Wednesday, April 24
Shadow

نجمہ باجی آئیں گی تو میٹنگ شروع ہو گی

آفتاب احمد

Photos : Women Welfare Organization Poonch (WWOP)

زلزلہ اور آزاد کشمیر میں تباہ کاریاں

جب 2005ء کا زلزلہ آیا، تب میں ایک ترقیاتی تنظیم کے ساتھ مینجر کمیونی کیشن کے طور پر وابستہ تھا۔ابتدائی دنوں میں آنے والی ہولناک خبروں نے ہم سب کے ہوش اڑا دیے تھے۔ 80 ہزار سے زائدافراد کی شہادت، لاکھوں کا زخمی ہونا اور اس سے بھی زیادہ کی بے گھری جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کا کوئی ادارہ تیار نہ تھا۔ اس وقت تک تنظیم کا بھی آزاد کشمیر میں کوئی دفتر نہ تھا اور نہ ہی کسی مقامی تنظیم کے ساتھ رابطے تھے، اس لیے تمام اطلاعات بالواسطہ طور پر، نسبتاً تاخیر کے ساتھ پہنچتی تھیں۔ چنانچہ ابتدائی ایام میں یہ طے کرنا مشکل ہورہا تھا کہ کیا کام کیا جائے اور کہاں سے شروع کیا جائے۔ آفت کا حجم استطاعت سے بڑا تھا جس نے اسلام آباد میں موجود بیشتر این جی اوز کو مجبور کیا کہ وہ مل کر اس کا مقابلہ کریں اور فوری طور پر اپنے مالی اور افرادی وسائل کو مجتمع کریں۔

ڈیزاسٹر انفارمیشن سینٹر کا قیام

حارث خلیق ان دنوں تنظیم کے چیف ایگزیکٹو تھے ، (جن کی شہرہ آفاق نظمیں ‘سارے کام ضروری تھے’، قصہ خوانی بازار کی ایک شام اور عشق کی تقویم میں’جدید اردو ادب کا حصہ ہیں)۔ وہ اعلیٰ پائے کے قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین ماہرِ ابلاغیات بھی ہیں۔ انہوں نے ابتلاء کے اس دور میں مستند معلومات کی اہمیت کو سمجھا اور میرے ذمے کام لگایا کہ تنظیم میں ہنگامی بنیادوں پرایک ڈیزاسٹر انفارمیشن سینٹر قائم کروں جہاں سے تمام پاکستان کی این جی اوز کے لیے فوری اور قابل اعتماد معلومات تک رسائی کو ممکن بنایا جاسکے۔ یہ اپنی نوعیت کا پاکستان میں پہلا اطلاعاتی مرکز تھا جس نے اداروں اور افراد کے مابین رابطہ کاری میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس کی بدولت ہم نے پاکستان کی پہلی ڈیزاسٹر رسپانس ڈائریکٹری شائع کی جس کو بعدازاں درجنوں اداروں نے استعمال کیا۔ پھر یہیں سے ہی، ہم نے ایرا کے لیے سوشل موبلائزیشن پراردو زبان میں ایک ٹریننگ مینول بنایا تو ٹریننگ آف ٹرینرز کی خاطر مجھے بھی دیگر ٹرینرز کے ساتھ راولا کوٹ جانا پڑا۔

اسی سفر کے دوران میں نے ایک ناقابل فراموش واقعہ دیکھا۔شام کے سائے گہرے ہونے لگے تھے۔ ہم سب راولا کوٹ، آزاد کشمیر میں اقوام متحدہ کے ادارے ‘یو این ہیبیٹاٹ’ کے کمپائونڈ میں بیٹھے تھے۔ ایک وسیع و عریض میدان میں علاقے کے معززین کا اجتماع تھا۔ وہاں ڈی سی او بھی موجود تھا اور علاقے کا فوجی کمانڈر بھی۔ متعدد این جی اوز کے اہل کار بھی تھے اور سرکاری لائن ڈیپارٹمنٹس کے نمائندے بھی۔ میں اسلام آباد سے آکر اپنی تنظیم کی نمائندگی کررہا تھا ۔ یہ پہلی میٹنگ تھی جس میں زلزلے کے بعد، راولا کوٹ میں متاثرین کی امداد اور تعمیر و ترقی کا ایجنڈا طے ہونا تھا۔ وہاں سب ‘اہم’ لوگ آچکے تھے مگر پھر بھی میٹنگ شروع نہیں ہوئی تھی۔ میں حیران تھا کہ جب تمام وی آئ پیز آچکے ہیں تو کارروائی کا آغاز کیوں نہیں ہورہا۔ کچھ دیر گزری تو اپنے ساتھ بیٹھے صاحب سے تاخیر کا سبب پوچھا۔ وہ راولا کوٹ کی ایک مقامی تنظیم کے صدر تھے۔ انہوں نے کہا ۔‘‘نجمہ باجی آئیں گی تو میٹنگ شروع ہو گی’’

سُوتی چادر، شکن آلود قمیض شلوار اور پاؤں میں ہوائی چپل پہنے سادہ سی عورت

میں تعجب میں پڑگیا۔ ایسا کون تھا جس کے انتظار میں یہ تمام لوگ بھی رُکنے پر مجبور تھے۔ بھلا بیوروکریسی اور دیگر طبقے اپنے علاوہ بھی کسی کو اہم سمجھتے ہیں۔ میرا اشتیاق بڑھ گیا۔خاموشی کے چند منٹ اور گزرے تو سامنے سے ایک ادھیڑ عمر خاتون آتی نظر آئیں۔ سر پرسُوتی چادر، شکن آلود قمیض شلوار اور پائوں میں ہوائی چپل پہنے وہ سادہ سی عورت، ایک بچی کا ہاتھ تھامے، تیز تیز قدم اٹھاتی جوں ہی میدان میں داخل ہوئی، تمام افراد کرسیوں سے اٹھ کرکھڑے ہوگئے۔میں سمجھ گیا یہ نجمہ باجی ہیں۔ آتے ہی انہوں نے گلابی کشمیری اردو میں تاخیر کی معذرت کی اور تب میٹنگ کا آغاز ہوا۔ یہ نجمہ باجی سے پہلا تعارف تھا جو میرے ذہن پر نقش ہوگیا۔ وہ شام گزر گئی اور پھر کئی سال تک میری اُن سے ملاقات نہیں ہوئی

آزاد کشمیر کی تنظیموں کے لیےسول سوسائٹی نیٹ ورک

گزشتہ سال، یارِ دیرینہ معروف کالم نگار ارشاد محمود کا فون آیا جو کراچی یونی ورسٹی میں میرے ہم جماعت بھی رہے تھے۔ فرمایا کہ ‘نجمہ باجی کی تنظیم کو مظفر آباد میں سول سوسائٹی نیٹ ورک بنانا ہے۔ اگر وقت ہو تو آزاد کشمیر کی تنظیموں کے لیےسول سوسائٹی نیٹ ورکنگ پر ایک دن کی ٹریننگ کردیں۔ میں نے حامی بھر لی اور یوں کئی برس بعد، میرا نجمہ باجی سے دوبارہ رابطہ ہوا۔ جب سےعوام نامہ لکھنا شروع کیا تھا، ذہن میں خیال تھا کہ اپنے پڑھنے والوں کو اس حیرت انگیز خاتون سے بھی ضرور متعارف کرائوں گا جس نے آزاد کشمیر میں گزشتہ بیس برس کے دوران، عوام کی سطح پر ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ لہٰذا اس بار کا عوام نامہ ‘نجمہ باجی’ کی نذر!

پانچ سو روپے سے آغاز کرنے والی تنظیم 25 ہزار خواتین پر مشتمل ہے

ایک مشکل ترین علاقے میں، جہاں مردوں کے لیے بھی کام کرنا آسان نہیں،اس عورت نے ناقابل یقین پیش رفت کی ہے۔

کیا آپ مانیں گے کہ محض پانچ سو روپے سے کام کا آغاز کرنے والی سیدہ نجمہ شکور نے بیس سال کی ان تھک محنت کے بعد، ویمن ویلفئیر آرگنائزیشن (پونچھ) کو آزاد کشمیر میں خواتین کی سب سے بڑی تنظیم میں تبدیل کردیا ہے جس کےرجسٹرڈ ارکان کی تعداد پچیس ہزار خواتین پر مشتمل ہے۔اس تنظیم کا سالانہ بجٹ اب کروڑوں روپے میں ہے اور بلامبالغہ ہزاروں افراد اس کی خدمات سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اس خاتون نے آزاد کشمیر کے گلی کوچوں میں میل ہا میل پیدل چل کر، اپنی ساتھی خواتین کے ساتھ دن رات کام کرکے بارہ سو سے زیادہ خواتین گروپوں کو منظم کیا ہے۔

پانچ سو روپے سے آغاز کرنے والی تنظیم 25 ہزار خواتین پر مشتمل ہے

ایک مشکل ترین علاقے میں، جہاں مردوں کے لیے بھی کام کرنا آسان نہیں،اس عورت نے ناقابل یقین پیش رفت کی ہے۔

کیا آپ مانیں گے کہ محض پانچ سو روپے سے کام کا آغاز کرنے والی سیدہ نجمہ شکور نے بیس سال کی ان تھک محنت کے بعد، ویمن ویلفئیر آرگنائزیشن (پونچھ) کو آزاد کشمیر میں خواتین کی سب سے بڑی تنظیم میں تبدیل کردیا ہے جس کےرجسٹرڈ ارکان کی تعداد پچیس ہزار خواتین پر مشتمل ہے۔اس تنظیم کا سالانہ بجٹ اب کروڑوں روپے میں ہے اور بلامبالغہ ہزاروں افراد اس کی خدمات سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ اس خاتون نے آزاد کشمیر کے گلی کوچوں میں میل ہا میل پیدل چل کر، اپنی ساتھی خواتین کے ساتھ دن رات کام کرکے بارہ سو سے زیادہ خواتین گروپوں کو منظم کیا ہے۔

ویمن ویلفئیر آرگنائزیشن (پونچھ) کے مقاصد

ویمن ویلفئیر آرگنائزیشن (پونچھ) کے تحت یہ گروپس آج سڑکوں کی تعمیر سے لے کر کلینکس، اسکول، مائیکروکریڈٹ، واٹر سپلائی اور سینی ٹیشن اسکیمز، روزگار اور نہ جانے کتنے ہی پیچیدہ پروجیکٹس چلارہے ہیں۔ کیا اپ ایک دیہاتی عورت سے ان سب کارناموں کی توقع کرسکتے ہیں۔

ورلڈ بنک کی سربراہ کا نجمہ شکور کے گھر پر قیام

راولپنڈی کے ایک گھر میں تیرہ سال تک رہنے والی سیدہ نجمہ کے بارے میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ عورت جو پانچ بچوں کو بیک وقت پال رہی ہے اور گھر گرہستی میں مگن ہے، ایک دن وہ مقام پائے گی کہ اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل خود پاکستان آکر، وزیر عظم ہا ؤس میں اسے اعزاز سے نوازے گا۔ ورلڈ بنک کی جنوبی ایشیا کی سربراہ تین دن اس کے گاؤں کے گھر میں مہمان رہے گی اور اس کے ساتھ گلی گلی جاکر غربت میں کمی کے لیے ماڈلز کا مطالعہ کرے گی جبکہ وزیر اعظم ہاؤس کے افسران صرف ایک ملاقات کے لیے بھی ترس جائیں گے۔ایک عام سے مگر معزز و معتبر گھرانے کی یہ عام سی خاتون آزاد کشمیر میں جدوجہد کی علامت بن چکی ہےجس کا انتظار گھنٹوں نہیں بلکہ دنوں تک کیا جاتا ہے۔ محض چند منٹ اس کی آواز سننے کے لیے کئی کئی گاؤں کی عورتیں، دور دراز جگہوں سے بھی کھنچی چلی آتی ہیں۔ اس کے باوجود، اُس کے لہجے کی عاجزی اور انداز میں موجود انکسار آپ کو قطعاً یہ احساس نہیں ہونے دے گا کہ آپ کا سامنا، عورت کے روپ میں عزم و استقلال کے پہاڑ سے ہے۔ شاید اسی لیے سلطان العارفین حضرت سلطان باہُو کہہ گئے ہیں۔

سو ہزار تنہاں توں صدقے جیہڑے مونہہ نہ بولن پُھکا ہُو

لکھ ہزار تنہاں توں صدقے جیہڑے گل کریندے، ہُکا ہُو

لکھ کروڑ تنہاں توں صدقے جیہڑے نفس رکھیندے جھُکا ہُو

نیل پدم تنہاں توں صدقے باہُو جیہڑے جیہڑے ہوون سون سداون سکا ہُو

(سَو ہزار اُن لوگوں پرصدقے جو کسی حال میں گِلہ اور کچی بات نہیں کرتے۔ سَو لاکھ ان لوگوں پر صدقے جو وعدے پر قائم ہیں اور سچی بات کرتے ہیں۔ سو کروڑ ان پر صدقے جو نفس کو قابو کرکے جُھکائے رکھتے ہیں۔ باہُو نیل اور پدم ان پر صدقے جو اونچےمقام پر ہو کر بھی خود کو ادنیٰ اور حقیر جانتے ہیں)۔

میٹرک پاس کرنے والی پہلی لڑکی

سادات گھرانےسے تعلق رکھنے والی سیدہ نجمہ کا بچپن عام سا تھا۔ تقسیم برصغیر سے پہلے، آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے دونوں حصوں میں، اس کے خاندان کے لوگ ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک تھے اور سرینگر تا راولپنڈی ان کی گاڑیاں چلا کرتی تھیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد، نجمہ کے والد اپنے خاندان کے بیشتر افراد کے ساتھ آزاد کشمیر کی طرف ہجرت کرگئے اور راولا کوٹ کے آس پاس آباد ہوگئے۔یہیں ضلع پونچھ کے ایک چھوٹے سے گائوں‘مجوئی’ میں نجمہ کی پیدائش ہوئی۔ خوش قسمتی سے باپ کو لڑکیوں کی خاص فکر تھی چنانچہ نجمہ کو اپنے گاؤ ں میں میٹرک پاس کرنے والی پہلی لڑکی بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے بعد نجمہ کی شادی ہوگئی اور اوپر تلے اولاد ہوتے ہی وہ چھوٹی عمر میں ہی گھر داری میں پوری طرح مصروف ہوگئی۔ تاہم امور خانہ داری کے ساتھ ساتھ وہ پڑھتی بھی رہی اور انٹر میڈیٹ کرڈالا۔ اس کے بعد زندگی نے سیدہ کو مزید تعلیم کی مہلت نہ دی۔

گاؤں کی عورتوں کے مسائل

”اُن دنوں ہمارے گائوں میں بھی عورتوں کے مسائل وہی تھے جو عام طور پر پاکستان کے کسی علاقے میں موجود عورتوں کےتھے”۔سیدہ نجمہ شکور نے مجھے بتایا۔ میں عوام نامہ کے لیے ان کا انٹرویو کرنے ،سیٹلائٹ ٹاون راولپنڈی میں واقع ان کے گھر میں موجود تھا۔ باہر جاتی سردی کی تیزپھوار پڑ رہی تھی اور سبزے کی سوندھی سوندھی خوشبو ہر طرف پھیلی تھی۔”بچپن ہی سے میں عورتوں کو چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے پریشان اور مارا مارا پھرتا دیکھتی تھی۔ خاص طور پر جب کسی کے گھر بیماری آجاتی تھی یا حادثہ اور وفات ہوتی تھی تو اچانک پورا گھرانا دبا ؤ میں آجاتا تھا۔ سب ہی غریب تھے اس لیے کسی کو قرض اول تو مشکل سے ملتا تھا یا پھر کم ملتا تھا۔ میں سوچتی تھی اس کا کیا حل ہے۔ مگر کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آتی تھی”۔آج سیدہ نجمہ نے پورے آزاد کشمیر میں عورتوں کے جن بارہ سو گروپوں کو منظم کیا ہے، وہ اب تک مجموعی طور پر ایک کروڑ روپےکے لگ بھگ رقم جمع کرچکے ہیں جن سے سینکڑوں خاندانوں کی ہنگامی امداد کے لیے فنڈز فراہم کیے جارہے ہیں۔ ایک خاتون کم ازکم دس روپے ماہانہ بچت فنڈ میں جمع کرانے کی پابند ہے۔

سیدہ کا ضابطہ تعاون

سیدہ نے خواتین کے لیے “ضابطہ تعاون” کے عنوان سے ایک دلچسپ دستاویز ایجاد کی ہے۔ اس کے تحت، کسی گاؤ ں کے گروپ میں صرف وہی خواتین شامل ہوسکتی ہیں جن کے مفادات مشترک ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے بچے ایک ہی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ یا وہ ایک ہی کنویں یا چشمے سے پانی لیتی ہیں یا ان کی جغرافیائی شناخت اور ضرورتیں ایک ہیں۔اس ضابطہ تعاون کی بدولت سینکڑوں گاؤں کی خواتین میں یگانگت، رواداری اور بقائے باہمی کا منفرد نظام قائم ہوا ہے۔

نجمہ شکور کا پہلا گرلز اسکول

“سترہ سال کی عمر میں شادی کے بعد میں اپنے سسرال کے گائوں سرچھا، راولا کوٹ آگئی تھی”۔سیدہ نجمہ نے بتایا۔”تب گائوں میں نہ بجلی تھی نہ ٹیلی فون اور نہ سڑک۔ دن میں ایک بس آتی تھی جو راول پنڈی سے صبح چھ بجے چلا کرتی تھی اور دس گھنٹے میں ہمارے گائوں پہنچتی تھی۔ پس ماندگی ہر طرف تھی۔ اسکول کالج کا تو سوال ہی نہ تھا۔ میرے خاوند نے کہا کہ یہاں مسجد کے برابر میں ایک حجرہ ہے جہاں لڑکے اور لڑکیاں ساتھ پڑھتے ہیں۔ میں چاہتاہوں تم لڑکیوں کو علیحدہ پڑھائو۔ وہ خود میرے لیے میز خرید کرلائے۔ تب میں نے اس حجرے میں لڑکیوں کے لیے گائوں کا پہلا اسکول قائم کیا ۔ تھوڑے ہی عرصے میں میرے پاس ڈھائی سو کے قریب بچیاں پڑھ رہی تھیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اسی دوران نیشنل ایجوکیشن فائونڈیشن کو میرے اسکول کے بارے میں خبر ہوگئی تو انہوں نے ازخود مجھے اپائنٹمنٹ لیٹر بھیج کر ٹیچر مقرر کردیا اور باضابطہ طور پر میری تنخواہ بھی جاری کردی۔ اس طرح میں گھر بیٹھے ہی، کوئی درخواست دیے بنا سرکاری ٹیچر بنادی گئی۔ مگر میں نے اسے قبول نہ کیا اور تقرر نامہ واپس کردیا”۔فروغِ تعلیم سے سیدہ نجمہ نے کبھی منہ نہ موڑا۔آج وہ حجرہ ایک ہائی اسکول میں تبدیل ہوچکا ہے جس میں سینکڑوں بچے اور بچیاں پڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اب تک ان کی تنظیم کے پلیٹ فارم سے آزاد کشمیر کے مختلف مقامات پر پچاس سے زیادہ اسکول قائم ہوئے ہیں یا ان کے قیام میں معاونت کی گئی ہے۔ ان کی تنظیم کی کوششوں سے ڈیڑھ ہزار کے قریب ایسے بچے اسکولوں میں داخل ہوئے ہیں، جو غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرپارہے تھے۔ ایک ہزار سے زیادہ اساتذہ کو ان کی تنظیم کے پلیٹ فارم سے تربیت مہیا کی جاچکی ہے

۔شکور نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) کی کوآرڈینٹر

“1994 میں اتفاقاً ہمارے گاؤں میں نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) کے سوشل موبلائزرز کی ایک ٹیم آگئی”۔ سیدہ نجمہ نے مجھ سے کہا۔”انہوں نے عورتوں کو جمع کیا اور چھوٹی بچتوں کے پروگرام چلانے کی ترغیب دی۔ یہ ہمارے لیے نئی بات تھی۔ میں چونکہ گاؤں کی واحد پڑھی لکھی لڑکی تھی، اس لیے انہوں نے مجھے گروپ کا کوآرڈی نیٹر مقرر کردیا۔ پھر تھوڑے عرصے کے بعد گاؤ ں میں چھوٹے قرضوں کا ایک پروگرام شروع کیا گیا تو مجھے ہی ذمے داری لینی پڑی۔ لیکن پے در پے کئی ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہمیں ایسے ادارے کی ضرورت ہے، جس کی پالیسیاں ہم خود بنائیں اور جو ہماری صورتحال کے مطابق ہوں”۔ ‘‘ایسی کیا مایوسی ہوئی آپ کو؟’’۔ مجھے تجسس ہوا۔

گاؤں کا ان پڑھ غریب اور بھینس کی تین کوٹیشنز

“پہلے تو ایسا ہوا کہ ایک فرد کو کاروبار کے لیے پانچ ہزار کا قرضہ ملا جو اسے ڈھائی سو روپے ماہانہ کی قسط کی صورت میں، بیس ماہ میں واپس کرنا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ درخت پر لکڑیاں کاٹنے کے لیے چڑھا تو نیچے آگرا اور اس کی دونوں کلائیاں ٹوٹ گئیں۔ وہ کسی کام کاج کے قابل نہ رہا۔ مگر قرضہ دینے والی تنظیم کے سوشل موبلائزر، جو گاؤں کے ہی لوگ تھے، اصرار کرتے رہے کہ وہ وقت پر اپنی قسط ادا کرے۔ ہم نے بارہا کہا کہ وہ زخمی پڑا ہے، اسے رعایت دی جائے مگر وہ کہتے تھے کہ ہم مجبور ہیں، کسی کو بھی رعایت نہیں دی جاسکتی۔” اس کے بعد انہوں نے ایک اور شخص کو بھینس خریدنے کے لیے قرضہ دیا مگر شرط لگائی کہ وہ تین کوٹیشن پیش کرے۔ اب آپ سوچیں، گاؤں کا ان پڑھ غریب کہاں سے بھینس کے لیے تین کوٹیشن لائے گا۔”

چھ بہنیں اور اپنے بھائی کی ترقی کے خواب

“اس کے بعد ایسا ہوا کہ ہمارے گاؤں میں چھ بہنوں کا ایک بھائی تھا جسے وہ دن رات محنت کرکے پڑھا رہی تھیں۔ وہ خود ان پڑھ تھیں مگر ان کی امیدوں کا سہارا ان کا اکلوتا بھائی تھا جس کی تعلیم کے لیے وہ سلائی کڑھائی اور دیگر کام کرتی تھیں۔ جب ان کے بھائی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے زیادہ فیس کی ضرورت پڑی تو کوئی ان کی مدد کرنے والا نہ تھا۔ وہ چھ بہنیں اپنے بھائی کی ترقی کے خواب لے کر ہی زندہ تھیں۔ بھائی کو آگے پڑھنے کے لیے فیس نہ ملی تو ان کے سارے خواب ٹوٹ گئے۔ ہم سب ان کی مدد کرنا چاہتے تھے مگر فیس بہت زیادہ تھی۔ تب میں نے سوچ لیا کہ گاؤں میں ویلفئیر کے لیے ایسا ادارہ خود بنائوں گی جو غریبوں کی زندگیاں آسان بنائے گا، ان کو مزید عذابوں میں گرفتار نہیں کرے گا”۔ “اتفاق سے ان ہی دنوں گاؤں کی ایک خاتون کے شوہر کی وفات ہوئی ۔ پھر اس کے گھر چوری ہوگئی اوراور تھوڑے ہی دن بعد ایک بیٹی بھی چل بسی تو وہ پیسے پیسے کو محتاج ہوگئی۔ تب میں نے پہلی بار ،اس کی بیٹی کی نذر نیاز کے لیے، گاؤں کی عورتوں کے ساتھ مل کر پانچ سو روپے جمع کیے اوردیگ کی رقم دی۔ اس کے بعد ہم نے عورتوں کے تعاون سے ہی چھوٹی چھوٹی رقموں کو بچانا شروع کیا۔ جلد ہی ہمارے پاس اچھی بھلی رقم اکھٹی ہوگئی اور یوں ہم ہر کسی کی ضرورت کے وقت مدد کرنے کے قابل ہوگئے۔ جب کام بڑھا تو میرے خاوند نے کہا کہ اب اس تنظیم کو رجسٹر کراؤ تاکہ ہم بڑے وسائل حاصل کرسکیں جن سے بڑے منصوبے سامنے آئیں۔ اس لیے ہم نے 1996ء میں اپنی تنظیم کو ویمن ویلفئیر آرگنائزیشن (پونچھ) کے نام سے آزاد جموں و کشمیر کونسل اسلام آباد سے رجسٹر کروالیا”۔

اپنی مدد آپ کے تحت گاؤں کے مسائل کا حل

خواتین کے اس گروپ نے اپنی مدد آپ کے تحت گاؤں کے مسائل حل کرنے شروع کردیے۔ عورتوں کے جذبے نے مردوں کو پہلے تو چونکایا اور پھر وہ بھی عورتوں کے ساتھ شامل ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں عورتیں گروپ کا حصہ بن گئیں۔‘‘میری سب سے بڑی طاقت میرے خاوند تھے۔ دو سال قبل شکور صاحب کا انتقال ہوگیا۔ وہ مجھے حوصلہ دیتے تھے۔ مخالفتوں کے سامنے وہ میری ڈھال بنتے تھے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں، اپنے مرحوم خاوند کے دیے ہوئے اعتماد اور حوصلے کی بدولت ہوں”۔ سیدہ نے اپنے دکھ کو مسکراہٹ میں چھپالیا۔”مگر میرے بچوں نے بھی میرا بہت ساتھ دیا ہے۔ میں گلیوں گلیوں، گاؤں گاؤں عورتوں کو منظم کرتی پھرتی تھی مگر انہوں نے کبھی پلٹ کر شکایت نہیں کی۔ ماشاء اللہ آج میری تین بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اپنے سسرالوں میں خوش و خرم ہیں۔ ایک بیٹا اور بیٹی تعلیم کے ساتھ ساتھ میرا ہاتھ بھی بٹا رہے ہیں”۔

مزاحمتوں سے ٹکرانے کی جرات

سیدہ نجمہ کو خدا نے قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ گہرائی سے تجزیہ کرنے اور مزاحمتوں سے ٹکرانے کی جرات بھی عطا کی ہے ۔”ہمیں شروع میں یہ احساس تھا کہ ہم عورتیں ہیں۔ کمزور ہیں۔ ہم پر زیادہ بوجھ ہے اس لیے ہمیں بہت محتاط ہوکر چلنا ہوگا”۔ انہوں نے کہا۔”یہی وجہ تھی کہ ہم نے ابتدا میں ایسے معاملات میں دخل دینے سے گریز کیا جہاں یہ اندیشہ تھا کہ اس کا نتیجا مردوں سے ٹکرائو کی صورت میں نکلے گا۔ ہم بہت محتاط ہوکر کام کرتے تھے کہ کہیں خدانخواستہ کوئی تنازعہ نہ کھڑا ہوجائے اور ہم سب مصیبت میں پھنس جائیں۔ ہم نے دانستاً کوشش کی کہ ہمارے کام کے انداز، پیغام، حلیے، بات چیت کسی چیز سے بھی کوئی ایشو کھڑا نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ مقامی طور پر ہمیں ہمیشہ سپورٹ کیا گیا اور مولویوں سے لے کر ماڈرن لوگوں تک سب نے ہمارا ساتھ دیا”۔

عورتوں کو وراثت میں حصہ

تو کیا آپ نے اس محتاط رویے کی وجہ سے کچھ حقیقی مسائل کو بھی نظر انداز کیا؟۔ میں نے پوچھا۔جی ہاں، سیدہ نے بلا توقف اعتراف کیا ۔ہمارے علاقے میں عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا۔ جائیداد میں حصہ پانے کے لیے ان کو لاکھ جتن کرنے پڑتے تھے پھر بھی ان کو قانونی، شرعی اور اخلاقی حصے سے محروم رہنا پڑتا تھا۔ جب ہم نے گروپ بنایا تو ہمارے پاس کئی ایسے کیسز آئے جن میں عورتوں کو ان کے باپ، بھائی، خاوند یا دیگر عزیز رشتے داروں نے حصے سے محروم کردیا تھا مگر ہم اپنے خوف کی وجہ سے ان کے لیے آواز نہ اٹھا سکے۔ہمیں ڈر تھا کہ کہیں ہم عورتوں کی مداخلت سے برادریاں آپس میں نہ لڑ پڑیں۔ وہاں ایسے معاملات میں خون خرابے تک نوبت جاپہنچتی ہے۔ ہم نے ایسے معاملات لانے والی خواتین سے معذرت کرلی۔ ہم نے کہا کہ ہم اخلاقی طور پر تمہارے ساتھ ہیں مگر اس کے علاوہ تمہاری کوئی اور مدد نہیں کرسکتے۔ مجھے آج تک اپنی اس کم زوری پر افسوس ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر میں اس وقت تھوڑی سی ہمت کرلیتی تو شاید بہت سی مظلوم عورتوں کو ان کا حق مل جاتا۔

مگر سیدہ نے خوف کو خود پر طاری نہیں رکھا۔ بڑی دانش مندی کے ساتھ وہ قدم بہ قدم آگے بڑھتی گئیں جس کا نتیجا یہ ہے کہ آج سیدہ کی تنظیم کے ذریعے آزاد کشمیر میں متعدد بیواؤں کے مکانات تعمیر ہوچکے ہیں جبکہ کئی بچے اور بچیاں اسکالر شپ پر تعلیم پارہے ہیں۔پہلی بار آپ کے گروپ کو گاؤں کے مردوں نے کب سنجیدگی سے لیا؟ میرے سوال پر وہ ہنس پڑیں۔

واٹر سپلائی اسکیم کے لئے ترقیاتی فنڈز

” یہ ایک مزے دار کہانی ہے۔1997ء کے انتخابات ہونے والے تھے۔ ہم عورتوں کے گروپ نے ایک ایسے امیدوار کو گاؤں میں بلایا جس کے بارے میں سب کو یقین تھا کہ وہ جیت جائے گا۔ ہم نے اس سے کہا کہ اگر وہ وعدہ کرے کہ جیتنے کے بعد ہمیں گاؤں میں پانی کی فراہمی کے لیے فنڈز دے گا تو ہم سارے گاؤں کے ووٹ اسے دلوائیں گے۔ اس نے کہا کہ اگر ہم نے اُسے ووٹ دیے اور وہ کامیاب ہوگیا تو حلف برداری سے پہلے ہمارے گاؤں آکر واٹر سپلائی اسکیم کا افتتاح کرے گا۔ وہ اپنے وعدے کا پکا ثابت ہوا اور جوں ہی اس کی فتح کا اعلان ہوا وہ سب سے پہلے ہمارے گاؤں پہنچ گیا۔ گاؤں کے مردوں کے لیے یہ ایک انوکھی بات تھی۔ سیاسی لیڈر نے کہا کہ ابھی میں نے حلف نہیں اٹھایا ہے اس لیے میرے پاس ترقیاتی فنڈز نہیں ہیں۔ البتہ میرے پاس کچھ پائپ پڑے ہیں جن کی مالیت تقریباً دولاکھ روپے ہے۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو میں وہ پائپ آپ کو دے سکتا ہوں۔ باقی کا خرچ آپ لوگ خود کریں۔ ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ پانی ہمارے گاؤں کا ایک بڑا مسئلہ تھا اور اس کے لیے ہماری ایک بنیادی ضرورت پوری ہورہی تھی۔ ہم نے شکریے کے ساتھ وہ پائپ حاصل کیا اور پھر گاؤں کے مردوں اور عورتوں نے مل کر، پائی پائی جوڑ کر، ایک واٹر سپلائی اسکیم بنا ڈالی۔ ہماری اس کام یابی نے گاؤں کے مردوں پر ہماری دھاک بٹھادی اور اب وہ خود ہماری حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ہمارے ساتھ شامل ہوگئے”۔سیدہ نجمہ کی ویمن ویلفئیر آرگنائزیشن کے ذریعے، آزاد کشمیر کے مختلف دیہاتوں میں اب تک پانی کی فراہمی کی دو سو پچیس سے زیادہ اسکیمیں مکمل ہوچکی ہیں جن سے ہزروں گھرانے مستفید ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ سے زیادہ واٹر اسٹوریج ٹینکس بنائے گئے ہیں اور تقریباً دو سو دیہاتوں کو لنک روڈز کے ذریعے مرکزی شاہ راہوں سے منسلک کیا گیا ہے۔

نئے تصورات متعارف کرکے ماحولیاتی تحفظ کو فروغ

تنظیم نے نئے تصورات متعارف کرکے ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دیا ہے۔ چنانچہ ساڑھے چھ ہزار سے زاید گھروں میں چھتوں پر بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا نظام نصب کیا گیا ہے تاکہ یہ پانی زراعت، گھریلو استعمال یا تجارتی مقاصد کے لیے دستیاب ہو۔ کروڑوں روپے مالیت کے یہ منصوبے عورتوں کی نگرانی میں مردوں کے شانہ بشانہ مکمل کیے گئے ہیں۔ ان منصوبوں نے دور دراز مقامات پر موجود دیہی خواتین کے اعتماد اور شعور میں بے پناہ اضافہ کیا ہے اور اب وہ حقیقی معنی میں اپنے علاقے کی ترقی کے سفر میں شامل ہیں۔

حکومت سے مدد

“آپ کو حکومت سے کتنی مدد ملی ہے؟” “کچھ زیادہ نہیں”۔ فوراً جواب ملا۔”شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے حکومت سے کچھ مانگا ہی نہیں۔ آزاد کشمیر میں حکومت سے مدد مانگنے کا مطلب ہے کسی نہ کسی مقام پر سیاست دانوں کی حمایت کرنا جس کا نتیجہ ہمارے کام کے لیے اچھا نہیں نکل سکتا۔ اس لیے ہم اب تک حکومت سے دُور ہی رہے ہیں”۔‘‘تو کیا سیاست دانوں نے آپ کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش نہیں کی؟’’۔ میں نے پوچھا۔‘‘پہلے کرتے تھے۔ اب مایوس ہوکر رابطہ نہیں کرتے’’۔ وہ زور سے ہنسیں۔‘‘ویسے حکومتوں کی طرف سے کئی بار مختلف کمیٹیوں میں میرا نام شامل کیا گیا ہے۔ وزیر مشیر جب بھی ملتے ہیں یہ ضرور کہتے ہیں کہ ہم آپ سے مشورہ کریں گے اور پورا تعاون کریں گے۔ مگر ایسا اب تک ہُوا نہیں ہے’’۔‘‘آپ کے ادارے میں اپنے بندوں کو نوکریاں دلوانےکے لیے یا ٹھیکوں کے لیے بھی سیاست دان دباؤ نہیں ڈالتے؟’’۔میں نے کریدا۔”کبھی کوئی زیادہ خاص مسئلہ نہیں ہوا”۔ انہوں نے بات کو طوُل نہ دیا۔

“میں چاہتی ہوں میرے علاقے کی بچیاں آگے بڑھیں۔ ان کے پاس صحت ہو، علم ہو، ہنر ہو۔ سب سے بڑھ کر ان کے پاس اپنے حقوق کی تفہیم ہو تاکہ ان کا استحصال نہ کیا جاسکے”۔ سیدہ نجمہ کے لہجے میں ہمالہ سا عزم تھا۔اب تک وہ سنُبلی، پڑاٹ اور پاچھیوٹ سمیت چار مقامات پر زچہ و بچہ کے لیے جدید ترین آلات سے مزین کلینکس قائم کرچکی ہیں جن سے ہزاروں ماؤں اور نو نہالوں کو فائدہ پہنچا ہے۔

“میرا یقین ہے کہ خواتین اگر تہیہ کرلیں تو سو فی صد نہیں تو پچاس فیصد ضرور اپنے مقاصد حاصل کرسکتی ہیں’’۔ سیدہ نجمہ نے کہا۔‘‘ہم نے اس کی مثالیں قائم کرکے دکھائی ہیں۔ ہمارا معاشرہ عورتوں کے لیے آسان نہیں ہے۔ یہاں ان پر تشدد اور استحصال بہت زیادہ ہے مگر ہمارے لوگ اُسے چھپاتے ہیں۔ ہم نے سال 2013ء میں صرف پونچھ ڈویژن کے چار اضلاع کے اعدادوشمار حاصل کیے تھے تو پتا چلا کہ تھانوں میں رجسٹر ہونے والے تشدد کےکیسوں کی تعداد تیرہ سو سے زیادہ ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پھر خواتین پر تشدد کی حقیقی صورت حال کیا ہوگی۔ لیکن ہمیں اس صورتحال کو بدلنا ہوگا’’۔وہ تاسف سے بولیں۔

سیدہ نجمہ کی تنظیم کے تحت بچیوں کو مختلف قسم کے ہنر سکھانے کے لیے پانیولہ میں ایک ووکیشنل ٹریننگ سینٹر قائم کیا گیا ہے جس کے ذریعے تین ہزار سے زیادہ لڑکیوں کو ٹیلرنگ، ٹائی اینڈ ڈائی، بیوٹیشن اور ڈرائیونگ کے کورسز کرائے گئے ہیں۔ اب کشمیر کے دور دراز مقامات پر لڑکی کا گاڑی چلانا،ایک عام بات ہے جس کی بدولت ان کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور بوقت ضرورت وہ خاندان کا مفید اثاثہ ثابت ہورہی ہیں۔

‘‘ہمارے لوگ محنتی ہیں۔ ذہین ہیں۔ ایمان دار ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان کو دستیاب وسائل استعمال کرنے کے قابل بنایا جائے’’۔ سیدہ نجمہ نے کہا۔‘‘ہمارے لوگوں کے پاس زمینیں ہیں مگر ان کو اچھے بیج نہیں دیے جاتے۔ ان کو زراعت کی نئی تیکنیکس نہیں بتائی جاتیں۔ اس لیے ہم نے خود کام شروع کیا ہے۔ اب تک ہم مقامی کسانوں میں بیس ہزار کلوگرام سے زیادہ اعلیٰ معیار کے بیج تقسیم کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پونے دولاکھ زرعی پودے اور ساڑھے بارہ لاکھ سے زیادہ جنگلات بڑھانے والے پودے بانٹ چکے ہیں۔ ہماری کاوشوں سے اب تک تقریباً ایک سو گھرانوں نے پھلوں کے باغ اگائے ہیں جبکہ پچاس کے قریب پولٹری فارم بن چکے ہیں جن کے لیے ہم نے دس ہزار سے زیادہ مرغیاں فراہم کی ہیں۔ اس طرح ہماری تنظیم سینکڑوں گھرانوں کے لیے باعزت اور پائیدار روزگار کا بندوبست کرچکی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہم نے چار ہزار لوگوں کو پولٹری فارمنگ اور پھلوں کے باغ اگانے سمیت فائنانس، بزنس ڈیویلپمنٹ اور سیلز جیسے موضوعات پر ٹریننگ بھی مہیا کی ہیں۔ ان میں سے اکثریت عورتوں کی ہے’’۔ سیدہ نجمہ کی کامیابیاں حیران کن تھیں۔

‘‘ہم سادگی سے پروجیکٹ چلاتے ہیں اس لیے ہمارے انتظامی اخراجات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہم دوسری این جی اوز کی طرح نہیں ہیں جو بڑی بڑی گاڑیوں، عالی شان دفاتر، لمبی لمبی تنخواہوں اور مراعات میں سارا بجٹ ضائع کردیتے ہیں’’۔

انہوں نے بتایا۔‘‘آزاد کشمیر میں اسی لیے مستند اور پائےدار بنیادوں پر استوار ادارے قائم نہیں ہیں کیونکہ وہاں موجود لیڈر شپ کی سمت درست نہیں ہے’’۔ پاکستان میں کام کرنے والے تمام بڑے ڈونرز کو ان کے ادارے پر اعتماد ہے۔گاؤں کی وہ عورت اب یو ایس ایڈ، ڈیفڈ، سیڈا، یورپی کمیشن، یونیسیف، آکسفیم اور ایسے ہی نہ جانے کتنے ڈونرز کے ساتھ پروجیکٹس مکمل کرچکی ہے ۔یہ بات اپنی جگہ خود تعجب سے کم نہیں ہے۔‘‘ہم فنڈز کے لیے کام نہیں کرتے۔ ہم عوام کے لیے کام کرتے ہیں اور فنڈز خود بخود ہم تک پہنچ جاتے ہیں’’۔ ‘‘اب آپ مزید کیا کرنا چاہتی ہیں؟’’۔ میں نے آخری سوال کیا کیونکہ ان کو واپس کشمیر جانا تھا جہاں خواتین کا ایک گروپ ان کے انتظار میں تھا۔

‘‘میں نے ویلفئیر سے کام شروع کیا تھا۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اتنا کام کرسکوں گی۔ میں عام سی عورت ہوں اور بہت زیادہ خواب نہیں دیکھتی’’۔ وہ اپنی بات پر خود ہی ہنس پڑیں۔‘‘لیکن اب مجھے اس وقت بہت دکھ ہوتا ہے جب کوئی عورت بہت دُور سے سفر کرکے میرے پاس آتی ہے صرف اس لیے تاکہ وہ مجھ سے کچھ پیسے لے سکے جن سے اس کے بچے کی فیس ادا ہوجائے یا کسی بیمار کا علاج ہوجائے یا وہ اپنے شوہر کے ذمے بھاری قرض اتار سکے۔ مجھے تب بہت تکلیف ہوتی ہے جب میں اس عورت کی اتنی مدد نہیں کرسکتی جتنی وہ چاہتی ہے یا اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بھلا کیا سمجھے گی کہ میرے پاس ڈیویلپمنٹ فنڈز تو ہیں مگر ویلفئیر یا چیرٹی فنڈز نہیں ہیں۔میری خواہش ہے کہ میں کوئی چیرٹی فنڈ قائم کروں تاکہ کوئی عورت میرے پاس سے ناکام و نامراد واپس نہ جائے۔چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو سالوں تک انتظار نہیں کرایا جاسکتا۔ ہمیں اس کے لیے کوئی فوری راستا تلاش کرنا ہوگا’’۔

میں نے نوٹ بُک بند کی۔ قلم جیب میں رکھا۔ سیدہ نجمہ کا شکریہ ادا کیا اور گھر سے باہر آگیا۔

پھوار اب تیزبارش میں تبدیل ہوگئی تھی۔ میرے جوتوں میں پانی بھرگیا۔ ٹھنڈے پانی سے پائوں جمنے لگے۔

لیکن میرا دل جوش سے بھرچکا تھا۔ ایک شان دار انسان کے ساتھ نشست کے لیے یہ قیمت بُری نہیں تھی!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact