تحریر:  ڈ اکٹر محمد صغیر خان
        زندگی گر اک سفر ہے تو پھر انسانی ازلی مسافر ہوا جو جنم سے مرگ تک بلکہ اس سے پہلے سے مابعد تک ایک مسلسل سفر کا شکار رہتا ہے۔ یہ سفر ذہنی بھی ہوتا ہے تو زمانی و مکانی بھی، روحانی بھی اور جسمانی بھی، معاشرتی و تعلیمی بھی، جغرافیائی بھی اور تاریخی بھی۔ اس سفر کی کوئی ابتداء ہوتی ہے نہ انتہاء یہ ازل سے ابد تک کا ایک معاملہ ہے جو ہر انسان اپنے اپنے وقت و انداز میں بھگتتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ اکثر مسافر یہ پینڈا پاٹنے کاٹنے خود دھول ہو کر راہ میں اٹھنے والی گرد کا حصہ بن جاتے ہیں، البتہ کچھ اوکھے انوکھے اور باہمت ایسے بھی ہوتے ہیں جو محض چلتے گھسیٹتے ہی نہیں بلکہ ہر لحظہ آنے بدلنے والے منظر، پس منظر اور پیش منظر دیکھتے سوچتے کھوجتے اور کھودتے چلے جاتے ہیں۔ یوں ان کے حصے میں تھکاوٹ زیادہ آتی ہے لیکن انہیں لگاوٹ بھی مقدور بھر دان ہوتی ہے جس کے باعث یہ مشقت ایک لذت سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آتے جاتے کہیں راہ رستے میں جب پڑاؤ ڈالتے ہیں تو وہاں یادوں کا دیا جلا کر، کبھی خود کو کبھی دوسروں کو اس سفر کی کتھا سنانے بیٹھ جاتے ہیں۔ مسافر اور مسافرت کی یہ اچھوتی ہونی انہونی کہانی ہی ”سفرنامہ“ ہوتی ہے۔ وہ بھی ایک ایسا ہی مسافر ہے جو زیست کے سفر کو دیکھنے سمجھنے اور کہنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے اور صلاحیت بھی۔ وہ یہاں وہاں کے آنے جانے کو کبھی بھی رائیگاں نہیں جانے دیتا بلکہ ادھر اُدھر سے بہت کچھ چن بن کر ایک دیدہ زیب ”سین و سینری“ بنا لیتا ہے۔ اس کے بنائے سجائے یہ ”پارے, فن پارے“ اکثر لوگوں کو بھاتے جاتے ہیں۔ وہ پنی دھن کا پکا ہے اسی لئے اب کی بار اکثر لوگوں کی دیکھی بلکہ بار بار دیکھی جگہوں و مناظر کو یوں دیکھا اور دکھایا کہ عمومیت میں خصوصیت کا دل موہ لینے کا عنصر پوری آن بان سے سامنے آ گیا۔


        ”آغازِسفر“ سے کچھ ہی دیر بعد جب وہ دریائے جہلم کے کنارے پہنچتا ہے تو اس کو دریا کو اپنی نظر سے دیکھ کر کہتا ہے کہ ”بظاہر بے زبان نظر آنے والا یہ دریا اپنے سینے میں کئی راز، ظلم و ستم اور جورواستبداد کی کئی داستانیں چھپائے ہوئے ہے“……
 اب اس کا سفر جاری ہے وہ اسلام آباد جا اترتا ہے۔ جہاں شب بسری کے علاوہ وہ دوست اور بیٹی سے ملاقاتوں کا اہتمام کرتا ہے اور پھر لاہور کی جانب عازم سفر ہو جاتا ہے۔ اس سفر میں وہ آلے دوالے کا نظارہ کرتا ہے اور اپنی میلان کے مطابق سوچتا کہتا چلا جاتا ہے۔ وقت بیتتا جاتا ہے۔ سفر کٹتا جاتا ہے اور لاہور پہنچ جاتا ہے۔ جہاں پنجاب یونیورسٹی کا ہاسٹل اس کا مسکن بنتا ہے۔ اگلے دنوں میں لاہور کے چیدہ چیدہ مقامات کو یوں دیکھتا ہے کہ اس ”دید“ کا حق ادا کر دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ”لہور لہورہے“ اور یہ کہ ”جس لہور نئیں ویکھیا وہ جمیا ہی نئیں“ سو وہ کھلی بند آنکھوں سے لاہور کو دیکھتا بلکہ سمجھتا جاتا ہے۔ جامعہ پنجاب کی ”زیارت“ کے علاوہ وہ ”انارکلی“ کو اس محبت سے دیکھتا ہے کہ گویا اسے پروفیسر انورمسعود کی مشہور نظم ”بھولئے منجیں تو کیہ جانیں شاناں انارکلی دیاں“ اچھی طرح یاد ہو۔ وہ مینار پاکستان، بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ سبھی کچھ دیکھتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ تاریخ بھی دہراتا جاتا ہے۔ ”داتا“ کے مزار پر بھی جاتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ ”داتا کی نگری“ ہے، سو احترام کا تقاضا وہاں حاضری و دعا ہے۔ وہ قذافی اسٹیڈیم، اقبال اکیڈمی، ابوالحسن لائبریری بھی جاتا ہے تو گلبرگ، چڑیاگھر سے ہوتا ”باغ جناح“ بھی جا پہنچتا ہے۔ پھر یوں ہوا کہ ”لاہور پیچھے رہ گیا“ اور وہ ”پھولوں کے شہر میں“ سے ہوتا ”اوکاڑہ“ اپنے دوست پروفیسر کاشف مجید کے ہاں جا دستک دیتا ہے۔ وہ کاشف مجید کی محبت و میزبانی سے لطف اٹھاتا ”اوکاڑہ“ کو دیکھتا وہاڑی اور میلسی کی تاریخ و تہذیب بتاتا جاتا ہے۔ وہ یہاں بھی کالج، لائبریری اور تمام قابل دید و ذکر مقامات اپنے دوست شفیق کی شفقت کے سائے تلے دیکھتا اور لطف اٹھاتا ہے۔ اب وہ ملتان کی سرزمین پر قدم رکھتا ہے، یہاں وہ ڈاکٹر ابرار اور دوسرے دوستوں کی مہمان نواز کا حظ لیتا، ملتان دیکھتا جاتا ہے۔
        یہاں ہی وہ اپنی مادرِعلمی ”جامعہ زکریا“ جاتا ہے۔ پرانی باتیں یادیں تازہ کرتا ہے، یقینا وہ اس مرحلے پر ایک خاص جذباتی کیفیت کا شکار ہے، اسی لئے جامعہ کا ذکر میں محبت و جذبائیت کا عنصر بہت نمایاں ملتا ہے۔ وہ ملتان کی نسبتاً مفصل سیر کے دوران یہاں کی تاریخ کو ذرا تفصیل سے کھولتا پھرولتا اور ہمیں بہت کچھ بتاتا سمجھاتا جاتا ہے۔
        اب اس کے قدم بلوچستان کی طرف محو سفر ہے۔ اب جادہ پیمائی میں وہ جب ”فورٹ منرو“ پہنچتا ہے تو وہاں کی تاریخ سے جڑی اہم معلومات سے ہمیں روشناس کراتا لورالائی جا پڑتا ہے۔ اب اس نے تاریخ کی پٹاری کھول دی ہے۔ وہ لورالائی سے ہوتا قلعہ سیف اللہ جاتا ہے تو تاریخ کے معلومات آمیز ورق ساتھ ساتھ پلٹتا جاتا ہے…… ذہنی اور جسمانی اس سفر کا اگلا پڑاؤ کوئٹہ ہے۔ وہ ناصرف کوئٹہ دیکھتا جاتا ہے بلکہ سوچتا کھوجتا اور کہتا بھی جا رہا ہے۔ وہ یہاں کی تاریخ اور سیاست کو بھی اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور ہنہ جھیل اور اڑک آبشار سمیت دیگر تاریخی و تفریحی مقامات کی ”یاترا“ بھی کرتا ہے۔ چند دن یہاں گزار کر وہ کراچی کی طرف مڑ ٹر جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ مزار قائد جامعہ کراچی سمیت جو جو دیکھنا چاہتا ہے دیکھتا سمجھتا ہے اور احباب کی محبتوں سے فیضیاب ہوتا ہے۔ کراچی دیکھنے کے بعد اس کا واپسی کا سفر ”موتیوں کی وادی“ کی جانب شروع ہو جاتا ہے۔
        اس سفرنامے کی خاصیت جو اسے بے حد وقعت عطا کرنے کا سبب ہے وہ ”تاریخ“ کا تڑکا ہے۔ جس کے لئے مصنف نے مقدور بھر معلومات کا چٹ پٹا مصالحہ اتنی محنت اور سجوڑ پنے سے پیسا اور برتا ملایا ہے کہ تحریر کا مزہ دوچند ہو جاتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ”تماشائے اہل کرم“ پڑھتے  ہوئے مجھے یہ کئی مقامات ”طمانچہ اہل کرم“ محسوس ہوا کہ ایاز کیانی سیاسی شعور اور فکری دولت سے مالامال ہے۔ لہٰذا وہ قابل دید مقامات کا جائزہ جب دیدہ ور کے طور پر لیتا ہے تو بہت سا ان کہا بھی سامنے آ جاتا ہے۔ سیدھے سبھاؤ، آسان ترتیب و ترکیب سے لکھا یہ سفرنامہ ایازکیانی کے فکری میلان کا ترجمان بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا سرورق کہنے والے اور کہی گئی داستان کا خوبصورت عکس و نشان ہے۔
        ایازکیانی زبان و بیان پر بھرپور عبور رکھتے ہیں اور اس کے ”شین قاف“ کی درستی کا ہر لحظہ لحاظ بھی، یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر سادہ مگر رواں و خوشنما ہے۔
پروفیسر ظفراقبال اگر ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ ”ان کی تحریر کا خاصہ غیرجانبدارانہ اور لگی لپٹی کے بغیر رائے کا اظہار اور اُردو زبان کا خوبصورت اور برمحل استعمال ہے“ تو بجا فرماتے ہیں۔
        اس طرح پروفیسر اسد سلیم شیخ کا یہ کہنا کہ ”آپ نے اپنی سفری روداد میں ان شہروں کے تاریخی و تفریحی مقامات، ثقافت و سماجی ماحول کی خوبصورت انداز میں عکاسی کی ہے“ بھی حق ہے تو ساتھ محترم سلیم گردیزی یہ رائے بھی صائب ہے کہ ”تصغ اور تکلف سے پاک شستہ اور رواں انداز تحریر بڑا دلکش لگا“۔
        اس تصنیف سے متعلق محمد جاوید حان کی یہ رائے کہ ”تماشائے اہل کرم“…… ایک خوبصورت سفرنامہ ہے۔ سادگی، روانی، منظر نگاری، درسگاہوں کا حال احوال اور تاریخ بھی…… یہ سب اس کتاب میں بند ہیں“ بھی برمحل ہے۔
        وہ جو کہا جاتا ہے کہ ”شکرخورے کو شکر مل ہی جاتی ہے“ یہ کہاوت اس سفرنامے کے مطالعہ کے دوران میرے سامنے بار بار آئی کہ ایاز ایک سراپاء استاد ہیں اور تعلیم، تدریس اور درسگاہیں اس کی دلچسپی کا محور۔
 شاید اسی لئے وہ ہر جا بلکہ جابجا جہاں اساتذہ سے ملا وہاں اہم درسگاہوں کو بھی اس نے جی بھر کر دیکھا اور ہمیں بھی دکھایا…… یوں یہ سفرنامہ ”جانکاری“ کا بہت سا مواد لئے اہم ایسوں کے لئے ایک خزینہ خزانہ ہے جو چاہیں تو اس سے بہت کچھ کشید کر سکتے ہیں۔
        وہ گرچہ نام کا ایاز ہے لیکن ادبی دلچسپی، معلومات، مطالعے اور زبان و بیان پر عبور کی وجہ سے وہ کم از کم اس دنیا کا مقامی ”محمود“ ضرور ہے کہ اس کی دلچسپی اور محنت نے اسے ایک بلند مقام عطا کر دیا ہے…… اختصار سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایاز کا اعجاز اور انداز ہے کہ اس نے ’عمومیت‘ کی بنیاد پر ایک خصوصی ادبی تخلیق کی وہ بنا اور عمارت بنائی سجائی ہے جو اس کی اہلیت و محنت کی دلیل اور ہمارا اثاثہ بھی  ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact