Saturday, April 27
Shadow

بہاولپور میں اجنبی تحریر: مہوش اسد شیخ

مبصر: مہوش اسد شیخ

کتاب ہاتھ میں لیتے ہی آپ کو خوبصورت سا احساس گھیر لیتا ہے، کتاب کی اشاعت بہت معیاری ہے اور اچھی پبلشنگ پریس فار پیس فاونڈیشن یوکے کا خاصا ہے ۔ میں نے اب تک ان کی جتنی کتب دیکھی ہیں بہت خوب ہیں، بہت پیارا کاغذ، خوبصورت بائنڈنگ، دیدہ زیب سرورق الغرض کہ کتاب ہاتھ میں لیتے ہی دل خوش ہو جاتا ہے اور خواہ مخواہ ہی پڑھنے کو چاہنے لگتا ہے۔

شمس رحمان (مانچسٹر، انگلینڈ)، عنایت اللہ عاجز (سٹاکٹن آن ٹیز، انگلینڈ)، ڈاکٹر نسترن احسن فتیجی (نیو دہلی)، جاوید خان (راولا کوٹ آزاد جموں کشمیر) جیسی قابل شخصیات نے اس کتاب پر رائے دی، بہت خوبصورت الفاظ میں اظہار خیال کیا۔ مصنف نے انتساب بہت ہی خوبصورت الفاظ میں اپنی پیاری والدہ کے نام کیا ہے اللہ انہیں سلامت رکھے آمین ۔ دوسرے نمبر پر جامعہ اسلامیہ بہاولپور جہاں سے امتحان دینے گئے تھے کے نام کیا ہے۔

کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ ٹوٹنے کو ہے

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی 

کتاب کی شروعات اس شعر سے ہوئی ہے، لیکن میں جب میں یہ پڑھتی ہوں دل سے دعا نکلتی ہے اللہ نہ کرے یا پھر یہ صدی کبھی ختم نہ ہو آمین ۔

عنوان سے ہی ہم جان گئے کہ بہاولپور کی سیر کروائی گئی ہے، لیکن آپ کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہو گی کہ یہ آج کا بہاولپور نہیں، مصنف نے 1995 کے بہاولپور کی سیر کروائی ہے۔ 

مصنف اپنے ایم اے انگریزی ادب کے امتحان میں ایک پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بیٹھنے غرض سے بہاولپور تشریف لے گئے۔ ہوٹل میں کمرہ بک کروانے کے بعد جب مینیجر سے بہاولپور کے تاریخی مقامات کے متعلق پوچھا تو وہ خاصا برہم ہوا، برہم کیوں ہوا یہ تو آپ کو کتاب پڑھ کر ہی پتہ چلے گا، بھئی سب کچھ میں نے بیان کر دیا تو نئے پڑھنے والوں کا مزہ کرکرا ہو جائے گا۔ مصنف نے مینیجر کو تو ٹھنڈا کر دیا لیکن اپنے دل میں اٹھتا شوق نہ دبا سکے سو امتحانات کے باوجود سیر سپاٹا کر ہی لیا ۔ ویسے تو اچھی حرکت نہیں کی لیکن اچھا ہی ہوا کہ کر ڈالی، نہ کرتے تو ہمارے لئے اتنا خوبصورت سفر نامہ کیسے لکھتے اور ہم دو ہزار بائیس میں رہتے ہوئے پرانے بہاولپور کی سیر کیسے کر پاتے۔ یہ سفر نامہ بہت عمدہ و رواں انداز میں لکھا گیا ہے۔ سفر کروانے کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری دلچسپ معلومات بھی دیتے رہے۔ بہاولپور کی زبان، لوگوں کے رہن سہن کے بابت بھی کافی معلومات ملیں۔ کتاب کی دلچسپی بس یہاں تک ہی نہیں ہے، اس کتاب کا دوسرا حصہ دو افسانوں پر مشتمل ہے۔ میں نے سر مظہر اقبال مظہر کو پہلی بار پڑھا ہے، اور افسانے پڑھنے کے بعد انہیں مزید پڑھنے کی طلب پیدا ہو گئی ہے۔ یہ افسانے بھی آپ بیتی طرز کے ہیں اور بہت ہی خوب ہیں۔

 دلی دعا ہے اللہ پاک کرے زور قلم اور ۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact