Friday, April 26
Shadow

شاعری

بوڑھا درخت۔۔۔۔ علی فیصل

بوڑھا درخت۔۔۔۔ علی فیصل

شاعری
علی فیصل جو ہو چکا ہے کچھ  بوڑھا۔جھک گیا ہے،تھوڑا سا ہے وہ خمیدہ۔ نوخیز پودے اسے ہٹانا چاہتے تھے ۔   اپنی جگہ وسیع تر بنانا چاہتے تھے ۔شجر ناتواں کو جڑوں سے ہٹا کر۔اپنے وجود کو فورا بڑھانا چاہتے تھے۔ بوڑھا درخت انہیں سیراب کرنا چاہتا تھا۔  ان کے ننھے وجود کا سہارا بننا چاہتا تھا۔غافل پودے یہ جان پاتے ہی نہیں۔یہ حقیقت وہ سمجھ پاتے ہی نہیں۔شجر ناتواں کی جڑیں ان کا سہارا تھیں۔ان کی بقاء و زندگی کا استعارہ تھیں۔بوڑھے درخت کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے۔دراصل خود کو یہ کمزور کرنا چاہتے تھے۔ اس شجر کی جڑیں تو بہت گہری تھیں۔ وہ نادان خود پر  ظلم کرنا چاہتے تھے۔  !! ...
غزل/ شازیہ عالم شازی

غزل/ شازیہ عالم شازی

شاعری
شازیہ عالم شازی کب تک مجھے ستاؤ گے کب تک  رلاؤ گے  میں کھو گئی تو کس سے محبت جتاؤ گے   چھوٹی سی  ایک بات  پہ ترک تعلقات!  میں تو سمجھ رہی  تھی مجھے تم مناؤ گے  وہ بھی تمہاری سوچ  پہ ہو جائے  گا فدا  تم جس کو میرے پیار کی غزلیں سناؤ گے  میری  وفا  کا مل نہ سکے گا جو  آ ستاں  پھر کس کے در پہ جاؤ گے اور سر جھکاؤ گے  جب میں نہیں رہوں گی تمہارے قریب پھر  کس  سے  وفا  جتاؤ  گے کس کو ستاؤ گے  بھولے گی نہیں تم کو کبھی مان لو یقین  تم  شازیہ  عالم  کو اگر بھول جاؤ  گے ...

رمضان المبارک / گل بخشالوی

شاعری
گل بخشالوی تحفہ مرے رحیم کا رمضان خوب ہے اُمت میں مصطفےٰ کی یہ پہچان خوب ہے تحفے میں ساتھ لایا ہے جنت مرے لےے اک ماہ کو نصیب یہ مہمان خوب ہے آباد مسجدیں ہیں درود وسلام میں  اے دل تراویحات میں قرآن خوب ہے رازق نے جو لکھا تھا وہ سحری کو کھالیا افطار کو سجا بھی گلستان خوب ہے سجد ے میں کوئی ہے کوئی پڑھتا درود ہے مخلوق میں خدا کے ،یہ انسان خوب ہے رمضان میں نصیب ہی شام حیات ہو عشق نبی کی شان میں ارمان خوب ہے یہ بھوک وپیاس ہی ترا زادِ سفر ہے گل  کلکائنات پر ترا ایمان خوب ہے  ،،،،،،،،،، ...
عرضِ حال بحضور سرورِ کائنات ۔۔۔!!!کلام: کوکب علی  

عرضِ حال بحضور سرورِ کائنات ۔۔۔!!!کلام: کوکب علی  

شاعری
کلام: کوکب علی راولپنڈی پاکستان  میرے رسول کریم جیسے دعائیں قیمتی پھول ہوتی ہیں اور پھول کبھی  پتھر نہیں بن سکتے  اسی طرح  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جہاں سے  اس جہاں میں پکارنا  ایک لافانی پکار ہے  آپ کے در پر ہماری دستکوں کے نشاں  ہمیشہ باقی رہیں گے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہونٹوں نے بھی شاید  ویسی ہی مشقت  کرنے کی  کوشش کی ہے  جو اماں ہاجرہ کے پیروں نے کی تھی  ہم ان کے تلوؤں کی خاک سے بھی کمتر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری دعاؤں کی تعبیریں  اماں ہاجرہ کے پیروں کے تلوؤں پر قربان  ...
غزل: خطاب عالم شاذؔ

غزل: خطاب عالم شاذؔ

شاعری
خطاب عالم شاذؔ جھوٹ بکھرا کہیں پڑا ہوتا سچ کا بازار جب سجا ہوتا اعلیٰ عہدہ بھی مل گیا ہوتا فیصلہ وقت پر لیا ہوتا ایسے عہدے سے فائدہ کیا ہے اس کو پہلے ہی رد کیا ہوتا نام کے پیچھے سارا جگ بھا گے راز کیا اس میں ہے چھپا ہوتا میں سمجھنے سے اس کو قاصر ہوں گر اسے خود سمجھ لیا ہوتا نام کا ہوتا ہے نشہ جو بھی وہ نشہ سر پہ چڑھ گیا ہوتا ظرف رکھتا نہ جی حضوری کا حوصلہ اس کو مل گیا ہوتا جیت سچ کی ہی ہو گئی ہوتی جھوٹ کا سر قلم کیا ہوتا زیست اپنی مزاج بھی اپنا زندگی اپنی جی رہا ہوتا شاذؔ دیوانگی میں کہتا ہے کاش بن باس لے لیا ہوتا ...
آزاد نظم بہ عنوان : ایک خواہش ناگزیر/ رابعہ حسن

آزاد نظم بہ عنوان : ایک خواہش ناگزیر/ رابعہ حسن

شاعری
رابعہ حسندنیا کے جھمیلوں سے نکل کرزندگی کے میلوں سے پرےآو ہم ایسا کرتے ہیںاک چاہ کی چادر بنتے ہیںپیار کے تارے جس میں ٹانکتے ہیںخلوص کے بوٹے اس پر سوزن کرتے ہیںپھرنفرت کی بارش میںاس کو سر پر اوڑھ کرہم ایک ایسی دھنک زمیں پہ اتر جاٸیںجہاں ٹہنی گل کی کنار جو کو چومتی ہوجہاں پرند مصروف ثنا ہوںجہاں غزال مست اپنی چال میں ہوںجہاں بانگ مرغ میں شاملپیار کی لے ہوجہاںنفرت کا گزر نہ ہوجہاں پیار کی چھاوں ہی چھاوں ہوآو رابی ایسا کرتے ہیںدنیا کے جھمیلوں سے نکل کرزندگی کے میلوں سے پرےآو ہم ایسا کرتے ہیں۔۔۔ ...
غزل/ شاہانہ ناز

غزل/ شاہانہ ناز

شاعری
شاہانہ  ناز (راولپنڈی)نہ ہے آرزو کوئی دوستا نہ مجھے سکوں کی تلاش ہےجسے تھام کر کھڑی رہ سکوں مجھے اس ستوں کی تلاش ہےمرے چارہ گر تو  نہ اب مجھے کوئی مصلحت کا سبق پڑھاکہ مجھے خرد سے غرض نہیں  مجھے اب جنوں تلاش ہےمجھے ہے خبر نہ ٹلے گی اب مری جان لے کے ہی جائے گیکہ یہ عشق ہے وہ بلائے جاں جسے مرے خوں کی تلاش ہےبڑی مدتوں سے میں سہہ رہی ہوں شکستگی مرے ناصحاجو سمیٹ لے مری ذات کو مجھے اس فسوں کی تلاش ہےمرے حال زار کا پوچھنے مرے پاس آئے وہ دو گھڑیمجھے اس کی دید کے واسطے طبع زبوں کی تلاش ہے ...
غزل/ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ

غزل/ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ

شاعری
زخموں سے کہاں لفظوں سے ماری گئی ہوں میں جیون کے چاک سے یوں اتاری گئی ہوں مَیں مجھ کو مرے وجود میں بس تُو ہی تُو ملا ایسے تری مہک سے سنواری گئی ہوں میں افسوس مجھ کو اُس نے اتارا ہے گور میں جس کے لئے فلک سے اُتاری گئی ہوں مَیں مجھ کو کیا ہے خاک تو پھر خاک بھی اُڑا  اے عشق تیری راہ میں واری گئی ہوں مَیں لو آ گئی ہوں ہجر میں مرنے کے واسطے  اتنے خلوص سے جو پکاری گئی ہوں مَیں میری صداقتوں پہ تمہیں کیوں نہیں یقین سَو بار آگ سے بھی گزاری گئی ہوں مَیں تم جانتے نہیں ہو اذیت کے کیف کو  ہجرت کے کرب سے تو گزاری گئی ہوں مَیں مَیں مٹ چکی ہوں اور نمایاں ہوا ہے تُو مُرشد خمار میں یوں خماری گئی ہوں مَیں اس وجد میں موجود کہاں ہے مرا وجود جانے کہاں پہ ساری کی ساری گئی ہوں مَیں مقتل میں جان دینا تھی پیاروں کے واسطے  مَیں ہی تھی ان کو...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact