Thursday, April 25
Shadow

تقسیم کشمیر

کونسا کشمیر آزاد کرواناھے اور کیوں؟ سردار خورشید انور

کونسا کشمیر آزاد کرواناھے اور کیوں؟ سردار خورشید انور

آرٹیکل, تقسیم کشمیر
موجودہ دور میں جس متنازعہ خطہ کا ذکر ھو رھ ہے۔ وہ 4 اکتوبر 1947 کو متنازعہ بنا۔ یہ ایک تسلیم شدہ ریاست تھی۔ اس کا نام تھا ریاست جموں و کشمیر۔ جس کی اکاہیاں لداخ بلتستان گلگت اور وادٸ کشمیر تھیں۔ رقبہ85806 مربع میل تھا ۔یہ ریاست 16 مارچ 1846 کو معرض وجود میں آٸی ۔ اس کا بانی مہاراجہ گلاب سنگھ تھا ۔یہ کثیر المذاھب ریاست تھی۔اور سب علاقہ جات اور مذاھب کی نماہندگی تھی۔ ایک صدی بعد۔جب دوقومی نظریات کے تحت ہندوستان کا بٹوارہ ھوا۔۔تو دو قوموں یا دو مذاھب کا نا مکمل بٹوارہ ھو گیا ۔ آدھی سے زیادہ قوم یا ملت ہندوستان میں چھوڑ کر آدھی قوم قلعہ بند ھو گٸی ۔ ایسے لگتا تھا چند ملاں اور وڈیرے بہت جلدی میں ہیں۔ دوقومی تعصب کو ریاست جموں کشمیر میں بھی کھینچ کر لایا گیا۔ کچھ سہولتاروں کو کو مہرے بنایا گیا۔اور مسلم اکثریتی علاقہ جات میں غدر کھیلا گیا۔ اور سردار ابراھیم کی قیادت میں ساڑھے ...
قلب ایشیاء لہو لہو۔ فیصل مرزا

قلب ایشیاء لہو لہو۔ فیصل مرزا

آرٹیکل, تقسیم کشمیر
فیصل مرزا جموں وکشمیر کا محل وقوع ریاست جموں و کشمیر ایشیاء کے تقریباً وسط میں اور برصغیر پاک و ہند کے عین شمال میں واقع ہے ۔ریاست کے شمال میں روس اور چین،  مشرق میں تبت،  جنوب میں پاکستان اور بھارت جبکہ مغرب میں پاکستان اور افغانستان واقع ہیں ۔اس جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر جموں وکشمیر کو ایشیاء کا دل اور برصغیر کا تاج قرار دیا جاتا ہے ۔ ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم  ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہے ۔1 جموں، 2 کشمیر، 3 بلتستان ۔ مگر اب یہ چار حصوں میں منقسم ہے، جن میں سے ایک پر بھارت قابض ہے،  دوسرے پر چین،  تیسرے پر پاکستان کا تسلط ہے اور چوتھا آزاد ہے ۔ مسلم ادوار اقتدار تخت ریاست پر پہلا مسلم حکمران 1339ء میں شاہ میر معروف بہ " سلطان شمس الدین " ( مغل قبیلے سے ) براجمان ہوا،  اس کے بعد 1819ء تک خاندان چک،  خاند...
کشمیر: ملّی اتحاد کا خون

کشمیر: ملّی اتحاد کا خون

آرٹیکل, تقسیم کشمیر
مقابل تھا شیشے کا سنگ ِ گراں ش  م  احمد   شہر خاص سری نگر کی جامع مسجد کے میدان میں مسلم کانفرنس کا سالانہ سہ روزہ جلسہ مئی ۱۹۴۴کے وسط میں منعقد ہوا۔ جلسے میں محمد علی جناح کی ایک تاریخی تقریر ہوئی۔ اتفاق سےیہ سری نگر میں اُن کی آخری تقریر بھی تھی۔ فاضل مقرر کا خطاب صاف گوئی اور تلخ نوائی کا امتزاج تھا ۔ قائد اعظم اصلاً شیخ صاحب کو منانے اور اپنانے کے لئے اپنی تمام مصروفیات تر چھوڑ کر ڈھائی ماہ ( شیخ صاحب کے مطابق ڈیڑھ ماہ) تک کشمیر میں قیام پذیر رہے ۔ قائد دل سے چاہتے تھےکہ اُن کی اگوائی میں نیشنل کانفرنس کے رُوح رواں کی مسلم کانفرنس کے ساتھ سینہ صفائی اور مفاہمت بحسن وخو بی انجام پائے۔ا س کے لئے ملاقاتیں کا اہتمام کیا ، تبادلہ  ٔ آرائی کی مجلسیں ہوئیں، دلائل اور مباحث کے انبار لگ گئے مگر شیخ جی اپنے موقف میں ذرہ برابر تبدیلی کرنے یا ا س میں کوئی لچک لانے پر آمادہ نہ ہوئے ۔ ...
کشمیر، قائد اعظم کے ادھورے مشن کی تکمیل

کشمیر، قائد اعظم کے ادھورے مشن کی تکمیل

آرٹیکل, تقسیم کشمیر
اسد اللہ غالب دئیے سے دیا جلتا ہے۔ کوئی دو ماہ قبل قائد اعظم پورٹل پر میرا کالم شائع ہو اتو ایک صاحب نے فون کیا کہ وہ اس پراجیکٹ میں شریک ہونے کے خواہاں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم نے پاکستان کے قیام کا معجزہ تو انجام دیا مگر کشمیر کی پاکستان میں شمولیت کاا یجنڈہ ابھی ادھورا ہے۔ وہ اسکی تکمیل کے لئے علمی، تحقیقی اور تاریخی پس منظر کے ساتھ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہوںنے کہا کہ قائد اعظم پورٹل پر کشمیر کے لئے خصوصی سیکشن مختص  کیا جائے اور اس کے لئے جو بھی مواد چاہئے،اس کی فراہمی کے لیے وہ اپنی خدمات وقف کرناچاہتے ہیں،انہوںنے اپنا نام سمیع اللہ بھٹی بتایاا ور یہ بھی کہا کہ وہ کشمیر وکلا محاذ کے کنوینر عابد حسین بھٹی کے علاقے سے ہیں ۔ اور ان سے قرابت داری بھی ہے، عابد بھٹی کا صاحب زادہ اوسامہ عابد اپنی لیاقت اور صلاحیت کے بل بوتے پر امریکہ میں رہ کربزنس میں مصروف ہے۔ ...
ہجرت کے دکھ

ہجرت کے دکھ

آرٹیکل, تقسیم کشمیر
کشمیر کے منقسم خاندانوں کا مشترکہ المیہ تنویر حسین چوہدری  کشمیریوں کی کئی نسلیں ایک آزاد وطن میں واپس جانے کا خواب لئے دنیا سے رخصت ہو گئیں - ہم بھی یہی سپنا آنکھوں میں سجاۓ اس بات کے منتظر ہیں کہ کب ہجر اور غلامی کی یہ سیاہ رات ختم ہو گی کشمیر میں اپنے وطن کے لئے ہجرت کرنے والوں کے کیسے کیسے ارمان تھے ۔ جو سینے میں لیے اپنی حیات پوری کر چکے۔ میں اس تحریر میں اپنے خاندان کے کچھ واقعات کا احوال آپ کے سامنے رکھوں گا - میرے دادا حضور حضرت سائیں محمد انسان اور انسانیت سے اتنا انس کرتے تھے ۔ کہ کبھی کسی کی غلطی پر بھی اسے برا نہیں کہتے تھے۔ بلکہ کہا کرتے تھے “اللہ تیرا بھلا کرے ”-۔انکی زندگی صرف قرآن الکریم کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ ایسا ان کی اوائل عمری ہی سے تھا. جب میرے دادا حضور اور میرے والد گرامی نے تیسری بار 1965 میں ہجرت کی۔ یہ ہجرت انہوں نے پونچھ، مہنڈر سے کی - پھر آ...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact