Friday, April 26
Shadow

تصویر کہانی

ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ، نیوز اینکر، ہوسٹ اور فلم میکر صوبیہ خان کا انٹرویو

ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ، نیوز اینکر، ہوسٹ اور فلم میکر صوبیہ خان کا انٹرویو

تصویر کہانی
حمیراعلیم  خیبرپختوانخوا پشاور سے تعلق رکھنے والی اٹھائیس سالہ صوبیہ خان پہلی ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ، نیوز اینکر، ہوسٹ اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔وہ پشاور کے ایک پشتون خاندان میں پیدا ہوئیں تو والدین نے ان کا نام محمد بلال رکھا۔تین بھائیوں اور دو بہنوں میں ان کا نمبر تیسرا ہے۔انہوں نے پشاور ہائر اسکینڈری اسکول نمبر 1 سے میٹرک کیا۔ایف اے کالج سے کیا۔لیکن ساتھی طالب علموں کے چھیڑنے کی وجہ سے بی اے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے کیا اور اب اردو میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔وہ پچھلے پانچ سال سے ایک نجی ڈیجیٹل نیوز چینل ٹرائبل نیوز نیٹ ورک سے وابستہ ہیں۔ان کے اس مقام تک پہنچنے کی کہانی انہی سےجانتے ہیں ۔ سوال: صوبیہ  مجھے بتائیے کہ آپ کے اس مقام تک پہنچنے میں آپ کے خاندان کا کتنا ہاتھ ہے؟ جواب:جب تک والدین اپنے بچوں کو سپورٹ نہیں کرتے وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اللہ کا فضل ہے کہ نہ صرف م...
محنت کش اخبار فروش/ کہانی کار:میاں حسین احمد

محنت کش اخبار فروش/ کہانی کار:میاں حسین احمد

تصویر کہانی
کہانی کار:میاں حسین احمد محمد انور صاحب  گزشتہ 33 سال سے ہمارے گھر اوکاڑہ میں اخبار اور میگزین وغیرہ ڈیلور کر رہے ہیں ۔بارش ہو یا آندھی شائد ہی انہوں نے اپنی زمہ واری میں کبھی کوئی کوتاہی کی ہو   ۔کل ایک میگزین دینے آئے تو ماشاءاللہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے ۔میں گیٹ پر کھڑا  تھا ۔میں نے ان کی خوشی بھانپ لی اور پوچھا انور صاحب آج بڑے خوش نظر آرہے ہیںؔ؟  بولے:  میاں صاحب آج اپنی بیٹی کے  کنووکیشن پر لاہور جا رہا ہوں میں نے استفسار کیا کس چیز کا کنووکیشن ؟ بولے :میاں صاحب میری بیٹی ڈاکٹر بن گئی ہے اور الحمدللہ اس نے چھ گولڈ اور سلور میڈل حاصل کیے ہیں۔ ویسے ڈاکٹری کی تعلیم کے حاصل کردہ میڈلز کی تعداد انیس  ہے۔ میں نے پوچھا انور بھائی کتنے بچے ہیں اور وہ کیا کر رہے ہیں ۔ انھوں نے جواب دیا : جناب میں خود تو میٹرک تک تعلیم حاصل کر سک...
نکھری، شفاف، تر و تازہ صبح کے نام: ادیبہ انور کا محبت بھرا خط!

نکھری، شفاف، تر و تازہ صبح کے نام: ادیبہ انور کا محبت بھرا خط!

تصویر کہانی
ادیبہ انور مہکتی صبح کیسی ہو؟ تم سے بہت کم بات ہوتی ہے مگر میں ہمیشہ تمہیں یاد کرتی ہوں تمہارے بارے میں سوچتی ہوں۔ بس میں کبھی تم سے کہہ نہی پائی۔سوچا آج تم سے کہہ دوں! مانا تم دور نہیں ہو،تم میرے پاس ہو، ہر روز مجھ سے ملنے آتی ہو۔جب سے پیدا ہوئی ہوں تم اسی طرح ہر روز اپنی بانہیں کھولے مجھے ملنے آتی ہو، میرا انتظار کرتی ہو، مجھ سے اظہار چاہتی ہو۔ تم چاہتی ہو میں کچھ فرصت کے لمحے تمہارے ساتھ گزاروں. مگر میں بہت کم ایسا کر پاتی ہوں ۔ بس کبھی کبھار ایسا ہوا میں نے تمہیں بہت قریب محسوس کیا.  لیکن ہمیشہ تمہارے اور میرے محسوسات کے درمیان کوئی آ جاتا ہے۔ جب میں بہت چھوٹی تھی۔ تب بھی مجھے تم اچھی لگتی تھی۔ یاد ہے میں سب سے پہلے اٹھ  جاتی تھی۔ میں تمہارے ساتھ اٹھ جاتی اور کتنی خوش ہوتی تھیں؟ کیونکہ تمہارے آنے سے ہی تو مجھے کھیلنے کی اجازت ملتی تھی ۔ میں رات سے ہی تمہارا انتظار کرتی. کب تم آؤگی؟...
اے طائر لا ہوتی۔ ادیبہ انور۔ یونان

اے طائر لا ہوتی۔ ادیبہ انور۔ یونان

تصویر کہانی
ادیبہ انور۔ یونان مجید:-”موقع کی نزاکت کو سمجھا کر۔ چل چلتے ہیں ناں. اپنی بیوی سے بھی بول۔ تیار ہو جائے۔“ اکرم:- ”نہیں بھائی میں نہیں جاؤں گا۔“ ”دیکھا نہیں تھا؟ کتنی باتیں سنا کر گئی تھی اس دن.“ مجید:-”چل کوئی بات نہیں۔ بہن ہے تیری.تو بھی تو اوکھا بولا تھا۔“ اکرم:-”وہ ہر بار طعنےدے کر جاتی ہے. تواوکھا نہ بولوں؟“ مجید۔ ”بس جائیداد کا کام نپٹ جائے۔ ”پھر تم بھی اپنی باری اتار لینا۔“ ”بس آج معافی مانگ لے۔“ ”نا بھائی۔ مجھے نہیں چاہیے اس کا حصہ۔“ اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس  رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی...
یوں ہی خوشیاں ملتی ہیں/  کہانی کار/  شکیلہ تبسم

یوں ہی خوشیاں ملتی ہیں/  کہانی کار/  شکیلہ تبسم

تصویر کہانی
کہانی کار  شکیلہ تبسم تصویر بشکریہ  : دارالاحساس ؛راولاکوٹ آزاد کشمیر یہ ننھے بچے۔۔۔ یہ پھول بچے۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں خواب ہیں پر۔۔۔۔ اڑاں کا کوئی یقیں نہیں ہے۔ یتیمی ان کا قصور ہے نہ۔۔۔۔ نہ ان سے کوئی جرم ہوا ہے۔ خوشیوں پہ بھی حق ہے ان کا۔۔۔ کل کو یہ بھی راج کریں گے۔ اڑاں کے گر آج گر یہ سکھیں۔. اڑاں کے گر یہ یوں سکھیں گے۔. ہاتھ ان کے گر تھام لیں ہم۔ ان کی آنکھوں میں جمتی نمی کو۔۔۔ اپنی پوروں سے پونچھ لیں ہم۔۔۔ ان کی آنکھوں میں خواب رکھییں۔۔ سجا دیں دامن خوشیوں سے ان کا۔۔۔ یہ ننھے بچے۔۔۔ یہ پیارے بچے۔۔۔ ہمارے بچے۔۔۔۔ یہ سارے بچے۔۔۔۔۔ اللہ پاک نے انسان کو بڑا خوبصورت دل اور اچھا سا دماغ عطا کیا ہے۔ دل و دماغ انسانی جسم کے وہ نایاب عضو ہیں کہ اگر یہ اچھے ہیں تو انسان کی اپنی زندگی نہ صرف خیر و برکت کا باعث ہوتی ہے بلکہ...
لوات بالا۔وادی نیلم- کہانی کار محمد اقبال ہما

لوات بالا۔وادی نیلم- کہانی کار محمد اقبال ہما

تصویر کہانی
کہانی کار محمد اقبال ہما  وادیِ نیلم کے خوب صورت ترین قصبہ جات کی فہرست مرتب کی جائے تو سرِ فہرست رکھنے کے لیے لوات بالا سے موزوں نام تلاش کرنا شاید دشوار ہوجائے۔سطح سمندر سے دوہزار ایک سو چونتیس میٹر بلندی پر واقع لوات بالا لوات ندی کے بائیں کنارے پر آباد ہے۔ یہ غالباً وہی قدیم تاریخی قصبہ ہے جسے راج ترنگنی میں ویلوات کے نام سے یادکیا گیا ہے۔ کشمیر گزٹ مرتب کردہ ۱۸۷۳ کے مطابق یہ گاؤں بارہ گھرانوں اور ایک مسجد پر مشتمل تھا۔  آبادی میں زمینداروں کے علاوہ ایک مولوی، ایک لوہار اور ایک ترکھان شامل تھے۔ کشمیر گزٹ میں لوات ندی کو بوسک نالے کے نام سے ریکارڈ کیا گیا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت لوات، وادی نیلم کے اُن چند قصبہ جات میں شامل تھا جہاں مڈل سکول علم کی روشنی بکھیر رہا تھا۔ اسی پس منظر کا اعجاز ہے کہ آج کے لوات بالا میں شرح خواندگی ضلع نیلم کے باقی قصبہ جات سے زیادہ ہے اور ضلع نیلم...
ایک کلاس روم بھی نہیں ہے

ایک کلاس روم بھی نہیں ہے

تصویر کہانی
یہ آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد تحصیل نصیر آباد کے گاؤں چمبہ کے گورنمنٹ بوائز مڈل اسکول کی تصاویر ہیں جہاں پر سینکڑوں کی تعداد میں بچے اپنی زندگی سے کھیلتے ھیں۔ 5اکتوبر 2005میں اس ادارے کی عمارت تباہ ھو گئی تھی جو حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے تا حال نہ بن سکی ۔ چند سوالات نام نہاد آزاد کشمیر کے حکام بالا کے نام۔ یہ سرد موسم یہ معصوم بچے جو اس ملک و قوم کا مستقبل ھیں کیا ان کا حق کلاس روم نہیں ھے ؟ کیا یہ انسانی معاشرے کا حصہ نہیں ؟ کیا یہ اس ریاست کے باشندگان نہیں ھیں ؟ کیا ان کا حق باقی دنیا کی طرح تعلیم حاصل کرنا اور جینا نہیں ھے؟ جہاں چھت بھی ھو اور چار دیواری بھی ھو سردی سے یہ پھول جیسے ننھے جسم بچ سکیں۔ ان کی تعلیم کے ساتھ صحت کا بھی خیال رکھا جا سکے۔ ہاں یہ تمام سہولیات وھاں میسر ھوتی ھیں جہاں انسان اور انسانیت کی قدر ھو؟ زلزلہ زدگان کی مد میں آنے والے کھربوں روپے تو ھڑپ ...
اجڑتے  اخبار سٹال – کہانی کار :  انعام الحسن کاشمیری

اجڑتے اخبار سٹال – کہانی کار : انعام الحسن کاشمیری

تصویر کہانی
کہانی کار اور تصویر : انعام الحسن کاشمیری اس معمر شخص کو نظر کی کمزوری کے باعث شاید اپنی زندگی کے واحد لطف اخبار بینی میں قدرے دشواری پیش آرہی ہے اور اسی لیے محدب عدسہ کا سہارا لے کر تکلیف کے باوجود اس شوق دیرینہ کی تکمیل کی جارہی پے۔۔۔ پہلے ہر اخبار کے سٹال پر ایسے بزرگ نظرآتے تھے مگر اب یہ سٹال اخبارات کی زائد قیمتوں اور بچ جانیوالے سٹاک کی عدم واپسی کے باعث دھیرے دھیرے اجڑتے جارہے ہیں۔۔۔ایک وقت آئے گا کہ دیگر قدیم پیشوں کی طرح اخباری ہاکر کا پیشہ بھی دم توڑ دے گا۔۔۔۔ ٹیکنالوجی نے بہت سی روایات کو تاریخ کا حصہ بنادیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم سہولیات تلاش کرتے کرتے زندگی کے اصل حسن اور اس کے اصل لطف سے ہی محروم ہوتے چلے جارہے ہیں۔۔ کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیںجا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لاعبد الحمید عدم ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact