Thursday, April 25
Shadow

وادی باغسرپر ایک نظر نازیہ آصف

نازیہ آصف

naziaasifadv@gmail.com

چند ماہ پہلے وادی باغسر سے ایک دعوت نامہ ملا۔دعوت دینے والے صوبیدار(ر)صغیر احمد صاحب تھے۔ ایک ایسی وادی سے دعوت نامہ موصول ہو جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہو تو ایسی دعوت کو ٹھکرانا کفران نعمت کے مترادف ہو گا۔ اگست کا مہینہ تھا اور موسم برسات کی جولانیاں اپنے عروج پر تھیں۔ وادی باغسرجانے کیلئے سفر کا آغازصبح دس بجے اسی تاریخی روڈ یعنی بھمبھر روڈ سے ہوا جو صدیوں سے کشمیر جانے والے قافلوں کی گزر گا ہ رہا۔بھمبھر روڈ کو ماضی میں کئی ناموں جیسے مغل روڈ،نمک روڈ اور بادشاہی روڈ کے نام سے بھی پکاراگیا۔ بادشاہی روڈ کے نام سے گجرات میں ابھی بھی اس روڈ کے آثار موجود ہیں جو کبھی مغل بادشاہوں کی گزر گاہ رہی تھی۔گجرات سے نکل کر یہی روڈ لادیاں جیسے تاریخی قصبے کو بائی پاس کرتے ہوئے برنالہ چیک پوسٹ سے گزرتے ہوئے بھمبھر پہنچتی ہے۔ برنالہ پنجاب کی آخری چوکی ہے۔ یہاں سے آگے آپ کو ہر چیز بدلی ہوئی لگتی ہے۔ آب و ہوااور درختوں کی نوعیت سب بدل جاتا ہے۔ اگلا شہر بھمبھر تھا۔

بھمبھر کے بارے میں آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ کبھی راجہ بھیم سنگھ کی ریاست کا دارالحکومت تھا۔جس کی مناسبت سے اسے بھیم پور بھی کہا جاتا تھا جو بعد میں مختصر ہو کر بھمبھر بن گیا۔یہ آزاد کشمیر کے دس آزاد اضلاع میں سے ایک ہے۔اسے باب کشمیر بھی کہا گیا ہے۔ کیونکہ یہاں میدانی علاقہ ختم اور کشمیر کی اصل خوبصورتی،پہاڑی علاقے اور ان پر چیڑ کے درخت ہیں،جن کی سلگتی خوشبوآپ کو آغاز سفر میں ہی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔یہاں سے ایک ندی نالہ جسے عرف عام میں بھمبھر نالہ کہا جاتا ہے آپ کے ہمراہ ہو لیتا ہے۔ یہی کشمیر کے تمام علاقوں کی خوبصورتی ہے کہ آپ کاغان جاؤ تو دریائے کنہار،وادی نیلم جاؤ تو دریائے نیلم اور اگر سوات کے علاقوں کی آوارہ گردی کرو تو دریائے سوات آپ کے ساتھ ہو لیتا ہے۔یہی نظارے دریائے پونچھ کے بھی ہیں۔ ایک طرف بلند و بالا پہاڑ تو دوسری طرف عمیق گہرائیوں میں چنگاڑتے یہ دریا،خوبصورتی اور خوف مل جائیں تو یہ حسن کو دوبالا اور یاد گار بنا دیتے ہیں۔فطرت کا یہ اصول ہے کہ اسے جتنا تلاشو یہ اتنی خوبصورتی آپ پر وا کرتی جاتی ہے۔حیرت کے در کھلتے جاتے ہیں۔مگر رکیے!

صوبیدار(ر)صغیر احمد صاحب

اس وادی میں سفر کرنا آسان نہیں۔چیک پوسٹ پر فوجی بھائی نے روک لیا۔ضروری چیکنگ کے بعد آگے جانے دیا مگر یہ فریضہ پہلی یا آخری دفعہ ادا نہ ہوا۔متعدد جگہوں پر یہی کچھ دہرایا گیا۔ابھی جب ہم وادی باغسر سے چند کلو میٹر دور تھے تو اس طرح ایک چیک پوسٹ پر ایک فوجی بھائی نے ہمارے شناختی کارڈ لے کر اپنا کارڈ جس پر ایک نمبر لکھا ہوا تھا۔ہمیں تھما کر چلتا کر دیا۔آگے پھر وہی صورتحال وہاں پر یہ کارڈ بھی لے لیا گیا۔اب ہم مکمل بے شناخت تھے(نہ پاکستانی نہ کشمیری)۔مگر یہ سب ہمارے تحفظ کے لئے تھا کہ یہ وادی عسکری لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔یہاں سے سما  ہنی سیکٹر کا علاقہ شروع ہوتا ہے تو یہ کاروائی نا گزیر تھی۔ اب وادی شروع ہو گئی تو ایک پیالہ نما مختصر سی وادی جس میں مکئی کے کھیت جابجا پھیلے ہوئے تھے۔گاڑی کو ادھر ہی ایک مختصر سی انڈہ نما سفید عمارت کے قریب روکنا پڑا۔عمارت کچھ سرکا ری سی لگ رہی تھی اور یہیں سے پیدل سفر شروع ہوا اور ہم متعدد خوبصورت ندی نالوں کو پھلانگتے آم اور آملے کے درختوں کے پاس سے ہوتے اور چند پتھریلی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد صوبیدار صاحب کے خوبصورت لان میں آن پہنچے۔جہاں وہ ہمارے منتظر تھے۔کرسیوں پر بیٹھتے ہی پہلی نظر جو اوپر اٹھی تو واپس لوٹنا بھول گئی۔باغسر جھیل ،

مجھے ایک دم گناہ کا احساس ہوا کو اتنی خوبصورت جھیل ہمارے قدموں میں بچھی جا رہی ہے۔جھیل کی سطح پر کھلے خوبصورت کنول کے پھول، آس پاس سرخ ٹیولپ کے کھیت،مرغابیوں کی ڈاریں اور کنارے پربیٹھ کر کپڑے دھوتی وہ چند عورتیں۔میری زندگی کی یاد گار خوبصورتیوں میں اضافہ کر رہی تھیں۔ صوبیدار صاحب جنھوں نے مکمل ایک فوجی زندگی گزاری تھی،  اب فرصت انجوائے کر رہے تھے۔انھوں نے بتایا کے یہ جھیل تقریبا نصف کلو میٹر لمبی ہے اور اس کے ماخذ نا معلوم ہیں یعنی اس کے آس پاس کوئی گلیشئیر نہیں ہے۔یہاں کے لوگوں نے کمال عقل مندی سے کام لیا ہے کہ گھر وادی میں ہموار سطح پربنانے کی بجائے تین سے چار سو فٹ اونچی جگہ پر بنائے ہیں اور ہموار سطح کھیتی باڑی کے لئے استعمال کی ہے۔ ورنہ ہم نے اکثر وادیوں میں اس کے برعکس پایا ہے۔ ایک خاص بات یہ بھی دیکھی کہ ہر گھر کا ایک اپنا کچن گارڈن اور اپنی مرغیاں تھیں۔ اب وادی میں چیڑ کی بو پھیلنے لگ گئی تھی۔مرد اور بچے سب بڑی بڑی چادروں میں ملبوس گھروں کو لوٹنے لگ گئے تھے کہ وادی میں شام اتر رہی تھی۔ ایک چیز دیکھ کر دکھ ہوا کہ وادی میں بجلی تو ہے مگر وولٹیج انتہائی کم ہے کہ پنکھا بھی صحیح سے نہ چل پائے۔ مگر مچھر بہت صحت مند تھا۔بہر حال رات خنک تھی تو کمبل میں زیادہ پریشانی نہ ہوئی۔اگلی صبح مزیدار سے ناشتے کے بعد آغاز سفر سے پہلے لان میں کھڑے ہو کر ایک نظر قلعے پر ڈالی تو سطح سمندر سے 975 میٹر کی بلندی پر ایستادہ،چیڑ کے درختوں کے جھنڈ میں گھرا عظمت رفتہ کی یاد گار قلعہ باغسر۔میں نے چشم تصور میں دیکھا کہ مزدور کیسے اینٹیں پتھر اٹھا کر لا رہے تھے اور سطح مرتفعی سے چلنے والے، نمک سے لدے گھوڑے گاڑیاں یہاں سے گزر رہے ہوں گے اور قلعے کے ان اونچے برجوں پرجانباز کمانیں اٹھائے ان کے مخافظوں کا کام سر انجام دے رہے ہوں گے۔اس زمانے میں نمک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جب سلطان علاؤ الدین خلجی  نے معیشت اور فوج کو مضبوط بنانا چاہاتو سب سے پہلے غلے کی قیمتوں پر قابو پایا  تو نمک کی قیمت فی من 5سیر 1 جیتل رکھی تھی۔

 سب لوگ تیار ہو گئے کہ قافلے کو پیدل روانہ ہونا تھا۔ایک کار کا وہاں تک جانا بہت مشکل تھا۔

پہلا سنگ میل

قلعہ باغسر،فاصلہ اڑھائی کلو میٹر”یعنی اڑھائی کلو میٹر سیدھی چڑھائی۔دس بج چکے تھے۔ بادل چھائے ہوئے تھے اور آٹھ لوگوں پر مشتمل یہ قافلہ سر سبز درختوں میں گھرے کچے پکے پتھریلے راستے پر رواں دواں تھا۔وادی میں سویلین آبادی کی نسبت فوجی بھائی پھاوڑے،بفلچے اٹھائے کام کرتے زیادنظر آئے۔آدھا سفر طے ہوا ہوگا کہ اس عمودی راستے کے ایک طرف جہاں گہری کھائی تھی۔ وہاں سے کسی خاتون کا سر برآمد ہوا تو میں چونک گئی۔آگے ہو کر دیکھا تو تقریبا ایک پچاس سالہ خاتون جو اس عمودی چڑھائی کے باہر کی طرف نکلی نوکیلی چٹان پر کھڑی تھی۔جس نے ایک ہاتھ میں درانتی تو دوسرے ہاتھ پر کپڑا باندھ کر تھیلا سا بنایا ہوا تھا۔جس میں وہ اپنی بھینس کے لئے چارہ کاٹ کر رکھ رہی تھی۔بقول اس خاتون کہ ”اب میں بوڑھی ہو گئی ہوں،پہلے سات بھینسیں سنبھالتی تھی اب صرف ایک“مگر یہ قول اسی پر صادق آ سکتا تھاورنہ اس خوفناک کھائی میں کسی کے کھڑے ہونے کی اتنی جرات نہ تھی۔سورج ہمارے سر پر آ چکا تھا۔پیدل چلتے ہوئے کافی گرمی لگ رہی تھی مگر بچوں سمیت ہم سب کا جوش دیدنی تھا۔ہوا کی سرسراہٹ کانوں کو بہت بھلی لگ رہی تھی۔ ایک نامعلوم سی خوشبو سانسوں میں رچ بس گئی تھی۔اب جو ایک چکر اس پہاڑ کے گرد مکمل ہوا تو قلعہ باغسر ہمارے سامنے تھا۔مگر ٹھرئیے!

 پہلے اس قبر پر فاتحہ پڑھئیے۔پتہ چلا کہ یہ قبر بادشاہ جہانگیر کی ہے۔یہ تو حقیقت ہے کہ مغل بادشاہوں کو کشمیر بہت پسند تھا۔ بادشاہ جہانگیر کشمیر سے واپس آتے ہوئے راجوڑی کے قریب 1627ء میں وفات پا گیا تھااور اس کی لاش کو یہاں صاف کر کے اس کی آنتیں یہاں دفن کی گئی تھیں .             ۔ یعنی شاہ جہانگیر کی آنتوں کی قبر پر فاتح پڑھی گئی۔بادشاہ جہانگیر کی ایک فرسودہ حال قبر گجرات شہر کے مشرق کی طرف بھی واقع ہے۔غالبا وہاں بھی اس کے کچھ حصے مدفون ہوں گے۔وہاں بھی ایک دو بار جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں اندر باہر ویرانی برستی ہے۔ اللہ کے ولیوں اور بادشاہوں کے مزارات میں یہی تو فرق ہوتا ہے۔ اس کا اصل مزار تو (شاہدرہ)لاہور کے قریب واقع ہے۔ اب قلعے کا شاندار دروازہ ہمارے سامنے تھا جو  اندر سے مقفل تھا۔ صوبیدار صاحب کے بقول یہاں مقامی طور پر ایک بات مشہور ہے کہ اس قلعے کے معمار،باپ بیٹے ایک سال بعد ملتے یعنی ایک چکر سال بعد مکمل ہوتا (واللہ العلم)۔ہوا بھی اب گرم ہو گئی تھی۔گرمی چبھنے لگ گئی تھی مگر شوق دا کوئی مل نہیں۔دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک فوجی بھائی نے دروازہ کھولا اور نو اینٹری کا مژدہ سنایا۔ہم نے اسے بتایا کہ ہماری ساری شناختیں تو آپ کے بھائی راستے میں لے چکے۔اب آپ کو ہماری زبان پر یقین کرنا ہوگا۔ہم تاریخ و ادب کے دلداد ہ و طالب علم،اتنی دور سے اور کٹھن سفر پیدل طے کر کے آئے ہیں۔قلعے کی زیار ت کے بغیر واپس جانے والے نہیں۔ہم یہاں دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔اپنے بڑوں سے کہیں ہمیں اندر آنے کی اجازت دیں۔وہ ”جی“کہہ کر اندر چلا گیا۔ ہم دروازے کے سامنے پیر پھیلائے،چبھتی ہوئی گھاس پر براجمان  تھے اور ہماری نظریں قلعے کی مہیب، پر شکوہ عمارت پر تھیں۔کہا جاتا ہے کہ اس قلعے کا پرانا نام امر گڑھ بھی تھا۔اس کی تعمیر کے متعلق کوئی مصدقہ حقائق دستیاب نہیں ہیں۔ روایت ہے کہ 1586ء میں بادشاہ اکبرکے جرنیل قاسم خان نے جب کشمیر قتح کیا تو اس نے شاہراہ نمک کی حفاظت کے لئے یہ قلعہ تعمیر کروایا۔ دوسری رائے کے مطابق فرانسیسی مورخ برنیرنے 1665ء میں بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے ساتھ اسی بادشاہی یا نمک روڈ پر سفر کیا۔مگر کسی قلعے کا ذکر نہیں کیا۔درحقیقت قلعے حفاظتی نقطہ نظر سے ہی بنائے جاتے ہیں۔یہاں ریاست کشمیر سے برصغیر کے داخلی راستوں پر بنائے گئے اکثر قلعے مقامی حکمرانوں نے ہی تعمیر کروائے ہیں۔تو شائد مغل بادشاہوں کے ساتھ سفر کرنے والے سیاحوں نے بھی اپنے سفر نامےG.T.Vigne اسی لئے انھیں در خور اعتناء نہ سمجھا ہو اور قلعہ باغسر بھی اسی نقطہ نظر کا شکار ہو گیا ہو۔لیکن

(Travel in Kashmir,Ladakh and Skardu,published in 1842                       ,London)  

میں لکھتا ہے کہ

اسے دھیان سنگھ نے تعمیر کروایا۔جو رنجیت سنگھ کا وزیر اور ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ کا بھائی تھا۔بہر حال کسی بھی حکمران نے اسے تعمیرکروایا ہو عزم و ہمت کی مثال دوہری فصیل اور آٹھ ہشت پہلو برجوں پر مشتمل یہ عمارت،انسانی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہمارے سامنے تھا۔ دوہری فصیل میں گھومتے اس شاندار دروازے کے قفل کھلنے کی آواز کے ساتھ وہی فوجی بھائی بر آ مد ہوا اور ہمیں اندر آنے کے لئے بولا۔ لکڑی کے بنے اس شاندار دروازے سے داخل ہوئے تو ایک وسیع ڈیوڑھی سے گزرتے ہوئے دالان میں آ پہنچے تھے۔دالان کے اطراف میں مختلف کمرے اور درمیان میں باؤلی (پانی کا کنواں)ہے۔ جو یقینا قلعے میں پانی کی ضروریات پورا کرتی تھی۔ اتنی اونچائی پر کھدائی اور پانی کا برآمد ہونا خداکی قدرت کی نشانی ہے۔اب یہ باؤلی بارش کے پانی سے بھری ہوئی تھی جس پر سبز کائی جمی ہوئی تھی۔ہمارے داہنی جانب کے کمرے کا دروازہ کھولا گیا تو خوبصورت آرائشی محرابوں پر نظر پڑی۔مگر ساتھ ہی دیواروں پر کیا گیا آرئشی کام ہندو ثقافت کا آئینہ دار تھا۔ جو انگریز سیاح کے بیان کی تائید کرتا ہوا محسوس ہوا

اسی طرح آگے بڑھتے ہوئے ایک اور وسیع و عریض کمرے میں جھانکا۔جس میں خوبصروت جھروکے اور ایک بالا خانہ بھی تھا مگر اسے بالا خانے کی سیڑھیاں مفقود تھیں۔ تاریخ کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ اس کے آگے سب ہیچ ہے۔ سب کو کھا جاتی ہے،کیسے کیسے نامی گرامی طویل سفر کے بعد یہاں قیام پذیر ہوئے ہوں گے۔مگر پھر راستوں پر گھاس اگ آئی اور محل کھنڈر بن گئے۔ اسی طرح فوجی بھائی کی معیت میں ایک اور کمرے کا دروازے ہمارے لئے کھولا گیا تو اس وادی میں رہنے والوں کو  داد دئیے بغیر نہ رہ سکے کیونکہ وہ کمرہ ان گولوں کے خول سے بھرا پڑا تھا،جو بھارتی افواج گاہے بگاہے ہماری آبادی پر برساتی رہتی ہے۔جس کا نشانہ کبھی انسان تو کبھی حیوان بنتے ہیں۔اسی طرح گھومتے گھومتے قلعہ کی قصیل پر جا پہنچے تو سر سبز چیڑ کے پیڑوں سے سرسراتی ہوا میں گرمی کی شدت نہ ہونے کے برابر تھی۔بادل ٹولیوں کی صورت میں اڑتے پھر رہے تھے۔محض چند گز کے فاصلے پر ایک بڑے پہاڑ پر انگریزی پی لفظ لکھا ہوا تھا۔جس کا مطلب تھا کہ یہاں پر پاکستان کی سرحد ختم ہو رہی ہے۔سرحد کے اتنا قریب آبادی کا ہونا گویا دشمن کی توپ کے دہانے پر بیٹھنے کے مترادف ہے۔ اونچے برج جہاں کمین گاہوں کا کام دیتے تھے۔ وہیں اس فصیل کے قریب آنے والوں پر گرم تیل یا پانی بھی انڈیل دیا جاتا تھا۔متعدد جگہوں سے قلعے کی فصیل ٹوٹی پھوٹی نظر آئی جو یقینا دشمن کی گولہ باری کا شکار ہوئی ہو گی۔مگر قلعہ کی اس فصیل نے ہمیشہ مکینوں کا دفاع کیا اور اس دہشتگردی کو اپنے تک محدود رکھا۔ دنیا کو اب گلوبل ویلج کا نام دیا گیا ہے مگر میرا خیال ہے کہ اس وقت بھی دنیا گلوبل ویلج سے کم نہ تھی۔ جب بدخشاں،ثمر قند اور قندھار سے چلنے والے قافلے گھنٹیاں بجاتے انہیں گزر گاہوں اور سرایوں میں قیام کرتے لاہور اور گنگا جمنا وادیوں میں پڑاؤ ڈالتے ہوں گے۔قلعے سے چند گز نیچے مغرب کی جانب کسی مسجد کے آثاربھی ملتے ہیں۔جس کی اب صرف ایک دیوار اور بوسیدہ سی محراب باقی تھی۔  

باغسر جھیل کے کنارے چھوٹی سی سفید مسجد بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی اور وہ گھونسلا نما پہاڑ کے ساتھ لٹکی ہوئی دو کمروں پر مشتمل عمارت ہسپتال تھی۔جو ہر طرح کی ناگہانی صورت میں ایک بڑی پناہ گاہ تھی۔ یہاں وادی کی زمین تو لوگوں کی ملکیت تھی مگر ہر پہاڑی چوٹی فوج کے نام ہے۔ صوبیدار صاحب جن  کی عمر اب نوے کے قریب ہے اب بھی چاک و چوبند ہیں۔جن کا جنگلی حیات ونباتات کا علم کسی قیمتی خزانے سے کم نہیں۔ واپسی کے لئے مختصر راستے کا انتحاب کیا گیاجو مختصر تو تھا مگر خطرناک تھا۔ کسی بھی کیڑے کی ہلکی سی آواز بھی ہمیں ڈرا دیتی تھی کہ بقول صوبیدار صاحب یہاں ایسی قسم کے سانپ بھی پائے جاتے ہیں۔جن کے کاٹنے کے بعد انسان چند پل بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔البتہ بنفشے کے سفید پھول صحت اوور زندگی کی علامت ہر طرف گچھوں کی صورت میں بکھرے پڑے تھے۔جنھیں ہم نے مٹی کے باموں میں بند کرنے کی نیت کے ساتھ اگلے سال پھر آنے کا وعدہ کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact