Friday, April 19
Shadow

ممتاز غزنی کی کتاب”بچپن لوٹا دو” پر پروفیسر سید وجاہت گردیزی کا تبصرہ

تحریر: پروفیسر سید وجاہت گردیزی

انسان کو تکلم اور عقل کی صلاحیت اشرف المخلوقات کے رتبے پرفائز کرتی ہے ۔اسی لیے وہ اپنے تجربات اور فکر کو پیغامات یا تحریر کی صورت میں دوسروں تک پہنچانا پسند کرتا ہے۔

ہرانسان کو اپنی ذات سے خصوصی لگاؤ ہوتا ہے۔ذات کی یہ دلچسپی تجربات کی ترسیل کا ذریعہ بن کر انسان کو قلبی تسکین بھی مہیا کرتی ہے۔

تاریخی اعتبار سے ہزاروں لوگوں کے مشاہدات اور تجربات تحریری شکل میں ادب کا سرمایہ ہیں۔آپ بیتی،سوانح عمری، سفرنامہ، خودنوشت اور دیگر اصناف میں وسیع ذخیرہ انسان کے جمالیاتی ذوق کاآئینہ بھی ہے اور اس کی داخلی زندگی کا اظہار بھی۔

ممتاز غزنی کی تصنیف “بچپن لوٹا دو

ممتاز غزنی کی تصنیف “بچپن لوٹا دو” تجربات اور مشاہدات کا دیدہ زیب مرقع ہے۔بچپن کی محبتوں سے لبریز منقش الفاظ ،اصطلاحات،تراکیب ،ضرب الامثال اور کہاوتوں میں پونچھی تہذیب وثقافت کا احاطہ کرتی یہ تصنیف گھر ،محلے،گاوں،شہر اور ریاست کی تہذیب وثقافت  کے پرت کھولتی جاتی ہے۔مصنف کی باشعور محبت اور بالغ نظری سے بچپن سے جڑی یادوں کا وسیع ذخیرہ سمیٹ لاتی ہے۔

بے لاگ اسلوب

اسلوب میں سادگی،شگفتگی اور روانی ہے۔براہ راست اور بے لاگ اسلوب نصف صدی سے زائد عرصہ کی ثفافتی سرگرمیوں اور تہذیبی اقداروروایات کی دلکش منظر کشی کرتا ہے۔بچپن کے کھیل،کچے گھر،سکول کی تعلیم، دوستیاں، رشتہ داریاں، سچے پرخلوص لوگ،معاشی اور معاشرتی سرگرمیاں،خواب بن کر قاری کے سامنے رقص کرنے لگتی ہیں۔

محبتوں کا سفر

“بچپن لوٹا دو”مصنف کی محبتوں کا سفر ہے جو حقیقی دنیا کی سیرکراتا ہے، لفظوں کو احساس کے رشتے میں پرو کر قاری کو ساتھ شریک کرنے اور اسے خود سے بے خود کرنے کا سلیقہ ممتاز غزنی نے خوب نبھایا ہے۔

چراغ حسن حسرت کی دھرتی پونچھ کی تہذیب وثقافت کو سمیٹتی تصنیف “بچپن لوٹادو” نے مجھے بچپن کے خود رو پھلوں، پھولوں، حشرات،کھیلوں،معمولات اور ان گنت یادوں میں ایسا غرق کیا کہ مجھے یہ سارے منظر لامتناعی حسین خواب کی طرح نظر آتے رہے۔

ایسی دنیا دکھائی دی جہاں ہر فرد محبت ، خلوص،اپنائیت اور ایثار کا پہاڑ تھا ۔جہاں ہرفرد انفرادیت میں جہان تازہ کا پیکر بنا دوسروں کے کام آنے کے لیے بے تاب تھا۔

کھیت کھلیان،دیہی سرگرمیاں ،سماجی امور ایک دوسرے کے بغیر طے نہ پاتے تھے اجتماعیت کا شعور اور دردمندی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔اخوت،بھائی چارے اور خلوص کی اس فضا میں بچے بڑوں کے زیراثر تربیت پاتے تھے اور انھی جذبوں کے ترجمان بنتے تھے۔

رسوم وروایات میں چاشنی اور دلکشی تھی۔استاد گاوں کا راہبر تھا اور تقدس کی علامت ۔
متاز غزنی نے بچپن کے معروف شناسا چہروں کی تصویر کشی مہارت سے کی ہے،دیہی زندگی کے خدوخال،بچپن کی شرارتیں،سکول کی زندگی،بازار کے دکاندار اور گاڑیاں ،سب کا احاطہ دلچسپ پیرائے میں کیا ہے۔

مسجد،سکول اور مدرسہ کی یادیں بکھیرتے مصنف نے مقامی صنعت وحرفت ،پونچھی زبان کے محاورات،کہاوتیں،اکھان اور پہاڑی اصطلاحات کا ذخیرہ جمع کیا ہے۔

سرورق پہاڑی ثقافت  کا عکاس

کتاب کا سرورق دیدہ زیب مصوری کا شاہکار ہے جس میں پہاڑی ثقافت کی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔لکڑی کاپل،سبزہ زار،ٹیلے پر خوبصورت مکان،سرسبز درخت جس کی شاخیں ایک طرف بڑھ کر مکان کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔

عقب میں مختلف زاویے بناتے پہاڑی سلسلے،افق پر آنکھوں کو خیرہ کرتی سرخی مائل جاذب شفق ۔سرورق کی بالائی سطح پر پیلے چمکدار جلی حروف میں”بچپن لوٹادو” کا جگمگاتا ٹائٹل دائرہ نما نقاط سے اسے پرکشش بناتا ہے ۔سرورق کے نیچے مصوری کے شاہکار لکڑی کے پل پر “ممتازغزنی ” کا نام درج ہے۔

پس ورق پر بچپن کی یادوں سے اقتباس

پس ورق پر بچپن کی یادوں سے اقتباس ماں کی ممتا کے جذبات سے لبریز تحریر جو ایک گہری عقیدت لیے شعر پر اختتام پذیر ہے:

مدت سے دید کوترستی آنکھیں

ماں تجھے سلام عقیدت کہتی ہیں

دیدہ زیب کتاب

ایک سو بانوے صفحات پر مشتمل یہ کتاب دارالمصحف ،غزنی سٹریٹ اردوبازار لاہور سے اکتوبر 2020ء میں شائع ہوئی ہے ۔قیمت 500 روپے ہے،کتاب کی ڈیزائیننگ اور کمپوزنگ دیدہ زیب ہے۔انتساب شریک حیات اور بچوں کے نام ہے ۔پیش لفظ میں مصنف نے جان ملٹن کی ” جنت گم شدہ” کے حوالے سے بچپن کی یادوں کو انسان کی قیمتی متاع قرار دیا ہے اور احوال ذوق تحریر دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔پہاڑی زبان کے الفاظ کا بے ساختہ استعمال،تصاویر کے ذریعے تفہیم،احوال دوستاں اور اشاعت کتاب کے مراحل کو ضبط تحریر میں لایا ہے ۔

حرف چند ، پروفیسر نسیم سلیمان

پروفیسر نسیم سلیمان نے حرف چند کے عنوان سے کتاب اور صاحب کتاب پر خوبصورت نقد کیا ہے۔قید مقام پر خوبصورت تنقیدی جملے ان کی تنقیدی بصیرت کی عکاسی کرتے ہیں۔

عمر فاروق عرفی کا تبصرہ

عمر فاروق عرفی نے کمال کامصنف کے عنوان سے مصنف کی کتاب دوستی،شائستگی،اور اخلاق پر قلم فرسائی کی ہے۔کتاب کے پانچ حصوں شخصیات،رسم ورواج،پھل سبزیاں ،ثقافت اور،پرندے جانور پر روشنی ڈالی ہے۔مصنف کی شخصیت اور فن پر عمر فاروق عرفی کے کلمات تحسین قاری کو مصنف سے واقفیت دلاتے ہیں۔اب انھیں ڈھونڈ چراغ زیبا لے کر ،میں تھوراڑ بازار کے آغازوارتقا اور ملحقہ ثقافتی زندگیکا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔گھر ،محلے،راستے اور نجی زندگی کے متعلق بیش بہا معلومات خوبصورت روداد کی طرح پہنچائی گئی ہیں۔

پہاڑی پونچھی الفاظ

پہاڑی پونچھی الفاظ ،اسما،جملے،دلچسپ واقعات،قاری کو بچپن کی طرف لوٹادیتے ہیں۔والد گرامی کی شخصیت پونچھ کی روایتی ثقافت کی نمائندگی کرتی دکھائی دیتی ہے۔والدہ محترمہ کی یاد میں صفحہ قرطاس پر بکھرے الفاظ مٹی کے چولہے میں جلتی لکڑیوں کی تپش لیے دل ودماغ پر نقش ہوتے ہیں۔

انسانوں اور گھر کے ساتھ ساتھ مویشوں کو سنبھالتی ماں،مہمان نوازی میں سخاوت کا پہاڑ ہے ،سادگی ،خلوص اور محبت کا یہ عظیم پیکر بچپن لوٹا دو کے مصنف کی ماں ہی نہیں بلکہ اس عہد کی ہرماں ایثار وقربانی کی علامت ہے ۔اماں کا یہ کردار مصنف کے ہم عصر بخوبی سمجھ سکتے ہیں اور اس لفظ میں چھپی خوشبو سے لطف اٹھاسکتے ہیں۔ماں کے لیے مصنف کے جذبات قاری کی آنکھوں میں آنسو بن کر چھلک جاتے ہیں۔

تاریخی اور جیتے جاگتے کردار

مصنف گھر سے نکل کر آس پاس کے کرداروں کو تاریخی شعور سے تلاشتا ہے جہاں اسے ڈاکٹرچچا،احم دین ککا،رحم دیں ککا،منور کا کلا،صواب کلی ماں،قاری اشرف،خالد بھائی،فاروق بھائی،سعید انور کاکا،ایم آر خان،شفینہ باجی،ایم ایم خان،کیپٹن عبدالرحمان عرف کیپٹن تری،کلا چچا،اکرم مجتے ناں کلا،جیسے نقش چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔

جن کے ذکر میں مصنف کی ذات ساتھ ساتھ چلتی ہے۔پھول کلیاں قاعدہ، اردو کی پہلی کتاب،حاضر جناب،پہاڑے تہیاڑے،تعلیمی سفر کی حسین یادیں ہیں جو مسجد ومدرسہ کا احاطہ کرتی لفظوں کاروپ دھارتی ہیں۔تعلیمی سفر کے مراحل دلچسپ اور پہاڑی پونچھی ثقافت سے مالا مال ہیں۔پہاڑے الفاظ جملے کہاوتیں اور محاورات کا برمحل استعمال کتاب کی افادیت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے ۔مصنف نے مروجہ کہاوتوں اور اکھانوں کو ساتھ شامل کر کے دم توڑتی تہذیب کو نئی زندگی دی ہے۔

رمضان اور بچپن کی یادیں،پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے،بند کردے کوئی ماضی کادریچہ، تاریخی شعور سے اٹی پونچھی لوک ثقافت کا مرقع ہیں۔سات گنجوں کے نام اور اباپکنا، قیافہ شناسی کی بازیافت ہے جو ہر گھر سے جڑی قیافہ شناسی کی رسم تھی۔

ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں کیک،عہد ماضی کی دلکش یادگار عید کارڈ کی ثقافتی علامت ہے ۔رنگارنگ عید کارڈز تہنیت بھرے پرخلوص پیغامات جھولی میں تھامے سامنے کھڑے نظرآتے ہیں۔عہدحاضر کی تیز ترین مواصلاتی ترقی نے عید کارڈ جیسا خوبصورت اور روایتی مشغلہ بھی بچوں سے چھین لیا۔

رنگ برنگی عینکءں،کویلوں والی استری،چھپری(رومال) ،طوطامارکہ مہندی،عید کے دن سرے پکانا،سویاں،سفید چاول،دہی،پٹاخے والا پستول،کنی میں قربانی کاگوشت پکانا،شادی بیاہ میں جنج ڈولی،دوستی،گالیں گانا،بتھ ویرا،ایسی سرگرمیاں ہیں جو پچاس سال پہلے کی زندگی کی روایات کے نقوش لیے جدید تہذیب لپیٹ میں دم توڑ چکی ہیں۔

ان سرگرمیوں سے وابستہ الفاظ اپنے اندر معنی کا سمندر لیے ایستادہ ہیں۔پھلوں اور سبزیوں میں داڑو،للاں،کولیاڑ،سمبلو،الوڑی،کہگڑولا،ڈوبری،پھاواڑا،چیغن،مرچیاں،بڈھولا،ٹنگی، انموئی،کنکولی،آخریاڑ،آڑو،ہاڑیاں،داخاں،بروئیں،تمبر،موکڑی اور اک ،دیہی زندگی بسر کرنے والے ہر بچے کا جزو تھے۔

بچپن میں جہاں پھل اور پھول کشش رکھتے تھے وہاں حشرات ، پرندے اور جانوربھی خوب حصہ داری نبھاتے تھے۔تریڈالی،ڈاڈار،ساتواری،سیغ،مہراج(لیڈی برڈ)،بھگو پہیا،پونڈار،چڑ،چک پریٹھی، کھپر، گوٹاری اور سیکڑوں حشرات بچے سے وابستہ تھے۔
کولوٹی،جندر،بتی،سیلوں والی ٹارچ،ماندانی،کڑ،گلنی،گتھی،پچھڑا،ہل،جندرا،کونڈی،کوٹھار،رمتان،کھنو،بوہلی،مت،داند،تورا،انوں،ٹانڈے،کہائی،لوغاں،تہایال،چھپر،بیتھل،چکی،اکھلی مولہ،کھیڑا،پولاں،پھوہڑی،کلاڑی باٹ،ٹٹھ،ناڑا چہلاری،ترمچوڑ،کڑیاں،دندالی،چنگیر،بان،گوالی ،مانیاں ،تندی ،پھال اور درجنوں پہاڑی الفاظ وتراکیب کا بھرپور استعمال مصنف کی ذات کو انجمن بناتا قاری کا بچپن لوٹا دیتا ہے۔
تہذیب واقدار،لوک روایات،کے نقوش سے پردہ اٹھاتے یہ مضامین آزادانہ ماضی کے آئینہ دار ہیں۔ان میں آزادانہ شعور کی بھرپور عکاسی ہے پونچھی روایت کو جلا بخشتی یہ تحریریں نوآبادیاتی اور مغربی مرعوبیت سے یکسر آزاد اور قومی احساس کی مضبوط ڈور سے منسلک ہیں ۔

شخصیات کے تذکرے دانشورانہ اظہار اور پہاڑی اصطلاحات کے مرقعے ہیں۔مضامین باہم مربوط نہ ہوتے ہوئے دلکش ہیں ۔ایک مضمون میں ایک سے زیادہ موضوعات کو سمیٹا گیا ہے لیکن ایک دوسرے سے تعلق نہ ہوتے ہوئے بھی مضامین معلومات سے بھرپور ہیں۔
سماج اور معاشرے سے تاریخیت اخذ کرتے ہوئے مصنف نہایت کامیابی سے اپنا جداگانہ رنگ قائم کرتے ہیں۔ان کے احساسات اور جذبات میں ایک کرب ہے جو لطافت پیدا کرتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ممتاز غزنی کے لفظیات کا ثقافتی مطالعہ کیاجائے تو یہ پونچھی ثقافت کی بھرپور آئینہ داری کرتے ہیں۔

پروفیسر سید وجاہت گردیزی 

  پروفیسر سید وجاہت گردیزی اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں-تحقیق میں دلچسپی ہے ۔۔نوائے وقت میں پھول اور کلیاں سے لکھنا شروع کیا۔ادبی تنظیم طلوع کے شماروں میں مزاح لکھا۔

گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج باغ کے مجلے ماہل کے نائب مدیر رہ چکے ہیں -گورنمنٹ ماڈل سائنس کالج باغ سے مجلہ باغبان شائع کیا۔ایم فل اردو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے کی۔اکبر حیدری کشمیری بطور غالب شناس ان کی تحقیق کا موضوع تھا۔

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact