Friday, April 19
Shadow

مقبول معاشی نظریات کی موت -تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن

تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن

گرافس : ٹریڈنگ اکنامکس

آج تک ہم لوگوں نے یہی پڑھا کہ اگر منی سپلائی اور جی ڈی پی میں مطابقت نہیں ہو گی، تو منی سپلائی میں اضافہ افرط زر یاانفلیشن کا سبب بنے گالیکن آپ ذرا تینوں گراف پر نظر ڈالئے، یہ کینیڈا جرمنی اور انگلینڈ کے ڈیٹا پر مبنی ہیں۔ گراف میں منی سپلائی اور انفلیشن کا ڈیٹا دیا گیا ہے۔ ایک بات تینوں گراف سے واضح ہے کہ تینوں ممالک میں 2020 کے اوائل میں منی سپلائی میں اضافہ کی رفتار اچانک بڑھ گئی۔ یہ اس پیسہ کی وجہ سے ہے جو ان ممالک نے کرونا سے نمٹنے کیلئے معیشت میں پمپ کیا۔ اسی کو سنٹرل بنک سے قرض لینا بھی کہتے ہیں، سینیوریج بھی کہتے ہیں، اور پبلک ڈیبٹ بھی۔

اب ہم جو اکنامکس پڑھی یا پڑھائی، اس کے مطابق اکنامک ایکٹیویٹی کے کم ہونے اور منی سپلائی کے زیادہ ہونے سے افراط زر کا طوفان آجانا چاہئے۔ لیکن یہ گراف بتلاتے ہیں کہ جب سے ان ممالک میں منی سپلائی گروتھ تیز ہوئی، عین اسی وقت سے افراط زر میں کمی ہونا شروع ہوگئی۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے؟

یہ جو سینٹرل بنک پیسہ بناتا ہے، وہ اسے سرکار کو قرض دیتا ہے۔ چنانچہ  کرونا کے بعد ان ممالک کے  سرکاری قرض میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان ممالک کا عمومی بجٹ اس کرونا ریلیف پیکیج کو سپورٹ کرنے کیلئے کافی نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے مرکزی بنک سے قرض لیا۔ اسے ڈیفیسٹ فائنانسنگ یا بجٹ خسارہ کہتے ہیں، جسے انہوں نے مرکزی بنک کی مدد سے فائنانس کیا۔  اس سب سے ہماری دانست کے مطابق مہنگائی کا سیلاب آجانا چاہئے، لیکن نہیں آیا۔

ان تینوں ممالک کے سنٹرل بنک اپنے تحریری دستور کے مطابق انفلیشن ٹارگٹنگ پر عمل پیرا ہیں، لیکن ان تینوں نے کرونا سے نمٹنے کیلئے انفلیشن ٹارگٹنگ کو پس پشت ڈال کر مالیاتی توسیع پر عمل کیا، اور خوب پیسہ سپلائی کیا۔

اب ہم تو دانش ان ہی ممالک سے ادھار لیتے ہیں، لیکن ہم کیا کر رہے ہیں۔ سنٹرل بنک بارونگ پر پابندی لگانے کا سوچ رہے ہیں، یعنی جس ٹول کی مدد سے دنیا نے کرونا کے معاشی اثرات سے کامیابی سے نمٹا، ہم اسے پاکستان کیلئے حرام قرار دینے جارہے ہیں۔  جس انفلیشن ٹارگٹنگ کو انہوں نے اپنا تحریری دستور قرار دیا، بوقت ضرورت اسے بھول بھلا کر اپنی قومی ضروریات کے مطابق انہوں نے شرح سود کو کم کیا ۔

قرض تو پاکستان نے بھی خوب لیا، جتنا قرض 5 سال میں نون لیگ نے لیا تھا، تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے 2.5 سال میں اس سے زیادہ لے لیا ہے۔ لیکن جو قرض جرمنی، کینیڈا اور یونائٹڈ کنگڈم نے لیا، اس میں اور پاکستان کے قرض میں ایک بنیادی فرق ہے۔ ان کا لیا گیا سار قرض براہ راست عوام کی فلاح کیلئے استعمال ہوا۔ جو قرض پاکستان نے لیا، وہ سارے کا سارا صرف کمرشل بنکوں کو ادا کرنے کیلئے لیا۔ عوام کی فلاح کیلئ ایک پیسہ نہیں لیا گیا۔

ایک اور فرق بھی ہے پاکستانی قرض اور ان ممالک کے قرض میں۔ ان تینوں ممالک میں شرح سود  0.5 فیصد سے کم ہے۔ آج اگر انہوں نے 1000 ارب کا قرض لیا تو 20 سال بعد بھی یہ قرض 1000 ارب ہی ہوگا۔ پاکستان نے 11 فیصد شرح سود پر قرض لیا، وہ بھی 20 سال کی مدت کیلئے۔ آج اگر 1000 ارب ادھار لیا تو قرض کے میچور ہونے تک پاکستان کو 3200  ارب کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ اور اگر معاملات سٹیٹ بنک کے ہاتھ میں رہے، شرح سود آج کے لیول پر رہی تو ہر سال سود کی ادائیگی بھی مزید سود لے کر کی جاتی رہی، تو میچور ہونے تک 1000 ارب کے بدلے 9000 ارب کی ادائیگی کرنا ہوگی۔

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact