Friday, April 26
Shadow

فن لینڈ کا تعلیمی نظام / محمودالحسن عالمی

فن لینڈ کا تعلیمی نظام ۔تحریر و تحقیق: محمود الحسن عالمی ؔ

(تعلیمی لحاظ سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے نام)

تحریر و تحقیق: محمود الحسن عالمی ؔ

  ’’عوامی جمہوریہ فن لینڈ‘‘ شمالی یورپ میں واقع ایک خود مختار اور آزاد  فلاحی ریاست ہے۔ فن لینڈ کا ’’ہلسنکی”شہر  آبادی کے اعتبار سے فن لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ فنش  دار الحکومت  ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔فن  لینڈ نے روس سے آزادی حاصل کرتے ہوئے اپنا پہلا یومِ آزادی 6-دسمبر-1917ء کو منایا۔اِس کی سرکاری زبانوں میں “فنش” اؤر “سویڈش” شامل ہے۔ اِس کے جنوب میں خلیج فن لینڈ(سوؤمِن لاھتی)، شمال میں ناروے(نوریا)، مشرق میں روس (وینایا)اور مغرب میں سمندر اور سوئیدن (روؤتسی)واقع ہیں۔فن لینڈ کی  کُل آبادی  تقریباً 55 لاکھ اور جغرافیائی رقبہ تقریباً 338,455km² ہے۔ آپ سرِ زمین “فن لینڈ”  کو  جھیلوں کی سرزمین بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ قدرت نے اِسے تقریباً 187,888 انتہائی پُرکشش، دلنشین  اؤر بے نظیر جھیلوں سے بڑی تعداد میں نواز رکھا ہے، جن کی بہتی جوانی کی کشش ہر سال متجسس  سیاحوں کی ایک بڑی تعداد  کو  فن لینڈ میں  اپنی طرف کھینچ لاتی ہیں۔لیکن آپ یقین کیجیے کہ  اگر آج میرا قلم’’فن لینڈ‘‘ کے اِس  رسمی تعارف  کے  حوالے سے جنبش میں آیا ہے۔تو اِس جنبشِ قلم  کی وجہ وہ بانہیں پھیلاتی، مچلتی ہوئی  فنش جھیلیں  نہیں بلکہ اِس کا وہ بہترین ملکی  تعلیمی نظام  ہے جو مجھے فن لینڈ کی اُن پُرکشش جھیلوں سے بھی زیادہ  پُرکشش،مُتاثر کن اؤر دلفریب  لگتا ہے جو اِسے صرف  شمالی یورپ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے بین الاقوامی  تعلیمی  نظاموں میں ممتاز،اعلیٰ اور قابلِ تحسین بنا تا ہے ۔
فن لینڈ 2000ء سے 2018ء تک “پِیسا ٹیسٹ” میں   لگاتار شرکت کر رہا ہے۔”پِیسا ٹیسٹ””پراگرام فار انٹرنیشنل سٹوڈینٹ اسیسمینٹ ٹیسٹ” کا مخفف ہے۔ یعنی کہ یہ دنیا کا سب بڑا عالمی امتحان ہے  کہ جس  میں خود کو تعلیمی لحاظ سے ترقی یافتہ خیال کرنے والے ممالک کے 15 سالہ طالبان علم شرکت کرتے ہیں جن میں اُن کی فکری صلاحیتوں اؤر علمی قابلیتوں کو تین جدید ترین مضامین یعنی ریاضی،مطالعاتی قابلیت (ریڈنگ) اور  سائنس کے ذریعے پرکھا جاتا ہے۔اِس عالمی امتحان کے نتائج  سے نہ صرف کسی بھی ملک کے تعلیمی نظام کی اعلیٰ  معیاری کا  پتہ لگایا جاسکتا ہے بلکہ نتائج میں اعلیٰ کارگردگی دکھانے والے ممالک کو سائنسی ،فکری  و علمی اعتبار سے ذہین  و فطین  اور روشن مستقبل رکھنے والے ممالک میں   شمار کیا جاتا ہے اؤر یہ نتائج اُن ممالک  کی عزت و منزلت اور صنعت و تجارت پر براہِ راست اؤر بلا واسطہ دونوں لخاظ سے بہت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔اِسی  عالمی امتحان میں فن لینڈ  نے 2000ءتا 2012ء تک  درجہء اول(فرسٹ پوزیشن) حاصل  کرتے ہوئے،لگاتار 12 سال تک اِس عالمی امتحان پر  راج کیا ہے اؤر 2012ء کے بعد بھی 2018ء  کے آخری “پِیسا ٹیسٹ” تک  فن لینڈ کے طلباء  کی کارکردگی اِس عالمی امتحان میں نہایت اعلیٰ اور  قابلِ تحسین رہی ہے جو فن لینڈ کے تعلیمی  نظام کے بے نظیر و بہترین ہونے کی ایک ناقابل فراموش  دلیل ہے۔
اگر میں فن لینڈ  کے اِس قدر  بہترین تعلیمی نظام کے پس منظر  کو دیکھوں تو مجھے یہ بات نہایت واضح طور پر دیکھائی  دیتی ہے کہ اُنھوں نے اِس راز کو پالیا ہے کہ اقوام کی لازوال بقا اور ناقابل تسخیر ترقی و خوشحالی  فوجی اؤر عسکری قوتوں میں نہیں بلکہ علم کی طاقت میں ہوتی ہے۔کوئی قوم جغرافیائی لحاظ سے  اگر  کسی فوجی و عسکری قوت کے اندھا دھند  زور سے  تباہ و برباد بھی کر دی جائے۔ لیکن  وہ نظریاتی لحاظ سے  تب  تک مکمل طور پر صفحہِ ہستی سے  مٹائی  نہیں جاسکتی کہ جب تک کوئی اُس قوم کی  قومی منفرادیت کے تحت علمی ذہانت کو مکمل طور پر ختم نہ کر دئے اور فن لینڈ کا شمار تو اُن ممالک میں ہوتا ہے کہ جو پچھلی چند ہی صدیوں  میں کئی بار فوجی طاقت کے بل بوتے پر تباہ و برباد اور غیر اقوام کے غلام ہوچکے ہیں یعنی فن لینڈ عظیم شمالی جنگ 1709ء کی روسی غلامی سے لے کر(روس-فن لینڈ)جنگ بندی 1944ء تک  کئی بار مکمل طور پر جانی و مالی اعتبار سے تباہ حال ،روسی غلام اور بدترین  شکست کا شکار ہوچکا ہے، لیکن فن لینڈ نے جنگی انتقامات کے ناختم ہونے والے سلسلے کو رواں رکھنے کی بجائے اپنی قومی منفرادیت  کے تحت اپنی  علمی ذہانت اؤر فکری قابلیت  کو زندہ رکھا اور اپنے تعلیمی نظام کو یورپی ترقی یافتہ ممالک کی اندھی تقلید سے دُور رکھتے ہوئے اور اپنی فوجی طاقت کو اندھا دھند  بڑھتے  ہوئے،تباہ کن ایٹم بمز بنانے کی بجائے،اپنے  ملکی تعلیمی نظام پر مالی اؤر نظریاتی اعتبار سے بھرپور توجہ دی اور آج  فن لینڈ کا تعلیمی نظام  دنیا کے سب سے  بہترین تعلیمی نظام ہونے کا عالمی اعزاز اپنے نام کرتے ہوئے،دنیا کی سب سے بڑی تعلیمی ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ میرے اِس دعویٰ  کی غیر جذباتیت اؤر بلا تعصب حقانیت کا ایک سرسری اندازہ آپ اِن  تین  باتوں سے لگائیے کہ آج فن لینڈ میں شرح خواندگی دنیا میں  سب سے  زیادہ یعنی    تقریباً  99%ہے اور دیگر  تعلیمی لخاظ سے نہایت طاقتور  ممالک سے لے کر  دنیا کے عالمی سُپر پاورز  ممالک تک  سب  فن لینڈ کے  تعلیمی نظام کی کئی خصوصیات  کو اپنے ہاں نافذ کر نے کے  خواہشمند  ہے  نیز اِسی زبردست تعلیمی نظام کی بدولت آج فن لینڈ کا شمار دنیائے یورپ کے سب  سے کم ترین  بدعنوان  ممالک میں ہوتا ہے کہ  یہاں عدل و انصاف کا نظام  عام سماجی  سطح سے لے  ملک   کی اعلیٰ سیاسی سطح   تک  مجموعی طور پر رائج ہے ۔تو آئیے  ، اپنی تحریر کا  ذرا سا دھارا بدلتے ہوئے فن لینڈ کی  اُن تعلیمی خصوصیات ، اختراعات اؤر اصلاحات  کا تفصیلی اور تقابلی  تجزیہ کرتے ہے کہ جو تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک  سے لے کر  ترقی  یافتہ ممالک کے لیے یکسر مفید  ،مثالی اور  متاثر کن نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

(1.)داخلے کی عمر:
فن لینڈ کے اسکولز میں صرف 7 سالہ بچوں کو ہی داخلہ دیا جاتا ہے،یعنی  فن لینڈ میں لازمی تعلیم کی عمر 7 سال سے شروع ہوتی ہے۔  اِس 7 سالہ عمر کی حد کے پیچھے میرے مطابق یہ حکمت کارِ فرما ہوسکتی ہے  کہ  بچے  اِسی 7 سال کی ابتدائی عمر  سے قبل شعوری اؤر لا شعوری طور پر اپنی  بقیہ تمام زندگی کی تمام تر ترجیحات،جذبات  اور نظریات کی  سرسری اؤر ناپختہ بنیادیں رکھتے ہیں  جو کہ پھر  بقیہ زندگی کے ماحولیاتی اؤر نظریاتی اثرات کے ارتقائی منازل سے گزرتی ہوئی مزید پختہ ہو جاتی ہے یا پھر  بالکل  ہی بے معنی سی حیثیت  اختیار کر جاتی ہے۔لہذا اِسی  نُوعمری  کے  ابتدائی 7 سالہ دورانیے میں رسمی تعلیم سے بھی کئی گنا زیادہ غیر رسمی تعلیم یا ابتدائی گھریلو تعلیم مفید و  مناسب رہتی ہے کہ بچے  7 سال تک کھیل ہی کھیل میں گھریلو غیر رسمی تعلیم  اور  دوستوں  سے  اپنے ذاتی مشاہدات اؤر آزادنہ تجزیے کی بنا پر، فطرت اؤر ثقافت کو محسوس کر تے ہوئے  آزادنہ  سوچ سکتے ہیں اور اپنی اِسی کم عمری کی نعمت  کی بدولت ،رسمی تعلیم کے بوجھ سے آزاد ہوتے ہوئے،اپنے غیر معمولی اور غیر رسمی  زاویہء نگاہ سے دنیا کو  دیکھ سکتے ہیں اؤر سب سے اہم یہ کہ وہ اپنا بچپن بھرپور انداز میں  آزادی سے جی سکتے ہیں  یوں اِن سارے مراحل میں گزر کر 7سالہ  فنش  بچوں میں اسکول تک پہنچنے سے پہلے ہی   لاشعوری اؤر شعوری طور پر علم دوستی، علمی  تحقیق  و جستجو  کا رجحان پیدا ہوچکا ہوتا ہے جبکہ اِس کے برعکس ہمیں  دیگر ممالک میں  3تا5 سال تک کے کم عمر بچوں کو اسکولز میں داخل کروانے کی مثالیں ملتی  ہیں جو کہ نہ صرف  کم سِن بچوں کے بچپن پر بے جا شدید دباؤ  ڈالتے ہوئے اُن کی اُس پیدائشی آزادی پر ڈاکہ ڈالنے  کے مترادف ہے کہ جو  اُنھیں  قدرت نے بطورِ تحفہ و نعمت عطا کی ہے بلکہ  ایک باپ کی  نگاہِ شفقت اور ماں کی  آغوش  کو  فراموش کرتے ہوئے قدرت الہیٰ میں تحریف کرنے کے بھی  مترادف  ہے۔

( 2.)غیر رسمی گھریلو/ابتدائی تعلیم:
فن لینڈ میں ایک ملازمت یافتہ فنش ماں کو  بچے کی پیدائش پر حکومت کی جانب سے ملازمت سے، مکمل چار ماہ کی چھٹی کے ساتھ ساتھ پوری تنخواہ بھی دی جاتی ہے اور آگر اِس کے بعد بھی  والدین میں سے کوئی ایک اپنے بچے کی نگہداشت کے لیے ملازمت سے چھٹی لینا مناسب سمجھے تو اُسے مزید چھ ماہ کی چھٹی پوری تنخواہ کے ساتھ بآسانی دی دئے جاتی ہے۔نیز  فنش حکومت کی جانب سے،اہلیت کے معیار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فنش والدین کو بچے کی پیدائش پر  ایک خطیر رقم”چائیلڈ بینیفٹ سکیم” کے تحت دی جاتی ہے  یہ سکیم بچے کے 17 سال  کے ہونے  تک جاری وساری رہتی ہے اِس سکیم  کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اِس سے والدین کے لیے رسمی تعلیم سمیت غیر رسمی گھریلو تعلیم کی فراہمی  کو  مالی اعتبار سے بھی یقینی بنایا جاسکے لہذا یہی وجہ ہے کہ فن لینڈ میں  والدین ابتدائی گھریلو  تعلیم کو نہایت صحت مندانہ طریقہ سے باآسانی دیتے ہیں۔گھریلو غیر رسمی تعلیم  کے حوالے سے یہاں  یہ بات بھی قابل غور اؤر دلچسپ ہے کہ فن لینڈ میں والدین کو بچوں کی پیدائش پر  ،حکومت کی جانب سے  ضروری سامان نگہداشت”بے-بی باکس”کے ساتھ ساتھ  ایسی تعلیمی ہدایات بھی  دی جاتی ہیں کہ جس میں والدین کو بچوں کی غیر رسمی تعلیمی نشوونما سے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس تعلیمی نشوونما کی اہمیّت کے حوالے  سے فنش ماہرِ تعلیم “ایوا ہجالا” کہتی ہیں کہ: “ابتدائی گھریلو  تعلیم زندگی بھر کی تعلیم کا پہلا اور انتہائی اہم مرحلہ ہے۔ اعصابی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ دماغ کی نشوونما کا 90%حصہ بچے کی  زندگی کے ابتدائی پانچ سالوں کے دوران ہی  تحریک و استعمال میں آجاتا  ہے ، اور 85 % عصبی راستے اسکول جانے کی عمر یعنی 7 سال سے پہلے ہی نشو نما پا جاتے ہیں۔لہذا اِنھی  تعلیمات کی آگاہی سے  فنش والدین  پچپن  ہی  سے اپنے بچوں کی  اخلاقی  اقدار اور ذہنی و فکری  قابلیت کو پختہ بناتے ہوئے  اُنھیں  مستقبل کے ایک قیمتی ملکی سرمایہ  میں ڈھال دیتے ہیں۔اِس مقصد کے پیش نظر اکثر فنش  والدین بچوں کو ابتدائی و غیر رسمی تعلیم  “ڈئے کیئر سنٹر،کنڈرگارٹن اؤر پِری اسکول کے ذریعے  بھی دینا پسند کرتے ہیں۔یہ تمام تعلیمی ادارے دیگر  حکومتی اسکولز کی طرز  کے سنجیدہ اؤر رائج العام تعلیمی ادارے   ہرگز نہیں ہیں اؤر نہ ہی اِن اداروں کی  ابتدائی تعلیم کو  لازمی تعلیم سمجھا جاتا ہے یہ فنش  والدین کی مرضی  پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو اِن اداروں کے ذریعے ابتدائی  تعلیم فراہم کرے یا پھر بچوں  کو  گھریلو طرز پر مبنی ابتدائی غیر  رسمی تعلیم فراہم کرئے۔آپ   اِن  نجی اداروں کو  بچوں کے تفریح خانے بھی کہہ سکتے ہیں کہ جہاں  کھیل، مستی و  کود میں ہی  نہایت چھوٹی سطح پر  بنیادی  اخلاقی  اؤر علم دوست  تعلیمات کو کتابی الفاظ و لہجے کے بغیر صرف زبانی،عملی اور جدید و دلچسپ ٹیکنالوجکل ذرائع سے سیکھایا جاتا ہے اور آگر  آپ فن لینڈ میں اپنے بچوں کو کنڈرگارٹن  بھیجتے ہیں تو  فنش حکومت بچوں کی نگہداشت کے لیے حصوصی اہتمام کرتی ہے اور ہر سال بچوں کے خرچے کے واسطے سالانہ تقریباً 3842 اِیورُوز کی خطیر رقم  بھی والدین کے حوالے کرتی ہے۔نیز کنڈرگارٹن عملے کا انتحاب   بھی کم از کم   بیچلرز”کی تعلیم پر ہوتا ہے  تاکہ بچوں کی نگہداشت اؤر  تربیت اعلی سطح کی ہو۔اِن تربیتی اداروں کی ابتدائی و غیر رسمی تعلیم  بچوں کے لیے  کتنی کار آمد ہوتی ہے اِس حوالے سے فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی کے محکمہِ تعلیم سے وابستہ مشہور ماہر تعلیم “اِیوا پینِٹیلا”کہتی ہے کہ:”ہم دیکھتے ہیں کہ ڈے کیئرسنٹر  اور پِری اسکول میں  بچوں کا داخلہ اُن کے لیے بہت  اچھا ثابت ہوتا  ہے کہ یہ وہ جگہ نہیں ہے کہ جہاں والدین  کام پر جاتے وقت اپنے بچہ پھینک جاتے ہیں۔ (تاکہ وہ بچے کی حفاظت اؤر نگہداشت کی پریشانی سے آزاد ہو جائے۔) بلکہ  یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں  آپ کے بچے کھیلنے اور سیکھنے کے ساتھ ساتھ  نئے نئے  دوست بنانے  آتے ہیں۔ لہذا بہترین تعلیمی سمجھ بوجھ رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو ڈے کیئر سنٹر میں ڈالنا پسند کرتے ہیں۔”اور  کنڈرگارٹن کے متعل   اِیوا پینِٹیلا کہتی ہے  کہ”کنڈر گارٹن” میں بچوں کو بنیادی طور پر یہ سیکھایا جاتا ہے کہ “سیکھا کیسے جاتا ہے۔؟”  مطالعاتی قابلیت “ریڈنگ”اؤر ریاضی کے متعلق  باضابطہ   ہدایات سیکھانے کی بجائے  اُنھیں فطرت، جان داروں  اؤر زندگی کے دائرے کار   کے  متعلق  سیکھایا جاتا ہے۔”

(3.)مفت مساوی تعلیم:
فن لینڈ میں تمام تر  تعلیمی ادارے سرکاری تحویل  یا نگرانی کے زیر اثر ہے  یعنی فن لینڈ میں کوئی   شخص تعلیم کی فراہمی کے  نام پر  ذاتی ملکیت کی نوعیت کے مہنگے ترین تعلیمی کاروباری اڈے”پرائیوٹ ایجوکیشن سنٹڑ”چلا ہی نہیں سکتا ہے لہذا  وہاں  تعلیم کا حصول نہایت آسان،عام اؤر مفت ہے نیز اسکو ل کی تعلیم سے وابستہ تمام  اشیاء مفت فراہم کی جاتی ہیں مثلاً:کتابیں،بستے  اور سامان اسٹیشنری وغیرہ مفت تقسیم کیے جاتے ہیں۔ہاں البتہ یہ الگ بات ہے فنش اسکولز میں بہت زیادہ کتابوں، کاپیوں اور بھاری بھر کم بیگ کا کوئی تصور تک موجود نہیں ہے۔بہرحال اِسی مفت مساوی فنش تعلیم کی وجہ سے ہی فنش اسکولز  کے  مابین زیادہ داخلوں کی دوڑ اؤر اچھے اور بُرے اسکولز  کی جاگیرداری قائم نہیں ہو پاتی ہے اؤر نہ ہی وہاں  نجی اور حکومتی اسکولز کے اختلاف سے مختلف تعلیمی مسائل جنم لے پاتے ہیں۔کیونکہ وہاں تمام مالی طبقوں یعنی  امراء،متوسطین اؤر غرباء کے  بچے ایک ہی جماعت میں  کرسی سے کرسی جوڑ کر  ہر حوالے سے مساوات پر  مبنی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

( 4.)یکساں تعلیمی نظام اور نصاب:
فن لینڈ کے تمام تر تعلیمی اداروں میں سرکاری سطح پر ایک ہی تعلیمی  نظام اؤر نصاب رائج ہے اور اِسی طرح مالی یا نسلی برتری کی تمیز روا رکھے بغیر  ہر فنش  شہری کو یکساں تعلیمی نظام سے مستفید کیا جاتا ہے۔جس سے فنش طالبانِ علم میں مساوات اور انفرادی  خود اعتمادی  جیسی عظیم خصوصیات  جنم لیتی  ہیں  اور ساتھ ہی ساتھ اِسی یکساں تعلیمی نظام کی برکت سے فنش  طالبانِ علم میں بچپن ہی سے طبقہ واری  سوچ کا  خاتمہ  کرنے کی حددرجہ کاوش کی جاتی ہے۔یکساں نصاب اور یکساں تعلیمی نظام ہونے کے سبب وہ نظریاتی طور پر اپنی قومی یکجہتی کے زیرِ سایہ ترقی کرتے ہیں۔ نیزحکومتی رائج شدہ نصاب و نظام  کو بدلتے ہر چند سالوں کے بعد زمانے کی  جدت کے  پیشِ نظر نئی سائنسی و فنی  تعریفوں،ایجادات و اصلاحات  کے مطابق ہم آہنگ کیا جاتا ہے اؤر تعلیمی نصاب مرتب کرتے وقت طلباء کی ذہنی سطح اؤر رجحانات کو خوب مدنظر رکھتے ہوئے دلچسپ اور آسان فہم  بنایا جاتا ہے۔ یہاں اِس ضمن میں  یہ بات بھی   نہایت اہم اؤر دلچسپ ہے کہ فن لینڈ میں تعلیمی نصاب صرف   الفاظ کی صورت میں کتابوں کے اُوراق پر تحریر کردہ نہیں ہوتا  بلکہ  نصاب  کا  آدھا حصہ جہاں الفاظ کی صورت میں موجود ہوتا ہے  تو وہی نصاب کا تقریباً آدھا حصہ عملی کام”پراکٹیکل ورک”پر مشتمل ہوتا  ہےیعنی  کتاب میں جو   فنش طلباء کو الفاظ کی صورت میں پڑھایا جاتا ہے  اُس کا عملی اطلاق”پراکٹیکل ایپلیکیشن” بھی کر دیکھایا جاتا ہے۔یاد رہے کہ  یہاں  میری عملی اطلاق سے مراد خصوصاً سائنسی طریقہ کار کے حامل  مضامین  اور موضوعات ہیں جو کہ مشاہدہ،تجربہ و تجزیہ کے قابل ہونے کی بنا پر عملی اطلاق “پراکٹیکل ایپلیکیشن”کے قابل ہوتے ہیں ناکہ وہ مضامین  یا موضوعات ہے جو مجموعی طور پر  عملی اطلاق سے بالاتر ہوتے ہیں۔ مثلاً معاشرتی علوم،تاریخ،ادب  یا مذہبی مضامین جو صرف نظریات و واقعات کی دنیا میں، الفاظ کے پیراہن کو اُوڑھے  ہوئے صرف  کتابوں  ہی کی صورت موجود ہوتے ہیں اِن کے عملی اطلاق کا حقیقی مطلب یہ  ہے کہ اُس زمانے میں “ٹائم ٹریول”کے  ذریعے طلباء کو اُس  موضوع سے منسلک زمانے میں پہنچا کر   براہ راست آنکھوں دیکھا   مشاہدہ کروایا جائے  یا پھر   کوئی ایسی مشین دریافت کی جائے  جس میں یہ قابلیت ہو کہ وہ کُل جہاں کے ماضی کو  روزِ ازل سے ایک فلم کی صورت میں پردہِ اسکرین  پر دیکھا سکے   جبکہ فی الحال یہ دونوں   ایجادات اؤر مشورے ناممکنات  ہونے کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں نیز یہ ک  ادب کے قارئین کے لیے یہ سائنسی نظریات پر مبنی سائنسی مشورے ذرا مبہم اور غیر دلچسپ بھی  ہوسکتے ہیں۔لہذا  خلاصہ کلام یہ کہ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا  کہ معاشرتی علوم پر سائنسی علوم کی طرز کا پختہ عملی اطلاق”پرایکٹیکل ایپلیکیشن” نہیں ہوسکتا لہذا فن لینڈ میں اُن مضامین و موضوعات کو  نوجوانوں کی ذہنی دلچسپی سے ہم آہنگ جدید ترین ذرائع سے سیکھا کر،  عملی اطلاق کا ایک حد تک حق ادا کر دیا جاتا ہے یعنی کہ”ایجوکیشن اینیمیشن،فلمز،ڈاکومینڑیز
،گیمز” وغیرہ کے ذریعے معاشرتی  علوم  کو فنش طالبانِ علم کے ذہن میں نہایت آسانی اور دلچسپ طریقے سے فلما دیا جاتا ہے جس سے معاشرتی علوم کے نظریات و واقعات  اپنی ممکنہ اصل اؤر شفافیت سے  طالب علموں کے ذہنوں  میں دیر پا حافظے”لانگ-ٹرم میموری” کا حصہ بن جاتے ہیں۔

(5.)دوپہر کا کھانا”اسکول مِیل“:
حکومتِ فن لینڈ 1948ء سے اپنے تعلیمی اداروں میں ہائی اسکولز کی سطح تک مفت دوپہر کا کھانا “اسکول مِیل” فراہم کر رہی ہے اؤر اِس حوالے سے فن لینڈ دنیا کا وہ سب پہلا ملک ہے کہ جس نے ایک وسیع پیمانے پر ، یعنی اپنی ملکی سطح پر، شعبہء تعلیم و تدریس کے لیے مفت خوراک رسانی کے نظام کو متعارف کروایا۔ فنش اسکولز میں موجود خوراک رسانی کا نظام “اسکول کیئرٹنگ سسٹم” اِس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اسکول کو ایسا متوازن،پُر کشش اور گرم کھانا فراہم کیا جائے جو طلباء و اساتذہ سمیت سارے اسکولی عملے کی صحت مندی کے لیے ممد و معاون ہو اور خصوصاً طلباء کی عمر اؤر رجحان کے مدنظر اُن کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے بہترین و مناسب ہو۔یہ دوپہر کا کھانا ایک بڑی پلیٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔کھانے کی پلیٹ کا آدھا حصہ تازہ سلاد اور پکی ہوئی سبزیوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ایک اُبلے آلو، پاستہ یا چاولوں نے پلیٹ کا ایک تہائی حصہ گھیرا ہوتا ہے۔ آخری ایک چوتھائی حصے میں کٹی مچھلی کے گوشت کا ایک ٹکڑا یا “مارجرین”اور “بریڈ”ہوتا ہے۔(مچھلی کا گوشت صرف گوشت خور طلباء  کو اُن کی مرضی و پسند کی بنا پر فراہم کیاجاتا ہے۔ )نیز مشروبات میں ایک پانی اور ایک دُودھ کا بھرا ہوا گلاس پینے کی خاطر فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ دوپہر کے کھانے کے یہ وہ بنیادی اجزاء ہے جو کہ طبی لخاظ سے ایک نہایت متوازن اور صحت مند غذا کو جنم دیتے ہیں اور فنش طالبانِ علم کی ذہنی صلاحیتوں اور جسمانی صحت کو توانا اور مضبوط بناتے ہوئے فن لینڈ کی تعلیمی ترقی کا ایک اہم راز ہے اِسی بنا پر حکومتِ فن لینڈ اِس مفت کھانے”اسکول مِیل” کی فراہمی کو مستقبل کی سرمایہ کاری کہتی ہے جبکہ میرے مطابق اِس مفت کھانے “اسکول مِیل”سے حکومت فن لینڈ اپنے مخصوص قومی و ثقافتی طرز پر مبنی مہذبانہ کھانے کے آداب کو اپنے بچوں کو عملی طور پر سیکھانے کی ایک کامیاب کاوش کرتی ہے اؤر ساتھ ہی ساتھ فنش والدین کو اسکول لنچ کی تیاری کی کوفت سے بھی آزاد کرواتی ہے۔بہرحال درج ذیل بالا کھانے کے منیو میں طلباء کی پسند اؤر مقامی و موسمی تبدیلیوں کے پیشِ نظر اکثر مناسب ترامیم بھی کی جاتی ہیں اؤر اِن ترامیم کے حوالے سے طلباء،والدین اور دیگر اسکولی عملے سے بھی مشاورت کی جاتی ہے۔خاص تہواروں یا مخصوص دِنوں میں خاص غذاؤں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ذائقے کی یکسانیت دُور ہوسکے۔ بالآخر اساتذہ اؤر طلباء ایک ساتھ،دسترخوان پر بیٹھ کر لذیذ و من پسند کھانا تناول کرنے کے ساتھ ساتھ حد درجہ بے تکلفانہ اور دوستانہ تعلق کے شیریں بھرے،میٹھے جام،محبت بھری چُسکیاں لیتے ہوئے نوش فرماتے ہیں اؤر خصوصاً طلباء کھانے کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار اؤر صاف ستھرے ماحول میں استاتذہ کی علمی صحبت سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔مفت کا کھانا کھانے کے بعد طلباء برتنوں اور دسترخوان وغیرہ کی صاف صفائی بھی خود ہی اچھے طریقے سے کرتے ہیں لیکن آپ پریشان نہ ہوئیے کہ یہ صاف صفائی  مفت کے کھانے کے عوض یا نام نہاد نظم و ضبط کے نام پر ہرگز نہیں کروائی جاتی،بلکہ طلباء کو زندگی کے عملی،گھریلو اؤر خصوصاً ازدواجی میدان میں ہر فن مولا بنانے کے لیے کروائی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ طلباء کو شعوری و لاشعوری دونوں لخاظ سے یہ باور کروانے کی بھی ایک بہترین کاوش ہے کہ کھانے کے برتن دھونا یا صاف ستھرائی کرنا مرد و عورت کی دو اجناس میں صرف ایک جنس یعنی عورت پر ہی بطورِ صنفی کردار، ہرگز فرض نہیں ہے،بلکہ مرد اگر فرصت تلے گھر میں برتنوں اور صاف ستھرائی کے  بوجھ تلے دبی عورت کا ہاتھ بٹاتے ہوئے، ایک اچھے بیٹے،اچھے بھائی اور خصوصاً سب سے بڑھ کر ایک اچھے شوہر کی حیثیت سے برتن دھو لے یا گھر کی صاف ستھرائی کر لے تو اُس کی مردانگی کی شان میں کوئی کمی واقع نہ ہوگئی اؤر نہ بطورِ صنفی کردار کے ایسا کرنا غیر فطری،معیوب یا گناہ و جرم کے ضمن میں آئے گا یعنی آپ فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی اِس حوالے سے کمال دُور اندیشی اؤر اعلیٰ علمی قامت تو دیکھے کہ بنیادی جبلی ضرورت  کی  بھوک مٹاتے،یعنی طلباء کو مفت مزے دار کھانے کِھلاتے ہوئے بھی بہت کچھ سیکھا رہے اور برتن دلواتے بھی برابر سیکھاتے ہوئے تعلیم دئے رہے ہیں لیکن تعلیم کا یہ طریقہ تدریس اتنا مزے دار اؤر دلچسپ ہے کہ عوام الناس کو گمان ہی نہیں ہوتا کہ کھلاتے،پِلاتے اور برتن دُھلواتے ہوئے بچہ کیا کیا کچھ شعوری اؤر لاشعوری طور پر سیکھ رہا ہے کہ جو آگر صرف وہ نصابی کتب کے رسمی الفاظ تلے سِیکھتا،تو اُسے یہ سب کچھ سیکھنے لیے خاصی طلب و محنت درکار تھی۔بہرحال فنش طلباء کھانے پینے اور برتن دھونے سے لاشعوری و غیر رسمی طور پر سیکھنے کے بعد دوبارہ رسمی و شعوری تعلیم کے حصول کے لیے،چاک و چوبند کمر کستے ہوئے،اپنی اپنی جماعتوں میں جا گھستے ہیں۔

(6.)اسکول کی وردی اور جسمانی آرائش و زیبائش:
فن لینڈ کے تمام  تعلیمی اداروں میں اسکول کی    ابتدائی تعلیم  سے لے کر  یونیورسٹی  کی اعلیٰ تعلیمی سطح  تک طالبان علم پر  کوئی خاص وردی یا مخصوص  یونیفارم کو  مسلط نہیں کیا گیا ہے۔ گویا فنش طلباء اپنے سارے زمانہِ طالب علمی میں  اپنی پسند کا  لباس پہنے میں مکمل  طور پر آزاد ہیں کہ جس میں وہ خود کو پُرسکون  اؤر  محفوظ محسوس کرے اؤر اِسی طرح ناخنوں اور  بالوں  کو بڑھانے،رنگنے یا  کسی بھی من پسندیدہ انداز”سٹائل” میں رکھنے  کے حوالے سے  بھی کوئی پابندی عائد نہیں ہے اؤر نہ ہی کوئی جسمانی زیبائش و آرائش  پر قدغن لگائی گئی ہے۔بس اِن سب آزادیوں کے پس منظر بمیں  ایک بنیادی شرط  کارِ فرما ہے کہ جسمانی زیبائش و آرائش اؤر لباس و حلیہ علاقائی اؤر معاشرتی اعتبار سے غیر مہذبانہ  نہ ہوں۔لہذا آپ کو  فن لینڈ میں طلباء من چاہے پاجامے اؤر ٹی شرٹز میں ملبوس ، پُرانداز “سٹائیلیش”بالوں  کے ساتھ  اور  خوب  جسمانی آرائش و زیبائش میں سجے ہوئے  اسکولز / کالجز آتے دیکھائی دئے  گئے ۔یہ تمام غیر روایتی  آزادیاں فنش طلباء کو  سہل الحصول تعلیم پر  راغب کرتی ہیں ۔نیز   فنش   تعلیمی ماہرین کے مطابق اصل مقصد تعلیم فراہم  کرنا ہے لہذا ِان آزادیوں کو دینے سے   تعلیم پر مجموعی طور پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا ، کیونکہ فنش طالبانِ  علم کو  لباس و زیبائش  کی آزادی سے متعلقہ  متوقع  نقصانات  کے پیشِ نظر علمی طور پر آگاہ کر کے اُن کی ذہن سازی ہی ایسی کر دی گئی ہے کہ وہ  مجموعی طور پر  اِن  آزادیوں کے فطری و معمولی  استعمال کی طرف ہی  راغب رہتے  ہیں لہٰذا یہی وجہ ہے کہ صنعتِ آرائش “کاسمیٹکس” کی عالمی منڈی میں فن لینڈ کا شمار ایک غیر اہم کاروباری منڈی کے طور پر ہوتا ہے کہ عام طور پر یہاں کے مقامی فنش مرد اؤر خصوصاً خواتین جسمانی آرائش و زیبائش کے معاملے میں معمولی حد سے آگئے  غیر معمولی  نرگسیت یا  حبط و جنون کا شکار نہیں ہے۔نیز لباس کے معاملے میں فن لینڈ کا شمار ایک اچھے فیشن ایبل ملک میں ہونے کے باوجود،خود پسندی یا نرگسیت کی غیر معمولی سطح پر فیشن پرست ملک کے طور پر ہرگز نہیں ہوتا ہے۔
اب  اگرچہ فنش تعلیمی اداروں میں  لباس  و زیبائش سے متعلقہ یہ آزادیاں شاید آپ کے مذہبی یا معاشرتی  و ثقافتی ادب و حیا کے تصور کے  منافی  ہو  لیکن  فن لینڈ   کے علاقائی اؤر معاشرتی تصورات کے  مطابق عین  مہذبانہ اور جائز ہیں یعنی حاصلِ  گفتگو یہ کہ آپ  بنیادی طور پر اِس غیر روایتی طریقہِ تدریس کو دیکھے اؤر اپنے  علاقائی اؤر ثقافتی  نظریات  کے پیش نظر اِس کا نفاذ کیجئے ناکہ لباس و زیبائش  کے حوالے سے  اِن  تعلیمی آزادیوں کی اصل کو  نظر انداز کرتے ہوئے   نام نہاد نظم و ضبط یا ،جزوی اختلافات  کے زیرِ اثر اخلاقی یا مذہبی  فتوے لگانے شروع کر دئے کہ جس طرح   تعلیمی لخاظ سے پسماندہ  و ترقی پذیر ممالک کے تعلیمی اداروں  میں مخصوص لباس   یعنی یونیفارم  کو فتویٰ کی متشدد حد تک جبراً نافذ کرتے ہوئے  رسمی تعلیم کے حصول کا ایک باقاعدہ اؤر لازم ملزوم حصہ بنا دیا گیا ہے کہ وہاں کے تعلیمی اداروں میں اگر کوئی  بیچارا بھولا بھٹکا طالب علم بغیر یونیفارم  کے داخل  ہو جائے  تو وہ داخل ہوتا تو ایک طالب علم کی حیثیت سے ہے لیکن نِکلتا اِک پِیٹے ہوے مظلوم کی حیثیت سے ہے یعنی  یونیفارم کی خلاف ورزی کو،تعلیمی نظم و ضبط  کی خلاف ورزی  اؤر  نام نہاد اساتذہ کی انا پرست آنکھوں میں کھٹکتی، حکم  عدولی  شمار کرتے ہوئے  کسی ذہنی یا جسمانی اذیت  سے نواز کر   دیگر طلباء کے لیے سرعام نمونہِ عبرت  بنا دیا جاتا ہے  اور اِس حوالے سے حدِ ستم تو یہ کہ جس پر شاید آپ کے لیے یقین کرنا بھی مشکل ہو جائے،لیکن  آپ یقین کیجیے کہ اپنے متحرک قلم کی قسم کھا کر کہتا ہو کہ  تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک   میں کئی  نام نہاد اعلیٰ یونیورسٹی تعلیم فراہم کرنے  والے ایسے  تنگ نظر تعلیمی ادارے بھی ہیں کہ جو  اِس اعلیٰ تعلیمی سطح پر بھی اپنے زیر  تسلط طلباء پر یونیفارم کی پابندی کو  مخلوط تعلیم کے زیرِ سایہ مرد و خواتین طلباء میں فطری کشش ثقل میں صرف ثقل پیدا  کرنے  کے لیے نام نہاد نظم وضبط کے  نام پر  جبراً  نافذ کرتے ہیں جبکہ مشاہدے میں آیا ہے کہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کے طلباء کی علمی زندگیوں میں یونیفارم صرف ایک ٹائی کی گرہ کو صحیح طرحداری سے باندھنے کے ماسواء کسی کام نہیں آتا اور مرد و خواتین کی فطری کشش ثقل کو یونیفارم کی جبراً پابندی جیسے روایتی طریقوں سے یا کسی بھی اؤر طور سے ہما پہلو  دبایا یا روکا ہرگز نہیں جاسکتا ہے،کہ آپ اِس حوالے سے بس  طلباء کو علمی طور پر  اپنے معاشرتی ومذہبی نظریات تلے قائل کر کے  اِس کشش ثقل کی لہروں کی سمت کو ذرا سا بدل کر،مہذبانہ بنا سکتے ہیں وگرنہ آپ ہی بتلائیے کہ ایسا کونسا لباس ہے کہ جس میں سے مخالفِ جنس کی نظریں پار نہیں ہوسکتی،نقشے اؤر راستے تراش نہیں لیتی؟
لہٰذا  یونیفارم کے حوالے سے میری  ذاتی متناسب رائے یہی ہے کہ  تعلیمی اداروں میں کسی بھی سطح پر مخصوص لباس  یعنی  یونیفارم کو بطورِ قانون جبراً نافذ کرنے کی بجائے اِسے طلباء کے آزادنہ اختیار پر چھوڑ دینا چاہےکہ وہ چاہے تو اپناگھریلو لباس  پہن  کرآئے یا پھر کسی  تعلیمی ادارے کا  تجویز کردہ لباس تن ِزیب کرے  کہ  اِس  طرح اُن  طلباء  کے لیے بھی  گنجائش نکل جائے  گئی کہ جو   کسی ذاتی ، مالی یا  نفسیاتی  وجہ  سے  گھریلو ملبوسات  پہن کر آنے  میں قباحت و دقت محسوس کرتے ہیں  اور  اِس مزاج کے برعکس اُن طلباء کے لیے بھی اِس رائے میں وسعت موجود ہے کہ جو  طلباء  تعلیمی اداروں میں  اپنے من پسندیدہ  اؤر خوش نما گھریلو ملبوسات پہن کر آنے میں  اطمینان و  خوشی   محسوس  کرتے ہیں بس اِس آزادنہ اختیار میں یہ ایک بنیادی شرط کار فرما ہونی چاہیے کہ لباس چاہے گھریلو ہو یا تعلیمی ادارے کا تجویز کردہ،رائج معاشرتی و ثقافتی نظریات سے بالکل ہی متصادم نہ ہو کیونکہ بصورتِ دیگر ایک طالب علم خود ہی خواہ مخواہ معاشرتی منفی رویوں کو دعوت دیتے ہوئے، اپنے پیر پر کلہاڑی مارے گا۔

(7.)فرشی صوفے”بین بیگز” اور من چاہے اطوارِ بیٹھک:
فنش اسکولز کی کلاسز  میں بچوں  کو روایتی کرسیوں پر بیٹھانےکی بجائے  نہایت آرام دہ فرشی صوفوں”بین بیگز” پر بیٹھایا جاتا ہیں کیونکہ  فنش ماہرینِ تعلیمی  نفسیات کے مطابق بچے فرشی صوفوں”بین بیگز”پر  بیٹھ کر  20% زیادہ سیکھتے ہیں۔تاہم مزید یہ کہ فرشی صوفوں “بین بیگز” پر بیٹھنے کے علاوہ  بھی طلباء کسی بھی اپنی پسندیدہ مناسب حالت  میں  یعنی لیٹ کر،چلتے ہوئے، چار زانو بیٹھ کر یا ٹیک لگاتے ہوئے  پڑھ سکتے ہیں۔کیونکہ مقصد تو صرف بہترین طور پر پڑھنا اؤر  سیکھنا ہی ہے۔اب جو ہمارے تعلیمی لخاظ سے پسماندہ و ترقی پذیر ممالک کے تعلیمی اداروں می  پڑھتے وقت  مخصوص انداز میں   بیٹھنے کے نام نہاد آداب رائج ہے  اُن  کی کھوکھلی مقصدیت  کو دیکھ کر مجھے اکثر شدید طنزیہ ہنسی آجاتی ہے اور شاہد آج کے بعد  آپ بھی اِس طنزیہ  ہنسی کی گونج اپنے اندر محسوس کرنے لگے۔ بہرحال المختصر یہ کہ آگر  آپ  فن لینڈ کی اسکولز کلاسز کا دورہ کرے تو  وہاں بچوں کے پڑھنے کا انداز ہمارے تعلیمی لخاظ سے پسماندہ و ترقی پذیر ممالک کے روایتی، پُر تشدد اؤر نام نہاد نظم  و ضبط کے عین برعکس  نہایت ہی بے ترتیب اور غیر روایتی  ہوگا۔

(8. ) تعلیمی اداروں کی کمرہ بند اور کھلی جماعتیں:
فن لینڈ کے تعلیمی  اداروں  میں یہ  ہرگز  ضروری نہیں ہے کہ آپ صرف اپنے تعلیمی ادارے یا اپنی  کلاس کی  جغرافیائی حدود میں ہی  قید ہو کر روایتی طریقے سے پڑھے،   بلکہ آپ  ادارے یا اپنی کلاس  سے باہر کسی بھی  پُرسکون و دلنشین مقام پر کلاسز لیتے ہوئے پڑھ سکتے ہیں مثلاً ندی یا سمندر کے کنارے روح پرور رومانوی ہواؤں کے سنگ، جنگل میں سایہ دار درختوں کے  سائے تلے یا پارک  کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وغیرہ۔کیونکہ فنش اساتذہ کا ماننا ہے کہ ہر جگہ پر سِیکھیا اؤر سیکھایا جا سکتا ہے اور اِس اعتبار سے فنش طلباء کے لیے فن لینڈ کی ساری زمین ہی ایک وسیع علمی درسگاہ “کلاس” کی حیثیت رکھتی ہے اور اِسی طرح فنش اساتذہ کو فن لینڈ کی ساری زمین پر تنے ہوئے ابر آلود آسمان کی طرح ہر آن و ہر جاہ علم و حکمت کے موتیوں کی  برسات،برسانے کو تیار رہنا چاہئے۔عرض یہ کہ فن لینڈ کی اِن بے سرحد، جماعتوں کا  مقصد یہ ہے کہ طالبانِ علم  پتھروں کی بنی دیواروں کی قید سے نکل کر  قدرت و ثقافت کی آزادنہ خوبصورتی کو محسوس کرتے ہوئے  سیکھ  سکے اور بند  کلاسز کے   روایتی ماحول سے نکل کر  آزاد کھلی  فضاؤں  میں دلچسپی، جستجو اؤر  تجسّس  کے ساتھ  علم حاصل کر سکے۔یہاں اِس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فنش  تعلیمی اداروں  کی  پتھروں  کی چار دیواری سے بنی بند کلاسز بھی  نہایت کشادہ،مُعطر،خوبصورت اؤر فنی،سائنسی و ٹیکنالوجیکل اشیاء سے آراستہ ہوتی ہے اؤر کسی فنی نمائش گاہ،سائنسی تجربہ گاہ یا بازیچہء اطفال”چائیلڈ پلے اسٹیشن “کا منظر پیش کر رہی ہوتیں ہیں اور فن لینڈ کے شدید سرد درجہ حرارت کے باوجود متناسب درجہء حرارت کی فضاء سے لبریز، طلباء کی آنکھوں کو بھاتی ہوئی روشنیوں کو سمیٹے ہوئے، شور  کی آلودگی سے حد درجہ پاک ہوتی ہے۔نیز ایک جماعت میں طلباء کی اوسطاً تعداد تقریباً 20 ہوتی ہے جو کہ بہترین تعلم و تدریس کے حوالے سے فنش تعلیمی نظام کی دُور اندیشی تلے وسعتِ نظر کی نمائندہ مثال ہے۔جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کے زیادہ تر  تعلیمی اداروں  میں کلاسز  پتھریلی دیواروں کی چار دیواری میں مقید50,50 طلباء سے بھری ہوئی،ایک گھٹن زدہ ماحول کی عکاس ہوتی ہیں اور کئی کلاسز میں تو بنیادی سہولیات یعنی مناسب درجہ حرارت ،بجلی، شور اؤر گرد و غبار سے پاک صاف ستھرا ماحول بھی موجود نہیں ہوتا ہے ہاں البتہ بجلی کی بندش تلے پنکھوں کے منجمد پَر اور بجھے ہوئے بلب،حبس زدہ دیواریں،شور کی آلودگی،اور عجیب سی بو کے انتظامات ہر کلاس میں مساوات اور برابری کی بنیاد پر فراہم ہوتے ہیں اور اب جہاں تک ادارے سے باہر کسی جگہ پر کلاس لگانے یعنی پڑھنے،پڑھانے اور سیکھنے سیکھانے کا تعلق ہے  تو  تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک میں   اِس تصور کو دیوانے کی  خیالی  دنیا کے اُدھورے خواب  سے  تشبیہ دئے کر ،  ایک  طنزیہ قہقہہ یا  جذباتی بھڑک لگاتے ہوئے  نہایت بے دردی سے اُڑا دیا جاتا ہے۔

(9.)سزا کے متشدد نظام کی عدم موجودگی:
فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں میرے لیے اِک بے حد مُتاثر کن اور پُر کشش  بات  یہ بھی ہے   کہ وہاں طلباء کو  اساتذہ یا  انتظامی عملے کی جانب سے کسی بھی قسم کی سزا  یا  پُرتشدد رویے کا  سامنا   ہرگز نہیں ہوتا ہے  یعنی کہ فنش تعلیمی اداروں میں  مار کٹائی،تذلیل یا کسی بھی حوالے سے جسمانی یا ذہنی تشدد  کرنا نہ صرف قانونی جرم ہے  بلکہ وہاں اجتماعی طور پر ہمیں  اِس سزا کے  متشدد نظام  کا کہی دُور دُور تک تصور بھی نہیں ملتا ہے۔اِس کی ایک بڑی وجہ میرے مطابق یہ ہے کہ وہاں اجتماعی طور پر اساتذہ اؤر طالبانِ علم میں اعتماد اور محبت کے دوستانہ اور کسی حد تک بے تکلفانہ مضبوط رشتے قائم  ہوتے ہیں۔جو  ایک طالب علم اور استاد کے درمیان تمام غلط فہمیوں،بداخلاقیوں اور پرتشدد  رویہ جات کے  درمیان ایک آہنی دیوار کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے سزا کے متشدد نظام کا  خاتمہ  کرتے ہیں۔تاہم مزید یہ کہ  قانونی جرم ہونے کے ڈر سے  بھی کوئی استاد غصے میں اپنے رتبہ کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کسی  بھی طالب علم کو ذہنی یا جسمانی طور پر ہراساں کرنے سے کُتراتا ہے عرض حاصلِ کلام یہ کہ  فن لینڈ میں  اساتذہ طلباء کو نہایت  با اخلاق  اور  پُرشفقت  تدریسی طریقے کے زیر اثر تعلیم سے نوازتے ہیں جو طالبان علم  اور اساتذہ کے درمیان علمی مباحث اؤر سوالات و جوابات کے پُر امن اؤر  باادب متواتر  سلسلے کو جاری رکھتا ہے۔جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کے تعلیمی اداروں میں سزا کے متشدد نظام کو عملی طور پر  تعلم و تدریس کا ایک  باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا  ہے ۔یعنی اِس وحشیانہ و غیر انسانی اَمر کو طلباء  کی  نام نہاد  ،دُور اثر  فلاح  کے  نام پر ایک عام  طریقہء تدریس اور جائز عمل  میں  بدل دیا  گیا ہے لہذا  پھر  اِسی وجہ سے  ہمیں اِن ممالک  میں  آئے روز اِس قسم کے واقعات دیکھنے  کو ملتے ہیں کہ  ایک اؤر بد کردار  جلاد نے استاد کے مقدس  لبادے میں چھپ کر  ایک  طالب علم  کو  ذہنی یا جسمانی  طور پر  شدید زخمی کرتے ہوئے   نظریاتی یا طبی موت کے گھاٹ اُتار دیا۔

(10.)ہوم ورک:
فن لینڈ کے اسکولز میں2016ء تک بہت کم ہوم ورک دیا جا تا تھا۔ جبکہ 2016 ء کے بعد اِسے مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔تاکہ بچے اسکول سے چھٹی کے بعد اپنے خاندان،دوستوں اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو وقت دئے سکے،اور  ہوم ورک کے ذہنی دباؤ سے بالاتر ہو کر ،اپنے ذاتی،عملی و نظریاتی مشاہدات  کے زیرِ سایہ  اپنے بچپن کو، خوب آزادنہ انداز میں جی سکے ۔یہاں  اِس ضمن میں  یہ قابل توجہ پہلو بھی اخذ ہوتا  ہے کہ  ہوم ورک نہ دینے کی فنش  تعلیمی اختراع سے آپ اِس بات کا اندازہ لگائیے کہ فن لینڈ کے تعلیمی نظام کے تحت اسکولز  میں روزانہ کی بنیاد پر تعلیم کو دیے جانے والے  تقریباً  4،5 گھنٹے “سکول ہارز” ہی فنش طلباء کے لیے مجموعی طور پر اِتنے موثر ہوتے ہیں کہ اِنھی چند تعلیمی گھنٹوں  سے خوب مستفید ہونے کے بعد،اُنھیں مزید  گھر کے لیے کسی الگ تعلیمی  محنت “ہوم ورک” یا  کسی الگ درس بہَ عوض معاوضہ یعنی”ٹیوشن” وغیرہ کے اہتمام کی ضرورت ہرگز نہیں رہتی ہے۔ نیز یہ کہ اگر آج صرف اسکولی تعلیمی  گھنٹوں “سکولز ہارز””پر منحصر فنش طلباء،سابقہ ذکر کردہ اِن  دونوں انتظامات  کا انتظام کیے بغیر، ذہین و فطین عالمی طلباء کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں تو  اِس بات سے آپ  فن لینڈ کے  اسکولز میں دیے جانے والے اُن تقریباً4٫5موثر تعلیمی  گھنٹوں کی اعلیٰ  علمی قابلیت ،ارسالِ علم کی  قوت اور تعلیمی صلاحیت کا اندازہ  بھی بخوبی طور  پر لگا سکتے ہیں۔جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک میں اسکولی تعلیمی گھنٹوں ” سکول ہارز”کی قوتِ ارسال علم  اور   علمی قابلیت و  صلاحیت کی  ضعیفی اؤر کھوکھلاہٹ  کا  اندازہ آپ اِس  بات سے بخوبی طور پر لگا سکتے ہیں کہ وہاں طلباء کو اسکولی تعلیمی گھنٹوں “اسکول ہارز”  میں بغیر مناسب وقفہء تفریح  کے لگاتار  پڑھانے کے باوجود، تدریس کردہ  تعلیم کو امتحانی نقطہء نظر سے تیار کروانے کے لیے،کم از کم دو تین  گھنٹوں پر مشتمل تحریری و زبانی ہوم ورک دیا جاتا ہے کہ جس  کی تکمیل کے لیے  پھر طلباء کے لیے  الگ سے “ٹیوشن” کا اہتمام کیا جاتا ہے  لیکن اِس پر بھی اُن بچارے طلباء کی بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ  اُنھیں اسکول ہوم ورکز کے ساتھ ساتھ سالانہ امتحانات کی تیاری کے نام پر  ،الگ ٹیوشن  ہوم ورکز دیے جاتے ہیں کہ  جن  کی تکمیل کے واسطے  پھر وہ  مظلوم طلباء  ٹیوشن  سے واپس گھر آنے پر ، راتوں کی نیندوں کو  خود پر حرام کیے ، گھٹنوں  لکھنے  اور  رٹا لگانے میں مصروف ہوجاتے ہیں اور  یوں اِن ہوم ورکز کے  نہ ختم ہونے والے سلسلے ایک طالب علم  کو  ایک ایسے  ڈگری زدہ، روبوٹ  نما انسان میں بدل دیتے ہیں۔ جو  اپنے گھر کی چار دیواری میں، حلال و حرام کی تمیز سے نابلد، معاشی انقلاب  لانے والی ایک نوکر روبوٹ مشین تو  ضرور بن سکتا ہے لیکن معاشرے میں کسی بھی سطح پر نظریاتی انقلاب لانے والا  اِک با اخلاق اؤر مُدبر انسان ہرگز نہیں،کیونکہ اِن اسکول اؤر ٹیوشن کے حد درجہ طویل  اور  کٹھن ہوم ورکز نے اُس طالب علم  کا معصومانہ بچپن  یا  عہدِ شباب میں تجسس بھرا  زمانہ ِطالب علمی ،ذہنی تناؤ  تلے بے دردی سے کچل   دیا ہوتا ہے۔

(11.)جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع علم:
فن لینڈ کے اسکولز میں ٹیکنالوجی ،جدید ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ وغیرہ کا تعلیمی مقاصد کے لیے بھر پور استعمال کیا جا تا ہے اور طلباء کو مختلف عوامی ویب سائٹز  اور  کئی مخصوص  دلچسپ تعلیمی  ایپس”” مثلاً:یوٹیوب،گوگل،فیس بک””،پلانٹ نیٹ،پکچر دِیس،ڈولنگو،برڈ نیٹ،وغیرہ اور دیگر بہت سی چھوٹی،بڑی تعلیمی  ایپس سے تعلیم  فراہم کی جاتی ہے نیز علمی تحقیق و تعلم کے حوالے سے  طلباء کو وسیع پیمانے پر انٹرنیٹ ویب سائٹس کا ہما پہلو استمعال سِیکھایا جاتا ہے۔لہذا فنش طلباء درج ذیل بالا جدید  ٹیکنالوجیکل ایپس سمیت اَن گِنت انٹرنیٹ عوامی ویب سائٹز اور جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع کا استعمال  کرتے ہوئے موبائلز، ٹیبلٹز اؤر لیپ ٹاپز وغیرہ کے ذریعے  مختلف تعلیمی اسینمٹسز اور پروجیکٹس پر کام کرتے ہیں۔نیز ہر فنش کلاس  میں طلباء کے لیے سفید یا سیاہ تختے کے ساتھ ساتھ  اِک بڑی پردہ اسکرین”ایل-سی-ڈی اور پروجیکٹرز”کا  بھی حصوصی اہتمام ہوتا ہے کہ جس کی مدد سے فنش اساتذہ دورانِ خطاب،اپنے بات کے فہم کے عکاس تصاویر و الفاظ کو تختہ سیاہ پر منجمد اور پردہِ اسکرین پر رقص کرواتے ہوئے طلباء کے اذہان میں گہرائی سے اُتارا دیتے ہیں۔
اِس طریقہِ کار کا میرے مطابق  سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ  فنش طلباء کی شخصیت میں ابتدائی  زمانہِ طالب علمی ہی سے  ایک بہترین اور جدید ذہنیت کا  مالک محقق  جنم لے لیتا ہے جو نئے سوالات  یا مسائل کو  پیدا یا دریافت کرنے اور اِن کا حل جدید اطوار سے فراہم کرنے میں ماہرانہ انداز  کا حامل ہو جاتا ہے اؤر  بحیثیتِ ایک طالب علم    ٹیکنالوجی کا علمی مقاصد کے لیے مثبت استعمال  اؤر  دورانِ تحقیق  باہمی  مدد “گروپ ورک” کے تحت  قائدانہ اور   دو بدو تعاون کی مثبت خصوصیات کا عملی مجسم بھی  بننے لگتا ہے۔نیز پھر یہی جدید تحقیقی طریقہ  کار ،  بھرپور تخلیقی صلاحیتوں  کے مالک فنش  طلباء کی ذہنی نشوونما  کرتے ہوئے  اُنھیں مستقبل میں  اعظیم مفکرین،مدبرین،سائنسدانوں اؤر اپنے اپنے  شعبہ جات میں  فنکار لوگوں  کے  علمی سانچوں میں ڈھال دیتا ہے اؤر آج شاید اِسی جدید  ٹیکنالوجیکل ذرائع پر منحصر جدید تحقیق نے فنش طلباء کو  اِس قابل کر دیا ہے کہ وہ  ٹیکنالوجی  کی ڈور  میں دنیا کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں جس کی  مثالیں تو بہت  سی دی جاسکتی ہیں لیکن   میری اِس بات کی حقانیت و  تصدیق میں  یہی چند  دو  امثال کافی ہے کہ اربوں  ڈالرز کا کاروبار کرنے والی مشہورِ زمانہ موبائل  پروڈکشن کمپنی”نوکِیا” کے بانی  بھی نوجوانانِ فن لینڈ  ہے اؤر عالمی طور پر کھیلے جانے والی  “انگری برڈ” اور”کیش آف کلینز” موبائل سافٹ وئیرز گیمز کے بانی بھی  فنش فارغ التحصیل طلباء ہی ہے۔

(12.) تفریح و تعطیلات:
تفریح کے حوالے سے فن لینڈ میں  ایک مشہور کہاوت ہے کہ “جو علم آپ مزے اؤر لطف کے بغیر سیکھتے ہیں اُسے آپ جلد ہی آسانی سے بھول جاتے ہیں۔ ”  لیکن جب فن لینڈ کی اِس مشہورِ زمانہء کہاوت سے بے خبر ایک  امریکی محقق نے فنش اسکولز کے مختلف اُوقات میں دُورے کیے  تو ہر بار یہی دیکھا  کہ وہاں ہر وقت بچے  شور و غل کرتے ہوئے،کھیل و کود میں  مگن  ہوتے ہیں۔یہ دلچسپ منظر دیکھنے کے بعد  وہ بہت حیران ہوا اؤر  اسکول انتظامیہ سے پوچھا   کہ “یہ پڑھتے کب ہیں،اور اتنے اچھے نمبر کیسے لے لیتے ہیں۔؟”تو اُسے بتاتا گیا کہ یہاں طالب علموں کو ہر 45 منٹ کی کلاس کے بعد 15منٹ کی تفریح دی جاتی ہے جبکہ فن لینڈ میں اسکول کا عموماً دورانیہ 9:00 یا  9:45 تا 2:00 یا 2:45 بجے تک  ،  تقریباً 5 گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے یعنی  اِن 5 گھنٹوں میں  بھی 15،15 منٹوں کی تفریحات کو ملا کر کل  75 منٹ  کی تفریح وقفے وقفے سے  دی جاتی ہے۔اِن 15،15 منٹوں  کی وقفہ دار  تفریحات  کے پیچھے،میری ذاتی رائے سے موافق یہ  نفسیاتی حکمت کارِ فرما  ہے کہ نفسیاتی تحقیق کے مطابق ہمارا  ذہن توجہ کے ساتھ صرف 45 منٹ کی مسلسل آموزش کو ہی بہترین طریقے سے استعمال میں لا سکتا ہے  اور اگر اِس کے بعد بھی  مسلسل آموزش برقرار رکھی جائے تو  آموزش  یعنی سیکھنے کا عمل آہستہ آہستہ نہایت  سُست رفتار اؤر بھرپور اُکتاہٹ تلے بے توجہی کا شکار ہو جاتا ہے لہذا دوبارہ  صحت مند،متوجہ اؤر دلچسپ آموزش اُسی صورت ممکن ہے کہ جب آپ ذہن کو تازہ کرنے کے لیے کم از کم 15 منٹ  کا توقف فرماتے ہوئے  ایک چھوٹی سی تفریح  لے لے اور میری اِس  بات کی تصدیق  فنش اساتذہ  کے اِس موقف سے بھی ہوتی ہے کہ بقول فنش اساتذہ: “15 منٹ کی تفریح کے بعد واقعی ہی ہمارے طلباء ذہنی طور پر تر و تازہ جسم کے ساتھ اُچھلتے کودتے ہوئے کلاسز میں داخل ہوتے ہیں نیز ہفتہ و اتوار  کی  مکمل چھٹی اُنھیں ہفتہ بھر کی تھکن سے دُور کرتے ہوئے  پھر سے تر وتازہ انداز میں سیکھنے پر راغب  کرتی ہے۔
اب جہاں تک تعطیلات کا تعلق ہے تو فن لینڈ میں ایک تعلیمی سال کا دورانیہ صرف  190 دِنوں پر محیط ہے یعنی پورے سال میں ہفتہ اتوار کی، دیگر خاص تقریبات/ تہواروں اور خاص موسمی وقفوں کی چھٹیاں ملا کر  تقریباً چھ مہینے ُچھٹیاں ہوتی ہیں گویا کہ اِس حساب سے یہ دنیا کے عالمی تعلیمی نظاموں میں سب سے چھوٹا تعلیمی سال بنتا ہے۔لیکن آپ اِس حوالے سے یہ  قابل فکر و دلچسپ پہلو تو ملاحظہ فرمائیں کہ دنیا میں  سب سے کم تعلیمی دورانیہ رکھنے کے باوجود ،دنیا میں سب سے شاندار و اعلی تعلیمی نتائج رکھنے کا راز صرف اہل فن لینڈ ہی جان پائے ہیں۔

(13.) بازیچہء اطفال:
فنش اسکولز میں  بازیچہء اطفال ٹیکنالوجی اور جسمانی کھیلوں   کی سہولیات سے مزین  ہوتے ہیں۔نیز   تفریح کے  اُوقات میں طلباء کو  کلاسز سے باہر  بازیچہء اطفال  میں جاکر کھیلنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔جبکہ  اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں  بچوں کو بازیچہء اطفال میں  مختلف ٹیکنالوجی اؤر جسمانی کھیلوں کی  سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے فقدان کا سامنا ہوتا ہے  اؤر جہاں دیگر کئی ممالک میں تفریحی دورانیے کو کم سے کم کیا جا رہا ہے تو وہی تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک میں طلباء کے  تفریحی دورانیے کو اکثر بطورِ سزا منسوخ یا ملتوی  کرنے کی مثالیں بھی ملتی ہے اؤر اِس حوالے سے حدِ ستم تو یہ ہے کہ  کئی تعلیمی مراکز میں دورانیہِ تفریح نام کی کوئی چیز ہمیں سرے سے ہی نہیں ملتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف  تفریح کے حوالے سے  فن لینڈ میں اِتنی احتیاط بَرتی جاتی ہے کہ تفریح  کے دورانیے میں طلباء کے سر پر چڑھ  کر بے جا  روک ٹوک کرنے کی بجائے  طلباء کو کھیلتے وقت مکمل خود مختاری دی جاتی ہے۔جبکہ ہمیں اِس کے عین برعکس  تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک میں اسکول کے تفریحی دورانیے  کے مابین بھی بے جا روک ٹوک اور اسکولز  انتظامیہ کی  بارعب  غنڈہ گردی  دیکھنے کو  ملتی ہے۔
دراصل میرے مطابق تفریح کے حوالے سے ہمارے تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک  میں  اِس  قدر متشدد رویے اِس لیے ہیں کیونکہ کہ  وہاں عام طور پر  کھیل اور سِیکھنے کو دو الگ الگ چیزوں کے طور پر دیکھا جاتا  ہیں جبکہ  نفسیاتی و سائنسی تحقیق سے آج یہ بات تجرباتی سطح پر بھی ثابت ہو  چکی ہے کہ بچے کھیل کے ذریعے بھی بہت کچھ سِیکھتے ہے  اؤر وہ کچھ سیکھتے ہیں کہ جو شاید  آپ اُنھیں رسمی  اؤر باضابطہ تعلیم سے بھی نہیں  سِیکھا سکتے ہے یا پھر اُس  اعلیٰ معیاری سے  نہیں سیکھا سکتے کہ جس اعلیٰ معیاری سے  وہ کھیل ہی کھیل میں مفت سیکھتے ہیں  نیز چھوٹے بچوں کے لیے کھیل”سیکھنے کے عمل”لرنگ ایکٹیویٹی”  کی حوصلہ افزائی کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔نیز کھیل بچوں کو زیادہ دلچسپ انداز میں سیکھانے،قائدانہ صلاحیتوں کو اُبھارنے اور اپنے ہم عمر افراد کے ساتھ مضبوط تعلقات اِستوار کرنے کی سہولت بھی فراہم کرتا ہےاور جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں،تب بھی کھیل  سیکھانے اؤر تخلیقی و جسمانی صلاحیتوں کو اُبھارنے  میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ خلاصہء کلام یہ کہ کھیل اور آموزش (سیکھنے کا عمل) میرے مطابق اپنے تعلیمی فہم کے اعتبار سے  ہرگز دو  مختلف  اشیاء  نہیں اور  میری ذاتی رائے کے مطابق کھیل طلباء کے لیے سب  اطوارِ تدریس  میں  سے سب سے زیادہ  بااثر، آسان  اؤر  کامیاب طریقہِء تدریس ہے۔

(14.) ذہنی درجہ بندی:
فن لینڈ کے اسکولز میں طلباء  کی ذہنی سطح کے پیشِ نظر  کسی بھی  قسم کی  ذہنی درجہ  بندی  کرنے کو جرم خیال کیا جاتا ہے۔یعنی کہ وہاں طلباء کو ذہنی سطح کی نام نہاد پیمائش کے مرحلے سے گزارتے ہوئے  لائق  یا نالائق  اؤر”سکشن اے-بی-ڈی یا سی”جیسے طبقاتی  درجوں  میں ہرگز  تقسیم نہیں کیا جاتا۔کیونکہ وہ  اِس بات سے بخوبی طور پر  آگاہ ہیں کہ  ہر بچہ الگ الگ  اکتسابی یا پیدائشی “گاڈ گفٹتید” خصوصیات کے ساتھ ذہین ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ بچہ آپ کے تعلیمی یا معاشرتی اقدار کی وضع کردہ  ذہانت کی ایک،دو یا چند  مخصوص نشانیوں پر پورا نہ اُتر پائے،پھر اگرچہ وہ  دیگر کئی حوالوں سے ذہانت کے اعلیٰ ترین مراتب پر فائض ہو لیکن کیونکہ وہ مراتب آپ کی مخصوص  معاشرتی یا تعلیمی اقدار میں غیر اہم  یا بے معنی ہیں لہذا  وہ بچہ آپ کے نام نہاد معاشرتی یا تعلیمی معیارات کے مطابق نالائق،کُند ذہن اؤر بے وقوف  ٹھہرایا جائے گا۔مثال کہ طور پر اگر کوئی بچہ  طبیعیات “فزکس” یا ریاضی”میتھ” جیسے اعلیٰ مراتب سائنسی مضامین میں  دلچسپی یا توجہ نہ ہونے کے باعث اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا لیکن وہ مصوری “پینٹنگ”، موسیقی “میوزک”یا   خطاطی”” جیسے  اعلیٰ فہم فنی مضامین میں  بہتری کارکردگی  کا  مظاہرہ کررہا ہے   لیکن کیونکہ اب وہ  سائنسی مضامین  کی دوڑ میں پیچھے  ہے لہذا   تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک کی پالیسی”چند میں فیل،سب میں فیل”  کے تحت اُس بچے کے  نالائق، کُند ذہن اؤر بے وقوف ہونے  پر مہر لگا دی  جائے گئی جبکہ اِس پہلو  کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے گا کہ وہ کن مضامین میں  سائنسی فہم  کے حامل بچوں سے بھی زیادہ ذہین و فطین ہے  اؤر پھر اِسی صرفِ نظر اور تنگ نظری کے سبب اُس  پر  کسی  ایک مخصوص شعبے سے وابستہ  چند  مضامین جبراً  مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ  فن لینڈ کے تعلیمی نظام  میں طلباء کو ذہنی طبقاتی درجوں میں  ہرگز تقسیم نہیں کیا جاتا ہے  اؤر ہر فنش طالب علم کو ذہین و فطین مانتے ہوئے اُسے پوری آزادی سے اپنے  پسندیدہ مضمون  میں ترقی  کرنے  کے لیے بھرپور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں  گویا کہ    تعلیمی ترقی کے سفر میں ایک  فنش طالب علم کے  اساتذہ  یا والدین   اُس پر  ہرگز   اِس طرح کی آراء مسلط نہیں  کرتے کہ تمہیں  صرف یہی چند مخصوص مضامین پڑھ کر مستقبل میں صرف اِسے  فلاں شعبے سے منسلک ہونا ہے کہ اِس کے علاوہ تمہارے پاس  انتحاب کے واسطے دیگر مضامین سے متعلقہ شعبہ جات ہرگز میسر نہیں ہے ۔ بہرحال اِس ضمن میں  یہاں  یہ بات بھی قابلِ تحریر  ہے کہ  کیونکہ فن لینڈ میں ایک دوسرے سے مختلف  علمی ذہنیت و  فہم کے  حامل طلباء کو ایک ہی جماعت میں بِٹھایا جاتا ہے لہذا  جب  مختلف شعبہ جات یا مضامین  میں ذہین لوگ ایک  ہی جماعت میں علمی بیٹھک لگاتے ہیں  تو  اِن کے باہمی علمی مباحث اور  خوش گپیوں سے نہ صرف تقابلِ علوم  اورتخلیقی  سرگرمیوں  کے لیے ایک  بہترین علمی فضاء  جنم لیتی ہے بلکہ  یہی علمی فضاء طلباء کو  مخصوص دائرے سے باہر سوچنے، عملی مساوات اور خود اعتمادی جیسی اعظیم مثبت خصوصیات  عطا کرتی ہے اور  یوں فنش تعلیم میں ذہنی طبقہ واری نظام کا جڑ سے  خاتمہ ہوجاتا ہے۔

(15.) سالہ آزاد امتحانی دورانیہ :
فن لینڈ  کے اسکولز  میں طلباء سے  ابتدائی تقریباً   8 سالوں تک  کسی بھی قسم کا معیاری،رسمی یا لازمی امتحان ہرگز نہیں لیا جاتا ہے۔یعنی کہ اگر ایک بچے نے 7 سال کی عمر میں اسکول میں داخلہ لیا ہے تو  اُس سے پہلا  باضابطہ  تحریری امتحان تقریباً تقریباً  15 سال کی عمر میں لیا جائے گا ۔ اِس 8 سالہ آزاد امتحانی دورانیے میں اساتذہ خود ہی ایک طالب علم کی  کارگردگی  کے معیار کو  پرکھتے ہوئے،اُس کی تعلیمی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں اور طلباء کی غلطیوں اؤر کمزوریوں کو پُر امن علمی طریقے سے آگاہ کرتے ہوئے ،اصلاح کی بھرپور کاوشیں کرتے ہیں نیز اِس دورانیے میں  بچے کی تعلیمی کارگردگی سے والدین کو بھی مکمل طور پر باخبر رکھا جاتا ہے۔گویا اِس 8 سالہ آزاد امتحانی طریقہ کار سے معیاری،رسمی اور باضابطہ امتحانات  لیے  بغیر ہی ہر سال  والدین کے سامنے  زبانی  مشاورت یعنی والدین-اساتذہ گفت و شنید”پیرنٹس ٹیچرز میٹنگ”کے ذریعے ایک سالانہ  تعلیمی رزلٹ کارڈ رکھ دیا جاتا ہے۔جبکہ اِس کے عین برعکس تعلیمی لخاظ سے پسماندہ  و ترقی پذیر ممالک میں 3 تا  5 سالہ کم سن بچے کو اسکول میں داخلہ کروانے کے ساتھ ہی اُس سے ہر سال میں آئے روز،اَن گِنت چھوٹے،بڑے تحریری و زبانی امتحانات لیے جاتے ہیں اور خصوصاً سال کے تین ماہ بعد سہہ ماہی امتحان “فرسٹ ٹرم ایگزمز”میں ایک تہائی نصاب کا، پھر چھ ماہ بعد آدھے نصاب کا شش ماہی امتحان”مڈ سیکنڈ ٹرم ایگزیمز” کی صورت میں،اؤر سال کے آخر میں،اگلی جماعت میں منتقلی کا فیصلہ کن سالانہ امتحان “اینول ایگزیمز” یعنی کُل تین بڑے،لازمی اور باضابطہ امتحانات،بچوں کو جس نفسیاتی دباؤ کے شکنجے  تلے جکڑتے ہوئے لیے جاتے ہیں اُس کی مکمل  روداد صرف ایک الگ مضمون کی ہی متحمل ہوسکتی ہے۔
تاہم مزید یہ کہ اِس 8 سالہ آزاد امتحانی دورانیے کے دوران فنش طلباء کو  بہترین آموزش و  تعلم کے حوالے سے جو فوائد ہوتے ہیں اُن میں سب سے اہم اور بڑا فائدہ میرے مطابق یہ ہے کہ  7 تا 15سال کے کم عمر فنش طلباء امتحانات کے  ذہنی دباؤ  و خوف سے  بالکل آزاد ہوتے ہوئے صرف اور صرف  بہترین طور پر سیکھنے اؤر سمجھنے پر اپنی بھرپور  توجہ صَرف کرسکتے ہیں یعنی اِس حوالے سے  اُن کی اولین ترجیح  بغیر سوچے،سمجھے لفظی رٹا لگاتے ہوئے امتحان میں اعلیٰ نمبر یا درجے “پوزیشنز”حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ اعلیٰ معیار کی  آموزش حاصل کرنا ہوتا ہے  کہ جس آموزش  کا اُنھیں  مکمل ادراک اؤر  عملی  اطلاق  معلوم  ہو اور اِسی طرح یہ 8 سالہ آزاد امتحانی دورانیہ فنش اساتذہ کو بچوں کی نظریاتی بنیادیں میں  ابتدائی چند اینٹیں رکھنے کے حوالے سے اِس غالب مقصد سے بھی آزاد  کرتا ہے کہ جس کے زیر اثر تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک کے اساتذہ اپنے کم عمر طلباء کو اِس واحد غالب مقصد کے ساتھ پڑھاتے ہیں کہ اُن کے  طلباء امتحانات میں اچھے نمبروں کے ساتھ ساتھ،اُن کے نام پر سو  فیصد کلاس رزلٹ کی ٹرافی بھی لے آئے۔پھر چاہے اِن نمبروں کی دوڑ میں ایک کم عمر  طالب علم کی ابتدائی نظریاتی بنیادیں چاہے کتنی ہی ناپختہ،کمزور یا ادھوری نہ رہ جائے اِس سے انھیں کوئی خاص غرض نہیں کہ اُن کے نزدیک ایک کامیاب استاد کی تدریس کے حوالے سے ترجیح اول کے طور پر یہی کامیابی ہے کہ اُس کے زیر تعلیم ایک بچہ اچھے نمبر لے کر اگلی جماعت میں منتقل ہوجائے اور ساتھ ہی ساتھ اُن کے سینے پر بھی اعلیٰ نمبرز کا تمغہءحسن کارکردگی بھی چمکا جائے۔
نیز امتحانات کے ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابلِ  ذکر ہے  کہ فن لینڈ میں 15 سالہ عمر کے بعد شروع ہونے والے، زمانہ طالب علمی کے تمام چیدہ چیدہ باضابطہ امتحانات کے نتائج سرعام آویزاں ہرگز نہیں کیے جاتے  ہیں تاکہ  طلباء کو  احساسِ ندامت یا کمتری ،مقابلہ بازی اور  تکبر و حسد  وغیرہ  کے منفی جذبات  سے بچاتے ہوئے  اُن کی  تعلیمی  کارگردگی  کو مکمل  رازداری  سے محفوظ بنایا جاسکے۔

(16.)رٹا بازی کی مزاحمت؛
فن لینڈ میں لفظی رٹا  لگانا اِک قابل مزاحمت  تعلیمی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ   یہاں میری لفظی  رٹا لگانے کی اصطلاح سے مراد  خصوصاً یہ ہے   کہ ایسی  معلومات یا علم جو  طالب علم صحیح غور وتفکر کیے بغیر  ،صرف تیز  زبانی کے  سہارے اِس توجہ سے یاد  کرے کہ اُس  کا  ذہنی حافظہ بامشکل صرف الفاظ یا جملوں کی ترتیب کو  محفوظ کر پائے   ناکہ  معلومات یا علم کے حقیقی فہم   یا  مطالب کو سمجھے۔  لہذا  اہلِ فن  لینڈ  بھی  لفظی رٹا بازی کی اِسی تعریف   کے  پیشِ نظر یہ بات  بخوبی طور پر جانتے ہیں کہ لفظی رٹا بازی سے حاصل کردہ معلومات  کے ذریعے طلباء  امتحانات میں   بامشقت طریقے سے اعلیٰ نمبر   یا ایک کھوکھلی کاغذی سند   تو حاصل کر سکتے ہے  لیکن  معلومات یا علم  کے حقیقی فہم   اؤر  علمی اطلاق “” کا عشر عشیر  بھی حاصل کر نہیں پاتے  ہیں کہ جس سے طالبانِ علم صرف انسان نما روبوٹ  یا وکی- پیڈین طلباء کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں  یعنی وکی- پیڈین طلباء  کی میری اِس نئی  تجویز کردہ اصطلاح  سے مراد یہ ہے کہ جن طلباء کے پاس  دنیائے جدید کے سب سے مشہور اور بڑے “مخزن العلوم وکی-پیڈیا”انسائیکلوپیڈیا آف وکی-پیڈیا” طرز کا الفاظ اؤر جملوں پر مشتمل منظم مواد تو بڑی تعداد میں  موجود  ہوتا ہے  لیکن اُنھیں جملوں یا الفاظ  پر مبنی علم کا زندگی میں عملی و نظریاتی اعتبار سے بروقت و مناسب استعمال   ہرگز معلوم نہیں ہوتا  ہے۔ آپ اِس اصطلاح کو اِس مثال سے بھی ،کچھ یوں با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ  زندگی کے عملی و نظریاتی ہر دو میدانوں  میں وکی-پیڈین طلباء کے پاس کثیر تعداد میں موجود، لفظی رٹا بازی کے سہارے حاصل کردہ معلومات کی مثال  ایسے حسین  مردہ جسم  کی سی ہے کہ جس میں  روح نہ ہو  لیکن اُس  کی ظاہری  کھوکھلی  خوبصورتی چند  لمحوں کے لیے  ظاہری  حسن پرستوں کے لیے دلفریب بن جائے  البتہ روح نہ ہونے کے باعث وہ خوبصورت لیکن مردہ جسم  جلد ہی اپنی بدبو کے باعث  ظاہری حسن پرستوں کے لیے بھی آخرکار مستقل طور پر بے رغبتی  اور ناپسندیدگی  کا محور بن  جائے  یعنی عین اِسی طرح  لفظی رٹا باز،وکیپیڈین طلباء بھی اپنے ظاہری  یا کھوکھلے حسن کی بناء  وقتی طور پر   ظواہر پرست عوام الناس کو فریب دہی سے  متاثر  کرتے ہوئے ایک محدود  پیمانے پر فائدہ تو دئے دیتے ہیں لیکن مستقل طور پر ایک بے روح،مردہ  علمی وجود ہونے کی بناء پر بہت جلد ہی لوگوں کے لیے  بے  رغبتی اؤر ناپسندیدگی کا محور بن جاتے ہیں۔لہذا  اِسی سارے مقدمے کے  پیش نظر  فنش اساتذہ اپنے طلباء  کو مختلف موضوعات  اور مضامین  کو ایسے  اطوارِ تدریس سے سیکھاتے ہیں کہ  وہ طلباء  کو اِس حد درجہ ذہن نشین ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے انداز  یا الفاظ میں اُس متعلقہ موضوع کو  نہ صرف بیان کرنے کی بدرجہ اُتم  صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ طلباء میں اُس موضوع یا مضمون سے متعلقہ اِتنا اعلیٰ قابلیت کا معیار پیدا کر دیا جاتا ہے   کہ وہ  نصابی کتب  کے  محدود دائرے سے ہٹ کر بھی اپنے آزادنہ زاویہ نگاہ سے  اُس موضوع میں جدت  پیدا کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔اِسی تخلیقی صلاحیت کی بناء پر ایک دلچسپ  فرق  بھی یہاں عرض کرتا چلوں کہ میرے مطابق فن  لینڈ کی رسمی تعلیم  اور دیگر تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک کی  رسمی تعلیم میں اِس حوالے سے یہی بنیادی فرق ہے  کہ دیگر تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک  کے طالب علم نصابی کتب کی پیدا کردہ ایک محکوم مخلوق  ہوتے ہیں جبکہ  فن لینڈ کے طالب علم  نصابی کتب  کے ایک جدت پسند  خالق ہوتے ہیں۔

(17.)پیشہ ورانہ تعلیم:
پیشہ وارانہ تعلیم  “وُکیشنل ایجوکیشن” بنیادی  طور پر ایسی تعلیم ہے کہ جو  لوگوں کو  مختلف ہنر یا ملازمتوں جیسے تجارت،دستکاری  یا بطور ٹیکنیشینکام کرنے کے لئے تیار کرتی ہے۔ اِسی بنا پر  پیشہ ورانہ تعلیم کو  اکثر تعلیمِ ہنر،  فنی   یا تکنیکی “ٹیکنیکل” تعلیم بھی کہا جاتا ہے۔یہ تعلیم عالمی سطح پر  اُن  طلباء کے مالی مستقبل اؤر ذہنی ہم آہنگی  کے  لیے نہایت کار آمد تصور کی جاتی ہے کہ جن  کا  شوق  عام   رسمی تعلیم سے ہٹ کے تعلیمِ ہنر سیکھنے  کی طرف  متوجہ ہوتا ہے۔یہ پیشہ وارانہ تعلیم کا  ایک عمومی تعارف ہے  اور فن لینڈ کے تعلیمی نظام  میں اِسی پیشہ وارانہ تعلیم کو نہایت اعلیٰ اہمیت و افادیت حاصل ہے یعنی فن لینڈ میں پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر کو سائنسی علوم کی تعلیم کی طرح  ہی قابل رشک  اؤر عزت  وتکریم  کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہےاور ایک فنش طالب علم کو  اسکول کی نو سالہ ابتدائی تعلیم  کے بعد سولہ سال کی عمر میں ہی یہ اختیار دئے دیا جاتا ہے کہ وہ چاہے تو باقاعدہ رسمی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرے یا پھر  وہ   اعلیٰ  یونیورسٹی  تعلیم کا انتحاب کرے ۔البتہ اعلیٰ یونیورسٹی  تعلیم سے  پہلے ثانوی تعلیم میں بھی  فنش طلباء کو پیشہ وارانہ تعلیمِ  ہنر سے اخذ کردہ  بنیادی فنی صلاحیتیں سِیکھا دی جاتی  ہیں۔جو کہ  روز  مرہ کی عملی  زندگی میں  اُن  کے لیے نہایت معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔مثلا:دیوار میں کیل  لگانا  یا سوراخ  کرنا،  لکڑی یا دیگر دھاتوں سے بنی اشیاء کی مرمت کرنا اور مختلف پیشہ وارانہ ہتھیاروں کا عملی استعمال  کرنا  وغیرہ۔ جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر صرف  ملکی دساتیر کے اُوراق تلے دب کے رہ گئی ہے اور ہمیں وہاں حکومتی سرپرستی میں  رسمی پیشہ وارانہ تعلیم ہنر  کا حقیقی طور پر، عملی  نفاذ  دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتا ہے۔ کہ اُن ممالک   میں  عام طور پر بچوں کو   پیشہ وارانہ تعلیم  نہایت غیر صحت مندانہ اور  غیر رسمی  طریقے سے دی جاتی ہے  اؤر آج اِسی وجہ سے اُن ممالک میں عام معاشرتی سطح پر پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر کو  اکثر مجموعی طور پر  چائلڈ لیبر کے زیرِ اثر شمار کیا جاتا ہے۔نیز  پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر کے  طلباء کو اَن پڑھ مزدور اؤر گنوار کہا جاتا ہے  اور پیشہ ورانہ تعلیم  ہنر کے کسی شعبے میں مہارت  یافتہ آدمی کو  سند  یافتہ یا  پڑھا لکھا  آدمی کہنے کی  بجائے ناخواندہ کاری گر کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ لہٰذا پھر  اِسی  طبقاتی تقسیم کی بنا پر اِن تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک میں ایک غیر رسمی پیشہ وارانہ تعلیمِ ہنر سے فارغ التحصیل کاری گر اؤر عام رسمی تعلیم سے فارغ التحصیل سند یافتہ آدمی کی ماہانہ آمدن،معاشرتی عزت و اقدار،رہن سہن  اؤر طرزِ زندگی میں زمین آسمان  کا فرق واقع ہوجاتا ہے  جو  کہ  امیر اور غریب  کے بدترین  طبقاتی نظام کو جنم دینے کا ایک اہم باعث بنتا ہے  اور اِسی  طبقاتی نظام کی بدولت پھر اُن ممالک  میں عوامی سطح پر پیشہ وارانہ تعلیم ہنر کو نہ صرف  سرے سے  تعلیم ہی نہیں گردانا جاتا، بلکہ رسمی تعلیم کے  مدمقابل اِس کی اہمیت  کو نہایت پست ترین اور آخری درجوں میں رکھا جاتا ہے المختصر یہ کہ تعلیمی حوالے سے  پسماندہ ممالک  میں آج پیشہ ورانہ تعلیم  مجموعی طور پر نہایت  غیر صحت مندانہ  اور چالڈ لیبر کے زیر اثر  دی جاتی ہے لہٰذا  یہ  صرف مالی مستقبل کے اعتبار سے غریب اؤر متوسط طبقے کے بچوں کے  لیے  مختص کردی گئی ہے  کہ حکمران طبقہ یا امراء اپنے بچوں کو  غیر رسمی پیشہ وارانہ تعلیم سے نوازنے کو اپنی بدترین تذلیل اؤر خاندانی پستی شمار کرتے ہوئے اِسے کمی کمین کی مفلوج  تعلیم  کہتے ہیں۔

(18.)غیر معمولی آموزش “فِینامینا بیسڈ لرنگ“:
فن لینڈ نے2016-17ء میں دنیا کے سب سے جدید،غیر روایتی اور انقلابی طریقہء تدریس “غیر معمولی آموزش”فِینامینا بیسڈ لرنگ” کو متعارف کروایا اور آج جہاں فن لینڈ کا سارا تعلیمی نظام”غیر معمولی آموزش”فِینامینا بیسڈ لرنگ”  کے پُرکشش علمی مدار کے گرد گھوم رہا ہے،تو وہی تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک سے لے کر، ترقی یافتہ ممالک تک سب اِس کی بے مثال تدریسی جدت و ندرت اور اعلیٰ تاثیر کی بے تحاشہ کششِ ثقل کے علمی مدار میں جکڑتے ہوئے، مداح سرائی کرنے پر مجبور ہے۔
دراصل غیر معمولی آموزش”پی-ایچ-بی-ایل” طریقہِ تدریس کا ایسا غیر روایتی،انقلابی اؤر عملی نظام ہے کہ جس کا بنیادی تصور یہ ہے کہ طلباء کو صرف کتابی معلومات یا درسی کتب”ٹیکسٹ بُکس”سے، مختلف اور الگ الگ مضامین و علوم کی تقسیم تلے سیکھانا نہایت غیر مناسب اور روایتی تدریسی عمل ہے۔لہذا غیر معمولی آموزش”پی-ایچ-بی-ایل”طریقہء تدریس کے مطابق ہمیں طلباء کو مختلف مضامین/علوم کو باحیثیت الگ الگ پڑھانے کی بجائے،مختلف مضامین و علوم کی وضح کردہ مخصوص سرحدوں کو توڑتے ہوئے اور مختلف مضامین و علوم کے نطریات کا غیر منقسم وسیع مطالعہ کرتے ہوئے،صرف ایک موضوع یا مسلے کی وحدت تلے تقابلِ علوم کی تکنیک و طریقہء کار سے پڑھنا چاہیے۔یعنی اِس طریقہء تدریس و تعلم میں تمام مضامین و علوم کو ایک موضوع و مسلے کی یک جہتی تلے سمو کر تجزیہ و حل پیش کیا جاتا ہے کیونکہ فنش تعلیمی ماہرین کے مطابق جب زندگی مختلف مضامین و علوم کی مخصوص سرحدوں میں قید ہو کر ترتیب وار امتحان نہیں لیتی،بلکہ آزادنہ طور کئی مضامین و علوم میں سے نظریات کو گھتم گھتا کرتے ہوئے مسائل کو اٹھائے دیتی ہے اور جب کسی انسان کو زندگی کے عملی میدان میں حقیقی مسائل درپیش آتے ہیں تو وہ اپنے تمام حاصل کردہ علوم سے باحیثیت کُل نتیجہ اخذ حاصل کرتے ہوئے رہنمائی حاصل کرتا ہے تو پھر سیدھی سی بات ہے کہ دنیا کے روایتی طریقہء ہائے تدریس طلباء کو کسی موضوع یا مسلے کے تجزیے و حل کے واسطے،جزوی اعتبار سے یعنی الگ الگ مضامین سے جزوی نتائج تلے رہنمائی کیوں دیتے ہیں؟ لہٰذا  زندگی کے عملی میدان میں اِسی روایتی طریقہء تدریس تلے غیر عملی رہنمائی سے چھٹکارہ پانے کے لیے ہم نے زندگی کے عملی میدان کے حقیقی مسائل و موضوعات سے عین موافق طریقہ تدریس “غیر معمولی آموزش” “پی-ایچ-بی-ایل”کو متعارف کروایا ہے۔
تاہم مزید یہ کہ طلباء کو صرف کتابی معلومات یا دُرسی کتب”ٹیکسٹ بُکس”سے سِیکھانا اِس حوالے سے بھی غیر مؤثر اور پریشان کُن ہے۔کہ اِس سے طلباء اِس ذہنی اُلجھن میں گرفتار ہوجاتے ہیں کہ اِس کتابی یا لفظی معلومات کا حقیقی زندگی کے عملی میدان میں عملی اطلاق “پڑیکٹیل ایپلیکیشن”کہاں ہے؟لہذا غیر معمولی آموزش “پی-ایچ-بی-ایل” طریقہِ تدریس کے مطابق ہمیں طلباء کو صرف کتابی اور لفظی معلومات دینے کی بجائے ، اُن کی عمر اؤر ذوق کے پیشِ نظر،زندگی سے متعلقہ حقیقی موضوعات اؤر حقیقی مسائل”رِیل ورلڈ پرابلمز” دینے چاہیے۔
غیر معمولی آموزش”رِیل ورلڈ پرابلمز” طریقہِ تدریس میں تحقیق و تعلم کے کئی مراحل ہیں۔ سب سے پہلے مرحلے میں مسئلے یا موضوع کا تعین کیا جاتا ہے اور پھر طلباء اُس موضوع یا مسئلے پر باہمی تعاون “گُروپ ورک” کی مدد سے علمی تحقیقات کا آغاز کرتے ہیں اور دورانِ تحقیق مختلف مشاہدات اور تجربات کے تحت اُس موضوع یا مسئلے کا تفصیلی،تنقیدی اؤر تقابلی تجزیہ کرتے ہیں اور آخرکار سب طلباء مل کر اُس مسئلے یا موضوع سے متعلق ایک ختمی نتیجہ یا جامع رپورٹ مرتب   کرتے ہیں جس میں اُس مسئلے یا موضوع کا نہ صرف حل و جواب پیش کیا جاتا ہے بلکہ اُس زیرِ تحقیق مسئلے و موضوع کی تنقیدی و تقابلی نقطہء نظر سے ساخت،تاریخ، احساسیت،وجوہات،اہمیت و افادیت،فوائد و نقائص پر بھی بھرپور روشنی ڈالی جاتی ہے۔اور سب سے اہم یہ کہ طلباء اُس رپورٹ کی حقانیت مختلف مضامین/علوم کے نظریات اؤر طریقہء کار سے بھی استفادہ کرتے ہوئے ، باحیثیت کُلی ثابت کرتے ہیں اُور سب سے آخری مرحلے میں یہ رپورٹ اساتذہ کو مختلف رائج طریقوں سے پیش کردی جاتی ہے اور پھر اساتذہ اِس رپورٹ کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے اِس پر کوئی اصلاحی یا حوصلہ افزاء تبصرہ فرما دیتے ہے۔ اب جیسا کہ آپ نے یہ  باغور ملاحظہ فرما ہی لیا ہوگا کہ  “پی-ایچ-بی-ایل” طریقہِ تدریس و تعلم کے اِن سارے مراحل میں اساتذہ  کا کردار معلومات کے فراہم کنندہ کی بجائے صرف پسِ پشت رہنماء یا رہبر کی حیثیت سے کام کرتا ہے یعنی کہ اگر اِس حوالے سے یوں کہا جائے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا کہ غیر معمولی آموزش “پی-ایچ-بی-ایل” طریقہِ تدریس میں طلباء خود کو خود ہی سیکھاتے ہیں اِس کی بجائے کہ وہ اپنے کسی استاد سے روایتی طور ہر سیکھتے ہوئے ہر آن اُس کے مختاج و لکیر کے فقیر بنے رہے،اور یاد رہے کہ غیر معمولی آموزش “پی-ایچ-بی-ایل” ہمیشہ بنیادی طور پر عملی طریقے کار پر ہی منحصر ہوتی ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ آموزش ہمیشہ نہایت سنجیدہ طریقہء کار سے سیکھی جائے بلکہ اکثر کھیل یا ظرافت کے طرز پر بھی منحصر ہوتی ہے۔البتہ یہ اصول طے ہے کہ اگرچہ یہ سنجیدہ ہو یا مضحکہ خیز لیکن صرف  لفظی و کتابی آموزش کی بجائے اِس کا دارومدار عملی اطلاق “پڑیکٹیل ایپلیکیشن” اؤر حقیقی مسائل “رِیل ورلڈ پرابلمز” پر مبنی آموزش پر ہی ہوتا ہے۔
اگر غیر معمولی آموزش”پی-ایچ-بی-ایل”  کے فوائد و ثمرات پر بات کی جائے تو اِس طریقہء کار کے کثیر ترین اؤر جامع فوائد ہے لیکن کیونکہ اِن سب کا مکمل احاطہ کرنا اِس مضمون میں ممکن نہیں لہذا صرف چند اہم اؤر بنیادی فوائد کا یہاں تذکرہ کرنا مناسب رہے گا۔غیر معمولی آموزش “پی-ایچ-بی-ایل” طریقہِ تدریس فنش طلبا ءمیں نہ صرف تخلیقی،تقابلی اور تنقیدی سوچ کی نشو و نما ء کرتا ہے بلکہ اُنھیں جدید ٹیکنالوجیکل ذرائع علم سے باہمی تعاون تلے اجتماعی تحقیق “گروپ ری-سرچ”کرنے،طلباء میں دوستانہ علمی ماحول کو برقرار رکھنے،عملی اور تجرباتی اعلیٰ ذہنیت کی تعمیر و تشکیل کے ساتھ ساتھ دلچسپ اؤر دیر-پا آموزش کی ذہن نشینی کو بھی یقینی بناتا ہے اؤر سب سے بڑھ کر یہ کہ اُنھیں اساتذہ کے وضع کردہ دائرے کے باہر خود مختاری اؤر آزادی سے سیکھنے اؤر سمجھنے کی صلاحیت بھی بخشتا ہے۔لہذا میں اِنھی سب اسباب و فوائد اور درج ذیل بالا سارے مقدمے کی بنا پر غیر معمولی آموزش “پی-ایچ-بی-ایل”طریقہِ تدریس کو کسی موضوع یا مسئلے میں ایک حد درجہ پی۔ایچ ڈی “پی-ایچ-ڈی”کرنے کے مترادف سمجھتا ہو اور اِسی ضمن میں غیر معمولی آموزش”پی-ایچ-بی-ایل” کی مختصر لیکن جامع اؤر آسان فہم تعریف بھی پیشِ خدمت ہے کہ غیر معمولی آموزش “پی-ایچ-بی-ایل”دراصل کسی مسئلے یا موضوع میں تنقیدی،تقابلی،تخلیقی اور عملی طریقہ کار سے اعلیٰ فہم حاصل کرنا کا نام ہے ۔عرض خلاصہء کلام یہ کہ اگر درج ذیل بالا تمام تر مقدمے کو ذہن نشین رکھ کر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ”پی-ایچ-بی-ایل”طریقہِ تدریس و تعلم نہ صرف صدیوں پرانے راویتی، بوسیدہ اؤر کتابی طریقہ تدریس و تعلم کے مخالف علانِ جنگ کرتا ہے بلکہ یہ آج کا وہ ہما پہلو جدید ترین اور انقلابی طریقہِ تدریس و تعلم ہے کہ جو میرے مطابق مستقبل میں فن لینڈ کی سرحدوں سے باہر بھی تعلیمی لخاظ سے ترقی پذیر ممالک کا ایک متفقہ طریقہِ تدریس و تعلم گا۔

(19.) شعبہء معلمی”ٹیچنگ پروفیشن“:
تحریر کے اِس نکتے  پر پہنچ  کر   میرے  ذہن میں  یہ  مشہور محاورہ  پوری شدت کے ساتھ گونج رہا ہے  کہ :” شعبہء معلمی ،پیشہء پیغامبری ہے۔ ” لیکن اگر آپ  محاورات کی مثالی اور خیالی  دُنیا سے باہر جھانک  کر دیکھنا  پسند فرمائے  تو آپ کو یہ ہیبت ناک منظر بھی دکھائی دئے گا  کہ آج تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں یہی پیشہء پیغامبری، یعنی شعبہِء معلمی “ٹیچنگ پروفیشن” اہل اور  نا اہل کی تمیز کو روا رکھے بغیر عموماً سر عام نیلام ہو رہا ہے۔
لیکن مجھے اِس سے بھی زیادہ یہ بات  قابلِ تشویش لگتی ہے کہ  پسماندہ ممالک کے  تعلیمی اداروں میں  قانونی طور پر بھی ایک استاد  کی اہلیت کو بھانپنے کا معیار تعلیمی اسناد پر مشتمل صرف ایک  کاغذی  سی-وی (کیریکولم ویٹا)  “پر  ہی  تو ہوتا ہے  یعنی عموماً وہاں اساتذہ کے انتخاب کے وقت صرف ایک کاغذی سی-وی میں درج تحریر ی قابلیت کو ہی کو مرکزی اؤر اولین  ترجیح  بنایا جاتا ہے اور اِس کے بعد  دیگر تمام تر وہ عناصر کہ جو ایک اچھے استاد کے انتحاب میں   انتہائی ضروری اؤر اہم ترین تصور کیے جاتے ہیں  مثلاً: کسی اُمیدوار کی اخلاقی اقدار ،علمی ذہانت،وسیع النظری “آؤٹ آف باکس”، جدت پسندی وغیرہ اؤر دیگر بہت سے نفسیاتی و علمی  معیارات  کو اکثر یا تو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے  یا پھر اِن عناصر  پر ایک سرسری اؤر نامکمل جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ یعنی کہ انتحاب کے وقت  ایک اعلیٰ  کاغذی سی-وی آنے کے بعد اِن تمام عناصر کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ جبکہ  تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک  میں  تعلیمی اسناد پر مشتمل اِن کاغذی سی-ویوں کی علمی وقعت صرف برائے نام حیثیت  کی حامل ہوتی ہے اور یہ کسی  امیدوار کی علمی شخصیت کی مکمل  عکاسی ہرگز نہیں کرسکتی ہے کیونکہ  آپ اِن ممالک  میں مختلف  تعلیمی اسناد کو لفظی  رٹا بازی یا  فریب دھی و نقالی سے بھی حاصل کرسکتے ہیں۔لہذا جہاں کی تعلیمی اسناد انسانی کردار یا ذہانت میں کوئی  متوقع  اؤر موثر تبدیلی لائے بغیر بھی آسانی سے  حاصل ہو سکے،وہاں شعبہ ِمعلمی کے امیدوارں کی دیگر  غیر تحریری  قابلیتوں کو پڑکھے بغیر  اُسے صرف سی-وی  میں درج تعلیمی اسناد کی بناء پر  مسندِ تدریس یعنی  استاد کے رتبے پر بیٹھا دینا، سراسر پیشہء پیغامبری کی مقدسیت اؤر قوم کے  مستقبل  کے ساتھ  کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے۔ نیز پھر یہی وجہ ہے کہ آپ کو شعبہء معلمی میں اِس  طرح کے غیر ذمہ دارنہ اور مفلوج انتحاب کے زیرِ اثر  تعلیمی اداروں میں استاد کے مقدس لبادے میں چھپے ہوئے، طلباء کو ذہنی طور پر ہراساں کرنے والے جلاد بھی ملے گئے اور  طلباء کی چمڑی اُدھیر کے رکھ دینے والے  پُر تشدد اندھے قاتل بھی۔
لیکن اِس کے عین برعکس اگر آپ  فن لینڈ میں ہے تو  وہاں پیشہء پیغامبری “ٹیچنگ پروفیشن”  کی یہ تذلیل آپ کو کہی دُور دُور تک  نظر نہیں آئے گئی کیونکہ فن لینڈ  کے تعلیمی نظام میں ایک استاد کا درجہ و رتبہ ہر اعتبار سے سب سے  اہم اؤر  بلند  ترین ہوتا ہے اؤر اُنھیں بطورِ استاد  تمام شعبہ جات سے وابستہ ماہرین کا خالق تصور کرتے ہوئے   عزت و تکریم کی سب سے اُونچی مسند پر بٹھایا جاتا ہے کہ جہاں ریاست  کے حاکم وقت سے  لے کر عدلیہ کے حج اور فوج کے سپہ سالار  تک سبھی  حقیقی معنوں میں  آداب بجا لاتے ہیں ۔اِسی بلند تکریم کے سبب  حکومت کی جانب سے تمام اساتذہ   کو خطیر تنخواہوں سے نوازا جاتا ہے۔جو اساتذہ کی قابلیت،تجربے و عہدے کے اعتبار سے کم از کم 1,750 اِیورُوز تنخواہ سے شروع ہوتی ہوئی ،عمومی اوسط تنخواہ 3,570 اِیورُوز سے گزرتی،اعلیٰ ترین سطح پر 5,570 اِیورُوز تنخواہ تک جا پہنچی ہے کہ یہ خطیر الرقم تنخواہیں کسی طور سے  بھی دیگر تمام  شعبہ جات سے وابستہ فنش ماہرین  مثلاً: آرمی،ڈاکٹرز ،انجنئیرز،پولیس، اور وکلاء وغیرہ  کی تنخواہوں سے کم نہیں ہے بلکہ آگر آپ  اِسے فنش معاشرے میں پیشہء مُعلی  کو عطا کردہ عزت و منزلت کے بھاری بھرکم وزن کے ساتھ، دولت کے ترازو میں تولے، تو یقیناً آپ کو واضح طور پر صرف ایک فنش استاد کی اکیلی تنخواہ ہی سب تنخواہوں پر بھاری و بھرکم اور مقدم محسوس ہو گئی۔
فن لینڈ میں اساتذہ کے تدریسی گھنٹے”ورکنگ ہارز” ایک دن میں  75 منٹ کی وقفہ دار تفریح  تلے تازہ دم ہوتے ہوئے، تقریباً 4  گھنٹے ،یعنی  ہفتے میں صرف پانچ دن اور کُل بیس گھنٹے مقرر کیے گئے ہیں۔تاکہ فنش اساتذہ مسلسل تدریس کے نفسیاتی الجھاؤ و دباؤ سے آزاد ہوکر،محتضر لیکن جامع وقت میں سلسلہء  تدریس کو اپنی پوری قابلیت،متانت و خوش اسلوبی کے ساتھ رواں رکھ سکے۔جبکہ تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک میں اساتذہ کے تدریسی گھنٹے “ورکنگ ہارز” حطرناک ترین حد تک بلندیوں کو چھو رہے ہیں اؤر وہ اِس طرح کے  ایک دن میں ایک استاد کو صرف بامشکل 20,30 منٹ کی  تفریح تلے  لگاتار تقریباً  6,5 گھنٹوں تک پِیسا جاتا ہے پھر ٹیوشنز کے نام پر مزید 4,5 گھنٹوں تک الگ سے اُس کی حسبِ توفیق چٹنی پیسی جاتی ہے جبکہ طلباء سے لیے گئے آئے روز پرچوں کی جانچ پڑتال،حاضری رجسٹر کا ریکارڈ اور حسب موقع  نہ جانے کیا کیا کچھ  اساتذہ کے لیے الگ سے وقت طلب و دقیق ہوم ورک کی حیثیت رکھتا ہے۔
فن لینڈ میں اساتذہ سے محاسبہ و احتساب کا کوئی روایتی یا عملی نظام ہرگز موجود نہیں ہے۔احتساب و محاسبہ کے مرحلے  سے نہ گزارنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اُنھیں مطلق العنان بادشاہوں کی طرح،اُن کے اختیارات سمیت بالکل کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اؤر نہ ہی کوئی اُن سے غلط طریقہء تدریس،یا غیر ذمہ دارنہ رویے پر باز پرس کر سکتا ہے بلکہ  یہ ہے کہ فنش والدین اپنے بچوں کے حوالے سے اساتذہ کی تدریس میں عدم مداخلت کا اصول اِس مضبوط اعتماد کے سہارے تلے اپنائے ہوئے ہیں کہ آگر ہمارے بچوں کا استاد فنش تعلیمی اداروں کے کھٹن انتحابی معیارات سے گزر کر منتحب ہوا ہے تو  باقی پھر  ہمیں اُس کے متعلق کسی بھی اخلاقی یا  علمی پہلو سے تفتیش و محاسبہ  کی ضرورت ہرگز نہیں ہے کیونکہ یہ تفتیشی کام ہم سے  بہت پہلے باصلاحیت و ماہر تفتیشی افسران کر چکے ہے لہذا ہم اُن کے شفاف انتحاب تلے اپنے بچوں کے استاد پر مجموعی طور پر مکمل اعتبار و اعتماد کرتے ہوئے اُن کے طریقہ تدریس میں عدم مداخلت کے اصول کو اپناتے ہیں اور اُن کی اخلاقی اور علمی قابلیت پر اعتماد کرنے کے بعد،ہمارا یہ اعتراف عین حق بجانب ہے کہ ہم بخثیث والدین اساتذہ کی طرح فنِ تدریس میں اتنے ماہر نہیں ہے کہ اساتذہ کو یہ پڑھا سکا کہ پڑھایا کیسے جاتا ہے؟لہذا ایک فنش استاد جو بھی ہمارے بچوں اور اپنے طلباء کے حق میں کرے گا،بہتر ہی کرے گا۔ عین اِسی طرح فنش والدین کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ اؤر اربابِ اختیار بھی ایک فنش استاد کے طریقہء تدریس میں عدم مداخلت کی پالیسی کو،اعتماد کی مضبوط رسی سے تھامے ہوئے ہیں کہ اُن کے بقول اگرچہ کہ ہم ایک استاد کے انتحاب کے حوالے سے  نہایت مختاط اور سخت ہے لیکن ایک استاد کے انتحاب کے بعد بے جا مداخلت کیے بغیر،اُس کو مکمل آزادی اؤر خودمختار انفرادیت کے ساتھ پڑھانے دینا اُس کا عین حق ہے۔ نیز  ہمارا ایک استاد پر اِس قدر مضبوط اعتماد  کی ایک اہم پس پردہ وجہ استاتذہ کو لگاتار دی جانے تربیتی ہدایات  “ٹیچرز ٹریننگ” بھی ہے۔
شاید یہی وہ تمام وجوہات ہے کہ فن لینڈ میں شعبہء معلمی “ٹیچنگ پروفیشن”میں داخل ہونا ہرگز کوئی آسان کام نہیں ہے اؤر ہر روز فن لینڈ میں ہزاروں انتہائی اعلیٰ سند یافتہ اور بھاری بھرکم سی-ویوں کے حامل افراد فنش شعبہء معلمی میں بطورِ امیدوار،  ملازمت کے لیے درخواست دیتے ہیں لیکن اُن میں سے  بامشکل صرف چند  سو سب سے بہترین امیدوار ہی فن لینڈ کے تعلیمی اداروں  کے ہما پہلو پڑکھتے، انتحابی معیارات پر اُتر کر مسندِ معلمی  یعنی استاد کے رتبے تک  پہنچ پاتے ہیں۔کیونکہ فن لینڈ میں آپ کو ایک استاد بننے کے لیے کم ازکم ماسٹر  ڈگری کے ساتھ ساتھ تدریس شروع کرنے سے پہلے لمبی مدت کا  ایک تربیتی کورس بھی چاہیے   ۔یہ تربیتی کورس  “ٹیچرز ٹریننگ” کے ضمن میں شعبہء مُعلمی کے امیدوارں  کو پڑھایا جاتا ہے ،جو کہ ملازمت کے بعد بھی ہر  ہفتے میں دو گھنٹے  تواتر اؤر باقاعدگی کے ساتھ جاری و ساری رہتا ہے۔ اِس  تربیتی کورس”ٹیچرز ٹریننگ” میں  اساتذہ کو بنیادی طور پر یہ سِیکھایا جاتا ہے کہ پڑھایا اؤر سِیکھایا کیسے جاتا ہے؟ اور اِس مقصد کے لیے  مختلف ماہرینِ تعلیم کی مدد لیتے ہوئے  تمام  نُو وارد سمیت تجربہ کار  اساتذہ کی بھی   نہایت جامع علمی ،نفسیاتی اؤر اخلاقی تربیت کی جاتی ہے  جس میں اُنھیں مختلف اطوارِ تدریس اؤر    تدریس اؤر طلباء سے وابستہ  نفسیاتی  ،اخلاقی اؤر دیگر تمام علمی پہلوؤں و مسائل سے مکمل طور پر آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی جماعت  میں  ہر ذہنی معیار”مینٹل لیول” کے طالب علم  کے لیے ہر لخاظ سے ایک قابلِ فہم،مفید،اور شفیق  استاد ثابت ہو سکے۔نیز میرے مطابق اساتذہ کو  اِس تربیتی “ٹیچرز ٹریننگ”سیکھانے کے جو دو سب سے بڑے اؤر  بنیادی فائدئے ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ طلباء اؤر اساتذہ کے مابین نسل در نسل آنے والے ذہنی فاصلوں”جنریشن گیپ”کے سبب جو مشکلات  سِیکھنے اؤر سِیکھانے کے حوالے سے   رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔اُن تمام ذہنی فاصلوں کو یہ تربیتی کورس ختیٰ المکان ختم  کر دیتا ہے۔جس کی  بدولت  اساتذہ زمانے کی جدت کے پیشِ نظر طلباء کی جدید  فکری  اؤر نظریاتی  ذہنیت کو سمجھتے ہوئے  بہترین طور پر سِیکھانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ باہمی غلط فہمیوں اؤر  بے جا  تکلفات کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔دوسرا بڑا فائدہ اِس تربیتی کورس “ٹیچرز ٹریننگ“ کا یہ ہوتا ہے کہ  فنش اساتذہ  دورانِ تدریس  بھی  ایک طالب علم  کی حیثیت سے مستفید ہوتے رہتے  ہے یعنی کہ  یہ تربیتی کورس اُن میں کھبی ایک طالب علم کی متجسس اؤر  محققانہ طعبیت کو مرنے نہیں دیتا، جس کی بدولت وہ اِس غرور اؤر  فریب میں مبتلاء نہیں ہو پاتے کہ  بطورِ استاد اُن کا حاصل کردہ علم  ہر قسم کی تنقید  یا  اصلاح  سے  پاک ہوتے ہوئے حرف آخر ہے ۔ تاہم مزید یہ کہ فنش تعلیمی نظام کے زیرِ انتظام  شعبہء معلمی  کے ضمن میں یہاں یہ غیر روایتی بات بھی قابل ذکر ہے کہ فنش اسکولز میں ہر مضمون کے لیے  الگ الگ مختصص اساتذہ یعنی “سپیشلسٹ ٹیچرز”   رکھنے کی بجائے ،تمام مضامین کے لیے ،6سالوں تک،صرف  ایک ہی استاد رکھا جاتا ہے جو کہ شاملِ ِنصاب تمام مضامین کو نہایت اعلیٰ افہام اؤر  ماہرانہ طریقہء تدریس  کے ساتھ پڑھاتا ہے.جبکہ اِس کے برعکس ہمارے روایتی تعلیمی  نظاموں میں  ہر مضمون کے لیے  الگ الگ  مختصص استاد”سپیشلسٹ ٹیچرز” کو  رکھا جاتا ہے اؤر وہی  روایتی دلیل  دی جاتی ہے کہ  “جس کا کام اُسی  کو ساجھے”لہذا ہر مضمون کے لیے الگ الگ مختصص  استاد “سپیشلسٹ ٹیچرز”رکھنا ہی بہتر ہے اور شاید  تعلیمی لخاظ سے ترقی پذیر و پسماندہ ممالک کے اسکولز منتظمین اِس حوالے سے اپنی جگہ پر بالکل سچے ہوتے ہیں کہ بقول اُن کے ہمارے پاس ایسے قابل اساتذہ کی شدید کمئ ہوتی ہے جو کہ  “ہر فن مولا” کے محاورے پر مصدق آتے ہوئے  کئی  سالوں تک  شاملِ نصاب تمام مضامین کو بخوبی طور پر پڑھا سکے، لہذا ہر مضمون کے لیے الگ الگ مختصص   اساتذہ ” سپیشلسٹ ٹیچرز” رکھنا،ہماری آزادنہ مرضی نہیں بلکہ مجبوری ہوتی  ہے۔واقعی ہی یہ دلیل اُن  معاشروں میں کافی  حد تک معقول اور قابلِ قبول  ہوسکتی ہے کہ جہاں  تدریسی نقطہء نظر   سے  اساتذہ  شاملِ نصاب مضامین میں سے صرف  ایک یا بامشکل دو ،تین  مضامین  میں ماہرانہ تدریسی حصوصیات کے حامل ہو اؤر دیگر  شامل ِنصاب  مضامین میں نہ ہونے کے برابر  یا سرسری سی واقفیت  رکھتے ہو لیکن جیسا کے اُوپر بیان ہوچکا ہے کہ  فن لینڈ میں اساتذہ  کا علمی  دائرہ کار  نہایت وسیع النظر اور جامع العلوم  ہوتا ہے  لہٰذا وہ  ایک سے زائد کئی  مضامین/علوم پر ماہرانہ دسترس  رکھتے ہوئے باآسانی  تمام  مضامین  کو   مختصص  اساتذہ “سپیشلسٹ ٹیچرز”سے بھی بہتر طور پر تدریس کر سکتے ہیں ۔ بہتر طور پر اِس لخاظ سے کہ  الگ الگ مضامین پڑھانے والے مختصص  اساتذہ  جماعت میں صرف  تقریباً 45  منٹ  گزارتے  ہیں  اور اِس محدود  دورانیے میں وہ ایک طالب علم کی ذہانت،شخصیت اؤر نفسیات کو صرف اپنے مضمون  میں  حاصل کردہ کارگردگی  پر تولتے ہوئے اُس کے متعلق اچھی یا برُی رائے قائم کر لیتے ہیں اور  پھراُسی رائے کے تحت  اُس سے شفقت آمیز یا تحقیر آمیز سلوک  روا رکھتے ہیں۔ جبکہ ظاہری سی بات ہے کہ کسی طالب علم کی  مجموعی طور پر ذہانت ،شخصیت اؤر نفسیات وغیرہ کو اِس قدر مختصر دورانیے  میں ایک  محدود  نقطہء نظر  پر تولتے ہوئے، ایک نام نہاد تجزیاتی رائے دینا،صرف  تنگ نظری پر مبنی  جہالت کے ماسواء کچھ نہیں ہے لیکن  یہ تجزیاتی رائے  دینا  اُس 6 سالوں تک تمام مضامین  پڑھانے والے، مستقل مزاج  استاد کے  لیے ہرگز کوئی مشکل  کام نہیں ہے جو کہ ہر ایک  الگ الگ  مضمون میں اپنے ایک طالب علم کی  کارگردگی  کو بخوبی طور پر جانتا ہے اور اِسی بناء پر وہ اُس طالب علم  کی  مجموعی طور پر شخصیت،ذہانت و  نفسیات کے متعلق نہ صرف ایک نہایت جامع  رائے دئے سکتا ہے، بلکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اُسے کہاں  ،کس مضمون میں  کتنی توجہ درکار ہے اور اُس کا مجموعی طور پر سِیکھنے اور سمجھنے کا  ذہنی فہم کس معیار  کا حامل ہے لہذا  میں نے بطورِ استاد کس مناسب انداز  یا طریقہء تدریس سے  اپنے اِس طالب علم کے ذہنی معیار سے ہم آہنگ ہو کر فلاں، فلاں مضمون میں اِس کی کمزوریوں اور کج فہمیوں کو دُور  کرنا ہے۔ المختصر یہ کہ  فنش شعبہِ معلمی میں  یہ 6 سالہ مدت ایک استاد اور طالب علم کے مابین  ذہنی  و دلی ہم آہنگی،پُرمحبت اؤر حد درجہ  دوستانہ تعلقات کی  فضاء بندی  میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
(20.) تعلیمی امداد اؤر قرضے:
فن لینڈ  میں طلباء کو  تعلیمی امداد یا قرضوں  کی  فراہمی کی ایک باقاعدہ تاریخ رہی ہے۔جس کی  ابتدا 1969ء  میں  طلباء کو  فنش  حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے ابتدائی تعلیمی قرضوں سے ہوتی ہے ۔ جبکہ  بعد ازاں 1972ء  میں طلباء کو تعلیمی قرض کے ساتھ ساتھ  تعلیمی امداد  کی فراہمی کو باقاعدہ طور پر یقینی بنایا گیا ۔ تعلیمی قرض کی واپس ادائیگی کو  فنش طلباء کے لیے  مزید آسان   اؤر معاشی بوجھ سے آزاد بنانے کے لیے 1983ء  میں تعلیمی قرض پر رعایتی شرح  متعارف کروائی گئی۔   1992ء میں  طلباء  کی مالی امداد کے حوالے سے   ایک  بڑی انقلابی  اصطلاح نافذ کی گئی کہ جس کے تحت طلباء کی   تعلیمی امداد کے لیے  تعلیمی قرض سے متعلقہ جو متناسب  رقم مقرر کی گئی تھی، اُس  رقم میں مزید اضافہ کر دیا گیا  اؤر اِسے قانونی طور پر محصول کا پابند  بناتے ہوئے تعلیمی قرض کی رعایتی شرح  کو  کمرشل تعلیمی قرض “کمرشل سٹودینت لون” میں بدل دیا گیا  اور یوں فن لینڈ نے اِن  سارے   تاریخی تجربات کے سفر  سے گزرنے کے  بعد اپنے  طلباء کی مالی امداد کو   طلباء کی اہلیت کے معیار  اور نتائج سے مربوط کر دیا  یعنی جس  کا  مطلب یہ ہوا کہ  ایسے طلباء جو   تعلیمی کارگردگی میں کچھ خاص مظاہرہ  اور ترقی نہیں کر رہے ہیں تو وہ تعلیمی میدان میں  مالی مدد کے اہل نہیں ہے  اؤر طلباء کو عطا کردہ تعلیمی قرض کی واپس ادائیگی اُسی صورت میں ہی  ضروری تصور کی جائے گئی کہ  جب طلباء دیگر ذرائع سے کافی آمدن حاصل کر رہے ہونگے۔دراصل فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں طلباء کو  مالی امداد  دینے کا  بنیادی مقصد یہ ہرگز نہیں ہے   کہ فنش طلبا ء کو   مستقبل میں ایک کام چور  دولت پسند انسان بنایا جاسکے بلکہ یہ ہے کہ  تمام فنش طلباء کو مساوانہ بنیادوں  پر  حصولِ  علم اور  مستقبل میں ایک من پسندیدہ  پیشہ  اختیار کرنے کا بنیادی حق فراہم  کیا جاسکے اور یہ کہ  طلباء بغیر کسی معاشی بوجھ  کی کوفت  کو برداشت  کیے اپنی تعلیم کو  مکمل معاشی آزادی  کے ساتھ  جاری وساری  رکھ سکے   اور اپنے زمانہِ طالبِ علمی  میں  اپنی توجہ کو تقسیم کرتے ہوئے  آمدنی کے دوسرے  ذرائع پر توجہ نہ دیں  سکے۔نیز آپ یوں سمجھ لیجئے کہ فنش حکومت کی طرف سے طلباء کو عطا کردہ یہ تعلیمی قرض طلباء اور فنش حکومت،دونوں فریقین کے لیے ایک بے حد منافع بخش اُدھار کی حیثیت رکھتے ہیں اور خصوصاً فنش حکومت کے لیے طلباء کو فراہم کردہ یہ  تعلیمی قرض اُس بہترین قومی کاروباری سرمایہ کاری”نیشنل بزنس انویسٹمنٹ “کی حیثیت رکھتے ہیں کہ پھر جس کے بے حد کثیر منافع کو فن لینڈ بطورِ اِک حوشحال معاشی
ریاست کے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کئی دہائیوں تک کئی کھاتی رہتی ہے۔

(21.) تعلیم پر خطیر مالی خرچ:
حکومتِ فن لینڈ  نے اپنی جی-ڈی-پی کا  ایک خطیر حصہ شعبہِ تعلیم کے لیے وقف کر رکھا ہے اؤر فن لینڈ کے 2020ء کے قومی تعلیمی خرچ”نیشنل ایجوکیشن بچٹ”کے مطابق 6.8 بلین اِیورُوز”Euors” شعبہء تعلیم و تہذیب کے لیے مختص کیے گئے تھے نیز 2019ء کے اعداد وشمار کے مطابق حکومتی سطح پر 13.5 بلین اِیورُوز تعلیم پر خرچ کیے گئے تھے لہذا اِن تمام اعداد و شمار سے یہ بات نہایت واضح ہوجاتی ہے کہ فن لینڈ اپنی جی-ڈی-پی کے لخاظ سے حکومتی سطح پر تعلیم پر خرچ کرنے کے حوالے سے دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ہے۔جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک شعبہِ تعلیم کے لیے مختص معاشی تعلیمی بجٹ کو انتہائی قابلِ تشویش اور پست ترین سطح پر رکھتے ہیں اور پھر اِسی کم معیاری تعلیم کی فراہمی کے نتیجے میں امیر اؤر غریب کی علیحدہ علیحدہ تعلیم کا طبقاتی تصور اُبھرتا ہے کہ جس سے تعلیم اپنے اصلی مقاصد سے ہٹ کر صرف نجی تعلیمی اداروں کی مہنگی لیکن ترقی یافتہ تعلیم اور حکومتی تعلیمی اداروں کی مفت لیکن پسماندہ تعلیم کے درمیان ایک خود غرض  اور کاروباری کھیل کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے جبکہ ہم عموماً یہی سمجھتے ہیں کہ تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک شعبہِ تعلیم کے لیے اِس قدر کم خرچ، معاشی تعلیمی بجٹ رکھنے کو اِس لیے مجبور ہے کہ مجموعی طور پر اِن ممالک کی معیشتیں کمزور اور بدحال ہیں اور وہ اعلیٰ تعلیمی بجٹ کا بوجھ اپنے نازک معاشی کندھوں تلے نہ اُٹھا پائے گئی۔ جبکہ اعلیٰ معیاری تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے،بد حال معیشت کا مسئلہ نہ تو کوئی بنیادی مسئلہ ہے اور نہ ہی کوئی اِتنا مشکل حل طلب مسئلہ ہے۔کیونکہ انسانی تاریخ اِس بات پر شاہد ہے کہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کا بنیادی مسئلہ کمزور معیشتوں کا نہیں ہوا کرتا تھا، بلکہ شعبہء تعلیم پر اپنی بھرپور قومی توجہ مرکوز نہ کرنے ،اورکاہلی و غفلت کی چادر اُورھتے ہوئے کمزور منصوبہ بندی کا ہوتا تھا ۔میری اِس بات کی دلالت پر ایسے کئی ممالک کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے کہ جن کی معیشتیں جنگ وجدل کے نتیجے میں مکمل طور پر تباہ حال ہوگئیں حتیٰ کہ وہاں بنیادی ضروریات کی فراہمی کی قلت نے بھی مستقل ڈیرے جما لیے ، لیکن اُن ممالک نے اپنے  شعبہء تعلیم کو اپنے دیگر تمام ملکی انتظامی شعبہِ جات پر فوقیت دیتے ہوئے ترسیلِ علم و تعلیم کو اپنا نصب العین بنایا اور آج دنیا کی طاقتور معیشتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہیں۔ مثلاً اِس حوالے سے پہلا ملک تو باذات خود زیرِ بحث ملک فن لینڈ ہی ہے کہ جیسا کہ اُوپر بیان ہوچکا ہے کہ عظیم شمالی جنگ 1709ء سے لے کر روس-فن لینڈ جنگ بندی 1944ءتک یعنی تقریباً ڈھائی سو سالوں کے فنش پُر انتشار دُروانیے میں فن لینڈ کی معیشت مکمل طور پر تباہ حال ہوچکی تھی لیکن فن لینڈ نے اپنی اِس تباہ حال معیشت کے باوجود اپنے تمام تر ملکی انتظامی شعبہِ جات پر شعبہِ تعلیم کو فوقیت دیتے ہوئے نظریاتی ومالی اعتبار سے اپنی پھر پور قومی توجہ اِسی پر صَرف کر دی اور آج اپنے مختصر رقبے اور دنیا کی معاشی سُپر پاورز میں گھرے ہونے کے باوجود یورپ کی ایک خوش حال معیشت بن چکا ہے۔اِس حوالے سے  دوسری مثال جاپان کی ہے کہ جس کو جنگ عظیم دوم(45- 1939ء)کے بھیانک نتائج نے یورپی ممالک کی تباہ حال معیشتوں کی صف میں سرِ فہرست کھڑا کر دیا لیکن جاپان نے فن لینڈ کی طرح اپنے تمام تر ملکی انتظامی شعبہ جات پر شعبہِ تعلیم کو فوقیت دیتے ہوئے ، اپنا نظریاتی نصب العین شعبہِ تعلیم کی اعلیٰ معیاری کو بنایا اور آج دنیا کی نہایت طاقتور ترین معیشتوں کی صف میں امامت کےمنصب پر فائض ہے۔حاصلِ کلام یہ کہ اعلیٰ معیاری تعلیم کی فراہمی کے حوالے سے قوموں کی خوش حال یا بدحال معیشتوں کے اتار چڑھاؤ کا سلسلہ بنیادی اہمیت کا حامل نہیں ہے بلکہ اصل بنیادی مسئلہ کسی قوم کا تعلیم پر اپنی بھرپور اؤر مخلصانہ ارادی قوت کے ساتھ توجہ دینے یا نہ دینے کا ہے۔

(22)۔اخلاقی تربیت:
فنش تعلیم کے مقاصد کا محور و مرکز  ایک طالب علم کی انسانی اقدار کے حوالے سے  بہترین  اخلاقی تربیت کرنا ہوتا ہے  اؤر فن لینڈ میں  اِسی بنیادی مقصد کے پیش نظر  گھریلو  غیر رسمی تعلیم سے لے کر اعلیٰ ثانوی رسمی تعلیم تک   تعلیمی نظام کا ایک طویل دائرہ کار چلایا جاتا ہے کہ آخر کار  جس سے گزر  کر ایک  طالب علم اپنے تعلیمی سفر کے اختتام پر معاشرے کی توقعات کے مطابق ایک  کامیاب انسان  بنے یا نہ بنے، لیکن انسانی متفقہ  اخلاقیات کے پیشِ نظر اور حقوقِ العباد کے ضمن میں  ایک عاقل و ذی شعور انسان ضرور بن جاتا ہے۔ گویا  کہ  فن لینڈ میں   تعلیمی مقاصد کی پس پردہِ روح بنیادی طور پر انسانی اقدار پر مشتمل  اخلاقی تربیت ہی  ہوتی ہے لہٰذا   فن  لینڈ میں ایک بچے کی  پیدائش کے ساتھ ہی  والدین  اُس  کی اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ صَرف کرتے ہیں اور خصوصاً اِس ضمن میں گھر کے بڑے  بزرگ، اپنی  پُرشفقت صحبت کے  زیرِ سایہ،   بچوں کو سبق  آموز  کہانیاں  سناتے ہیں۔نیز مجموعی طور پر ،معاشرے  کے بھی تمام کردار مثلاً: ڈاکٹر  ،چوکیدار،  مذہبی رہنما ،دوکاندار  وغیرہ   اپنے  اپنے شعبہ جات میں  عملی دیانتداری سے کام لیتے ہوئے ،بچے کی عملی طور پر  اخلاقی  تربیت کرتے ہیں یعنی کہ اِس حوالےایک کم سن  فنش بچے کے لیے پورا معاشرہ ہی  پہلی  اخلاقی درسگاہ  کی حیثیت  اختیار کر جاتا ہے۔پھر  اِسی طرح جب بچہ 7سال کی عُمر کو پہنچتا  ہے تو ترسیل اخلاقیات کا یہ فریضہ باقاعدہ ایک رسمی تعلیمی ادارہ  یعنی  اسکول سنبھال لیتا ہے جہاں اُسے رسمی تعلیم کے زیرِ اثر اخلاقی  تربیت دی جاتی ہے۔بالآخر یونیورسٹی کی اعلیٰ ثانوی تعلیم تک پہنچنے تک ایک  فنش  طالب علم اخلاقیات کے معاملے میں اکمل و کامل ہرگز  نہ سہی لیکن  عاقل  و بالغ  ضرور  ہو جاتا ہے اؤر اِس  اخلاقی پختگی کا    اجتماعی اؤر ریاستی سطح پر  احساسیت کا اندازہ آپ اِن  دو باتوں  سے بھی بخوبی طور پر لگا سکتے ہیں کہ  فن لینڈ  میں ریاستی مجرموں کے لیے بنائے گئے  قید خانے ،پسماندہ ممالک کے ہوٹلوں سے بھی بہت  بہتر، آرام رساں  اور پُرسکون  ہوتے ہیں نیز فن لینڈ میں تمام بیروزگار فنش شہریوں کو  ریاست کی جانب سے ایک قابل اطمینان  رقم  ،   ماہانہ مفت وظیفے کے تحت فراہم کی جاتی ہے۔اب جہاں تک تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک کے تعلیمی نظاموں میں ترسیل اخلاقیات کا تعلق ہے تو  تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک میں مقاصدِ تعلیم کا محور و مرکز صرف ملکی دساتیر  کے دبے ہوئے خاموش اُوراق  تلے ہی ترسیل اخلاقیات  رہ گیا ہے۔آج  درحقیقت وہاں  منظر  تو یہ ہے  کہ عموماً  اِن ممالک میں حصولِ تعلیم  کا واحد بنیادی اؤر اہم مقصد  طلباء کو صرف ایک ملازمت یافتہ  نوٹ چھاپنے والی “ATM” مشین میں بدلنا رہ گیا ہے  کہ جس سے طلباء  کی اکثریت  صرف ایک خود غرض  دولت مند طبقے تک بامشکل پہنچ پاتی ہے اور پھر  اِسی خود غرض  نظام  کی پیداوار یہ دولت مند  شخصیات اخلاقی اقدار سے بالکل آزاد  اور نابلد ہونے کی بناء پر جب  اور جیسے چاہے اپنے سے معاشی لخاظ سے کم تر  لوگوں کا   استحصال  کرتی ہیں۔گویا کہ آپ کو تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک میں اخلاقیات کو عملی طور پر  غیر اہم  سمجھتے ہوئے  پسِ پُشت ڈالنے والے،   بڑے بڑے جاگیردار اور رئیس افراد تو  کثیر تعداد میں ملے گئے لیکن شاید انسانی متفقہ اخلاقی اقدار کے معنوں میں صرف چند  دولت مند انسان آپ کو کہی دُور دُور تک دکھائی نہ دئے۔

(23.)ہر آن خوش مزاج طلباء:
اقوام متحدہ کی عالمی  رپورٹ کے مطابق مملکتِ فن لینڈ مارچ 2018ء تا مارچ 2022ء تک یعنی سابقہ تقریباً  5 سالوں سے دنیا کے سب سے خوشحال ترین ممالک کی فہرست میں سے پہلے  نمبر پر مسلسل برقرار ہے جبکہ 2018ء سے پہلے 2012ء کی پہلی عالمی خوشحال ترین ممالک کی رپورٹ تک فنش قوم نے تقریباً 160 اقوام کی فہرست میں  کھبی بھی ساتویں نمبر  سے نیچے جھک کر نہیں دیکھا،بلکہ ہر سال یہ آہستہ آہستہ پلکیں اُٹھاتی،سربلند ہوتی رہی کہ بلا آخر  2018ء کی عالمی خوشحال ترین اقوام کی فہرست میں یہ درجہ اول کی مسند پر،اِتنے قاتل اور ستم ظریفانہ تبسّم کے ساتھ مسکراتے ہوئے جا بیٹھی کہ اب سابقہ 5 سالوں سے سب یورپی ممالک اِس کے سحرِ  تبسم میں گرفتار ہے۔جبکہ میرے مطابق اِس سحرِ تبسم کو قائم و دائم رکھنے کے پس منظر میں خاص طور پر فن لینڈ کا تعلیمی نظام  سامری منتر کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اِس طرح کہ فن لینڈ  میں ابتدائی اسکول کے زمانے ہی سے  بچوں کو ہر لخاظ سے خوش اؤر پُر اطمینان رکھنے کی کوشیش کی  جاتی ہے  اؤر اِس مقصد کے پیشِ نظر ہر اسکول میں ایک فلاحی تنظیم سرگرم ِعمل ہوتی ہے جو بچوں کی خوشیوں کے حصول لیے کام کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ آگر آپ فنش اسکولز میں  طلباء کا معائنہ کریں تو عموماً وہاں آپ کو تمام طلباء نفسیاتی و جسمانی ہر دو اعتبار سے  نہایت خوش و چست نظر آئے گئے۔نیز اسکول میں فنون لطیفہ یعنی موسیقی،آرٹ، کرافٹ،مصوری وغیرہ سمیت  جسمانی ورزش کی تعلیم  پر بھی  حاض زور  دیا جاتا ہے۔جبکہ تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک میں  اگر ایک بچہ اسکول کے زمانہِ طالبِ علمی میں خوش و خرم  اؤر پُر اطمینان نظر آئے تو اُسے اساتذہ سمیت  عزیزو اقارب کی مشکوک نگاہوں تلے  تقریباً  کچھ اِس قسم  کے  دھمکی آمیز  طعنے  آئے روز موصول ہوتے ہیں کہ” تمہاری  اِس  موج ، مستی اور بے فکری سے تو یہی لگتا ہے کہ  آج کل تمہارا اپنی پڑھائی پر  بالکل بھی دھیان  نہیں ہے لہٰذا  تم سُدھر جاؤ وگرنہ ہمیں سُدھارنا خوب آتا ہے ۔” گویا کہ اُن ممالک میں  ایک طالب علم کے عزیز و اقارب اور اساتذہ لاشعوری  یا شعوری طور پر یہ جانتے ہوتے ہیں کہ ہمارے ملک  کی پسماندہ  رسمی تعلیم بچوں کے لیے خاصی غیر دلچسپ،خشک اؤر مشکل ہے تو پھر یہ اِس پسماندہ تعلیم کی باخثیت بے بس کڑی ہونے کے باوجود،اتنے خوش اور  بے فکر کیسے ہوسکتےہیں۔لہذا پھر یہی وجہ ہے کہ جب وہاں کسی بچے کے والدین اُس کو خوش یا کھیل و کود میں مگن دیکھتے ہے تو ابتدائی سوالات ہی یہ کرتے ہے “کہ اسکول کا ہوم ورک مکمل کر لیا کہ نہیں۔۔۔؟،کیا کل اسکول سے کوئی چھٹی ہے جو تم یوں سرعام جشن منا رہے ہوں۔۔۔؟لگتا ہے کہ آج تم نے اسکولز ٹیسٹز کی تیاری کچھ زیادہ ہی جلدی ہی کر لی ہے،شاباش۔۔۔!،آج بڑے خوش نظر آرہے ہوں ہمیں بھی تو بھئی بتلاؤں کہ  کن کن امتحانات”ٹیسٹز” میں اچھے نمبر لے کر اسکول سے آ رہے ہو۔۔۔؟،خیر تو ہے،اچھل کود تو یوں رہے ہوں جیسے آج کا پرچہ بہت اچھا رہا۔۔۔؟ اور اِسی طرح کے اسکولی زندگی سے جڑے اَن گِنت سوالات جن کو سن کر ایک طالب علم کو لاشعوری یا شعوری طور یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ اُس کی زندگی میں جائز و قانونی خوشی و اطمینان کا محور و مرکز صرف والدین کے سامنے میرے متعلق سب اساتذہ کی اچھی آراء،سب مضامین میں اعلیٰ کارگردگی،امتحانات و پرچہ جات میں اعلیٰ نمبرز کی کامیابی اور ہوم ورکز کی باقاعدگی وغیرہ سے ہی مربوط ہے۔ المختصر یہ کہ  تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک میں اسکول کے کام اؤر خوشی کے اُوقات کو الگ الگ شمار کیا جاتا ہے  اور جہاں تک  موسیقی، رقص،کرافٹ ،آرٹ اؤر جسمانی ورزش وغیرہ کی تعلیم  وغیرہ کا تعلق ہے تو اُسے تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک میں شروع ہی     سےاسکولز کی رسمی تعلیم  کے دائرہ کار میں   کوئی باقاعدہ طور پرسیکھایا نہیں جاتا ہے۔البتہ اِن سب علوم کے لیے الگ الگ مراکز قائم ہے ۔جو کہ ہرگز اُن ممالک میں اسکول کی ابتدائی رسمی تعلیم   کے ضمن میں نہیں آتے ہیں۔

(24.)جنسی تعلیم:
میرے مطابق  “حصولِ خوارک اور حصولِ جنس ” انسان کی  ایسی دو بنیادی جبلی خواہشات اور بنیادی محرک ہیں کہ  اول تو یہ کہ جن کی تسکین و تکمیل انسانی زندگی کی بقا  کے لیے اشد ضروری ہے   اؤر دوم یہ کہ اِنھی دو جبلی محرکات و خواہشات کے حصول کے لیے ایک انسان کسی نہ کسی سطح پر، پوری زندگی  تا دم حیات مسلسل  متغیر و متحرک رہتا ہے نیز اِن دو بنیادی خواہشات اؤر محرکات کو  ہما پہلو، مکمل طور دبانا کسی بھی انسان کے اختیار میں  ہرگز نہیں ہے البتہ  آپ صرف  قوتِ علم کے تحت ہی  اِن کی تکمیل و تسکین کا راستہ ذرا سا  بدلتے ہوئے اپنے معاشرتی،ثقافتی و مذہبی نظریات تلے،اپنے طور پر اِنھیں مہذبانہ و شائستہ بنا سکتے ہیں۔لہذا پہلے بنیادی و جبلی محرک  یعنی خوراک کے ضمن میں آپ قوتِ علم سے آراستہ فنش تعلیمی نظام کی کامیاب کاوشیں  اوپر نقطہء نمبر  پانچ میں تفصیلی طور ملاحظہ فرما چکے ہیں ۔رہا اب دوسرا  بنیادی  و جبلی محرک یعنی “جنس” تو اِس ضمن میں قوتِ علم سے آراستہ ریاستِ فن لینڈ نے حصولِ جنس سے متعلقہ تمام پہلوؤں کو  علمی قوت کے سہارے ذرا سا موڑتے ہوئے،اپنے ثقافتی و معاشرتی  نظریات کے تحت مہذبانہ و شائستہ بنانے کے لیے اسکولز کی ابتدائی تعلیم سے ہی جنسی تعلیم کی فراہمی  نُوعمر طلباء کے لیے لازمی قرار دی  ہے۔تاکہ نُوعمر طلباء اپنی جنسی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی اِن مُعمولات میں رسمی تعلیم کے محتاط اؤر محفوظ طریقے سے، فنش  سماجی  و ثقافتی نظریات کے زیرِ سایہ  اؤر   حیاتیاتی سائنس کی روشنی عاقل و بالغ ہو جائے اور خود کو اور اپنے گرد و نواح کو جنسی امراض و جرائم سے محفوظ کرسکے۔ جبکہ اِس کے برعکس تعلیمی لحاظ سے ناخواندہ و پسماندہ ممالک میں جنسی تعلیم کو رسمی تعلیم کے ضمن میں دینا نہایت معیوب ، قابل مذمت اؤر اکثر جرم و گناہ کے سیگے میں تصور کیا جاتا ہے اگرچہ کہ پھر یہ الگ بات ہے اِن ممالک میں جنسی تعلیم کو لے کر یہ بے جا متشدد اور نام نہاد پاکیزہ رویے صرف  منافقت اور  ظاہری شرم و حیا کے جہلانہ یا غلو پسندانہ تصورات پر مبنی ہوتے ہے ۔جبکہ وہاں حقیقی منظر نامہ تو یہ ہوتا ہے  کہ نوعمر طلباء کو جنسی تعلیم ،رسمی تعلیم کے ، محفوظ اور مختاط طریقوں سے فراہم کرنے کی جس قدر شدید مذمّت کی جاتی ہے۔ اُتنا ہی غیر رسمی انداز میں نہایت غیر محفوظ ،مضر اؤر نا قابلِ اعتماد طریقوں  سے بچے تک جنسی تعلیم بہم پہنچا دی جاتی ہے۔اِس حوالے سے سب سے پہلا کردار ایک بچہ کے اُن عزیز واقارب اور اہل محلہ کا ہوتا ہے کہ جو تعلقاتِ مرد و زن پر مشتمل نہایت واضح انداز میں بہودہ اؤر غلیظ گالیاں نکالتے ہیں کہ جب یہ گالیاں بچے کی قوتِ سماعت سے ٹکڑاتی ہے۔تو وہ اپنی فطری متجسس روح کو حرکت میں لاتے ہوئے اِن گالیوں کے مطالب کو سمجھنے کی بھرپور کوششیں کرتا ہے اؤر پہلی ،دوسری یا تیسری بار نہ سہی لیکن آہستہ آہستہ جلد ہی وہ اِن بہودہ گالیوں کے مطالب سے آگاہ ہوتے ہوئے جنسی تعلیم کے نہایت منفی پہلوؤں کو اخذ کرنے لگتا ہے۔دوسرا کردار بچے کے اُن ہم جولیوں اؤر ہم عمر دوستوں کا ہوتا ہے کہ جو خود جنسی تعلیم کے حوالے سے اپنے ہم عمر دوستوں کی طرح نیم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اِس حوالے سے اپنی آدھی اُدھوری ،غلط و صحیح معلومات اپنے ہم عمر دوستوں کو حیرانگی اور لطف کے ملے جلے تاثرات تلے ،  دلگی یا اشراک ِ علم کی خاطر بتلاتے ہیں ۔تیسرا کردار جدید ٹیکنالوجی پر منحصر اُن جدید ذرائع ابلاغ ،نیٹ،فلمز اور ڈراموں وغیرہ کا ہوتا ہے کہ جن تک رسائی ہونے سے اصل و نقل اور خیر و شر کی تمیز سے نابلد بچے اپنے نا پختہ فہم کے زیرِ سایہ یہ تعلیم حاصل کرتے ہیں بہرحال اِن تین اہم  اطوار کے علاوہ بھی دیگر کئی غیر رسمی اؤر غیر محفوظ طریقوں سے بچے اِن ممالک میں جنسی تعلیم  سے متعلقہ آگاہی حاصل کرتے ہیں   لیکن یہ آگاہی بھی اتنی غیر صحت مندانہ ہوتی ہیں کہ ایک بچہ جنسی تعلیم کے حوالے سے صحیح اور غلط ،مستند اور غیر مستند معلومات میں تمیز ہی نہیں کرسکتا ہے۔نتیجتاً کئی بچے اِس مرحلے میں کوئی مستند رہنمائی نہ ہونے کی صورت میں  اکثر جنسی امراض و جرائم یا کم از کم ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ کہ جس سے بچوں  کی باحیثیت  طالب علم  خوش اسلوبی و متانت سے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں بھرپور متاثر ہوتی ہیں اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ فن لینڈ میں فنش  طلباء کو باقاعدہ رسمی تعلیم کے مختاط اور محفوظ اطوار کے زیرِ اثر جنسی تعلیم فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے زمانہِ طالب علمی میں قدرت کی طرف سے عطاء کردہ اِن فطری جنسی جذبات کو رسمی تعلیم کے محفوظ اؤر محتاط طریقوں سے سمجھ سکے اور اِن جذبات کو بدرجہ اُتم اپنے لیے اور بدرجہِ دوم اپنے گرد نواح کے لیے ہما پہلو و ہما وقت،محفوظ اور پُرسکون بنا سکے۔ نیز  اسکولز و کالجز کی صحت مندانہ تعلیم کو ہر قسم کے جنسی مرض و جرم کے بغیر پوری متانت و خوش دلی کے ساتھ ،فطری معمول کے مطابق جاری رکھ سکے۔اب اگرچہ آپ کو فن لینڈ کے تعلیمی نظام میں رائج شدہ جنسی تعلیم کے نصاب سے اپنے مذہبی و سماجی عقائد کے زیرِ اثر اختلاف ہو لیکن اِن اختلافات بناء پر آپ اِس سارے کے سارے جنسی تعلیم کے تدریسی نظام کو غلط کہتے ہوئے،مکمل طور پر فراموش ہرگز نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہو کہ دنیائے جدید کے تمام مذاہب، اؤر ثقافتیں نظریاتی لخاظ  سے اور   مجموعی طور پر اِس بات پہ متفق ہے کہ انسان کے جنسی جذبات کے اظہار کو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر حد درجہ پُرسکون اور دیگر انسانیت کے لیے محفوظ بنایا جائے ۔لہذا تعلیمی لخاظ سے پسماندہ و ترقی پذیر ممالک میں آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظاموں کو فنش تعلیمی نظام کی اندھی تقلید سے بالاتر رکھتے ہوئے انسانی  متفقہ اقدار کے پیشِ نظر،اپنے ثقافتی و مذہبی عقائد کی روشنی میں جنسی تعلیم کے اِس نظامِ تدریس کو اپنے ہاں نافذ کریں تاکہ معصوم بچوں اور نوعمر طلباء کی جنسی زندگی کو ابتداء ہی سے سب کے لیے محفوظ اور ہما پہلو خوشحال بنایا جاسکے۔

(25.)ذہنی و جسمانی صحت:
فنش قوم اپنے طلباء  کی ذہنی و جسمانی  صحت کی حفاظت و  نگہداشت  کے متعلق  بہت حساس  قوم ہے  اور اِس  حساسیت کا  اندازہ  آپ اِس بات سے لگائیے کہ اہل فن لینڈ نے اپنے ملکی نظام نگہداشتِ صحت”ایف-ایس-ایچ-ایس” کے   ماتحت، طلباء کی جسمانی و ذہنی  تندرستی  کو برقرار رکھنے کے لیے  باقاعدہ  ایک   حصوصی  تنظیم قائم  کر رکھی ہے ۔1954ء میں(  قومی  تنظیم برائے یونیورسٹی طلباء)”ایس-وائے-ایل”نے “فنش سٹوڈینٹ ہیلتھ سروس” یعنی (نگہداشتِ صحت برائے فنش طلباء  )کے نام سے  ایک ایسی تنظیم قائم کی  کہ جو لاکھوں فنش طلباء   کو  نہ صرف  جسمانی صحت و طبی  نگہداشت  کی سہولیات   فراہم کرتی ہے  بلکہ   طلباء کی ذہنی  تندرستی  کو بھی  ہر لخاظ سے  ممکن بنانے کی کوشش کر تی ہے۔ دراصل طلباء کی   نگہداشتِ صحت سے متعلقہ “ایف-ایس-ایچ-ایس” تنظیم  خصوصاً اعلیٰ  تعلیم سے وابستہ بالغ  نوجوانوں  کی  ذہنی و جسمانی  ہما پہلو صحت  وتندرستی  کی  بنیاد پر قائم کردہ ایک فلاحی تنظیم  ہے  جو   بالغ   طلباء کو   دندان سازی، مختلف  ذہنی کیفیات و صدمات،جسمانی  تندرستی،تولیدی صحت اؤر جنسی مسائل  وغیرہ    کے متعلق جامع  رہنمائی و نگہداشت   فراہم  کرتی ہے۔یہاں اِس ضمن میں یہ بات بھی قابل ِذکرہے کہ فنش طلباء  اپنی صحت سے متعلقہ “ایف-ایس-ایچ-ایس” تنظیم   کی کارگردگی کا  جائزہ لینے،اصلاح و ترامیم کرنے اور  تبلیغ و ترویج  کرنے کے ساتھ ساتھ  تنظیم سے متعلقہ فیصلہ سازی بھی میں نہایت  سرگرم ِعمل  رہتے ہیں  جو کہ فنش طلباء کی انسانی صحت سے متعلقہ اعلیٰ فہمی کی بھی  ایک نمائند ہ مثال ہے ۔نیز فنش طلباء کی اِسی  بہترین قدر دانی نے ہی آج   فن لینڈ کو دنیا کے  بہترین تعلیمی نظاموں کی   فہرست میں امامت کے منصب پر فائض کرنے میں بنیادی کردار ادا  کیا ہے ۔ جبکہ اِس کے برعکس اگر ہم  تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک   میں طالبانِ علم کی صحت  سے متعلقہ اقدامات کا جائزہ لے تو سب سے پہلے  شاید یہی بات  ہی آپ کو ورطہِ حیرت میں ڈال دئے  کہ اِن ممالک میں  عمومی طور پر طلباء کے ذہنی صدمات و مسائل کو صحت کی کمزوری  میں سرے سے  ہی شمار  نہیں کیا جاتا ہے   ، کیونکہ  ذہنی کیفیات  و مسائل وغیرہ کا تعلق  براہ راست  ظواہر  سے نہیں ہوتا ہے بلکہ  یہ تو بنیادی طور پر   انسان کے  باطنی  نظام   کے ذاتی اؤر  انفرادی تاثُر  کی  پیداوار ہوتی  ہے اؤر اِن ذاتی و انفرادی تاثُرات  کے تحت  ذہنی  کیفیات و مسائل   کو  تو صرف وہی افراد سمجھ سکتے ہیں جو     اگرچہ سند یافتہ نہ ہو لیکن  باشعور اور  حساس انسان ہو۔ جبکہ عموماً اِن ممالک میں  تعلیمی ادارے مجموعی طور پر ایسے لوگوں کے سپرد ہوتے ہیں   جو  کہ   اگرچہ سند یافتہ لیکن  بے حس  اؤر  تنگ نظر انسان ہوتے ہیں۔ جو  طلباء کے ذہنی مسائل کو صحت کی کمزوری میں  سرے سے ہی شمار ہی نہیں   کرتے اؤر   صرف جسمانی صحت کی ظاہری خرابی کو ہی بامشکل عدمِ تندرستی  یعنی  بیماری میں شمار کرتے ہیں حاصلِ کلام یہ کہ  تعلیمی لخاظ سے پسماندہ ممالک میں طلباء  کی ذہنی  صحت کے ساتھ  استحصال کرنے والے  بدرجہ اُتم  خود تعلیمی ادارے  ہی ہوتے ہیں کہ جس  کا میں نہایت مفصل اور جامع بیان درج ذیل بالا کئی نقاط میں کر چکا ہو۔ اب جہاں تک  اِن ممالک میں طلباء کی  جسمانی صحت کا تعلق ہے  تو  عین ذہنی صحت کی طرح  جسمانی صحت کے ساتھ استحصال  کرنے والے بھی عموماً ، پسماندہ ممالک کے یہی تعلیمی ادارے ہی ہوتے ہیں جو کہ   طلباء کی  نام نہاد ،دُوراندیش  فلاخ  کے نام پر جسمانی تشدد اؤر سزاؤں کو رواں رکھتے ہیں۔ نیز  اِن ممالک میں طلباء کی صحت سے متعلقہ کوئی خصوصی تنظیم نہیں ہوتی، بلکہ مقامی طلباء  عام ملکی  صحت  سے متعلقہ  میسر سہولیات اور شفاء خانوں ہی سے  امیر اور غریب کے فرق تلے، زیرِ علاج رہتے  ہیں۔

(26.)طلباء کی رہائش و قیام :
جیسا کہ آپ کو سابقہ تمام نکات کے مجموعی فہم سے یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ فن لینڈ میں طلباء کے  لیے فکری اؤر نظریاتی اعتبار سے کس قدر فیاضی اور وسعتِ نظر موجود ہے۔ عین اِسی طرح فن لینڈ میں طلباء کی رہائش و قیام کے لیے جغرافیائی اؤر زمینی وسعت بھی بے مثال اؤر مُتاثر کن ہے اور وہ اِس طرح کہ فن لینڈ کے ہر شہر میں طلباء کی رہائش و قیام کے لیے ایک ہاوزنگ تنظیم سرگرمِ عمل ہوتی ہےجو کہ نہ صرف مقامی بلکہ بیرون ملک سے بھی تعلق رکھنے والے تمام طلباء کو رہائش و قیام کے واسطے رہائشی کمرے”فلیٹس” نہایت مناسب اور معقول قیمت پر فراہم کرتی ہے ۔فن لینڈ میں طلباء کے لیے اِن ہاوزنگ تنظیموں کا زیادہ تر قیام 1960ء تا 1970ء کے اوائل میں عمل میں لایا گیا تھااور آج سال ِرواں تک یہ اپنی تعلیمی خدمات کے تقریباً 82 سالوں میں طلباء کو نہایت محفوظ اور بہترین طرزِ تعمیر پر مبنی رہائش گاہیں فراہم کرنے میں نہایت کامیاب و کامران رہی ہیں۔یہ رہائش گاہیں عموماً کسی تعلیمی ادارے کے قریب ہی تعمیر کی جاتی ہے ۔ لیکن یہ ہرگز صرف کسی ایک فنش تعلیمی ادارے کے طلباء کے لیے مختص نہیں ہوتی ہے بلکہ فن لینڈ کے کسی بھی تعلیمی ادارے سے وابستہ تمام طلباء کے لیے مساوی طور پر دستیاب ہوتی ہیں اور یہی وہ بات ہے کہ فن لینڈ میں تمام فنش طلباء کو عطاء کردہ  مساوی رہائش و قیام کا حق نہ صرف اِسے عالمِ یورپ کی بلکہ کُل عالم کی طلباء ہاوزنگ تنظیموں میں ممتاز  و اعلیٰ  حیثیت سے سرفراز کرتا ہے۔ کیونکہ اِس کے برعکس دنیا کے زیادہ تر ممالک میں طلباء کے لیے تیار کردہ رہائش گاہیں عموماً کسی ایک حاض تعلیمی ادارے کے زیر ِتسلط ہوتے ہوئے صرف اُسی تعلیمی ادارے کے طلباء کے لیے مختص ہوتی ہے اور پھر اِن رہائش گاہوں میں انتظامی معمولات سے لے کر   صاف ستھرائی اور سب سے بڑھ کر ،  نُووارد طلباء  کے ساتھ ہراسگی  “ریگنگ”کے جو مسائل ہے وہ ایک الگ دکھ بھری داستان کے مختاج ہے۔

(27.)تعلیمِ بالغاں:
فن لینڈ  میں ایک   سڑک کے  کنارے پر ایک    مجسمہ  نصب کیا گیا ہے جس میں  کچھ اِس طرح  کی منظر   کشی کی گئی ہے کہ ایک مطالعہ میں محو ،شخص گہرے  پانی میں   غرق ہو رہا ہے   لیکن تب بھی پڑھ رہا ہے یا اُسے دیکھ کر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ پڑھو چاہے تم ڈوب ہی کیوں نہ رہے ہو ۔  اب آگر آپ اِس  فنش  مجسمے کی  زندہ روح  یا عملی تصویر کو دیکھنے کے مشتاق ہے تو    آئیے آپ کو فن لینڈ    کی غیر رسمی تحریک،”تحریک تعلیم ِبالغاں”سے متعارف کرواتے ہیں۔ فنش غیر رسمی تعلیمِ بالغاں میں معاشرے کے پڑھے لکھے ،باشعور اؤر   فارغ التحصیل اشخاص  حصہ لیتے ہیں تا کہ  وہ اپنی رسمی  تعلیم مکمل کرنے کے بعد ،زندگی کے آخری لمحات تک،  کسی نہ کسی نئے  کورس میں داخلہ  لیتے ہوئے ہما وقت سیکھ  سکے۔مثلاً:غیر رسمی تعلیم ِبالغاں سے مرعوب ،فن لینڈ کے  ضعیف العمر  خواتین و حضرات  نئی نئی زبانیں  ،دستکاریاں ، فنون لطیفہ، علوم  اور جدید  مہارتیں وغیرہ سیکھنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ گویا کہ   فنش  سند یافتہ طلباء،رسمی تعلیم  کے اعتبار  سے  فارغ التحصیل ہونے کے  بعد بھی،اپنے زمانہِ طالب علمی کو زندگی بھر کے عرصے پر محیط کیے، ہمیشہ سمجھتے اور   سیکھتے رہتے ہیں ،کہ پھر  وہ چاہے  طبی عمر کے اعتبار سے  جد امجد بن جائے یا  جد الاجداد، لیکن  علمی  عمر   کے اعتبار سے وہ  خود کو   ہمیشہ ایک جوشیلے ،گرم خوں، نوجوانوں کی مانند ہی سمجھتے ہیں  اور  علم کو سیکھنے کی دوڑ میں   طبی عمر یا کسی بھی قسم کی  بے جا معاشرتی  قدر یا رویے  کو خاطر خواہ لائے بغیر  ،فنش  نُو جوان طلباء کے شانہ بشانہ چلتے ہیں۔ عین اُسی پتھر کے  مجسمے میں نصب ،مطالعے میں محو  شحص  کی طرح کہ جس کی زندگی  کا سورج ہمیشہ کے لیے  موت کے  بے کراں سمندر میں غروب ہو رہا ہے لیکن وہ  اپنی  عمر کےاِن آخری لمحات میں بھی کتاب کا ساتھ نہیں چھوڑ رہا ۔مزید یہ کہ اگر آپ فن لینڈ میں غیر رسمی  تعلیم ِبالغاں  کے تاریخی پسِ منظر کو ملاحظہ فرمائیں تو صرف1960ء میں   ہی فنش تعلیم بالغاں کے  مراکز کی تعداد   دوگنی ہوکر تقریباً 280 تک پہنچ گئی تھی۔یہاں تک کہ  آج   یہ  تعلیم  بالغاں کے غیر رسمی مراکز  فن لینڈ کی تمام بلدیات کا  احاطہ  کیے ہوئے ہیں، اور فن میں نہایت  وسیع پیمانے  پر اپنی خدمات کو جاری و ساری  رکھے ہوئے ہیں۔ اِس ضمن میں یہاں یہ بات  بھی قابلِ ذکر ہے کہ فن لینڈ میں  شہریوں کی اپنی  تعلیمی ضروریات کے پیشِ نظر اِس قسم کے بلدیاتی تعلیمی ادارے  دنیا بھر میں اپنی طرز کے منفرد تعلیمی ادارے شمار کیے جاتے ہیں۔ تاہم مزید یہ کہ عہد حال میں  فن لینڈ کے تقریباً 140 اضلاع میں  ایسے متحرک جامعات  سرگرم عمل ہےکہ جن میں پڑھائے جانے والے مضامین  کا ایک تہائی حصہ غیر رسمی تعلیم بالغاں  کی تشریح و توضیح کے لیے وقف کردہ ہے  نیز   فن لینڈ  میں تعلیم  بالغاں  کی فراہمی کے مقصد کے پیشِ نظر،عوامی و حکومتی سطح پر خطیر مالی امداد بھی  قابل تحسین  ہے  اب اگر ہم فن لینڈ  میں  تعمیر و تعلیم بالغاں کے لیے کیے جانے والے اِن سارے انتظامات  کے مقاصد پر بات کریں تو کیونکہ اُن سب مقاصد  کا احاطہ کرنا اِس مضمون میں ممکن  نہیں لہذا   صرف ایک  بنیادی    مقصد ہی گوش گزار ہے  کہ فن لینڈ میں  تعلیم ِ بالغاں کی فراہمی کا بنیادی  مقصد یہ  ہے کہ مساوانہ شراکت داری کی بنیاد  پر، تمام فنش   شہریوں کو  زندگی بھر کے علمی ارتقاء سے  گزارتے ہوئے، موت کے نرغے تک فنش معاشرے کے لیے ایک مفید ، پُر امن ،انصاف پسند  اور باشعور انسان بنایا جا سکے۔

مندرجہ ذیل بالا 27 نکا ت کی روشنی میں ہم فن لینڈ کے اِس  روایت شکن اور زبردست  تعلیمی نظام کے متعلق  یہ بات واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ فن لینڈ نے پوری دنیا کے  قدامت پسند،بے بنیاد،کھوکھلے یا کم از کم سُست رفتار تعلیمی نظاموں کے سامنے ایک ایسا زبردست اصولی تعلیمی  نظام تعلیم کھڑا کیا ہے جو کہ مجموعی طور پر   دنیا کے تمام تعلیمی لخاظ سے ترقی  پذیر و پسماندہ ممالک کے لیے  نظریاتی اختلافات کی بنا پر، آگرچہ مکمل طور پر  اکمل و کامل  نمونہ  نہ سہی ،لیکن یکسر طور ایک  مثالی اؤر   مُتاثر کن  نمونے کی حثیت رکھتا  ہے ۔لہذا آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم  فن لینڈ  کی اِن بہترین  اؤر اصولی تعلیمی حصوصیات،اصلاحات اور اخترعات  کو  فنش تعلیمی نظام کی اندھی تقلید  سے بالاتر رکھتے ہوئے  ،اپنی نظریاتی و  ثقافتی  اقدار کے مطابق  مناسبت ،لچک اور جدت کے ساتھ نافذ کرے  تاکہ   تعلیمی لخاظ سے پسماندہ و ترقی پذیر ممالک  اپنے تعلیمی نظاموں میں موجود  قدیم،کھوکھلی،لغو اؤر غلامانہ منفی  تعلیمی اقدار سے چھٹکارا پاتے ہوئے  خود کو ایک شاندار تعلیمی مستقبل  رکھنے والے ممالک میں بدل سکے۔

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact