Friday, April 19
Shadow

شاعری

نظم : مشینیں نوید ملک

نظم : مشینیں نوید ملک

شاعری
نوید ملک "سلیبس مکمل جو کروا سکیں ایسی نایاب رنگیں مشینیں  کہاں  بِک رہی ہیں؟ وہ  رنگیں مشینیں جو ذہنوں میں کھِلتے گلستاں کو بے رنگ کر دیں جو "بستوں" میں ویرانی بھر دیں جو خوابوں پہ ہر امتحاں کا نتیجہ بکھریں تھکاوٹ انڈیلیں مشینیں کہ جن سے لبوں پر سرکتے سوالوں کو باندھیں قلم سے ہمکتے خیالوں کو باندھیں  سحر کی جبیں سے چھلکتے اجالوں کو باندھیں مشینیں کہ جن سے اڑانیں کُترنے میں آسانیاں ہوں نگاہیں کچلنے میں آسانیاں ہوں تجسس نگلنے میں آسانیاں ہوں کہاں ہیں؟  مشینیں ! جو آنکھوں کےپیڑوں یہ دولت کے آرے چلائیں سرابوں، عذابوں کی "بٹ بٹ" سے کانوں کے جنگل جلائیں جو گوندھیں کئی جگنوؤں کو ، کئی سورجوں کو تمدن کے ملبے سے ڈھونڈیں خزائیں دھڑکتے ہوئے عکس سارے بجھائیں بصارت پہ دستک نہ کوئی اگائیں "کلاسوں" میں قبریں سجائیں جو یونانی مٹی سے تیار ہر  ایک پیکر کو روندیں کھلونے بنائیں جو ...
نثری نظم: کچھ باتیں آج فرض کرتے ہیں| ہانیہ ارمیا

نثری نظم: کچھ باتیں آج فرض کرتے ہیں| ہانیہ ارمیا

شاعری
ہانیہ ارمیا فرصتوں کی بہار میں جاناں چلو آج ہم تم حقیقتوں کے دائرے سے نکلتے ہیں کچھ باتیں فرض کرتے ہیں فرض کرتے ہیں گہرا عشق سوتا ہے تمھارے میرے دل کی آغوش میں جو شوخ لمحوں میں دھیرے سے گدگداتا ہے اس کی مدھم سی سرگوشی رات کے سناٹوں میں گونجتی ہے روح کے نہاں خانوں میں مگر قسمت کے خوف میں بہہ کر ہم اس ضدی لہرِ عشق کو بیگانے پن کی دیوار بنا کر واپس موڑ دیتے ہیں چلو آج یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ وہی وقت انمول ہے جو قربتوں کی سوغات لیے ہنستا مسکراتا دوڑتا آتا ہے مگر رازِ الفت عیاں ہو جانے کے ڈر سے ہم ان نایاب لمحوں کو مصروفیت کی آگ میں جھونک دیتے ہیں فرض کرتے ہیں زندگی جو کٹ رہی ہے وہ بےجان ہے زندگی کو زندہ بنانے کے لیے ایک ساتھ چلنا ضروری ہے مگر یہ عشق ادھورا رہ جائے گا یہ ساتھ مکمل نہ ہو پائے گا اس لیے سنو جاناں یہ جو کھیل ہے فرض کرنے کا حقیقت سے الجھنے کا اسے بس فرص...
نثری نظم. قناعت/ سنعیہ مرزا

نثری نظم. قناعت/ سنعیہ مرزا

شاعری
سنعیہ مرزا اداسی ٹھہر جائے گی کہانی بن نہ پائے گی ادھوری رات کا دکھ اور پورے چاند کی حکایت دہکتے تارے اور سورج سے سنائی جب نہ جائے گی گماں کی اوٹ سے چاہت وہم بنتی ہی جائے گی میسر ہوں گے سب لمحے مگر تاثیر جائے گی اسی لمحے اے روحِ من اندھیرا روشنی ہو گا تیری آنکھیں چمک ہوں گی اے روح من تیرا لہجہ تیری محفل تیرے غم تیرے نوحے ہی زخم ہوں گے کرم ہوں گے ستم ہوں گے الم ہوں گے میسر ہوں نہ ہوں لیکن سراسر وہ بہم نہ ہوں مگر کم ہے کیا یہ بھی بہم وہ ہاتھ تو ہونگے ...
مجھے تم اچھے لگتے ہو ہانیہ ارمیا

مجھے تم اچھے لگتے ہو ہانیہ ارمیا

شاعری
ہانیہ ارمیا مجھے تم سے محبت نہیں ہے لیکن آج کی رات کہنی ہے یہ بات مجھے تم اچھے لگتے ہو کل صبح کے بعد چھڑا لوں گی میں ہاتھ اس ایک وعدے کے ساتھ کہ پھر نہ ہو گی ملاقات مگر بس آج کی رات کہہ لینے دو یہ بات مجھے تم اچھے لگتے ہو کچھ کچھ اپنے لگتے ہو مجھے تم اچھے لگتے ہو دور جا کے ذرا سا پلٹنا کچھ پل کو رکنا پھر اجنبی ہو جانا نہیں اچھی لگتی یہ تکرار بے شک نہیں ہے تم سے پیار پر کہنے میں نہیں ہے انکار مجھے تم اچھے لگتے ہو کچھ کچھ اپنے لگتے ہو گر جھوٹ بھی بولو پر جانے کیوں سچے لگتے ہو مجھے تم اچھے لگتے ہو گو روٹھنے منانے والا رشتہ نہیں ہے مگر بےنام ہی سہی یہ تعلق احساس سے بنا ہے اس احساس کو دو لفظوں کا سنگار جو چھو لے من کے تار تم بھی کہہ دو ناں اک بار بس آج کی رات وہ چھوٹی سی اک بات مجھے تم اچھے لگتے ہو...
زہر/ ادیبہ انور۔

زہر/ ادیبہ انور۔

شاعری
ادیبہ انور۔ یونان چمن بھی آباد ہے پھول بھی کھلتے ہیں پر ان پھولوں پر اب تتلیاں نہیں آتیں امید کی روشنی لے کر جگنو بھی چھپ گئے ہیں کہیں۔ بھنوروں کی وہ حمد سرائیاں بھی اب کانوں میں نہیں گونجتیں۔ پھول بچانے کے واسطے باغبانوں نے جو زہر پھولوں پر چھڑکا تھا وہی  زہر ان کی اپنی سانسوں میں بھی تو اترا ہو گا؟ اسی زہر سے خون سفید ہو گئے ہیں شاید یونہی ان کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ اب بچوں کوتیتلیوں اور جگنو کی کہانیاں سناتے ہیں تو نظر جھک جاتی ہے بچے اگر پوچھیں گے تو کیا بتائیں گے؟ جگنو کیسے چمکتے ہیں ؟ تتلیوں کے رنگ کیسے ہوتے ہیں؟ وہ دیو ہم ہی تو ہیں۔ جو کھا گئے ہیں۔ ان حسین نظاروں میں اڑتے  پھرتے تتلیاں اور جگنو اور بھنورے  ...
اے میرے تشفیعِ مَن| مومنہ مقصود

اے میرے تشفیعِ مَن| مومنہ مقصود

شاعری
مومنہ مقصود اے میرے تشفیعِ مَن تو میرا تسکینِ جان بعد تیرے فرشِ گل کشتِ سخن اجڑا دیار صرف تُجھ کوسوچنامیرےقرائن کی بساط تُجھ میں ہی محبوس میں اور میری چشمِ انتظار میں ہوں حیوان ظریف پر تیری فصاحت مرحبا اپنی ہنسی اور مسکراہٹ تُجھ پہ واروں کس طرح ہم تمہارے اشتیاق مطلوب ہمیں تم بسروچشم دل پے آویزاں اور مزین تیرا اُنس اور مرتبہ اے میرے شاخِ بُریدہ مُجھ سے رہنا استوار ختم ہوگی عہدِ خزاں اور آئیں گے پھر برگ و بار پہلے تیرے اُنس کے رنگ بیان نے رکھا ہوا مسرور تھا اب تو اس آتشِ غم میں نِیم وحشت اِضطراب لکھاری کا تعارف بوٹانسٹ مومنہ مقصود فیصل آباد...
محب و عدو| ف  الف خان

محب و عدو| ف الف خان

شاعری
ف الف خان ذاتِ مجنوںِ صحرا کی جستجو نہ کی جائے  بہتر یہ ہی ہے کہ میری آرزو نہ کی جائے دل کے آستانے کو ویران ہی رہنے دیا جائے  یوں سرِ محفل گلستان کی گفتگونہ کی جائے اُلفت گر ہو بھی جائے عقیدت کے پیمانے پر  محبت کی طرح ہو بہو نہ کی جائے مزاج فطرت کے سب جو بے تکلفی کیےدیتے ہیں  مجھ سے  یہ اُمیدِ محب و عدو نہ کی جائے۔ پھیل گئی آگ تو دھواں بھی اُٹھے گا دم گُھٹتی ہوئی فضا میں خوشبو نہ کی جائے فنائے عشق کی مدہوشی اپنی جگہ الفَ!  صلاۃِ عشق کی ادائیگی بے وضو نہ کی جائے۔ شاعرہ کا تعارف  نام: نگہم فاطمہ تخلص: الف ادبی نام: ف الف خان تعلیم: بی ایس، انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ پولیٹکل سائنس ...
آخری شب نومبر کی ہانیہ ارمیا

آخری شب نومبر کی ہانیہ ارمیا

شاعری
ہانیہ ارمیا ابھی کل کی بات ہے جب گرم ہواؤں کا مزاج بدلا تھا اور رم جھم پھوار اور چم چم برستی بارشوں کے بعد حبس بھری شاموں سے راحت ملی تھی نومبر کی آمد ہو گئی تھی پہاڑوں پہ برف گرنے لگی تھی سمندر رخ بدلنے لگا تھا پرندے بھی نئے گھر کی تلاش میں دور افق کے پار کہیں پر پھیلائے اداس بیٹھے ہیں پتے شاخوں سے روٹھ کے مٹی سے ملنے چل پڑے ہیں اس روٹھنے کے کھیل میں پتوں کے گرنے اور مٹی سے میل میں دل جلاتی تیری یاد قطرہ قطرہ گرتی ہے ہر رات میرے دل کے نہاں خانے میں تجھ سے ملن کی تاب لیے نومبر دھیرے دھیرے بیت گیا ہے آخری شب نومبر کی نرم خنکی کے ساتھ تیرے ملن کی امید کو مٹا کے آج رخصت ہو رہی ہے پھر اگلے برس پلٹ کے آنے کا وعدہ کیے نومبر گزر چکا ہے مگر اس بار بھی یہ نومبر ہر بار کے جیسا بےدرد رہا تیری یادوں کی آگ جلا کے بھی یہ ستمگر سرد رہا...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact