تحریر :اظہر مشتاق

محترم پرویز نہرو صاحب!!!

امید ہے کہ خار دار تاروں اور اسلحے کی بدبو اور فوجی بوٹوں کی دھمک کے درمیان بھی  آپ ابھی تک خیریت سے ہونگے ۔ پرویز نہرو صاحب 5 اگست 2019 سے لیکر آج تک  ریاست جموں کشمیر کا بھارتی مقبوضہ حصہ ایک جیل میں تبدیل ہوا ، جہاں بھارت کے موجودہ فاشسٹ حکمرانوں نے بنیادی انسانی حقوق کی پرواہ نہ کرتے ہوئے  ، موجودہ دور میں اطلاعات کے جدید ذریعہ موبائل فون سروس اور انٹر نیٹ کی بندش سے لیکر لاشیں گرانے تک کے عمل کو جائز جانتے ہوئے جاری رکھا۔ آپ سے زیادہ   جبر کا گواہ کون ہوسکتا ہے کہ آپ کے ادارے نے  بھارتی مقبوضہ علاقے میں ” تشد د کا ڈھانچہ ” کے عنوان سے  800 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ مرتب کی تھی ، جو بدقسمتی سے عالمی ضمیر کو نہ جھنجھوڑ سکی۔  

اگست 2019 کو بھارتی آئین میں ترمیم  اور آئین سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے سےلے کر کے ریاست جموں کشمیر کے باشندوں کے علاوہ بھارتی شہریوں  کو ڈومیسائل جاری کرنے تک ، آپ لوگ کس کرب کی کیفیت میں ہوئے ہوں گے اس کا اندازا لگانا قطعاً مشکل نہیں۔  مرکزی دھارے کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے قائدین و اکابرین جو  خود کو جموں کشمیر میں بھارت کا نمائندہ سمجھتے تھے ، جب جیلوں میں بند ہوئے توسیاست اور سماجیات کا ادنٰی سا طالبعلم ہونے کا ناتےسے  میں نے نتیجہ اخذ کیا کہ  جب قابض کو اپنا قبضہ مستقل کرنا ہوتا ہے تو  وہ ان پر بھی اعتماد نہیں کرتا  جن پر ماضی   میں ایک طویل اعتماد کیا گیا ہوتا ہے،  اپنے قبضے کو مستقل کرنے  کے لئے قابض کسی  ایسی ہلکی سی مزاحمت کا متحمل نہیں ہو سکتا جو اس کی راہ کی رکاوٹ بن سکے۔

آج جب میں آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں آپ وطن کے ایک بے باک ، جرت مند اور انسان دوست بیٹے بابر قادری  کے غم میں نڈھال ہوں گے، بابر قادری حد متارکہ کی دوسری جانب بھی اسی طرح پسند کیا جانیوالا رہنما  تھاجس  طرح آپ دوست اسے سرینگر ، بابو سنگھ ، انو رادھا بھیسن اور شریف سرتاج اسے جموں اور سجاد کارگلی اسے  لداخ میں پسند کرتے تھے۔  شاید  میرواعظ مولوی محمد فاروق، عبدالغنی لون اور شجاعت بخاری کے قاتلوں کی طرح شہید بابر قادری کے قاتلوں کا بھی سراغ نہ لگایا جا سکے ، لیکن اب  دونوں طرف کی عام عوام کا مجموعی شعور اس سطح تک پہنچ چکا ہے کہ بابر قادی  کے شہید ہونے کے  بعد ہی عام سیاسی اور سماجی کارکنوں نے  سماجی رابطوں کی وہب سائیٹس پر ان کے نام تک لکھ ڈالے تھے۔  بابر قادری کی زندگی میں شاید ہم اسے اہم نہ سمجھتے ہوئے ہوں  یا اسکی باتیں ہمیں غیر عملی لگتی رہی ہوں مگر اس کی موت پر ہم سب  ماتم کناں تھے ، وہ ماتم دکھلاوے کے لئے تھا یا حقیقت میں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہم نے بعد از مرگ اس کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملائے ، یہ اس حقیقت کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہم مردہ پرست قوم ہیں ، ہم  انسانوں کے  زندہ ہوتے ہوئے ان کی قدر کرنے سے احتراز برتتے ہیں۔  احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر شاید ہم پہ صادر آتاہے؛

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن

یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

بات دوسری طرف نکل گئی، میں ریاست جموں کشمیر کی جداگانہ حیثیت کی تبدیلی کے بارے میں آپ سے بات کرنا  چاہتا تھا، 05 اگست 2019 کے بعد ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی، خودمختاری اور خوشحالی چاہنے والوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر  کے چھوٹے بڑے تمام شہروں میں بھرپور مظاہرے کئے ۔ ستمبر اور اکتوبر میں حد متارکہ کی طرف لانگ مارچ ہوئے اور اکتوبر میں ہی یٰسین ملک صاحب کی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے حدمتارکہ کی دوسری جانب جانے کے لئے چکوٹھی سے ذرا پہلے جسکول کے مقام پر 14 دن کا دھرنا دئیے رکھا  ، یاد رہے کہ ان کے مارچ کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت کی جانب سے جسکول کے مقام پر سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کر کے روک دیا گیا تھا۔ چودہ دن کے دھرنے کے بعد  پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی حکومت کی مداخلت سے جے کے ایل ایف ،  پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم اور اقوام متحدہکے مبصرین میں بات چیت کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا، بات چیت کیا ہوئی اس کا علم صرف وہاں پر موجود لوگوں کو ہے۔ اسکے بعد اکتوبر کے تیسرے ہفتے میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے ترقی پسند اور قوم پرور دھڑوں پر مشتمل الائنس نے مظفرآباد کی طرف اس مطالبے کے ساتھ مارچ کیا کہ  ریاست جموں کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے ، پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان پر مشتمل ایک آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اس الائنس کے کارکنان اور قیادت پر پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی پولیس کی جانب سے ہونیوالا تشدد کسی طرح سے بھی سرینگر میں ہونیوالے تشدد سے کم نہیں تھا۔ یہ الگ بات کہ وہ سیاسی سرگرمی پاکستان کے کسی ذرائع ابلاغ پر مناسب کووریج حاصل نہ کر سکی۔  شومئی قسمت سے وہ الائنس فقط ایک سیاسی سرگرمی کے بعد ایسے بکھرا جیسے پت جھڑ میں درختوں کے پتے بکھرا کرتے ہیں۔

میں آپکو یہ بتاتا چلوں کہ 370 اور 35 A کے خاتمے کے بعد پاکستان کی جانب سے ہونیوالی سفارتی اور سیاسی کاوشیں ریاست جموں کشمیر کے حق پرستوں کو مشکوک لگتی تھیں ، اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق میں مقررہ وقت تک ایک قرارداد جمع نہ کرا سکنے سے لیکر پاکستانی وزیر اعظم کی جنرل اسمبلی میں تقریر تک اور زبانی جمع خرچ کے علاوہ جمعہ کے دن آدھا گھنٹہ کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے کھڑے رہنا ، عقل و فہم رکھنے والے انسانوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرتا تھا۔

وہ اگر شکوک و شبہات کا برملااظہار کرتے تو  پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں الحاق پاکستان کے سیاسی کارکنان اور روائتی سیاسی جماعتوں کے اکابرین  انہیں آڑے ہاتھوں لیکر انہیں    مختلف القابات سے نوازتے ، اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر فریقین کی جانب سے وہ ہجو اور دشنام طرازی ہوتی کہ الامان ۔  ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی اورخودمختاری کے حامیان کا ایک  موقف یہ بھی تھا کہ بھارتی حکومت کی آئین میں تبدیلی اور ریاست جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرنا پاکستان کی سیاسی حکومت اور عسکری اشرافیہ کی باہمی رضامندی سے ہوا ہے اور یہ معاملات طے کروانے میں امریکہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

پرویز نہرو صاحب !!!

05 اگست 2020 سے چند روز پہلے پاکستانی  ذرائع ابلاغ اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے حکومتی حلقوں میں یہ خبر گردش کرتی رہی کہ پاکستانی حکومت بھارتی مقبوضہ کشمیر کے  لوگوں سے ہمدردی کے لئے سینٹ کا اجلاس پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں بلائے گی۔ اس خبر پر کئی ماتھوں پر شکنیں ابھریں اور دبے لفظوں احتجاج بھی ہوا ، لیکن پاکستانی حکومت نے خود اس سینٹ اجلاس کو غیر آئینی کہتے ہوئے آپ لوگوں سے یکجہتی کے لئے اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم پاکستا ن ، وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان اور چئر مین کشمیر کمیٹی اسمبلی کی کاروائی میں شریک ہوئے اور ایک بار پھر یہ عندیہ دیا کہ پاکستان ریاست جموں کشمیر کی آزادی کا حقیقی پشتی بان ہے اور وہ جموں کشمیر کے عوام کی حق رائے دہی  کے حصول اور ریاست جموں کشمیر کے حل کے لئے کاوشیں کرتا رہے گا۔

حد متارکہ کی اس طرف پاکستان سے الحاق کے خواہاں  باشندگان ریاست جموں کشمیر ، پاکستانی ریاست کو مسئلہ جموں کشمیر کا وکیل سمجھتے تھے لیکن پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم نے خود کو وکیل سے سفیر کے درجے پر فائز کیا ہے۔ میرے محدود تاریخی علم اور تحقیق کی بدولت میں آج تک یہ تلاش کرنے سے قاصر ہوں کہ ریاست جموں کشمیر کے کن لوگوں نے مسئلہ جموں کشمیر کے حل کے لئے پاکستان کو وکیل کیا تھا؟

آپ کی طرف کے خود کو بھارتیوں سے زیادہ بھارت کا وفادار سمجھنے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی ، سجاد لون وغیرہ سمیت جموں کشمیر کے کتنے سیاستدانوں کو بھارت نے ان کی اوقات دکھاتے ہوئے یہ باور کروایا ہے کہ توسیع پسندانہ ریاستیں کبھی بھی اپنے معتوب  کی وفاداری کا یقین نہیں کرتیں ۔ آپکی طرف کے پاکستان نوازجو کبھی حریت کانفرنس اور کبھی مشترکہ مزاحمتی تحریک کی صورت میں سب سے بڑی مزاحمت ہوا کرتے تھے اور جنہوں نے مسئلے کو کبھی جموں یا لداخ کے انسانوں کا مسئلہ نہیں سمجھا، گرفتاریوں اور رہایوں کے بعد ایسے  گم ہوئے جیسے مینڈک سردیوں میں زیر زمین چلے جاتے ہیں ، میرے خیال میں ان کے پاکستان میں موجود نمائندگان انہیں یہ بتا چکے تھے کہ اب پانی سر سے گزر چکاہے۔

پاکستان جو کچھ لوگوں کے بقول ہمارا وکیل بھی ہے اور سفیر بھی ، کے ریڈار سے مسئلہ ریاست جموں کشمیر دور ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے ، دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ  5 اگست 2019 کے وقت ریاست جموں کشمیر کے پاکستانی زیر انتظام قوم پروراور ترقی پسند گروہوں کی پیشن گوئیاں اور خدشات درست ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں ، پاکستان کی اپنی اندرونی حالت  گو کہ سول ،  عسکری اشرافیہ اور حزب مخالف میں طاقت کے حصول کی کھینچا تانی کی وجہ سے اتنے موزوں نہیں ہیں کہ  ریاست پاکستان کسی نئی آئینی مہم جوئی کی متحمل ہو سکے، لیکن پاکستان کے بری فوج کے سربراہ نے  تمام پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں کو  بلا کر ان سے ریاست جموں کشمیر کے مسئلے کے ایک اہم  متنازعہ علاقے کو صوبائی درجہ دینے پر رائے لی ہے ( اصولاً یہ رائے صدر یا وزیر اعظم کو لینی چاہئے تھی، لیکن بقول ایک وزیر کے بری فوج کے سربراہ نے وزیر اعظم کو بلانا مناسب نہیں سمجھا)۔

گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دینے کی پہلی جتنی بھی کوششیں ہوئی ہیں ان میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے روائیتی اور غیر روائیتی سیاستدانوں نے اسکی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے  اسے ریاست جموں کشمیر کے شہداء کے خون سے غداری  کے مترادف ہوگا۔ اب کی بار تمام روائیتی سیاسی جماعتوں ، الحاق پاکستان کی سب سے بڑی حامی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے  قائدین کے علاوہ سب نے  خاموشی کو مقدم جانا ہیے۔  غیر مصدقہ اطلاع ہیکہ اسلام آباد میں  مقیم حریت کانفرنس کے ایک دھڑے نے بھی اس کی حمایت کی ہے۔گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لئے پاکستان کو اپنے مروجہ آئین کی پہلی شق کی ذیلی شقوں ایک اور چار  کے ساتھ ساتھ  شق نمبر 257 اور 258 میں آئینی ترمیم کرنی پڑے گی۔ ریاست جموں کشمیر کے سیاسی زعماء ماضی میں اس پر مطمئن تھے کہ آئینی ترمیم کے بغیر پاکستان متنازعہ ریاست جموں کشمیر کی کسی بھی اکائی کو اپنا حصہ نہیں بنا سکتا۔  لیکن اب کی بار پاکستان کی سیاسی حکومت اور مقتدرہ جامع منصوبہ بندی کے ساتھ آئینی ترامیم کا ارادہ  کئے ہوئے ہے۔ گذشتہ ہفتے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر  گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی موجودہ حیثیت کو ختم کرنے کا مجوزہ آئینی ترامیم کا غیر مصدقہ مسودہ گردش کر رہا ہے اور پاکستان کے کسی ادارے کی جانب سے اسکی تردید سامنے نہیں آئی ۔

پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے  کئی قوم پرور اور ترقی پسند دوست قابضین کر ذکر کرتے  ہوئے پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے اور شاید وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کبھی بھی ان کی علیحدہ شناخت پر حملہ آور نہیں ہو سکتا ، ان کا ماننا تھا کہ  ان کی سیاسی لڑائی پاکستان کے ارباب اختیار اور بالا دست طبقے سے ہے جو نہ صرف پاکستانی زیر انتظام  کشمیر و گلگت بلتستان کے وسائل پر بالواسطہ یا بلا واسطہ قابض ہیں بلکہ پاکستان کے مجبور عوام کی سماجی اور معاشی استحصال کے ذمہ دار ہیں ۔

میں آپکو بتاتا چلوں کہ  بھارت کے دفعہ 370 اور 35اے کے خاتمے کے بعد اور بھارتی زیر قبضہ علاقوں میں بنیادی سہولتوں ، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کی عدم دستیابی اور گرفتاریوں کے خلاف جس طرح بھارت کے اندر سے مودی حکومت کے خلاف محدود سہی مگر آوازیں ابھریں تھیں ، شاید  ریاست جموں کشمیر کے  پاکستانی زیر انتظام علاقوں کے پاکستانی ریاست میں انضمام پاکستان کے اندر سے  ویسی آوازیں  نہ ابھریں۔ اسکی وجہ یہ ہیکہ پاکستان کے نجی ذرائع ابلاغ خود اپنی ریاست کے عتاب کا شکار ہیں ، حکومتی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والوں  کی رائے کو دبانا معمول بن چکا ہے۔ عام صحافی اس نازک مسئلے پر قلم یا آواز اٹھانے سے اس لئے احتیاط برتتے  ہیں کہ انہیں سب سے پہلے اپنی اور اپنے خاندان کی جان عزیز ہوتی ہے۔

پرویز نہرو صاحب !

مدینے او ر کربلا کے سفر میں کوفہ درمیان میں پڑتا ہے ، دکھ اس بات کا ہے کہ آپ میں سے کچھ ناعاقبت اندیشوں نے کربلا والوں پر یقین کیا اور آج وہ بھی اسی طرح ماتم کناں ہیں جیسے کہ حسینی اور ہمارا المیہ یہ ہوا کہ ہم نرم گوشہ رکھنے کے باوجود اپنی  شناخت کھونے کی طرف جا رہے ہیں، دوستوں کا خیال ہے کہ وکیل مقدمہ لڑنے کی بجائے زمین ہڑپ کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ حد متارکہ کی دونوں اطراف کے حق پرست بھی تو ایک نہ ہو سکے ، 73 سال کی طویل جدوجہد  کے بعد بھی کسی اک نکتے پر متحد ہو کر آگے بڑھنے کا خیال پنپ نہیں سکا۔  مجھے وہ ذہنی اذیت گھیر رہی ہے جس نے آپ کو 5 اگست 2019 سے پہلے گھیرا ہوگا۔  اجازت چاہتا ہوں۔

حدمتارکہ کی دوسری طرف سے آپکا دوست

اظہر مشتاق

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact