تبصرہ نگار : پروفیسر وجاہت گردیزی

اللہ تعالی’ نے انسان کی فطرت میں جستجو کا ایسا الاؤ روشن کررہا ہے کہ وہ ہمہ وقت تلاش میں غرق رہتا ہے کبھی جسمانی طور پہ زمین وآسمان کی وسعتوں کو عبور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی تفکر سے ان دیکھے مستقبل میں جھانکتا ہے ۔فکر ونظر سے گزرے ہوئے ماضی کو یاد کرتا ہے ۔ماضی جو انسان کی ارتقائی منزلوں کا ساتھی ہے ۔جس سے وابستگی لب پہ مسکراہٹ بکھیرتی چلی جاتی ہے اور کبھی کوئی یاد اداس بھی کر دیتی ہے۔ ازل سے انسان اپنی زیست کے مشاہدات اور تجربات بیان کرتا آیا ہے ۔خود پہ گزرے حالات رقم کرنا مشکل مرحلہ ہوتا ہے ۔ خودنوشت میں بے باکی اور راست گوئی سے اپنا ایکسرے کرنے اوربیتے لمحات کو صفحہ قرطاس پہ بکھیرنے میں لکھاری کی فکری بلندی دکھائی دیتی ہے ۔خواتین قلمکاروں کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ انھوں نے اردو ادب کو نسائی خودنوشت سے اولیت عطا کی۔ اردو کی پہلی خودنوشت شہر بانو بیگم نے 1886ء میں لکھی تھی پھر کئی خواتین نے اس صنف میں بتدریج اضافہ کیا۔خواتین کی اسی صف میں نصرت نسیم نے قدم رکھا اور خیبرپختون خوا کے کلچر کی ترجمانی کرتے ہوئے دلچسپ خودنوشت منظرعام پر لائی۔

نصرت نسیم صاحبہ کی خودنوشت ” بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں ” پریس فار پیس فاؤنڈیشن یو۔کے کے ظفراقبال صاحب کی وساطت سے موصول ہوئی۔

نصرت نسیم کاتعلق شہر فراز سے ہے ۔کوہاٹ کے فرزند اور اردو شاعری کو رومان اور احتجاج کا نیا آہنگ عطاکرنے والے احمد فراز نے کہا تھا:

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

احمد فراز کے شہر کوہاٹ سے ادبی سوغات ” بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں” ثقافتی رنگ لیے آنکھ بھر کر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

کتاب کا سرورق گہرے نیلے رنگ سے مزین ہے۔درمیان میں قدیم طرز کا محرابی صدر دروازہ جس کے پٹ کھلے ہیں۔صدر دروازے سے اندر اینٹوں اور لکڑی سے بنی محرابیں ،کھڑکیاں، لکڑی کی بنی سوراخ دار جالیاں ،روشن دان اور قدیم فن تعمیر کے بیش قیمت درودیوار دکھائی دے رہے ہیں۔مصنفہ ایک محراب نما کھڑکی میں نیلے لباس میں چشمہ پہنے صدر دروازے سے باہر دیکھ رہی ہیں ۔قدامت سے جدیدیت کی طرف محو سفر خوشگوار احساس کا حامل سرورق ہے۔اوپری حصہ میں سنہری حروف میں ” بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں” اور ساتھ “خودنوشت” اور نیچے مصنفہ کا نام “نصرت نسیم” جگمگا رہا ہے۔سرورق اچھوتا ہے ۔سرورق کے رنگ ،تصویر ،کتاب کا نام اور مصنفہ کا نام پرکشش ہیں اور توجہ کھینچتے ہیں۔276 صفحات پر مشتمل خودنوشت دسمبر 2021 ء میں پریس فار پیس فاؤنڈیشن یو۔کے کے زیر اہتمام لندن سے شائع ہوئی۔کتاب پر لندن اور پریس فار پیس فاؤنڈیشن لوہار بیلہ برانچ پوسٹ آفس ڈھلی باغ آزادکشمیر کے پتے درج ہیں ۔کتاب کی تزئین وآرائش سید ابرار گردیزی نے بڑی محنت اور جانفشانی سے کی ہے۔قارئین کے ذوق مطالعہ کو منعطف کرنے لیے سرورق اورتزئین پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔کمپوزنگ صبااسلم نے کی ہے ۔ابتدائی صفحہ پر اشاعت اول ،ملنے کا پتا اور تمام معلومات درج ہیں۔کتاب کا انتساب والدین ،قرابت داروں، اساتذہ،دوستوں اور کتابوں کے نام ہے۔خودنوشت کو تیس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ابتدائی صفحات میں پیش لفظ اور اردو ادب کے نامور اساتذہ کی آراء کتاب کی زینت ہیں۔نصرت نسیم نےتخلیقی سفر کا آغاز بچپن میں اخبارات سے کیا۔” کہکشاں میرے خوابوں کی” پہلی تصنیف تھی جب کہ ” آئیے ہاتھ اٹھائیں” تالیف ہے۔درس وتدریس کے پیشے سے منسلک رہیں،۔نجی ادارے کی پرنسپل بھی رہیں ۔تین مرتبہ خاتون کونسلر کے فرائض بھی سرانجام دیے ۔یوں یہ خودنوشت علمی،ادبی، سماجی، سیاسی ،تہذیبی اور ثفاقتی اقدار کا احاطہ کیے 60 سال کے شب وروز کا دلچسپ احوال ہے۔نصرت نسیم نے خود نوشت میں یادداشت کے بل بوتے پر بیتے ہوئے واقعات لکھے ہیں۔تاریخی تناظر سے زیادہ ذاتی تناظر اس کا خاصا ہے۔خودنوشت لکھنا مشکل اور صبر آزما کام ہے۔اپنی ذات کی سرجری میں نصرت نسیم نے روزمرہ واقعات کو سادہ اور عام فہم اسلوب میں لکھا ہے ۔برمحل اشعار اور پرکشش سرخیاں ذوق مطالعہ کو جلا بخشتی ہیں۔تاہم واقعات کے تناظر میں تاریخ ، نفسیات اورکلچریکجا ہوکر واقعات کی لڑی کو پرو رہے ہیں۔خود آگہی کی منزل مصنفہ کے قریب رہتی ہے۔مبالغے کا ذرا بھی شائبہ نہیں ہوتا ۔نصرت نسیم نے واقعات اور گردوپیش کی سچی تصویریں پیش کی ہیں جو ان کی ذات کے گرد گھومتی ہیں ۔یہ ماضی کی لڑیاں زیست کے معنی سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش ہے۔یہ عرفان ذات کی منزل ہے جو مصنفہ کی ذاتی تسکین کا باعث بھی ہے اور دوسروں کے لیے تجربات سے سیکھنے کا جہان معنی بھی ۔

کتاب کے آغاز میں ادب اطفال اور اردو ادب کے معتبر لکھاری شجاعت علی راہی کی رائے درج ہے ،لکھتے ہیں: “خیبر پختون خوا کے ثقافتی رنگوں میں نصرت نسیم نے موتیااور چنبیلی کے پھولوں کو کچھ یوں ایک لڑی میں پرو دیا ہے کہ کتاب کے مطالعے کا مشام جاں معطر ہوجاتا ہے۔انھوں نے کوہاٹ شہر کے گلی کوچوں میں بولی جانے والی زبان ہندکو کے الفاظ اپنی تحریر میں موتیوں کی طرح پروئے ہیں۔”

صفدر ہمدانی کے بقول” نصرت نسیم کی خودنوشت میں جزئیات نگاری کا فن ابھر کر سامنے آتا ہے۔”

ناصر علی سید رقمطراز ہیں: ” تحریر کو متحرک تصویر بنانے کا جو ملکہ مالک کی طرف سے انھیں ودیعت ہے وہ بہت سوں کو رشک کے احساس سے مضطرب اور مغلوب رکھتا ہے۔”

غلام حسین غازی کتاب کے متعلق لکھتے ہیں :

“یہ سوانح ایک ایسے انسان کی مختصر مگر بڑی جامع اور رنگین داستان ہے جسے اللہ اور رسول کے حضور دعائیں مانگنے کا سلیقہ آتا ہے۔”

سعود احمد عثمانی نے لکھا ہے:

“نصرت نسیم نے خوبصورت لب ولہجے اور اسلوب میں یہ خودنوشت ایسے خوبصورت لفظوں میں گوندھی ہے کہ ان پر اہل زبان ہونے کا گمان گزرتا ہے۔”

ڈاکٹر ثروت رضوی نے خودنوشت کو فلم سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھا ہے: “ان کی اس پٹاری میں تہذیب ،تمدن، تاریخ،مذہب،سیاست کیا نہیں ہے۔ایسے ایسے برتنوں اور پکوانوں کے ناموں سے آشنائی ہوئی جن سے لاعلم تھے۔۔۔شادی بیاہ ،رسم ورواج اور مختلف تہواروں کی تقاریب کا آنکھوں دیکھا حال ہو یاسیاسی اور سماجی واقعات کے قصے، شہنائی،ماتم، گھن گرج، سب کچھ تحریر میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی فلم دیکھی جا رہی ہو۔”

ڈاکٹر محسن مگھیانہ رقمطراز ہیں :

“یہ آپ بیتی صرف نصرت کی نہیں بلکہ معاشرے کی ہر دوسری عورت کی کہانی ہے۔”

کتاب میں مصنفہ کا اظہار تشکر اور ایک نثری نظم بھی شامل ہے۔

پہلے باب “میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن” کوہاٹ میں پرائمری سکول کے زمانے کی یادیں دلکش انداز میں بیان کی گئی ہیں جب سلیٹ،تختی،ٹاٹ اور استانی کے ہاتھ سے تراشی ہوئی قلم تعلیم کا اثاثہ ہوتی تھی۔ مصنفہ نے لڑکیوں کے کھیل رسہ کودنا ،آنکھ مچولی،کوکلا چھپاکی،گیند گیٹیاں اور چیندور کا دلچسپ احوال بیان کیا ہے۔بچپن کی دلچسپیوں، معمولات اور سرگرمیوں کا خوبصورت نظارہ پیش کیا ہے۔مٹی کے برتن،بان کی چارپائیاں، ریڈیوکے پروگرام، خودکلامی میں رب سے سرگوشیاں، سردیوں گرمیوں کے الگ الگ کھانے،جڑی بوٹیاں اور شرارتیں ،ایک ایک چیز ماضی میں لے جاتی ہے۔دوسرے باب میں ساٹھ کی دہائی میں شادی بیاہ کے تہواروں کا تذکرہ ہے۔پہلے تین ابواب بچپن کی یادوں سے جڑے ہیں۔شادی بیاہ کے قدیم رسم ورواج میں کوہاٹ ،پشاور اور پارا چنار کی روایتی شادیوں،کھانے ، مہندی، شاہ ہڈ کی رسم، اور قصہ پارینہ ہوجانے والی نکاح کی رسموں کا دلچسپ تذکرہ ہے۔اگلے ابواب میں ریل کاسفر، اخبارات، ریڈیو، کہانیوں کی کتابوں ،آنہ لائیبریری، ننھیال ددھیال، کتابوں سے عشق اور زمانہ طالب علمی کے ماحول سے جڑی یادیں شامل ہیں ۔لاہور کے تاریخی مقامات کے سفر ،لباس ہم جولیاں ،سہیلیاں، رشتہ داریاں ،تین خالاؤں کا تذکرہ،،پکوان،قلمی نام سے اخبارات میں لکھنا ،فرنٹیئر کالج اور کراچی کی سیر کا احاطہ کیا گیا ہے۔اس دلچسپ خودنوشت میں فیشن، شوخیاں، شرارتیں، ازدواجی بندھن،کونسلر کے شب وروز اوربچھڑنے والوں کی یادیں دلنشیں اسلوب میں گندھی گئی ہیں۔تیس ابواب میں زندگی کا حال جزوکل دلکشی سے بیان کردیا گیا ہے ۔

نصرت نسیم کی خودنوشت میں بے باکی اور صداقت کے نقوش قدم قدم پر ظاہر ہورہے ہیں۔مصنفہ پر خاندان ، معاشرے،علاقائی ثقافت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔انھوں نے اپنے عہد کی زندگی کے واقعات کو زمانے کے پس منظر میں بیان کیا ہے۔” بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں” پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ نصرت نسیم کے لاشعور کی رو کے قصے ،واقعات،مسائل اور کردار بے تابی سے امڈ کر خودنوشت کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔گردونواح کے منظر،ذاتی زندگی کی تانک جھانک، گھر ،خاندان، رشتہ دار،سکول ،کالج، کونسلر شپ، ازدواجی زندگی سے جڑے تمام کردار بہتی ندی کی طرح دلچسپ یادوں کے مناظر دکھاتے چلتے ہیں۔نصرت نسیم کے لاشعور سے ابھرتی ہوئی یادیں کسی مقام سے کوئی منظر نمودار کر سکتی ہیں جو نیا پن لیے زندگی کا کوئی نیا زاویہ لیے کھڑا ہوگا۔ان کے واقعات نئے منظر تشکیل دیتے جاتے ہیں۔خود نوشت کے سارے مناظر واضح ،صاف اور جاذب ہیں۔ سرگزشت ماضی کے سماج ، تہذیب اور ثقافت کا آئینہ لیے مصنفہ کے تاریخی اورتہذیبی شعور کی عکاس ہے۔نصرت نسیم کی خودنوشت ان کے عہد کی ثقافتی عکاسی ہے۔ شٹل کاک برقعے کے کلچر میں خاندان کی پہلی تعلیم یافتہ خاتون ہونے کی وجہ مصنفہ نے جن مشکلات کا سامنا کیا ،اس کا اظہار واقعات سے بخوبی ہوتا ہے۔ کوہاٹ اور خیبر پختون خوا کی تہذیب وثقافت،عصری سیاسی ،سماجی، معاشی، معاشرتی حقائق،حیات و ممات، رنج والم، صنفی اختلافات،نسائی رجحانات، مذہبی رجحانات،پختون کلچر کے نقوش، اسفار،زندگی کی باریکیوں اور نزاکتوں کا بیان، معاشرتی کلچر کی آئینہ داری سب منظر دکھائی دیتے ہیں۔مصنفہ اپنے عہد کی تہذیب وثقافت کی ترجمان بن کر خودنوشت میں سب کچھ سمولیتی ہے۔پوری کتاب خیبر پختون خوا کی یادوں کی تہذیبی پٹاری ہے ۔کہیں کہیں تشنگی کا احساس جنم لیتا ہے لیکن نصرت نسیم کا سادہ اسلوب ، راست گوئی اور شفاف انداز قاری کو وقار عطاکرتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں نسائی شعور کے ارتقا کی یہ خودنوشت بڑے مقام اور مرتبے کی حامل ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact