Friday, April 26
Shadow

نوید ملک ۔شاعر – راولپنڈی

 

نوید ملک 

 نوید ملک کا شمار نئی نسل کے  اُن نمائند ہ شعرا  میں ہوتا ہےجنھوں  نے ادب کینوس میں تخلیقی تجربات سے کئی رنگ بھرے۔ آپ 2010 میں حلقہ ء ارباب ِ ذوق راولپنڈی کے جوائنٹ سیکریٹری رہے۔    ادب اور جدید تنقیدی رجحانات کے فروغ کے لیےکچھ  ادبی تنظیموں کی  بنیاد بھی رکھی مگر  معاشی مصروفیات کی بنا پر اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکے۔ آپ کی شخصیت  دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں جانی پہچانی جاتی ہے۔

آپ کی غزلوں کی کتاب “اک سفر اندھیرے میں” 2011 میں شائع ہوئی اور نظموں کی کتاب “کامنی” 2013 میں منظرِ عام پر آئی۔دونوں کتابیں شعرا کی توجہ کا مرکز بنی رہیں اور معتبر شعراء اور ناقدین سے پذیرائی بھی حاصل کی۔ان دونوں شعری مجموعوں پر نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں مقالہ بھی لکھا جا چکا ہے۔آپ نے پاکستان کی کئی ادبی تنظیموں سے ایورارڈز  حاصل کیے۔بہت سے ادبی رسائل  اور  اخبارات  میں آپ کی شاعری شائع ہوتی رہتی ہے اور پاکستان کے کئی شہروں میں اپنے علاقے کی نمائندگی کر چکے ہیں۔کچھ رسائل میں ادبی صفحات کی سرپرستی بھی کی۔2020 میں آپ کے طویل نظم “منقوش” منظرِ عام پر آئی تو ادبی حلقوں نے نئے زاویوں سے آپ کی قلمی کاوشوں کے تجزیے کیے ۔عہدِ حاضر کے نامور ناقدین اور شعراء نے اس نظم پر اپنی آراء کا اظہار فرمایا

اقتباسات

آزاد نظم کا نمونہ ہے، رواں اور خوبصورت انداز بیان ہے۔(ظفر اقبال-لاہور)

آپ کی تخلیقی توانائی مثالی ہے۔ نظم فکر و اسلوب ہراعتبار سے بہت عمدہ ہے۔(طارق ہاشمی-فیصل آباد)

ایک خوب صورت اور فکر انگیز نظم کہنے پر مبارک باد قبول فرمائیں(پروفیسرمنور ہاشمی-اسلام آباد)

آپ کے علم و فن کے حوالے سے معروف شعراء اور ناقدین کی آراء

نوید ملک کی شاعری محض جذبات کی رو کا نام نہیں بلکہ خیالات کے بہاؤ، نظریات کے لگاؤ اور الفاظ کے چناؤ میں ہم آہنگی سے عبارت ہے۔(نصیر احمد ناصر-راولپنڈی)

ان کی نظمیں اظہار کا لہجہ، کوملتا اور لطافت کا ایسا آہنگ لیے ہوئے ہے جو حسنِ فطرت کے استعارات و تشبیہات کے رنگ سے تشکیل پاتا ہے۔(ڈاکٹر روش ندیم-بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی)

نوید ملک نے خونِ جگر سے شعور و فکر کےسبزہ زاروں کی آبیاری اور دل کی اتھا ہ گہرائیوں سے عروسِ فن کی دلداری  کرتے ہوئے مردہ فن  میں جان ڈالنے کا ہنر سیکھ لیا ہے(سید انصر-سرائے عالمگیر)

۔۔

نمائندہ اشعار

کوفے کے بعد ایسی ہوا دل میں چل پڑی

ہم نے کسی بھی خط پہ بھروسا نہیں کیا

مر کر زمین سے مجھے کہنا ہے ایک دن

جتنے بھی تیرے قرض اتارے حساب دے

۔

 ہمارے عکس کی فصلیں اُنھی سے پھیلیں گی

جو تیرے شہر میں ہم آئنے اگا کے چلے

میں خود پرواز سے اپنی پریشاں آجکل ہوں

زمانہ ہے زمیں پر اور بچارہ چل رہا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact