تحقیق: ظہیر ایوب


تقسیم  کے انقلاب تک سرزمینِ حویلی علم و دانش کا گہوارہ تھی۔جس کی دانش کا معترف اک زمانہ رہا ہے۔اس کی زرخیز مٹی نے چراغ حسن حسرت جیسے سلطان القلم پیدا کئے۔ان کے دیگر تین بھائی بھی شاعر تھے۔ان کے علاوہ کرشن چندر بھی حویلی ہی کی کوکھ میں شہرۂ آفاق افسانہ نگار بنے۔اسی مٹی نے مہندر ناتھ اور ٹھاکر پونچھی جیسے ادیب پیدا کئے۔چراغ حسن حسرت تو اپنی ادیبانہ،شاعرانہ اور صحافیانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر بین الاقوامی پلیٹ فارم تک چلے گئے البتہ حویلی کی رونقیں بحال رکھنے کیلئے دیگر بہت سارے شعراء کرام موجود تھے جن میں عبدالقادر خزین،فرزند علی یاس بخاری،تحسین جعفری،سید احمد درد،امام الدین ہدہد،سرون ناتھ آفتاب،ضیاء الحسن ضیاء اور سراج الحسن سراج وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

اکثر دوست احباب حویلی نام کی وجۂ تسمیہ پوچھتے رہتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق مقبوضہ پونچھ شہر کی چار تحصیلیں تھیں۔حویلی،مہنڈر،باغ اور سدھنوتی۔۔۔
 حویلی مرکزی تحصیل تھی جس میں دیگوار ملدیالاں کا علاقہ بھی شامل تھا جو کہ لائن آف کنٹرول کے اس پار واقع ہے۔
 حویلی ملدیالاں میں ایک مسلمان وزیر میاں نظام دین ہوگزرے ہیں جو ڈوگرہ دربار سے منسلک تھے۔ان کے نام سے ایک بہت بڑی اور رفیع الشان عمارت تعمیر ہوئی تھی۔جس کے پہلو میں ایک خوبصورت مسجد بھی انہی کے نام سے بنائی گئی۔اسی عمارت کے نام پر پونچھ کی مرکزی تحصیل کا نام حویلی پڑ گیا۔کیونکہ پرانے وقتوں میں بڑی عمارت کو حویلی کہا جاتا تھا۔میاں نظام دین کی وفات کے بعد ڈوگرہ راجوں نے اس تاریخی عمارت میں وی۔جے اسٹیٹ ہائی اسکول قائم کر دیا تھا۔
حویلی کا زیادہ تر قابلِ دید علاقہ حدِمتارکہ کے اس جانب واقع ہے البتہ سیاحت کیلئے اس طرف بھی قدرتی خوبصورتی سے مالا مال کئی ایک جگہیں موجود ہیں جن میں لس ڈنہ،محمود گلی،شیرو ڈھارہ،مانجھی شہید،علی آباد،نیلفری،مین سر،کھٹناڑ، سری ، گزن، ہلاں،کاچربن اور سنکھ وغیرہ کی خوابناک ڈھوکیں شامل ہیں۔جن کی قدرتی خوبصورتی، تاحد نظر پھیلا زمردیں فرش اور فطرت کا حسنِ شاداب سیاحوں کو مبہوت کئے دیتا ہے۔
یوں تو حویلی کا سارا علاقہ مختلف معدینیات اور اناج و غلہ کی گوناں گوں اقسام کے باعث مشہور ہے البتہ حویلی درہ حاجی پیر کے حوالے سے پوری دنیا میں معروف ہے۔یہ دنیا کے چند بڑے اور مشہور ترین پہاڑی دروں میں سے ایک ہے جو صدیوں سے تجارت،ہجرت، جنگ اور دیگر نقل و حمل کیلئے استعمال ہوتا رہا۔
اس کے علاوہ برٹش دور میں اس مشہور تاریخی گزرگاہ  پر تعمیر کی جانے والی سڑک اور آس پاس کے تاریخی مقامات بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں۔اس صدیوں پرانی گزرگاہ پر بننے والی سڑک مقبوضہ پونچھ کو اوڑی شہر اور سری نگر سے ملاتی ہے جو 1920ء میں تعمیر کی گئی۔درہ حاجی پیر کی عظیم اور تاریخی گزرگاہ سے دراوڑ،کورو اور پانڈو بھی گزرتے رہے۔ بدھ تہذیب کے کارواں نے بھی اپنے نقوش پا چھوڑے۔ اشوک اعظم کے پھریرے بھی یہاں لہراتے رہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں مغل بادشاہوں کے نقوشِ دوام سے بھی یہ سرزمین محروم نہیں رہی۔مغل شہنشاہ اکبر دی گریٹ کے لشکر جرار نے اس راستے سفر کرتے ہوئے علی آباد کے پرفضا مقام پر پڑاؤ کیا۔
اس گزرگاہ پر بننے والی سڑک جموں شاہراہ کے مقابلہ میں مختصر ترین روڈ ہے جو شہر پونچھ کو مقبوضہ کشمیر کے دارالخلافہ سری نگر کے ساتھ ملاتی ہے۔ایک صدی پیشتر تعمیر کی گئی یہ سڑک بلاشبہ فنِ تعمیر اور انجینئرنگ کا ایک شاہکار تھی۔کیونکہ اس کا گریڈ اور سروے ایسا تھا کہ اس پر تانگے بھی بآسانی چل سکتے تھے۔ کچی روڈ ہونے کے باوجود 1947ء تک اس پر بسیں چلا کرتی تھیں۔
یہ ہسٹاریکل روڈ مقبوضہ شہر پونچھ سے گاؤں دیگوار تیڑواں (آزاد کشمیر) کے بیچوں بیچ اور نالۂ بیتاڑ کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی ضلعی ہیڈ کوارٹر کہوٹہ کو چھوتی ہوئی ہالن شمالی،علی آباد اور درہ حاجی پیر سے ہوتی ہوئی بھیڈی کے آخری گاؤں خواجہ بانڈی کے مقام پر اوڑی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو جاتی ہے۔اس سڑک کے دائیں بائیں بل کھاتے ندی نالوں،سرسبز و شاداب وادیوں، کھیت کھلیانوں،جنگلوں اور کہساروں  کا نظارہ آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا ہے۔

 سڑک کے گرد و نواح میں مختلف تاریخی مقامات بھی واقع ہیں جن کی اپنی ایک الگ ہسٹری ہے۔جس میں سرائے علی آباد،رانی باغ،شکار گاہ لوئی دندی اور علی آباد ،درہ حاجی پیر،نوری چھم وغیرہ کافی مشہور ہیں۔بعض جگہوں پر پانی کے چشمے اور باؤلیاں بنی ہیں جو اگرچہ امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں لیکن اب بھی مغلیہ اور سکھ دور کی یاد تازہ کرتی ہیں۔اس طرز کے چشموں اور باؤلیوں کی باقیات حویلی میں جا بجا نظر آتی ہیں۔بالخصوص کہوٹہ (چنار) ، پنج پیر،ہوتر،سولی، کالامولہ وغیرہ کے مقامات پر ان کے نشانات بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔
درہ حاجی پیر کے راستے مختلف کارواں گزرتے رہے ہیں۔جن کا پڑاؤ علی آباد کے خوبصورت اور پرفضا مقام پر ہوا کرتا تھا۔جہاں ان قافلوں کی رہائش کیلئے ایک بہت بڑی قدیم سرائے موجودتھی۔ایک روایت کے مطابق جب شہنشاہ جلال الدین اکبر کے لشکر نے علی آباد کی سرائے میں قیام کیا تو لشکریوں کے طعام کیلئے تیار کیے جانے والے کھانے میں صرف ڈھائی من ہینگ استعمال ہوا تھا۔بعض روایات میں نو من ہینگ کا ذکر بھی ملتا ہے۔جس سے لشکر کی غیرمعمولی تعداد اور سرائے کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
 اکبر دی گریٹ کے اس لشکر کی آمد اور پڑاؤ کی تاریخ پاس ہی ایک بہت بڑی چٹان پر کندہ ہے جسے مقامی زبان میں “لکھی تراڑ” کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔چٹان پر کندہ تختی کا ڈیزائن تاحال موجود ہے البتہ اس پر فارسی رسم الخط میں لکھی گئی تحریر کافی ماند پڑ چکی ہے۔
سرائے کے ساتھ جموں و کشمیر کے آخری فرمانروا مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی چہیتی بیوی رانی صاحبہ کیلئے انیسویں صدی میں ایک خوبصورت باغ بنوایا تھا۔رانی کا پورا نام “دھرمپور رانی سری لال کونربا صاحبہ” تھا جو رانی صاحبہ کے نام سے مشہور تھی۔ جس میں وہ اپنی کنیزوں کے ہمراہ سیرو چہل قدمی کیا کرتی تھی۔رانی باغ اپنی جزوی شکل میں ہنوز موجود ہےجسے دیکھنے کیلئے دور دراز سے سیاح آتے جاتے رہتے ہیں۔
 بعد ازاں انگریزوں کے دور میں علی آباد کے مقام پر ایک خوبصورت اور وسیع ڈاک بنگلہ بھی تعمیر کیا گیا جس کے آثار تقریباً ناپید ہو چکے ہیں۔
پونچھ شہر سے اوڑی اور سرینگر جانے والی یہ سڑک اپنے دامن میں گزشتہ کئی صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔اس راستے برگزیدہ ہستیوں، اولیاء کرام،علماء کرام، سکھوں، راجوں مہاراجوں، انگریزوں اور چوٹی کے سیاسی رہنماؤں نے بھی کئی ایک سفر کیے۔
آنجہانی اندرا گاندھی بھی بطور خاص درہ حاجی پیر تک آئیں اور معاہدہ تاشقند کے تحت اپنی فوجوں کو پیچھا ہٹا لیا۔شیرکشمیر شیخ عبداللہ بھی تشریف لاتے رہے۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے بھی یہاں قدم رنجہ فرمایا۔
حاجی پیر کے مقام پر ایک خدا رسیدہ بزرگ حاجی سید عبد اللہ شاہ بخاری کا مزار ہے۔جن کے دوسرے بھائی سید حاجی محمد ابرہیم شاہ بخاری کہوٹہ مدفون ہیں اور ایک ہمشیرہ علی آباد نزد رانی باغ آسودۂ خاک ہیں۔مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی کئی ایک بیٹھکیں بھی حویلی میں موجود ہیں۔
 حویلی کی قدرتی خوبصورتی نے کئی ایک شعراء،ادباء اور افسانہ نگاروں کو بھی اس جانب متوجہ کیا اور انہوں نے حویلی کے دور دراز گاؤں اور ڈھوکوں تک سفر کر کے ادب کے شہ پارے تخلیق کیے۔کرشن چندر نے چھانجل،علی آباد،حاجی پیر، مین سر اور گزن ڈھوک پر کئی ایک شہرۂ آفاق افسانے تحریر کیے۔ہلاں ٹیڈا بن کے ساتھ بٹ ہالن کے مقام پر بدھ یونیورسٹی کے آثار ابھی بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
البتہ 1947ء کے انقلاب نے حویلی کو تمام پہلو ہائے زندگی سے پسماندگی کی جانب دھکیل دیا۔حد متارکہ نے اس تاریخی سڑک کی اہمیت اور حسن کو بھی کافی گہنا دیا۔چنانچہ وہی مصروف و بارونق گزرگاہ جس نے کئی صدیوں تک مختلف حکمرانوں اور مشاہیر کے کروفر اور جاہ و جلال کا مشاہدہ کیا تھا اب پون صدی سے ویران اور خستہ حال پڑی ہے۔اگرچہ چند سالوں سے اس سڑک کو کسی حد تک قابل استعمال بنا دیا گیا ہے لیکن سندر مار سے آگے خواجہ بانڈی تک اس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔حویلی کے اندر واقع دیگر تاریخی مقامات کے نشانات بھی (سوائے رانی باغ ) تیزی کے ساتھ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔درہ حاجی پیر کا نام بھی کم کم سننے میں آتا ہے۔گھنے اورسرسبز و شاداب جنگلات،بیش قیمتی  جڑی بوٹیاں، نایاب جنگلی حیات اور قیمتی لکڑ بھی تیزی کے ساتھ ناپید ہوتی جا رہی ہے۔
 نتیجتاً ہم جلد ہی اپنی نسل نو کو  آبا کی یہ تاریخی نشانیاں دکھانے سے معذور ہو جائیں گے اور سلف کی یادگاریں محض الف لیلوی کہانیاں بن کر رہ جائیں گی۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact