Saturday, April 20
Shadow

افسانے

Precious Box written by Anam Tahir

Precious Box written by Anam Tahir

افسانے
انعم طاہر اُس نے گھر میں ایک کمرہ صرف اپنی پرانی چیزوں کے لیے مختص کر رکھا تھا۔ وہ اپنی پرانی ڈائیریاں، دوستوں کے بھیجے کارڈز اور تحفے، حتیٰ کہ بہت سی ناقابلِ استعمال اور ٹوٹی پھوٹی اشیاء یہاں بہت پیار سے جمع کرتی تھی۔ اُسے اِس کمرے میں موجود تمام چیزوں سے بےحد لگاؤ تھا۔ یہیں کمرے میں درمیانے سائز کا ایک کارٹن بھی رکھا تھا جس پہ کالے رنگ کے مارکر سے پریشیس باکس لکھا تھا۔ وہ کارٹن بہت حد تک بھر چکا تھا۔ بھرتا کیسے نہ؟ بہت سالوں سے وہ صوفی کے استعمال میں تھا۔ وہ مہینے دو مہینے بعد اِس میں چند کاغذ پھینک جایا کرتی تھی۔ وہ اکثر سوچا کرتی تھی کہ وقت ملنے پر وہ اِن کاغذوں کو استعمال میں لے آئے گی۔ آج وہ اِسی مقصد کے لیے اِس اسٹور نما کمرے میں آئی تھی۔  اُس نے غور کیا کہ کارٹن واقعی بھر چکا تھا۔ کچھ کاغذ باہر کی طرف نکلے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اُس کے شوہر حسن نے ایک ...
افسانہ: ہم کون ہیں؟ تحریر:  انعم طاہر

افسانہ: ہم کون ہیں؟ تحریر:  انعم طاہر

افسانے
تحریر:  انعم طاہربظاہر وہ دونوں چائے کی چسکیاں لے رہے تھے لیکن ان کی ساری توجہ اپنے پانچ سالہ بیٹے ریان کی طرف تھی جو کافی دیر سے اپنی اسکول کی نوٹ بک ہاتھ میں پکڑے چند سوالات کے لکھوائے گئے جوابات یاد کر رہا تھا۔ ایک جواب کو وہ کئی کئی بار دہرا رہا تھا اور اسکی کوشش تھی کہ جو جواب وہ تیار کر رہا تھا، اسکا ایک لفظ بھی لکھوائے گئے جواب سے مختلف نہ ہو۔ جہاں صنم اپنے بیٹے کی مہارت دیکھ کر دل ہی دل میں صدقے واری جارہی تھی وہیں سعد یہ دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوگیا تھا۔مروجہ تعلیمی نظام سے وہ ذہنی طور پر اسی طرح دور تھا جس طرح مروجہ تعلیمی نظام تعلیم کے اصل مقصد سے دور ہے۔ وہ اکثر سوچتا ' تعلیمی ادارے کیا ہیں ؟ جیل ہیں جہاں سلاخوں کی پیچھے کئی خواب سسکیاں بھرتے ہیں؛ طلباء بے قصور قیدیوں کی مانند خلاؤں کو گھورتے درحقیقت صرف تالا کھلنے کا انتظار کرتے ہیں؛ خاکی وردی والی سوچ کے اساتذہ ہاتھوں ...
افسانہ : تکبیر۔تحریر: عصمت اسامہ

افسانہ : تکبیر۔تحریر: عصمت اسامہ

افسانے
عصمت اسامہ ۔حمدان شیخ ،اپنے آرام دہ لگژری بیڈروم میں محو_استراحت تھا ،اس کی سائیڈ ٹیبل پر دنیا کا مہنگا ترین آئی فون پڑا تھا جس پر کسی کی کال آنے کے سبب لائٹ بلنک ہورہی تھی مگر سائیلنٹ موڈ کی وجہ سے شیخ تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ کمرے کا نیم تاریک ماحول شیخ کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔ یکایک شیخ نیند میں کچھ بڑبڑانے لگا اور پھر ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھل گئی ،وہ اٹھ کے بیٹھ گیا ،اس کی نبض تیز چل رہی تھی اور ماتھے پر پسینہ تھا۔ اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور غٹاغٹ پی گیا۔ وقت دیکھا تو آدھی رات کا وقت تھا ،وہ دوبارہ لیٹ گیا اور کچھ دیر بعد کمرہ پھر اس کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔شیخ حمدان کے خاندان کا شمار دبئی کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا تھا۔ اس کا بزنس مشرق_ وسطی' کے متعدد ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔ہر روز کسی نہ کسی کانفرنس میں شرکت کے بعد اسے نئے آئیڈیاز سوجھتے اور پھر چن...
ٹھنڈی دھو پ /انعم طاہر                 

ٹھنڈی دھو پ /انعم طاہر                 

افسانے
انعم طاہر                     اسکی ماہانہ آمدنی چالیس ہزار تھی، اور شوہر بھی معقول تنخواہ لیتا تھا۔ مل ملا کے اتنے پیسے تو ہو جاتے تھے کہ اسکی چھوٹی سی فیملی مناسب ذندگی گزار سکے۔ لیکن شاید مہنگائی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ ہر مہینے کے بیس دن ہی مشکل سے کٹتے تھے۔ باقی کے دن اگلی تنخواہ کے انتظار میں گزرتے تھے۔ ہر ماہ کے آخر میں وہ حساب کتاب کے لیے بیٹھتی تھی، سوچتی تھی کہ اس دفعہ کسی قسم کی فضول خرچی نہیں کرے گی تاکہ کم از کم پورا مہینہ تنخوا پہ ہی گزارا ہوسکے اور ادھار نہ لینا پڑے۔مہینے کی چھبیس تاریخ تھی،  نئی تنخواہ آنے میں چار دن باقی تھے۔ آج پھر وہ حساب کتاب کرنے بیٹھی تھی۔پندرہ ہزار گھر کا کرایہ، چار ہزار بجلی بل، بارہ ہزار تینوں بچیوں کی فیس،  بیس ہزار بینک سے لی گئی گاڑی کی قسط، بیس ہزار گھر کی گروسری، دس ہزار کے لگ بھگ پیٹرول، پندرہ ہزار روزمرہ کا خرچ، دس ہزار کمیٹی جو کچھ مہینے پہلے...
مہرماہ /تحریر : ساجدہ امیر

مہرماہ /تحریر : ساجدہ امیر

آرٹیکل, افسانے
تحریر : ساجدہ امیر وہ عام لڑکی نہیں ہے، وہ محبت کی چاشنی ہے۔ اس سے باتیں کرو تو دل نہیں بھرتا تھا؛ اس کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اس کا لمس اندھے کو جینا سیکھا دے، اس کی آنکھیں اس سیارے کی نہیں لگتی وہ چاند کی اٹھائیس منازل میں سے ایک منزل کی ملکہ ہے لیکن کس کی۔۔۔؟ معلوم نہیں ہے۔ وہ مریخ کے رہنے والوں کی طرح کم گو ہے، وہ مریخ کی سردی کی طرح سرد بھی ہے۔ لیکن وہ بن بولے بہت کچھ بول جاتی ہے۔ اس کی ہنسی آبِ حیات ہے جو یمن کے شہر میں دریا کے وسط میں رکھی ایک شیشے کی بوتل میں قید ہے اور کیا تم جانتے ہو؟ آبِ حیات تک ہر انسان نہیں پہنچ سکتا؛ مجھ جیسا گداگر اس تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ ”وہ میری پہنچ سے دور ہے لیکن پھر بھی اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں، ایک کینوس پر بکھیرے رنگوں کی طرح جو سفید کپڑے کو رنگین کر دے، ہاتھ میں بندھے اس دھاگے کی طرح جو لوگ اس لیے باندھتے ہیں کہ ان کی منت پوری ہو جائے،...
 خوابوں کا شبستان تحریر : عنیزہ عزیر

 خوابوں کا شبستان تحریر : عنیزہ عزیر

افسانے
تحریر : عنیزہ عزیرکمر تک آتے ریشم جیسے خوبصورت بالوں میں ہولے ہولے برش پھیرتی، وہ اپنے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔ گلابی دیواروں والا خوبصورت سجا ہوا کمرہ جس کی ہر شے میں گلابی رنگ نمایاں تھا۔ کھڑکیوں پر پڑے گلابی مخملیں پردے، جالی دار سفید جھالر جن کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ کر رہی تھی۔ سفید فالز سیلنگ والی چھت پر جلتی مدہم روشنیاں کمرے کو مزید خوابناک بنا رہی تھیں۔دیوار گیر الماری  میں ایک طرف شیشے سے نظر آتی ڈھیر ساری گڑیاں سجی تھیں تو دوسری طرف لکڑی کا پٹ لگی بند الماری تھی۔ دوسری دیوار پر اس کا نام روشنیوں کی مدد سے جگمگا رہا تھا۔ اور وہ خود سرخ اسٹرابیری والے سفید ٹراؤزر شرٹ میں ملبوس تھی۔پورے کمرے میں گھومتی نگاہیں بند الماری پر جا کر رک گئیں۔ اس نے برش  اپنے سامنے موجود سنگھار میز پر رکھا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی الماری کی طرف بڑھی۔ الماری کا پٹ کھولا، اندر دنیا جہان کی کتابوں ...
افسانہ : تاثیر مسیحائی / فاخرہ نواز

افسانہ : تاثیر مسیحائی / فاخرہ نواز

افسانے
فاخرہ نواز آج بستر پر لیٹی عالیہ بخار سے تپ رہی تھی مگر اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی ۔دل میں ڈھیروں سکون تھااپنی اس کیفیت پر وہ خود بھی حیران تھی اور سوچ رہی تھی کہ میرےمزاج میں کتنی تبدیلی آ گئی ہے ۔۔اسے اچھی طرح یاد تھاکہ بچپن سے ہی اس کی عادت تھی کہ وہ بیماری میں  ہتھیلی  کاچھالہ بن جاتی تھی ماں کے ساتھ ساتھ چپکی رہتی ۔سارا دن اپنے ابو  کا انتظار کر تی رہتی ۔رات کو ابو آکر پوچھتے کہ میری بیٹی کا کیا حال ہے ؟ اس کی تپتی ہوئی پیشانی پر ٹھنڈے ہاتھ رکھتےتووہ پرسکون ہوجاتی۔عالیہ کے اور بہن بھائی بھی تھے مگر اس  کا مزاج سب سے الگ ہی تھا وہ بیماری  میں چاہتی کہ سب لوگ اس کا خاص خیال رکھیں اور سچی بات تو یہ تھی کہ اگر گھر کا کوئی فرد بیمار ہوتا تو وہ اسکی خوب تیمارداری کرتی اس کی خوراک دوائی آرام کا پورا پورا دھیان رکھتیسب اس کا بھی خوب خیال رکھتے کیونکہ سب کو ہی اس کے علاج کا پتہ چل...
کتھارسس تحریر: انعم طاہر (Catharsis)

کتھارسس تحریر: انعم طاہر (Catharsis)

افسانے
تحریر انعم طاہرگوشتابے یخنی ، حلیم،  نرگسی کوفتے، , پالک پنیر، مٹن کورما، اچار چکن ، مچھلی روسٹ، نمکین گوشت ، الفریڈو پاسٹا، سیخ کباب، چپل کباب، چکن ملائی بوٹی، تندوری باقر خانی ، روغنی نان، ابلے چاول، بیف پلاؤ ، چکن فرائڈ رائس، تین قسم کا سلاد ایک بڑے سے دسترخوان پہ سجا کتنی نظروں کو لبھا رہا تھا۔ کھانا سجنے کی دیر تھی کہ کمرے میں موجود سب لوگ کھانے پہ گویا ٹوٹ پڑے تھے۔ وہ بھی وہیں بیٹھی تھی اور اپنی جگہ پہ جمی ہوئی تھی۔ اسکا کھانا کھانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا حالانکہ اسکی ماں نظروں ہی نظروں میں اسے مہمانوں کے ساتھ دسترخوان پہ بیھٹنے کا کہی بار اشارہ کرچکی تھی۔ اسے بیٹھنے پہ کوئی اعتراض نہیں تھا ، وہ بیٹھ جاتی لیکن وہ جانتی تھی اسکی ماں پھر اسے کھانا کھانے پہ بھی مجبور کرنے والی تھی۔ وہ اپنی ماں کو یہ بات سمجھانے سے قاصر تھی کہ وہ ایک لقمہ تک حلق سے نیچے نہیں اتار سکتی تھی۔ وہ اگر ماں کے...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact