Wednesday, April 24
Shadow

نصرت نسیم کی کمال منظر نگاری

تبصرہ نگار : سعود عثمانی

میں نے مسودے سے نظر ہٹائی اور فاختاؤں کے جوڑے کی طرف دیکھا جو ابھی ابھی لان میں اپنے لیے رکھے گئے آب و دانہ پر اترا تھا۔وہ میرے مستقل مہمان تھے اور اب مجھ سے مانوس بھی۔مجھے ان کا انتطار رہتا تھا لیکن سچ یہ کہ میرا دھیان اس وقت ان کی طرف نہیں تھا۔ میرا دل تو اس لمحے کوہاٹ اور پشاور کی گلیوں میں گھوم رہا تھامیں مس گراں بازار میں تانبے کے بڑے بڑے پتیلے اور پتیلیاں چمچماتے دیکھتا تھا۔

 مس گراں بازار اندرونِ لاہور کے کسیرا بازار سے ملتا جلتا تھا جہاں میں بچپن میں اپنی امی کی انگلی پکڑے حیرت سے دائیں بائیں جگمگاتے برتنوں کو دیکھتا اور چلتا جاتا تھا۔میں اس سمے خیال کی جس دنیا میں تھاوہاں میں کبھی خود کو کوہاٹ کے ایک ایسے گھر میں دیکھتا تھاجہاں کچالو کے بڑے بڑے پتوں میں تازہ کٹا ہوا گوشت رکھا جاتا تھا اور جہاں تنور سے لپٹیں سرخ اور خمیری روٹیوں کی مہک اٹھتی تھی۔

کبھی میں شاہ پور گاؤں جانے کے لیے راہ کی ندی پار کرتا تھا اور صاف ٹھنڈا پانی میری پنڈلیوں تک مجھے سرد کردیتا تھا۔کبھی دوپہر میں گہری سرخ کانجی، کالی گاجر کے ٹکڑوں کے ساتھ شیشے کے گلاس میں شراب ارغوانی کی طرح میرے سامنے پیش کی جاتی اور کبھی سرد رات کو بڑے بڑے منقش چینی کے پیالے میں دودھ جلیبی مجھے سیراب کررہی ہوتی۔

نصرت نسیم کی خود نوشت’’ بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں‘‘نے میری انگلی پکڑی اور مجھے اس زمانے میں لے گئی جو میں نے بھی کافی حد تک دیکھا ہے۔میں ان شہروں بستیوں اور قصبوں میں پھرتا رہا جن میں سے کچھ میں نے آج تک نہیں دیکھے۔کیسی کمال کی خود نوشت ہے جس میں منظر سامنے آتے جاتے اور پھر منجمد ہوتے جاتے ہیں۔چلتے پھرتے باتیں کرتے کردار  اپنے روپ بہروپ کے ساتھ آپ کو مبہوت کرتے ہیں اور پھر مجسمے بنتے جاتے ہیں ۔جیسے رقص کرتے مور یک دم پتھر کے ہوجائیں اور ان کے ساتھ پس منظر اور پیش منظر بھی پتھرا جائیں۔

نصرت نسیم کی کمال منظر نگاری کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی لیکن میرا ذہن ایک اور نکتے پر ٹھہر گیا ہے۔میرے ذہن میں بہت سی خود نوشتیں گھوم رہی ہیں۔ایک سے بڑھ کر ایک مرقع نگاری اور مرصع نگاری کی بڑی بڑی مثالیں۔دلی، لکھنؤ ،الہ آباد، لاہور،کراچی سمیت بہت سے شہروں کے زمانے،احوال اور شخصیات بیان کرتی خود نوشتیں۔اعلی نثر نگار خواتین کی خود نوشتیں جن میں وہ سارا دور مجسم ہوتا جاتا ہے جن سے وہ گزری تھیں۔کون سا شہر ایسا نہیں جسے تجسیم نہ کیا گیا ہو لیکن کیا ان میں کوئی اعلٰی نثر نگار خاتون پشاور یا کوہاٹ یا خیبر کے کسی شہر یا قصبے سے تعلق رکھتی تھیں؟کیا وہ زمانہ، وہ ثقافت، وہ                                                                                          رسم و رواج جوپشتون نژاد خوب صورت شہروں سے جڑے ہوئے تھے کسی خود نوشت میں کسی خاتون نے بیان کیے؟میں یاد کرتا رہا لیکن مجھے کوئی ایسی خود نوشت یاد نہ آئی۔نصرت نسیم کی خود نوشت ’’بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں‘‘اس تسلسل میں ایک انفرادیت کی حامل ہے ۔

 یہ ان علاقوں کی روداد ہے جن کی اپنی تہذیب اور ثقافت ہے اور جنہیں کسی لکھنے والی نے پہلے اس طرح بیان نہیں کیا ۔ بہترین نثر پر مشتمل اس خود نوشت کی صرف داد ہی نہیں بنتی بلکہ یہ ایک مثال بھی ہے کہ غیر روایتی شہروں کی خواتین جو روایتوں کی جکڑ بندیوں کی اسیر سمجھی جاتی ہیں اگر لکھنا چاہیں تو کس طرح اپنی بات سینکڑوں دلوں میں اتارتی ہیں۔

اگر میرا خیال درست ہے تو یہ خالص اور اعلی اقدار والے پشتون گھرانے سے تعلق رکھنے والی کسی تعلیم یافتہ خاتون کی اعلی اردو میں پہلی خود نوشت ہے۔نصرت نسیم نےخوب صورت لب و لہجے اور اسلوب میں یہ خودنوشت ایسے خوبصورت لفظوں میں گوندھی ہے کہ ان پر اہل زبان ہونے کا گمان گزرتا ہے۔

فاختاؤں کا جوڑا دانہ چگ کر اڑ چکا ہے اور میں مسودے میں یعنی انہی گلیوں بازاروں میں گم ہوں اور اپنے خیالوں میں مصنفہ سے مکالمہ کرتا ہوں۔نصرت نسیم !دنیا میں آتے جاتے کرداروں کا تانتا تو یونہی بندھا رہے گا۔لکھنے والے اپنے حصے کے لفظ لکھتے رہیں گے لیکن قابلِ مبارک ہیں وہ لفظ جو دل سے نکلیں اور دل تک پہنچیں۔جو ماضی کو ساتھ لائیں تو حال میں بھی جگمگائیں اور مستقبل بھی ان کی روشنی سے روشن ہو۔

بہت مبارک نصرت نسیم!

سعود عثمانی

لاہور

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact