Friday, April 26
Shadow

کچھ ماضی کے جھروکوں سے ! تحریر : پروفیسر خالد اکبر

       تحریر : پروفیسر خالد اکبر 

 ۲۲اپریل سرکاری کاغذات و اسناد کے مطابق ہمارا جنم دن ہے۔ سوشل میڈیا پر اس دن مبارکباد کے کئی پیغامات موصول ہوئے۔ ایک ساعت کے لیے یہ سب بھلا لگا مگر زماں و مکاں سے بالا، تخیل کی آنکھ دور ماضی میں لے گئی اور موڈ کچھ نرگسیت زدہ سا ہو گیا۔ ذرائع ابلاغ کی حیرت انگیز ترقی،ٹی وی، انٹر نیٹ  اور سوشل میڈیا کی آمد سے قبل اس طرح کی باتیں اور اس قسم کے دیگر ایام کو یاد کرنا  اور  مناناعنقا تھا۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے  کبھی اپنی سالگرہ منائی ہو۔ بلکہ کھرا سچ تو یہ ہے ہمارے ابو جو  تھوڑے   بہت  پڑھے لکھے تھے ان کے دنیا فانی سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے پرانے کاغذات، ڈائریوں اور زمینوں کے کاغذات کے بیچوں بیچ ان کے ہاتھ سے لکھی ایک ڈائری اتفاقاََ ہمارے ہاتھ لگی۔ جسے پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ ہمارے ریکارڈو اسناد میں درج عمر سے ہم دو سال چھوٹے ہیں۔ بعد از بسیار تحقیق، اماں سے یہ راز جلدہی طشت ازبام ہو گیا۔اصل میں ہمارے بابا جو خود اپنے دور کے ایک کڑے دم فوجی رہے تھے اور تین جنگوں میں حصہ لینے کے سبب کافی گھائل ہو چکے تھے، ہم ایسے مڑیل اور ناتواں کو  بھی میٹرک کے فوراََ بعد فوج میں بھرتی کروانا چاہتے تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے کلاس نہم سے ہمیں سکول سے اٹھا کر ایک سال قبل ہی اس زعم میں ہمارا پرائیویٹ فارم بجھوا دیا کہ ہم دو سالوں کا کورس ایک سال میں کر سکتے ہیں۔ اس کے  ساتھ ساتھ انہوں نے پورے دو سال ہماری عمر بھی زائد کرا دی۔ وہ الگ بات ہے ہم معیار کو پورا کرنے کے باوجود فوج میں جانے سے رہے!  یوں ہمارا  اصل جنم دن دبے پاؤں آتا اور گزرتا رہا!

 یاداش بخیر! ہمارے  سکول تفہیم العلوم بنجونسہ میں ان دنوں پانچ سو کے لگ بھگ طلبہ زیر تعلیم تھے۔ ہمیں یاد نہیں کسی نے کبھی اپنا جنم دن منایا ہو۔ تمام طلباء ملیشیا کے کپڑے اور پلاسٹک کے جوتے پہنتے تھے۔ اکثریت عیدالفطر کے لیے جوتے اور کپڑے بنواتے وقت سکول کے یونیفارم کو ترجیع دیتے جو عید سعید کے موقع پر ایک عدد نیا سوٹ اور نیا جوتا لینے کے خوشگوار اور پر لطف احساس کے ساتھ ایک نئے اضافی یونیفارم کا باعث ہوتا۔تا ہم امر واقعہ یہ ہے کہ طلباء میں کسی قسم کا حساس کمتری یا تفاخر کا دور دور تک شائبہ نہ ہوتا۔شاید اس لیے کہ ارد گرد اکثر و بیشتر لوگوں کے مالی حالات  یکساں تھے۔ عیدین کے موقع پر ہماری خوشی دیدنی ہوتی! ہاں سکول ہمارے لیے علم کے حصول کی جگہ کم،عقوبت خانہ زیادہ ہوتا یا ہمیں لگتا! ہر صبح آٹھ بجے کے قریب ملیشیا کے قمیض شلوار میں ملبوس بھاری بھرکم بستہ اٹھائے ہم اس نا پسندیدہ عمارت مین داخل ہوتے  تومسرت اور خوشی کا احساس کم اورخوف اور دہشت کے سایے زیادہ لہرا رہے ہوتے! ان دنون عموماََ سکولوں میں ” مولا بخش “کا کچھ زیادہ ہی راج تھا اور اساتذہ کو والدین کی دیدہ  ونا دیدہ حمایت حاصل ہوتی۔زرہ زرہ سی بات پر مرغا بنا کر ڈنڈوں سے شافی بھر تواضح ہونے کیے ساتھ ساتھ اساتذہ کی لعن طعن، طنزوتشنیع اوربرے القابات سے نوازا جانا معمول کی بات تھی۔ایسے باور کرایا جاتا کہ کم عمر بچوں کی کوئی شخصیت نہیں ہوتی خصوصاََ عربی اور ناظرہ کے اساتذہ اس حوالے سے ید طولیٰ رکھتے تھے۔استشنیات کہاں نہیں ہوتی۔ہاں مٹھی بھر اساتذہ جن کا تعلیم و تدریس کا طریقہ اور طلبہ سے حسن سلوک مثالی تھا۔کم ہی یاد پڑتا ہے کہ ہم خوشدلی سے کبھی  سکول گئے ہوں۔ہر دن دل ہی دل میں یہ یہ دعا جاری رہتی یا اللہ استاد مر  جائیں،بارش ہو جائے،پلے ڈے ہو جائیں، کوئی اور نا گہانی آفت آ جائے!! مگر دل کی اتھا ہ گہرائیوں اور خضوع و خشوع کے ساتھ کی جانے والی ان دعاؤں کو بارگاہ ایزدی میں شاز ہی شرف قبولیت ملتی۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ آج کے بچوں کی طرح ہم لنچ لے کر ساتھ سکول گئے ہوں۔ہم صبح ہی بھاری بھرکم ناشتہ جو مکئی کی روٹیوں،مکھن  اوردہی پر مشتمل ہوتا پر  خوب ہاتھ صاف کر دیتے تھے ۔ہاں سال کے ایک خاص حصہ  میں بریک کے اوقات میں خوب عیاشی کا سامان پیداہوتا جب کاشی لالہ مرحوم کی عقابی نظروں اور دبنگ شخصیت اور سجاول چچا مرحوم کے رعب دار اور دھان پان شخصیت کو خاطر میں لائے بغیر کھیرے ناشپتیاں  اور دیگر پھلوں کوان کے گھر کے آنگن تک سونگھ کر ڈھونڈ لیتے تھے۔یوں یہ پھل ان دنوں اپنی طبعی پختگی تک شاز ہی پہنچے ہوں گے! چھٹی کے اوقات میں بنجونسہ بازار کے رستہ گھروں کو جاتے تھے۔ بازار میں دس پندرہ دکانیں اور دو چائے خانے ہوتے جنہیں عقلو بھائی اور چچا ایوب چلاتے تھے۔ ان ہوٹلوں پر چند ایک لکڑی کی خستہ سی کرسیاں اور بنچ پڑے رہتے تھے جہاں بند اور گرم گرم چائے ملتی تھی۔ ان چائے خانوں میں چند حضرات وہ ہوتے تھے جو بلا ناغہ نظر آتے تھے جو جگت بازی اورہنسی ٹھٹھا کے دلدادہ تھے اور ان کے قہقوں کی گونج دور تلک سنائی دیتی تھی۔

بارش کے سبب  بازار تک کا رستہ کیچڑ سے لت پت رہتا۔ بوندیاں ہماری مرغوب غذا تھی جو خالو دکاندار سے ایک روپے میں بنا تولے لفافہ بھر کر مل جاتی تھی۔ آج کے دور کے برعکس،بچے بچیاں ہوش سنبھالتے ہی گھریلو کا م کاج مین دھت جاتے۔سکول سے واپسی پر بھینسوں کو چرانا، رات کو جلانے کے لیے لکڑی مہیا کرنا،مویشیوں کے چارہ میں والدین کی معاونت کرنا،دیو اصاف کر کے رکھنا ایسے معمولات تھے جن میں ہر بچہ  بالاحصہ لیتا۔ہاں تفریح سے بھر پور ایک دن  وہ ہوتا جب ہم مکئی  کے تھیلے کندھوں پر ڈالے دور زیریں علاقوں میں  پن چکیوں کا رخ کرتے۔ ان پن چکیوں میں سے ایک کانگران میر حسین ہوا کرتا تھا جو بہت ہی دلدار قسم کی شخصیت تھا۔وہ اپنے کام میں مگن خوشی سے یوں سر شار رہتا جیسے وہ کسی چھوٹی سی سلطنت کا بے تاج بادشاہ ہو۔ وہ اپنی چٹ پٹی باتوں اور چٹکلوں سے آٹا پسوانے کے منتظر لوگوں کی محفل کو زعفران زار بنائے رکھتا۔

معمول کے کاموں کے علاوہ سال کا مشکل ترین وقت فصل کٹائی کا ہوتا۔۔۔۔جب خوب پسینے چھوٹتے اور زبان حلق میں چلی جاتی۔مگر اس دور کی بڑی قدر امداد باہمی کا توانا جذبہ اب عنقا ہ ہوگیاہے۔ محض دکھاوے کی حد تک رہ گیا ہے۔ابتدائی عمر سے تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی کاموں میں حصہ لینے سے طلبہ میں قوت برداشت،امداد باہمی کا سماجی احساس اور تحمل ایسی خصوصیات کو فروغ ملتا تھا جو آج کی نوجوان نسل میں بہتر تعلیمی ماحول،سہولیات کی فروانی اور آسائشات کے با وصف مفقود ہو  گیا ہے۔ “بر ٹر نیڈرسل نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپ نے بچوں کو مستقبل کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے بہتر طور پر تیار کرنا چاہتے ہو تو شروع ہی سے ان پر تھوڑا تھوڑا بوجھ ڈالنے کی عادت ڈالیں۔ اس دور میں مذہبی بحث و مباحث کا ہر طرف غلغلہ تھا۔سماجی تقریبات اور خوشی غمی کے مواقع پر ایسا موضوع عام ہوتا تھا۔ہم تو نذر نیاز ختم شریف  خصوصا اصحاب کہف ختم وغیرہ کے دلدادہ تھے۔ اصحاب کہف کا ختم گاوں کی بڑی عورتیں خیر و برکت کے لیے پڑھاتی رہتی تھی۔ اس ختم شریف میں مولوی  حضرات چھ افراد سمیت پورا پانچ چھ کلو مرغ چٹ کر جاتے چونکہ ان کے علاوہ اس دور میں اس سوغات کا کسی اور کا کھانا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ہمارا بتداء سے  ہی مصمم ارادہ تھا کہ بڑا ہو کر کچھ سیکھنا نہ سیکھنا تو رہا یہ ختم شریف پڑھنا ضرور سیکھیں گے۔ مگر صد افسوس یہ صحت  بخش  رسم وقت کے ساتھ ساتھ نا پید ہو گئی!

 بچپن اور لڑکپن کے ان دنوں معاشرہ مین تعلیمی استعداد کو جانچنے اور ماپنے کی بڑی کسوٹی چٹھی لکھنے پڑھنے کی صلاحیت ہوتی۔ ہم نے اس معیار پر اولین عمر میں عبور حاصل کر لیا۔ابو کی طرف سے آئی ہوئی چٹھیوں کا غلط صحیح مفہوم ہم اپنی اماں کو سمجھا دیتے تا ہم ہماری کڑی آزمائش تب شروع ہوئی جب اماں کی ٹھیٹھ پہاڑی کو ہم اردو الفاظ کا جامہ پہناتے۔۔خصوصاََ ہمارے گھر کی دو بھینسوں کی حالت خاص بیان کرنے کے لیے ہمیں الفاظ نہ ملتے۔ اساتذہ سے درست الفاظ پوچھنے میں تامل ہوتا کیونکہ یہاں ہماری فطری شرم و حیاء آڑے آ جاتی۔یوں برسوں بعد اپنی مدد آپ کے تحت ہی ہم ان الفاظ  پرعبور حاصل کر سکے جن کا مفہوم روح کی گہرائیوں تک از بر تھا۔آج کے بچوں کے پاس تفریح طبع کے لیے انواع قسم کے کھلونے اور آڈیو ویڈیو گیمز جو ایک طرح کی لت کی شکل اختیار کر چکیں ہیں میسر ہیں۔ ہمارے دور میں ایسا کچھ تصور سے باہر تھا۔گاؤں میں ایک ادھ والی بال کا گراؤنڈ ہوتا جس میں بارہ کھلاڑی کھیل رہے ہوتے اورہماری تفریح کا سارا سامان اس وقت پیدا ہوتا جب والی بال لائن سے باہر گرتا اور ہم بھاگ کر اسے چھو لیتے۔ آہ اس چھونے میں بھی ایک عجیب سی مسرت تھی!کرکٹ کے ساتھ طبع آزمائی اکثر طلباء سڑک پر ہی کرتے جہاں زیادہ تر عافیت اور سہولت سیدھا شارٹ کھیلنے میں سمجھی جاتی۔ہم کرکٹ کے ادنی ٰ درجے کے بھی کھلاڑی نہ بن سکے۔ تا ہم کبھی کبھار اگر گراؤنڈ میں کھیلنے کا اتفاق ہوا تو سیدھا،اسٹریٹ شارٹ یہاں تک کہ سٹمپ سے باہر جاتی ہوئی گیندوں پراسٹریٹ کھیلنا(جو کہ ایک مشکل کام ہے) دیدنی ہوتا! 

شادی بیاہ کا موقع ہمارے لیے تفریح کا ایک بڑا سبب ہوتا خصوصاََ جب لڑکی کی شادی  گاؤں سے باہر ہونا قرار پائی ہو۔۔ گاڑی کا سفر بھی ہوتااورگاڑی ٹیپ ریکارڈ رسے بھی لیس ہوتی۔ ایسی شادی میں گویا تین طرح کی تفریح ایک ٹکٹ میں دستیاب ہوتی:۔ لذیز کھانا، گاڑی کا سفر اور کلاسیکل گانے!

 ہرعہد بدلتاہے۔۔۔۔اقدار بدلتی ہیں۔۔ ساماں عیش و تعیش اورتفریح کے ذرائع  بھی بدلتے ہیں۔۔ اسی طرح محنت و مشقت کے اوزار اور آلات پیداوار بھی بدل جاتے ہیں چونکہ ایسا ہونا فطری عمل ہے۔ اہم بات یہ کہ ان تیز تر تبدیلیوں کا برپا کر کے بہتر سے بہترین شکل میں لانے کا سب سے بڑا محرک اور اورکردار انسان خود ہی ہے۔ عہد قدیم سے پتھر کے عہد تک اور پھر بھاپ کے انجن کی دریافت  سے اب تک انسان کی فطرت کے ساتھ جنگ جاری ہے۔ مگر جب انسان کے پاس جب سائنس کا مربوط و منظم علم آگیا تو اس نے برسوں کے کام کو دنوں میں اور پرانے عہد کو یکسر ختم کرنے کی کامیاب کاوشیں کی ہیں۔کیا شہرکیا دیہات سب اس تیز تر تبدیلی کی زد میں آئے۔ ایسے میں بھلا میرا گاؤں کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔ہاں ایک چیز جو لازوال رہی وہ خوشی اور مسرت کا لافانی احساس ہے جو ہر عہد کے لوگوں کے لیے یکساں ہی رہتا  ہے۔۔ جس کا حصول فرد کسی نہ کسی ذریع سے حاصل کر ہی لیتا ہے۔ خواہ حالات  کتنے ہی نا مساعد اور ناساز گار ہی کیوں نہ ہوں

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact