Friday, April 26
Shadow

مدد چاہتی ہے حّوا کی بیٹی تحریر : مریم جاوید چغتائی

تحریر : مریم جاوید چغتائی
فوٹو : بشکریہ روزنامہ پاکستان ۔ 

یہ شرم ناک سانحہ اس چودہ اگست کو مینار پاکستان کی چھاؤں میں ایک پاکستانی ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ پیش آیا جو ٹک ٹاک بنا رہی تھی جس نے پاکستانی پرچم کی نسبت سے سفید شلوار قمیض پہن رکھا تھا اور سبز رنگ کا دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا قصور کیا تھا کہ صرف تصاویر لے رہی تھی آخر کیوں عورت کو فراموش کرا دیا جاتا ہے وہ تصاویریں لے ہی رہی تھی  کہ منٹو پارک میں موجود ہزاروں پاکستانی نوجوان اُس لڑکی پر یوں جھپٹے گویا کُتا کھلے گوشت پر جھپٹنا ہے پھر کیا تھا حوّا کی ہم جنس کے کپڑے پھاڑ کر برہنہ کر ڈالا وہ ننگی آزاد پاکستانی لڑکی چیختی چلاتی رہ گئی مگر آدم کے بیٹوں نے مینار پاکستان کے سائے میں اس کا وہ حشر کیا کہ سنتالیس میں عزتیں لوٹنے والے ہندوؤں کی آتما شرمندہ ہوگئی
تب ہندو نے مسلمان بچیوں کو بے آبرو کیا تھا آج پاکستانی مسلمان اس روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں ایسے جانور مسلمان تو نہیں ہو سکتے میرے خیال سے حیوان کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا یہ واقعہ پرانا نہیں بس باقی واقعوں کی طرح پرانا کر دیا جائے گا کچھ دن آواز اُٹھا کر اسے بھی بہری گھونگی کر دیا جائے گا جی ہاں یہ واقعہ چودہ اگست دو ہزار اکیس کو لاہور کے اقبال پارک میں پیش آیا آج منٹو کا پہلا افسانہ “کھول دو “ یاد آگیا جو تقسیم کے وقت کی ایک کہانی تھی جس میں ایک مہاجر باپ سراج دیں اپنی بیٹی سکینہ کو مہاجر کیمپ میں تلاش کرتا پھر رہا تھا


مینار پاکستان سانحے کے بارے میں پولیس کی اپیل 


سراج دین اپنی بیٹی سکینہ اور بیوی کے ساتھ پاکستان کی طرف سفر کر رہا تھا راستے میں اسٹیشن پر بلوائیوں نے حملہ کردیا سراج دین کی بیوی تو موقع پر ماری گئی مگر سکینہ بچھڑ گئی بس اُس کا دوپٹہ سراج کے پاس رہ گیا تھا روتے  دوھوتے سراج دین کو کسی نے بتایا کہ کچھ نوجوان ہیں جو لاری لیکر بندوقیں تھام کر امرتسر جاتے ہیں اور وہاں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو باحفاظت پاکستان لاتے ہیں یعنی وہ اُس وقت رسکیو کا کام کر رہے تھے سراج دین اُن عظیم جوانوں کے پاس گیا اور بڑی امید سے بتایا کہ سکینہ کے گال پر بڑا سا تل ہے اور نین نقش ایسے ہیں امرتسر کے پاس مجھ سے جُدا ہوئی تھی نوجوانوں نے سراج دین کو یقین دلایا کہ وہ اُس کی بیٹی کو جلد ڈھونڈ لائیں گے اور لاری لیکر نکل گئے امرتسر کے راستے میں رضاکاروں کی نظر ایک لڑکی پر پڑی لڑکی گھبرا کر بھاگ گئی رضاکاروں نے بھاگ کر اُس لڑکی کو روکا دیکھا تو گال پر بڑا سا تل تھا یہ سراج دین کی سکینہ ہی تھی آٹھ لڑکوں نے اس کی دل جوئی کی اپنا کوٹ اتار کر دیا کیونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث سکینہ اُلجھن محسوس کر رہی تھی کئی دن گزر گئے جب سکینہ کا سراغ نہ ملا تو سراج دین اُن رضاکار جوانوں کے پاس گیا اور پوچھا “ سکینہ کا کچھ پتہ چلا “چل جائے گا ۔ چل جائے گا کہہ کر جوان چلے گئے سراج دین نے ایک بات پھر اُن نوجوانوں کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگی ایک شام چند لوگ کچھ اٹھا کر عارضی کیمپ ہسپتال میں لائے تھے سراج دین نے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑی تھی جسے لوگ اٹھا لائے ہیں سراج دین ہسپتال کے کمرے میں داخل ہوا اسٹریچر پر ایک لاش پڑی تھی سراج دین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا کمرے میں روشنی ہوگئی سراج دین نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا اور چلایا
سکینہ !ڈاکٹر جس نے لائٹ جلائی تھی سراج دین سے پوچھا کیا ہے ؟سراج دین کے منہ سے صرف اتنا نکل سکا ۔ جی میں جی میں ۔۔۔اسکا باپ ہوں ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا اس کی نبض ٹٹولی  اور سراج دین سے کہا “کھڑکی کھول دو “سکینہ کے مُردہ جسم میں جُنبش پیدا ہوئی ۔ بے جان ہاتھوں سے اُس نے ازاربند  کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی
بوڑھا سراج دین خوشی سے چلایا زندہ ہے ، میری بیٹی زندہ ہے ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہوگیا(مطلب یہ کہ سکینہ کی عزت کے لٹیرے وہی آٹھ رکھوالے رضاکار تھے) دوستو اس افسانے کے چھپنے کے بعد منٹو پر کیس کر دیا گیا وہ تاریخیں بھگتا رہا جس رسالے نے یہ افسانہ چھاپہ تھا وہ سیل کر دیا گیا اور منٹو کو فحش لکھاری قرار دیکر ادیبوں کی فہرست سے نکال دیا گیا کیونکہ وہ آیئنہ دکھا رہا تھا  مگر آج منٹو کے کردار ہمیں تسلسل سے نظر آ رہے ہیں کبھی زینب لُٹ جاتی ہے کبھی موٹر وے پر حوّا کی ہم جنس بے آبرو کر دی جاتی ہے کبھی مدرسے کا مفتی لوطی قوم کا پیروکار نکل آتا ہے تو کبھی حوّا کی بیٹی کے کپڑے پھاڑ کر کتوں کی طرح بھمبھوڑا جاتا ہے کیوں کبھی اس بکری کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ؟ کیوں ہوتا ہے یہ سب ؟سب سزا کی بات کرتے ہیں کہ چوک میں لٹکا دو گولی مار دو سر قلم کر دوسب جرم کے بعد کی بات کرتے ہیں مگر میں کہتی ہوں کہ ان سانحات کو ہونے سے روکا جائے اور اُس کے لئے ریاست مدینہ دوئم  میں اخلاقی ایمرجنسی نافذ کر دی جائے تاکہ یہ انتہا پسندی ختم ہو ورنہ یہ شہوانی خود کُش حملہ آور یا تو عورتوں کو بے آبرو کریں گے یا دھرم کے نام پر رنجیت سنگھ کا مجسمہ توڑیں گے کسی غریب کی چنگ چی جلائیں گے یا سڑک بلاک کر کے ٹائروں کو آگ لگا کر اپنے آلودہ ذہن کی طرح پاکستان کی پاک فضاء کو آلودہ کریں گے کیوں ہے یہ ظلم کیا ایک بار بھی سوچا نہیں گیا کہ ماں والے بہن والے یا بیٹی والے ہیں یہ 400 مرد نہیں انہیں نامرد کہا جائے کہاں گئی حکومت کہاں گئے وہ محافظ کہاں گئے رکھوالے کیا ایک منٹ کے لیے بھی ترس نہ آیا ایک جسم ڈھانپ رہا اور دوسرا ننگا کر رہا اے آدم کیا ہے تیرے بیٹے کیوں عزتیں پامال کی جاتیں؟؟ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے بات آئی باغ کالج آف ایجوکیشن کی لڑکی کی تو پہلے کالج والے انکار کر دیتے کہ ہمارے کالج کی نہیں پھر یہ کہا جاتا کہ لڑکی ہی ایسی ہے ہمارے محافظ کا قصور نہیں چلیں وہ لڑکی خراب تھی۔۔۔ کچھ دیر کے لیے مان لیا کہ وہ خراب ہے پھر میں ایک سوال کرنا چاہوں گی کہ اس عورت کا کیا قصور کہ چار سو مرد اُس کی عزت کے ساتھ کھیل کے چلا گیا اور اُس کی مدد کو ایک ماں کا بیٹا ایک بہن کا بھائی ایک بیٹی کا باپ آگے نہیں بڑھا اُس کو اُن درندوں کے حوالے کر دیا گیا عورت غلط ہے غلط ہے غلط ہے کا سبق آخر کب تک دیں گے؟؟؟ کبھی مرد کو کسی نے کہا کہ غلط ہے؟ کبھی غیرت کے نام پر بیٹے کو پھانسی دی گئی کیا؟؟؟ کبھی غیرت کے نام پر بیٹے کو کالج سے ہٹا دیا گیا؟؟ ماں بہن بیٹی ہی کیوں قربان ہوتی آئی اور ہو رہی ہیں آخر عورت کو کب وہ درجہ دیا جائے گا جس کا آج سے کہیں سال پہلے حکم ہوا تھا آخر کب عورت کی قربانی روک دی جائے گی کب عورت کو انسان سمجھا جائے گا؟؟؟؟؟ اور کب آدم کے بیٹے اپنی نظریں آسمان کے بجائے زمین پر رکھیں گے کب وہ بھی کسی کی عزت کو اپنی عزت سمجھیں گے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact