کتاب  :  مولاچھ

مصنف :  ڈاکٹر صغیر  

صنف :  ناولٹ 

زبان :  پہاڑی ( پونچھی)

تبصرہ  نگار :  پروفیسر محمد  ایاز کیانی 

زبان اظہار و ابلاغ کا ذریعہ ہوتی ہے۔۔اپنا مافی الضمیر،نقطہ نظر یا مدعا دوسروں تک پہنچانے کے لیے انسانوں کو کسی نہ کسی زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔فرانسیسی ،جرمن ،چائینیز ،جاپانی الغرض پوری دنیا میں ممالک اپنی زبان میں اظہار کو باعث فخر سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے کسی قسم کے کمپلکس کا شکار نہیں ہوتے۔ہم چونکہ ایک طویل عرصے تک برطانیہ کی نو آبادی رہے ہیں لہذا ہمارے ہاں انگریزی کو ایک امتیازی درجہ حاصل ہے۔لوگ اس زبان میں اظہار خیال کرکے اپنے تئیں ایک احساس برتری محسوس کرتے ہیں۔سننے والے بھی مرعوب ہوتے ہیں چاہیے وہ بالکل عام سی بات کیوں نہ کی جا رہی ہو۔

ہمارے ہاں اس حوالے سے کافی جھجک پائی جاتی ہے اور لوکل یا علاقائی زبان میں بات کرنے کو خلاف آداب ،خلاف تہذیب اور کسی قدر پینڈو پن سمجھا جاتا ہے۔۔اس کی ایک وجہ پہاڑی زبان میں لٹریچر کا فقدان بھی ہے۔۔۔جب سے انگریزی میڈیم اسکولوں کا کلچر آیا ہے انگریزی کا بھوت ہمارے اوپر سوار ہو گیا ہے دوسرے درجے کے سکولوں میں اردو بولنے والے کو مہذب اور کلچرڈ سمجھا جاتا ہے اور پہاڑی زبان میں بات کرنے والے کو کسی حد تک ناشائستہ اور پینڈو سمجھا جاتا ہے۔آج کی نسل کی ایک غالب اکثریت اپنی زبان میں بات کرنا جانتی ہی نہیں اور اگر کرے بھی تو کافی دقت محسوس کرتی ہے بالخصوص خواتین اور بچیوں میں پہاڑی زبان میں بات کرنے کو فیشن کے خلاف سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ پہاڑی زبان کے اکثر الفاظ اب معدوم ہوتے جارہے ہیں اور کئی الفاظ اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔یہ کلچر اس قدر عام ہو چکا ہے کہ پہاڑی زبان میں بات کریں تو بچے کافی “فری”ہو جاتے ہیں اور بات کو غیر سنجیدہ (نان سیریس) لینا شروع ہو جاتے ہیں۔۔

حالانکہ ماں بولی میں اس قدر کشش ، جاذبیت اور اپنائیت ہوتی ہے کہ آپ دنیا کے کسی بھی خطے میں چلے جائیں اگر آپ کو اپنا کوئی “گرائیں” نظر آجائے تو آپ خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور آپ پر سرشاری ، محبت اور اپنائیت کی ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ماں بولی سے محبت ایک فطری جذبہ ہے اور اس میں بات کرنے کی اپنی ایک “چس” ہوتی ہے۔ پہاڑی ،پوٹھواری اور ہندکو لہجوں اور الفاظ کے تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ پاکستان کے خطہ پوٹھوہار،مانسہرہ ایبٹ آباد،ہری پور۔۔۔۔آزادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے پونچھ راجوری میں بولی لکھی اور سمجھی جاتی ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک پہاڑی لکھنے کا رجحان کم تھا مگر  کچھ عرصے سے یہ جمود اب ٹوٹ رہا ہے اور پہاڑی زبان میں( لٹریچر)ادب کی تخلیق شروع ہو گئی ہے۔۔

راولاکوٹ میں اس کا سہرا ڈاکٹر محمد صغیر کے سر ہے جنھوں نے اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھ نہیں لیا بلکہ اٹھا کر رکھنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔آپ  زبانی دعویٰ سے آگے بڑھ کر تقریباً ہر صنف ادب میں ادب کی آبیاری کے لیے بروئے کار ہیں۔۔۔شاعری پہاڑی آخان ,افسانے اور اب پہاڑی ناولٹ(مولاچھ ) لکھ کر ماں بولی اور دھرتی کا حق ادا کرنے کا کامیاب کوشش کی ہے۔۔

آئین نو سے ڈرنا اور طرز کہن پہ اڑنا کسی حد تک اب ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ بہت عرصے تک پہاڑی کو بول کر ہی اظہار یکجہتی کرلینے کے علاؤہ اس کو پڑنا کار دشوار ہی رہا۔۔

سوشل میڈیا کے نقصانات ناقابل تلافی تو ہیں ہی مگر ایک فائدہ یہ ضرور ہوا ہے کئی لوگوں کو ایک پلیٹ فارم ضرور میسر آگیا ہے جہاں وہ اپنی خفتہ صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں اور ان کی تخلیقات پر ہاتھ کے ہاتھ ریسپانس بھی مل رہا ہے۔جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے اور اس طرح ایک مثبت سرگرمی کو فروغ مل رہا ہے اسی فورم کے ذریعے پہاڑی زبان و ادب کو نکھرنے پنپنے اور منظرعام پر آنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔ ممتاز غزنی،حمید کامران ،پروفیسر عبد الصبور شیدائی،نقی اشرف صیام احمد اور میرے شاگرد عبد الجبار پہاڑی زبان میں اپنی معروضات پیش کرتے رہتے ہیں۔۔۔محمد کبیر خان تو دنیائے ادب کا ایک بڑا نام ہے وہ  بھی گاہے گاہے اپنی پہاڑی تخلیقات لوکل اخبارات کے ذریعے پیش کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔

نامور کالم نگار ہارون الرشید نے خورشید خان خورشید کے مجموعہ شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا تھا۔”کہ شاعر کا تعلق جس دھرتی سے ہے وہاں پر شاعری جیسے نرم و نازک جذبات کا پروان چڑھنا کافی حیرت انگیز ہے۔یہاں کی دھرتی کی بو باس ایسی ہے کہ لوگ کڑھنے،پریشان ہونے اور دکھی ہونے کی بجائے دیوار پھلانگنے کو ترجیح دیتے ہیں” مگر اب حالات میں بہت بدلاؤ آ چکا ہے اب یہاں نہ صرف شاعری بلکہ افسانے، ناول سفرنامے اور دیگر بہت سی اصناف پھل پھول رہی ہیں۔

ڈاکٹر صغیر خان کو گھر میں ایک ادبی ماحول پہلے سے میسر تھا آپ نے اس ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور قدرے مختلف میدان میں اپنی پہچان بنائی۔۔

ڈاکٹر صغیر خان کی محبت ہے کہ انھوں نے پہلے اپنا سفرنامہ دھند میں لپٹا سفر” پہاڑی شاعری کا مجموعہ “کیدوں سویل ہوسی”اور اب اپنا پہاڑی ناولٹ “مولاچھ “عنایت کیا۔۔

مگر جب اپنی تیسری تصنیف مولاچھ عنایت کیا تو کم ازکم حق یہ تھا کہ اس کو پڑھا جائے اس کے لیے کافی جگرے کی ضرورت تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔گزشتہ کل اسے شروع کیا تو شروع کے چند صفحات پڑھتے ہوئے کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا مگر جوں جوں کہانی آگے بڑھتی گئی دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔یہاں تک کہ رات تک مولاچھ کی خواندگی مکمل ہو چکی تھی۔۔

مولاچھ کا پلاٹ نہایت مربوط ہے واقعات میں کہیں جھول نظر نہیں آتا۔کہانی کا مسالہ اور کردار مقامی لگتے ہیں.۔۔ناولٹ میں یہاں کی تہذیب،ثقافت رہہن سہن اور کلچر بھی ساتھ ساتھ چلتا دکھائی دیتا ہے،پرانے دور کی محبت ،پیار ،مل جل کر کام کرنے کی روایت،خلوص،اپنائیت اور محبت کے احساسات و جذبات سچائی، رشتوں کا تقدس سب کچھ اس ناول میں نظر آتا ہے بدقسمتی سے یہ سب چیزیں اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ماں کی محبت اور اس ناولٹ کے ہیرو کی ماں سے محبت کو اگر اس کہانی کا حاصل کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا،اس ناولٹ میں اس حوالے سے جذبات اس قدر سچے ہیں کہ آنکھیں بار بار نم ہوتی ہیں اور بعض اوقات ہچکی بندھ جاتی ہے مائیں چونکہ سب کی سانجھی ہوتی ہیں لہذا کہانی پڑھتے ہوئے بار بار اپنی ماں سامنے آکر کھڑ ی ہو جاتی ہے اور قاری کو یہ کہانی اپنی ہی کہانی لگتی ہے۔۔کہانی کا مرکزی کردار دلاور ماں کا نہایت فرما بردار ،نیک صوم و صلوٰۃ کا پاپند اور نہایت اچھے اخلاق کا مالک ہے فرض شناس بھی ہے اور روایتی خودداری کے جذبات سے بھی اس کا قلب معمور ہے ۔کہانی کا اختتام المیہ(ٹریجڈی) پر ہوتا ہے قاری آخر وقت تک توقع رکھتا ہے کہ شاید اپنی منزل حاصل کرلے مگر اس کے جذبات احساسات اور خواہشات حسرت و یاس بن جاتے ہیں اور وہ آنسوؤں کے مولاچھ کو روکنے میں ناکام رہتا ہے۔ چند جملے ملاحظہ ہوں۔

“اس کی محسوس وا کہ دس طوفان،دس دریا سمندریں ناں منڈ مول اس نییں آکھیں وچ دا یا فیر اس اندر کوئی مولاچھ پھٹی گیا” 

اس جملے میں احساسات جذبات اور دکھ کی کیفیت کی کسک کو محسوس کیجیے۔

“میں مکنا جلنا دیس میں رلنا جلنا دیس اوڈھ ہلے تھی،مکے تھی بچنا چاہنا ساں،انی بوں واری اپنا مڑی سانویں، لوڑی بدھیا،سوہنا کری دانا دانا لوڑی،تیلا تیلا کٹھا کری،سانویں سلی گنڈھ ماری ،ہیک پہروئی بنیائی،ہیک پولا بنایا،ہیک گنڈھ لغنی ہیک گھٹی بدھی،ہیک گرہ بندھ گٹھڑی جئی مگر فیر گل اسنے بسے وچا باہر ہوئی گئی سی”

اس جملے کو ملاحظہ کیجیے۔”نماز پڑھی دعا کرنا اس اتھرو نکلی اے اتھرو لکھتے تے پتہ نئ کہاں او تھوڑا جیا ہولا جئیا ہوئی گیا جانے یو کھتارسس سا،تہ فیر انئ اپنا مقدمہ اللہ اگے بائی شوڑیا اس یقین سا کہ انصاف ہوسی”

مصنف کو اپنے علاقے رشتے ناطے،اپنے گراں موڑے سے بے پناہی محبت ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اس ناولٹ میں جابجا اس کا اظہار مختلف موقعوں پر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔کبھی کبھی وطن کی غلامی کا احساس انہیں پریشان رکھتا ہے اور یہ رومان مختلف پیرایوں میں اپنے کرداروں سے بیان کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔

“پترا اپنی بولی اپنا موٹا کو اپنا گراں،علاقہ،اپنے اشتے ساق اپنے لوک کیدے نئی پہلے چاہی نےپہاویں تس ولیت گھچی اٹھا” 

وطن کی محبت میں رچے بسے ان جملوں کے اندر چھپے دردکی کسک محسوس کیجیے۔

“جنت ایویں تے نئی آخنے اس ملکے کی،ملخ یاد آیا تے اس نی پوری تاریخ اکھی اگے پھرنے لغی،صدیاں پرانا ملخ،مگر ہن غلام،سنگلیں وچ بدھاناں،ٹوٹے ٹوٹے کھوٹے کھوٹے وا ناں،انیں خیالیں اس کی بوں تنگی دیتی او سوچنے لغا آنس اپنے ملخے کیا کہہ کری سکنیاں”کہیں کہیں مزاح کی چھیڑخانی بھی نظر آتی ہے۔

اماں تس ہرویلے سلیمے کی ڈھنڈ اے کرنے ہونیا تس تے بس اس نی سس ہے بنییا”

اس ناولٹ میں قاری کے لیے بہت کچھ ہے ناسٹلجیا ہے محرومیاں ہیں گزرے دور کی محبتوں سے محرومی کا دکھ اور کرب بھی ہے مگر بادی النظر میں ایک سقم بھی نظر آتا ہے ایک طرف ماں کا کردار پرانا،پرانی تہذیب و تمدن تقریباً پچاس سال پرانی ثقافت مگر ساتھ ساتھ موبائل بھی جدید سوشل میڈیا کے ذرائع واٹس ایپ بھی کرداروں کے ہاتھوں میں نظر آتے ہیں اور شوخ و چنچل کردار بھی۔یہ دو تہذیبوں کا ارتباط ہے یا کچھ اور یہ بات قدرے حیرت زدہ ضرور کرتی ہے۔

کتاب کا ٹائٹل نہایت دیدہ زیب ہے اسے ادارہ کتاب نگر غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور نے شائع کیا ہے۔قیمت 400 روپے ہے۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact