غزل
موت سے انگلی چھڑا کر آئے ہیں
زند کچھ دن ترے ہمسائے ہیں
بے زبانی مٹ گئی دیوار کی
ہم نئے نعرے بنا کر لائے ہیں
باغ میں جشنِ بہاراں ہے مگر
پھول تو بازار سے منگوائے ہیں
کوزہ ء دل کب کا خالی ہو چکا
آنکھ میں آنسو کہاں سے آئے ہیں
خود بنائے ہیں یہ مٹی کے چراغ
کارخانوں سے نہیں بنوائے ہیں
سب کے چہروں میں تلاشا ہےتمہیں
بےوفا ، ہرجائی تک کہلائے ہیں