Thursday, April 18
Shadow

شاعری

ہم خوابوں کے مسافر ہیں| آرسی رؤف

ہم خوابوں کے مسافر ہیں| آرسی رؤف

شاعری
آرسی رؤف ہم خوابوں کے مسافر ہیں ہر روز نیا خواب بنتے اس کی تعبیر میں سرگرداں یہ بھول جاتے ہیں کاتب تقدیر نے جو لکھ دیا ہے وہی ملے گا پھول جس کے پودے کا تخم رب نے بویا ہے بس وہی کھلے گا لیکن خواہشیں تو ابلق بے لگام کی صورت سر پٹ دوڑتی من میں آ سمائیں اور تار عنکبوت بن کر دل کے وسط میں جال بچھائیں پھر جو من الجھا رہے بے لگام ہو کر اس میں تو خواہشوں، آرزوؤں کی یہ مکڑی اپنے تانے بانے میں پھنسا کر ماردیتی ہے ہاں مگر جب سیکھ جائیں ہم ان کو درست سمت دےدینا یہی تو پار لگاتی ہیں ریشمی خیالوں کی ڈور نرم لہجے کی بنت دھیرے دھیرے اس چنگل سے بچا کر راہ زیست کو ریشمی کرتی مخملیں بناتی ہے بے سکونی کے بادل چھٹا کر گردا گرد سکوں کے ہالے سجاتی ہے. ہمیں اک نئی دنیا میں جا بساتی ہے...
مناجات / کلام:  علی شاہد دلکش

مناجات / کلام: علی شاہد دلکش

شاعری
علی شاہد دلکش حمدیہ ترائیلے نظم    خدا   معبود   ہے   نا    وہی پرور ہے سب کا    جو  بے مولود  ہے  نا    خدا   معبود   ہے   نا   وہ  لا محدود  ہے   نا   وہی محور ہے سب کا   خدا   معبود   ہے    نا   وہی  پرور ہے سب کا   نعتیہ ترائیلے   ذکر سے گر  بھرا  یہ سینہ  ہے   یاد  سے  یوں سجا رہے  یہ دل   زندگی   کا    یہی   قرینہ   ہے   ذکر سے گر  بھرا  یہ سینہ  ہے   اِک  ہے  مکہ  تو  اک مدینہ ہے   وِرد  سے  یوں ہَرا  رہے  یہ دل   ذکر سے گر  بھرا  یہ سینہ  ہے   یاد  سے  یوں سجا رہے یہ دل فکر: علی شاہد دلکش کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج...
نظم پارے / اختر شہاب

نظم پارے / اختر شہاب

شاعری
اختر شہاب *پردہ* کج دیو ایناں کنداں نوں سیمنٹ دے پلستر نال۔ تاں جے! ایہہ جو کج سندیاں نے؟ اوہ بول نہ سکن! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *بھاگ* اوہ کہندی سی ۔ ۔ ! جے میں اپنے دکھ کنداں نوں دس دیاں ۔۔ تے کنداں وی روپین۔ پر اوہ دُکھاں دی ماری ۔ ۔ مینوں! اک نواں دکھ دے گئی اے!!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شب ہجراں،   فرح ناز فرح

شب ہجراں، فرح ناز فرح

شاعری
فرح ناز فرح (کراچی) شب ہجراں گزارنے آئے آج آنگن میں چاند ،بادل اور  ہوائیں تھے بادل بھی بوجھل ہوا بھی تھمی سی کہ چاند بھی تھا کچھ دھندلا دھندلا تھے خاموش سب کہ کہنے کو سننے کو کچھ بھی نہیں تھا بادل نے پھر بھی دو آنسو بہائے مگر ہم تو جانا ں یہ بھی کر نہ پائے بہت ہی طویل و خاموش گزری اب کہ یہ شب ہجراں
حُسنٍ حقیقی. سمیہ شاہد

حُسنٍ حقیقی. سمیہ شاہد

شاعری
سمیہ شاہد۔ لاہور حسیں چہرے بہت دیکھے حسیں چہروں کے پیچھے راز بھی کھلتے ہو ئے  دیکھے حسیں چہروں پہ چھائے حسن کے پردے ہٹے تو بھید یہ پایا کہ دنیا کے حسیں لوگوں کا ظاہر اور باطن اور ہوتا ہے حسیں لوگوں پہ سوچا تو اک ایسا پاک اور پیارا حسیں چہرہ تصور میں چمک اٹھا وہ چہرہ جس سے پیارا کوئی چہرہ تھا نہ ہی ہوگا چلو اُس حُسنٍ کامل ہستی کی بستی میں چلتے ہیں سراپا حسنٍ صادق کی حسیں سیرت میں ہو کے غوطہ زن قول و عمل کے موتی چنتے ہیں
نثری نظم ” شب انتظار”/ سنعیہ مرزا

نثری نظم ” شب انتظار”/ سنعیہ مرزا

شاعری
سنعیہ مرزا شب انتظار میرا ساتھ دے میں کوئی مریض محب نہیں میں تو بس قریب المرگ ہوں شب انتظار مجھے ساتھ رکھ مجھے روک دے کہ نہ مر سکوں یہی انتظار شب انتظار میں کر سکوں ذرا روک لے میں نہ مر سکوں مجھے تھام کے میرا نام لے مجھے اب بلا مجھے کہہ دے بس۔۔۔۔ شب انتظار میری ایک سن میری اک نہ سن مجھے اپنی کرنی سے مار دے میں کوئی مریض محب نہیں میں تو بس قریب المرگ ہوں
2023

2023

شاعری
ادیبہ انور نئی صبح نیا سال۔ لیکن میں۔۔۔۔؟میرا نیا سال کہاں ہے میں ایک عورت، ایک ماں، میرے شب و روز تو ویسے کے ویسے ہیں وہی گھر اور گھر کی دیواریں۔ اداس شامیں اور بے چین راتیں وہی میرا دل اور میری گھٹن۔ وہی ہر روز کی ادھوری کہانی ناتمام کاموں پر خود کو کوسنے ذمہ داریوں کے بیچو ں بیچ میری آنکھوں سے ٹپکتے خواب میری فراغت کے لمحوں میں لکھے چند الفاظ جو میں نے دوڑتی زندگی سے  چند لمحےچھین کر لکھے ہیں۔ ان میں بھی اب نیا پن نہیں۔ دہلیز پر کھڑی میں اس سوچ میں گم تھی کہ نئے سال کی  صبح نے نرمی سے میرا ہاتھ پکڑا مجھے دھیرے سے چھوا اور کہا یہ دیکھو پیاری 365 دنوں کا ایک نیا چکر رب کی عطا ہے اس پر لکھا ہر دن ہر رات ، ہر پہر تمہارا ہے تم اس حسین دنیا کی ملکہ ہو تم جادو گرنی ہو تمہارے مسکرانے سے تمہارے بچوں کی آنکھوں کے جگنو جلتے ہیں۔ تمہارے ہنسی سے تمہارے شوہر کی ھڑکنیں چلتی...
نثری نظم : وہ مجھ کو بھول جائے گا/ ہانیہ ارمیا

نثری نظم : وہ مجھ کو بھول جائے گا/ ہانیہ ارمیا

شاعری
ہانیہ ارمیا تعلق بےنام ہے بے نام ہی رہ جائے گا وہ مجھ کو بھول جائے گا وقت کا جھونکا ایسے جھوم کے آئے گا خوشبو یادوں کی اک پل میں سنگ لے جائے گا وہ مجھ کو بھول جائے گا کبھی بھولے سے یاد اس کا آ جانا کبھی بلا وجہ ہی زیرِ لب مسکرانا کبھی خود سے دیر تک الجھنا کبھی مان کے پھر روٹھ جانا سب خواب کے جیسا ہو جائے گا وہ مجھ کو بھول جائے گا میں نے جانا کہ جانا اس کا لکھا ہوا ہے میں نے کب اس جدائی کا شکوہ کیا ہے میں نے تو دروازہ بھی کھول دیا ہے میں نے خود کو بھی سمجھا لیا ہے مقدر مگر لکیروں سے الجھ جائے گا تعلق بےنام ہے بے نام ہی رہ جائے گا وہ مجھ کو بھول جائے گا...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact