیں تھا بلکہ پہلی بار ‘قرارداد دہلی’ میں 1946ء میں طے پایا تھا کہ یہ آزاد ریاستیں ، ہندوستان سے الگ ایک واحد متقدر ریاست ‘پاکستان’ ہوگی۔

اس قرارداد کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کیا اور اس کی تائید میں چوہدری خلیق الزماں ، خان اورنگ زیب خان، حاجی سرعبداللہ ہارون ، نواب اسماعیل خان ، قاضی محمدعیسیٰ ، بیگم مولانا محمدعلی جوہر ، آئی آئی چندریگر ، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دوسرے مسلم اکابرین نے تقاریر کیں۔ اسی قرارداد کی بنیاد پر 1945/46ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے قائد اعظمؒ کی قیادت میں سو فیصدی مسلم نشستیں جیت کر ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ سچ ثابت کر دکھایا تھا اور پاکستان کا خواب ، ایک حقیقت بن گیا تھا۔


ہر سال 23 مارچ یوم پاکستان کے طور پر منایا جا تا ہے اور روایتی بیانات جاری کئے جاتے ہیں۔ مگر 23 مارچ 1940ء کے اصل پیغام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ اصل پیغام یہ ہے کہ قیادت اپنے عوام کی خواہشات، مسائل، دوستوں اور دشمنوں کے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ عزائم سے آگاہ ہو اور اسکی نظر اپنے اہداف پر جمی ہو۔ تحریک پاکستان کے دوران ایک ایسے مسلمان عالم اور فاضل بھی تھے جن کا نام مولانا ابو الکلام آزاد تھا جن کے علم زبان و بیان سے ایک دنیا واقف تھی مگر ابو الکلام آزاد اپنی تمام تر ’’بو کلامی‘‘ کے باوجود مسلمانوں کو غلام ہندوستان کے اندر رہنے پر قائل نہ کر سکے اور اسکے بر عکس قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ جن کو اسلامیان بر صغیر کی زبان اردو پر دسترس بھی حاصل نہ تھی اسکے باوجود انکے نقطہ نظر، صادق الکلامی اور اخلاص کے سحر میں کروڑوں مسلمان مبتلا تھے۔ دنیا کے ہر بڑے اور عظمت والے انسان میں ایک خوبی مشترک ملے گی کہ وہ سچا اور راست گو ہوتا ہے۔ ایک عظیم انسان جھوٹ سے کوسوں دور ہوتا ہے، یہی خوبی قائداعظم میں بھی تھی۔ پاکستان بنانے والی قیادت کا پاکستان بنانے سے قبل متمول اور صاحب علم افراد اور خاندانوں میں شمار ہوتا تھا اور یہ غیور قیادت جانتی تھی کہ پاکستان بننے کے بعد انہیں اپنی جاگیروں اور اعزازات سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں اور معاشی، سیاسی، سماجی اعتبار سے بے پناہ مسائل سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے مگر اس قیادت کے دل اور دماغ میں صرف ایک ہی خیال اور مطالبہ تھا کہ بر صغیر کے کروڑوں بے بس اور لا چار مسلمانوں کو آزادی کی نعمت ملے اور وہ غاصب ہندو اور انگریز کے تسلط سے نجات حاصل کریں۔

کہا جاتا ہے کہ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد میں آزاد مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا مگر جسے بعد ازاں طنزاً “ہندو پریس نے قرارداد پاکستان” کا نام دیا اور یہ قرارداد پھر اسی نام سے مشہور ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ قرارداد میں پاکستان کا لفظ استعمال نہیں ہوا تاہم اسی اجلاس میں بیگم محمد علی جوہر نے اپنی تقریر میں اسے پاکستان کا رزولوشن کہا اور پھر مسلم لیگ نے اسی نام سے تحریک پاکستان کی جدوجہدکو آگے بڑھایا۔ اگر ہندو پریس نے طنزاً اسے قرار داد پاکستان کہا تو یہ نام ان کا اخذ کردہ نہیں تھا، اس سے قبل چوہدری رحمت علی نئی مملکت کیلئے لفظ پاکستان کا استعمال اور تشہیر کر چکے تھے۔ یہ ایک تاریخی صداقت اور اعزاز ہے کہ 23مارچ کے اجلاس میں پہلی بار پاکستان کا لفظ استعمال کرنیوالی بھی خاتون تھیں اور پہلی بار سول سیکرٹریٹ پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے والی بھی خاتون تھیں اور پہلے آمر کے خلاف جمہوری جدوجہد کرنے والی بھی خاتون تھیں۔ بیگم محمد علی جوہر، صغریٰ اور فاطمہ جناح، تحریک پاکستان اور پاکستان کا فخر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیے اب اس بات کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے 27 ویں اجلاس میں مسلم قیادت نے کس قسم کے خیالات کا اظہار کیا اور وہ آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے کس قدر واضح روڈ میپ رکھتے تھے۔
23 مارچ 1940ء کے اجلاس کا 22 مارچ کو خطبہ استقبالیہ سر شاہ نواز خان ممدوٹ نے پیش کیا۔ انہوں نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ یورپی ممالک ایک مذہب، ایک جیسی ثقافت اور بود و باش رکھتے ہیں اسکے باوجود ایک دوسرے کے تسلط کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ہم رنگ، نسل، مذہب، ثقافت ہر طرح کے امتیاز کے ہوتے ہوئے کسی کا غلبہ کیسے قبول کر لیں؟؟؟؟؟؟؟انہوں نے خطبہ استقبالیہ میں یہ تاریخی کلمات بھی کہے کہ ایک مقبول عام حکومت کو عمدہ اور موثر طور پر چلانے کیلئے اکثریت کو چاہیے کہ وہ اقلیتوں کو مطمئن کرے اور ہر ممکن طریقے پر انکے اندر اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ صرف اس ایک جملے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان فطرتاً اور طبعاً اعتدال پسند اور رواداری کی اعلیٰ انسانی، اسلامی روایات کے حامل ہیں۔ قیام پاکستان کے قبل بھی وہ اقلیتوں کے احترام کو مملکت کے استحکام

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact