کومل یاسین کوئٹہ
پریس فار پیس  فاؤنڈیشن  یو کے اور  تسنیم جعفری صاحبہ کی خوبصورت تخلیق “زمین اداس ہے ”  جس میں لکھاریوں نے ایسے موضوعات پر لکھا جو دھرتی ماں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی عکاسی کرتے ہیں  ۔
کتاب ہاتھ میں آتے ہی دل کو ایک مسرت سی ہوتی ہے جو پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شائع شدہ کتابوں کو  تھام کر ہمیشہ سے ہوئی ہے ۔ انسان کے ہاتھ کی پوریں جب کتاب کے صفحوں سے مس ہوتیں ہیں  تو  دل گواہی دیتا ہے  کہ کتاب کے صفحات کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔  تصویر  وں اور خاکوں نے کتاب کی دلکشی میں مزید اضافہ کیا ہے  ۔پریس فار پیس فاؤنڈیشن  کی ٹیگ لائن ” ہماری کتابیں معیاری کتابیں” ہے ۔ میرے  نزدیک پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے زیر اشاعت کتابوں کی کوالٹی کی عکاسی کوئی اور ٹیگ لائن  اس سے بہتر انداز میں نہیں کر سکتی  کیونکہ ہر کتاب اعلی اشاعتی معیار سے بھرپور ہوتی ہے لہذا  ادارے  کے زیر اہتمام شائع  شدہ کتب کو کوالٹی کے لحاظ سے جتنا سراہا جائے کم ہے ۔
اب آتی ہوں  مذکورہ کتاب  کے مندرجات کی جانب۔شجر کاری کے بارے میں  خوبصورت حدیث سے کتاب کا آغاز بہت ہی دل افروز ہے  پھر ایک خوبصورت سا انتساب جو انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہاں یہ میرے نام ہے کیونکہ میں دھرتی سے محبت کرتا ہوں ۔ احمد حاطب صدیقی کی نظم “دو پیڑ تھے بچارے”  دھرتی ماں کے پہلے دکھ درختوں کی بے جا  کٹائی جیسے اہم مسئلے کی عکاسی کر رہی تھی ۔ پھر  کتاب کے لکھاریوں   کی تصاویر پر مبنی “قلم قافلہ “میں جدت دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا ۔یہ بھی پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی جانب سے خوبصورت کاوش ہے۔ اکثر بچے اور بڑے کہانی پڑھتے ہوئے لکھنے والے کو تصور کرتے ہیں کہ دیکھنے میں لکھاری کیسا ہوگا  ۔ اس کے لئیے میری طرف سے پریس فار پیس فاؤنڈیشن کا دل سے شکریہ  ۔مدیرہ قراۃ العین عینی  کی ” سوچنے کی بات”  نے واقعی  ذہن کے دریچوں  میں اس سوچ  کو اجاگر کیا کہ ہم  انسان واقعی وہ  سنگدل اولاد ہیں جس نے اپنی ماں کو موت کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
پھر مظہر اقبال صاحب  کے جوئے تازہ  میں  تسنیم جعفری صاحبہ اور نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کی  گئی ہے ۔

تسنیم   جعفری  صاحبہ  نے  اپنے اس  اقدام سے ادب کی دنیا میں ایک سنگ میل رکھی ہے کہ تسنیم جعفری  صاحبہ جیسے منجھے ہوئی لکھاری نئے لکھاریوں کو موقع دیں اور انکی اس طرح حوصلہ افزائی کریں جیسے  تسنیم جعفری صاحبہ  مختلف لکھاریوں کی نگارشات کو اکھٹا کر کے زمین اداس ہے جیسی کتاب مرتب کرائی ۔ جس کے لئیے  میں تسنیم جعفری صاحبہ کا  دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔
حرف اول میں  تسنیم جعفری صاحبہ نے دھرتی ماں کے دکھ کو اجاگر کیا ہے  تسنیم جعفری صاحبہ سائنسی و ماحولیاتی مصنفہ ہیں اور اس کتاب کو مرتب کر کے انھوں نے دھرتی ماں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے خلاف آواز اٹھائی ہے ۔
حرف دوم میں پروفیسر محمد صدیق اعوان جو ماہر ماحولیات ہیں  نے کتاب کی اشاعت پر مبارک دی اور انسان کی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے پر دکھ کا اظہار کیا ۔
کتاب میں موجود تمام لکھاریوں کی کہانیاں  دھرتی ماں کے دکھوں کی عکاسی کر  رہیں  ہیں۔ جس میں سب سے المناک پہلو یہ  ہے کہ دھرتی ماں کے دکھوں کا ذمے دار انسان ہے ۔
انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن اب اپنا مقام اور مرتبہ بھول رہا ہے ۔ترقی یافتہ ہونے کے چکر میں قدرتی ماحول کو پامال کر رہا ہے۔  جس سے اپنے ساتھ ساتھ جانوروں پرندوں ٬ درختوں  اور دھرتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے ۔
تسنیم جعفری صاحبہ ٬ پریس فار پیس فاؤنڈیشن اور لکھاریوں نے اس کتاب کے ذریعے  ایک سلگتے  ہوئے موضوع   کو اجاگر کرنے کی کامیاب سعی کی ہے  ۔ کتاب کے قلم کاروں نے  اپنے اپنے اندا ز میں دھرتی ماں کے دکھ بانٹنے اور ہم اشرف المخلوقات کا دھرتی ماں کے ساتھ ناروا سلوک اور دھرتی ماں کو فنا کی لکیر پر لا کھڑا کرنے جیسے اقدامات کی روک تھام اور جنگلی اور قدرتی حیات  کی  اہمیت جیسے جیسے عوامل کو اجاگر کیا ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے یہ خوبصورت دنیا انسان کے حوالے کی کہ وہ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اس کے حسن میں اضافہ کریں گے مگر ہم نے دھرتی ماں کے سینے کو ایسے مسخ کر دیا ہے کہ دھرتی ماں دن بد دن تباہی کی طرف گامزن ہے۔ اب بھی وقت ہے  کہ ہم انسان سنبھل  جائیں ۔خود کو بدلیں ۔اپنے ارد گرد لوگوں کو بدلیں اور دھرتی ماں کی حفاظت کر کے دھرتی ماں کا حق ادا کریں ۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact