Tuesday, April 23
Shadow

بہاولپور میں اجنبی کے کرداروں سے انسیت سی ہونے لگتی ہے

تبصرہ نگار : فوزیہ تاج

مظہر اقبال مظہر کی کتاب” بہاولپور میں اجنبی” پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی شائع کردہ مایہ ناز تصنیف ہے۔ خوبصورت رنگین ٹائٹل سے مزین،  اس کتاب کو  دیکھتے ہی بہاولپور کی ثقافت، لباس، عمارات اور ماحول کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات پہلے ہی مل جاتی ہیں۔ پھر صفحہ در صفحہ، لفظ بہ لفظ اور سطر بہ سطر قاری جوں جوں آگے بڑھتا ہے تو بہاولپور کے تمام اہم مقامات، تہذیب و ثقافت، تاریخ اور گردونواح میں پھیلے عجیب و غریب….. کچھ جانے انجانے واقعات جن سے وہاں کے رہن سہن اور ماحول کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔

ہر علاقے اور ہر تہذیب کے بارے میں تاریخ بہت کچھ رقم کرتی ہے۔  کچھ منظر عام پر آ جاتا ہے اور بہت سے واقعات نگاہوں سے اوجھل بھی رہتے ہیں ۔ لیکن کوئی واقعہ ایسا بھی ہوتا ہے جو ہمیشہ کے لیے اس علاقے سے جڑے لوگوں کی شناخت بن جاتا ہے۔ ایسے ہی  بہاولپور میں اجنبی کے مصنف نے بہت گہرائی کے ساتھ بہاولپور کے تعلیمی اداروں اور مشہور جامعات سے لے کر تفریحی مقامات، مساجد، میڈیکل کالج، ہوٹلوں یہاں تک کہ………. گلی کوچوں، میناروں اور مشہور چوکوں کا اس قدر باریک بینی سے تذکرہ کیا ہے کہ قاری کبھی اپنے آپ کو کسی کالج یا یونیورسٹی کے احاطے میں کھڑا پاتا ہے اور کبھی کسی چوک، بازار یا تاریخی مقام کی سیر کرتے…… حتیٰ کہ….. کبھی کبھار کسی ریسٹورنٹ یا تانگہ بان سے الجھتے اور بھاؤ تاؤ کرتے ہوئے بھی محسوس کرتا ہے ۔

ایسا  صرف اس لیے ہے کہ ایک اچھے افسانے، ناول  اور خاص طور پر سفر نامے کی سب سے بنیادی خصوصیت ہی یہی ہے کہ مصنف تمام مناظر کی اس طرح تصویر کشی کرے کہ قاری کی نگاہیں اس منظر کو واضح طور پر دیکھ سکیں۔مبہم اور پیچیدہ الفاظ کسی بھی تحریر کو بھاری بھرکم بنانے میں تو معاون ثابت ہو جاتے ہیں مگر سلاست اور روانی نہ ہونے کی وجہ سے قاری بعض اوقات مصنف کی بیان کردہ گلیوں میں…… بنفس نفیس گھومنے کے بجائے …. گنجلک الفاظ کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ جس سے اسکی کتاب سے دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔

 مگر مظہر اقبال مظہر کی اس کتاب میں سلاست اور روانی ہونے کی وجہ سے قاری کی دلچسپی اول تا آخر برقرار رہتی ہے ۔  قاری بنا ٹکٹ کے پورے بہاولپور کی سیر وسیاحت کے مزے لوٹ لیتا ہے ۔ اور میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ ایک نووارد جس نے بہاولپور شہر بغرض سیاحت یا کسی اور مقصد کے جانا ہو تو اس کے لیے یہ کتاب کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ بلکہ وہ یہ کتاب اگر حفظِ ماتقدم کے طور پر ساتھ رکھ لے تو کیا ہی کہنے۔ کہ لوکیشن ڈھونڈنے کے لیے گوگل میپ کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔

مصنف نے نہایت خوبصورت انداز میں بہاولپور میں بولی جانے والی مختلف بولیوں اور لہجوں کا بھی گہرا مشاہدہ کیا ہے۔  علاوہ ازیں، ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مزاج، روئیے، اور معاملات بہت باریک بینی سے بیان کیے کہ بہاولپور میں داخلے کے بعد کسی بھی ہوٹل والے، ٹھیلے والے، تانگے والے اور خوانچہ فروش سے لین دین کا کوئی معاملہ طے کرتے وقت کوئی نووارد جو اس کتاب کا قاری ہو تو قطعاً اجنبیت محسوس نہیں کرے گا۔  الغرض کوئی گنبد، مینار، چوک، سکول، لائیبریری، مسجد، جامع، گلی، نکڑ، بازار، دربار ایسا نہیں جس کا پوری جزئیات کے ساتھ تذکرہ مصنف کے قلم نے سفرنامہ لکھتے وقت احاطہ تحریر میں نہ لایا ہو۔مرکزی لائبریری اور میوزیم کا تذکرہ اتنے جاندار انداز میں کیا گیا ہے کہ قاری کبھی اپنے آپ کو لائبریری کے کسی گوشے میں کتاب کا مطالعہ کرتے تو کبھی میوزیم میں رکھے نوادرات کی کھوج لگاتے محسوس کرتا ہے۔

مصنف نے بہاولپور کی تاریخ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ بہاولپور اور بعد میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے ۔ اور مصنف  اس  شہر میں بسنے والی مختلف تہذیبوں اور زبانوں کا حوالہ دیتے ہوئے سرائیکی زبان کا بہت عمدگی کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ سرائیکی زبان کی مٹھاس اور شیرینی کتاب کے مختلف صفحات میں رچی بسی ہے۔ اور قاری کو حقیقت میں سرائیکی زبان کی جلترنگ کانوں میں رس گھولتی محسوس ہوتی ہے۔

کتاب کے مطالعے کے ساتھ ہی قاری جہاں بہاولپور کی سیر و سیاحت کے مزے لے لیتا ہےوہاں اس کی تہذیب و ثقافت، رہن سہن، قدیم و جدید روایات، مناظر، تاریخی مقامات، زبان اور رسم و رواج کے بارے میں مکمل طور پر آگاہی حاصل کرتا ہے اور سفر نامہ نہایت خوبصورتی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔

کتاب کے آخری حصے میں دو افسانے بھی شامل کیے گئے ہیں۔”دل مندر” اور ایک بوند پانی “۔  یہ دونوں افسانے موضوع کی اعتبار سے بے حد خوبصورت اور متاثر کن ہیں۔  دونوں میں موضوعات مختلف ہونے کے باوجود ایک قدر مشترک ہے ۔ اور وہ ہے” نظریہ ضرورت ” ۔ ایک افسانے  میں ایک بوند پانی کی ضرورت تھی جو بروقت نہ ملنے کی وجہ سے کئی بچوں کی جان لے بیٹھا ، اور دوسرے میں” عشق” کیجس کا حصول افسانے میں موجود ایک کردار کی ضرورت بن جاتا ہے۔

 پھر اس کا نہ ملنا جان لیوا ثابت ہوتا ہے ۔ اور جان کنی کی کیفیت اگر جان نہیں بھی لیتی تو بالآخر فرزانگی کے بطن سے دیوانگی جنم لیتی ہے۔ جو اسے عشق مجازی سے عشق حقیقی کے راستے پر گامزن کر دیتی ہے۔

دونوں افسانے بہت عمدہ اور جاندار ہیں۔ مصنف نے کمال خوبی سے ایک ایک منظر کی لفظی تصویر کشی کی ہے کہ جن کو پڑھتے وقت قاری…… کہیں….. ایک بوند پانی کی کمی اسی شدت سے محسوس کرنے لگتا ہے جیسے وہ تھر کے تپتے ہوئے صحرا میں کھڑا ہو اور کہیں گرم ریتلی زمین پہ……. ننگے پاؤں چلتے بچوں کے پاؤں میں چھبتے خار اور پتھر محسوس کرتے ہوئے….. بے اختیار اپنے پاؤں سمیٹ لیتا ہے اور یہی کسی بھی تحریر کی خوبی ہے کہ قاری مصنف کے بیان کردہ مناظر اور جذبات کو پوری شدت سے محسوس کر سکے لیکن ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب تحریر میں محض لفاظی کے بجائے…. گہرائی بھی ہو۔

اور مصنف نے کمال خوبی سے اپنے افسانوی کرداروں سے قاری کو اسطرح روشناس کروایا ہے کہ کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد…… نہ تو بہاولپور……. قاری کے لیے اجنبی رہا…… اور نہ ہی کتاب میں موجود افسانوی کردار.اور…….. یہ خوبی نہ صرف سفر نامے میں….. بلکہ مصنف کے افسانوں میں بدرجہ اتم موجود ہے کہ مصنف کی تحریر نے….. کہیں بھی قاری کا ہاتھ نہیں چھوڑا اور اسقدر جامع ہونے کی وجہ سے قاری کو ساتھ ساتھ لے کر آگے بڑھتی ہے۔  یہاں تک کہ قاری کو مصنف کے بیان کردہ مقامات سے آشنائی….. اور…….. کرداروں سے انسیت سی ہونے لگتی ہے. اور یہی مصنف ک کامیابی ہے۔

کتاب” بہاولپور میں اجنبی ” نہایت دلچسپ اور معلوماتی کتاب ہے اور یقین کیجیے…. ہر صاحب ذوق قاری کی لائبریری میں ایک گراں قدر اضافہ ہو گی۔اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کتاب کا موضوع اچھوتا اور دلچسپ ہوتا ہے……. مگر اسکی اشاعت بہت سے نقائص لئے ہوتی ہے….. ظاہر ہے………. جسکی تمام تر غلطی اشاعتی ادارے پہ ہوتی ہے.نتیجتا کتاب کا حسن گہنا جاتا ہے اور تکنیکی خامیوں اور پبلیکیشن کی غلطیوں کی وجہ سے قاری کتاب کا مطالعہ کر تو لیتا ہے مگر اس سے مکمل طور پہ لطف اندوز نہیں ہو سکتا.اور زیر نظر کتاب کی پرنٹنگ بھی ہر لحاظ سے بہترین ہے اور قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے۔میں مصنف کو اسقدر دلچسپ اور معلوماتی موضوعات کے چناؤ اور…….. خوبصورت طرز تحریر پہ دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں اور پریس فار پیس فاؤنڈیشن کی یہ کاوش لائق داد و تحسین ہے. ۔

فوزیہ تاج

کالم نگار، شاعرہ

ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل، ہری پور

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact