تحریر : فوزیہ ردا (کولکاتا)
محترمہ عندلیب راٹھور کا تعلق کشمیر ،  پاکستان سے ہے وہ نہ صرف ایک بہترین شاعرہ ہیں بلکہ ایک سوشل ورکر کی خدمات بھی انجام دیتی ہیں- وہ اعلی اخلاق کی حامل ایک ایسی شاعرہ ہیں جن کے دل میں کمزور اور لاچار لوگوں کے لئے بے پناہ ہمدردی کا جذبہ پوشیدہ ہے۔ ان کے چہرے پر ہمہ وقت سجی ایک مسکراہٹ بیمار دل اور پریشان حال شخص کو خوشی کے احساس سے ہمکنار کر دیتی ہے- وہ ایک بے حد مخلص اور سچی خاتون ہیں جو عام طور پر خواتین میں پائی جانے والی بنیادی خامیاں جیسے ہم عصر شعرا سے حسد اور خود کو نمایاں کرنے کی چاہت وغیرہ سے بہت دور ہیں- ایسی بے لوث شاعرہ اور خوبصورت شخصیت یقینا قوم کے لئے باعثِ فخر ہیں- یہ محبت کرنے والی خاتون ہیں۔ محبتیں بانٹنے والی شاعرہ ہیں اور سماج کو مثبت پیغام پہنچانے والی باکمال شاعرہ ہیں- ان کے یہ اشعار ان کی شاعری کی بہترین ترجمانی  کرتےہیں

خود سے پوچھے بنا محبت کی
اور بھگتی سزا محبت کی

اس نے تو سرسری سا پوچھا تھا
میں نے دل سے کہا محبت کی

لوگ پتھر دکھائیں گے  تجھ کو
بات کر تو ذرا محبت کی

محبتوں سے گندھی عندلیب راٹھور اپنی شاعری میں حالات کو خوبصورتی اور پوری ایمانداری و سچائی سے پیش کرتی ہیں- وہ محض لوگوں کی داد پانے کے لئے شاعری نہیں کرتیں بلکہ حقیقتاً اپنی شاعری کے ذریعہ عوام کے درد کو سامنے لانے کی کوشش کرتی ہیں- ایک عام غریب انسان کی تکلیف ان کی اپنی تکلیف بن جاتی ہے- وہ اپنے جذبات کو بڑی سادگی اور موثر انداز میں اشعار میں ڈھال لیتی ہیں- ان کی یہ نظم خانہ بدوشوں کے درد کو سمیٹ لیتی ہے-

نظم
“خانہ بدوشی”

جسم میں روح ہے مری خانہ بدوشوں کی طرح
جانے کس لمحے نکل جاۓ پہاڑوں سے ادھر
پھر نہ آے کچھ خبر
بس یہی کچھ  سوچ کر
 باقی جتنے پل بچے ہیں کر دئے خانہ بدوشوں کے سپرد
یعنی میرا جینا مرنا سب انہی کے ساتھ ہے
اور یوں بھی زندگانی تو خدا کے ہاتھ ہے

عندلیب راٹھور کے دل میں کشمیر کا درد  اور اس کے بٹوارے کا دکھ نمایاں نظر آتا ہے- عندلیب  راٹھور شاعری کے میدان میں قلم ہاتھ میں اٹھائے جہاد کرتی نظر آتی ہیں ۔ یہ بڑے سکون سے اشعار تخلیق کرتی ہیں اور یہ اشعار سامع کی دل کی گہرائیوں میں بے اختیار اترتے چلے جاتے ہیں۔ عندلیب صاحبہ عوام کی آواز بن کر ابھری ہیں- صحیح معنوں میں یہی ایک سچے تخلیق کار کا فریضہ و شیوہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے کلام سے عوام کو کتنا فائدہ پہنچا سکے اور انہیں ان کا حق دلانے میں ان کی آواز میں آواز ملا کر ان کے ساتھ کھڑا ہو- عندلیب جی کی ایک غزل مجھے بے حد پسند ہے اور میں ہر محفل میں ان سے یہ کلام سننے کی فرمائش کرتی ہوں –

ہر قدم اٹھتا ہے سیدھا اس طرف
کوئی تو رہتا ہے میرا اس طرف

آدھا دریا ساتھ چلتا ہے مرے
 اور  باقی  آدھا دریا اس طرف

پھول رکھنا اس کے قدموں میں صباء
جو بھی رہتا ہے ہمارا اس طرف

 ان سے کہنا  کوئی ان کا ہے  یہاں 
اے ہوا تو جب بھی جانا اس طرف

چوڑیوں کے کھنکنانے کی صدا
روز کرتی ہوں روانہ اس طرف

 ہم پریشاں ہیں ادھر ان کے لیے
حال کچھ ایسا ہی ہوگا اس طرف

 میرے دل تک روشنی آتی رہی
یوں دیا اس نے جلایا اس طرف

کیا کروں اٹھکیلیاں میں عندلیب
جب ہے  میرا باغ سارا اس طرف   

ان کی ایک نظم جس میں انہوں نے ملک کے سرحدوں پر خوبصورتی سے چند سطور پیش کئے ہیں-

نظم
“مغرب سے  مشرق تک”

مغرب اور مشرق دونوں
اک جیسے کی ضد ہوں جیسے
ان ملکوں میں سرحدیں تو ہوتی ہیں پر آنے جانے کی دشواری کب ہوتی ہے
اور اک ہم یہ مشرق والے
جہاں جہاں سرحد آتی ہے 
وہاں وہاں ہم کانٹوں سے دیوار اٹھا کر خوش ہوتے ہیں
پھر کہتے ہیں مغرب  والے لوگ بھی کوئی لوگ ہیں بولو

کتنی پیاری نظم ہے یہ ۔کیا واقعی ہم کبھی سرحدوں کی بندشوں سے آزاد ہونگے؟  کیا ایسا دن بھی آئے گا جب ہم بنا کسی رکاوٹ کے سرحد پار کر جائیں گے اور اپنے بھائیوں اور بہنوں سے گلے مل سکیں گے؟ان سب سوالات کو ابھارتی ہوئی  اس نظم کے لئے میں شاعرہ  کو مبارکباد پیش کرتی ہوں- ان کی ایک نظم “ہوا” بھی قابلِ غور ہے جس میں انہوں نے ملک کے حالات کی اور تعصب پرستی پر بڑی کوملتا سے چوٹ کی ہے-

نظم
“ہوا “

ہوا بھی عجب ہے
 خراماں خراماں یہاں سے وہاں 
سبھی کے لیے اپنے دامن میں سانسیں لیے چل رہی ہے
نہ ظالم  کی دشمن نہ مظلوم کی
 برابر کا انصاف کرتی ہوئی
کوئی ہندو مسلم نہیں دیکھتی ہے
ہوا بھی عجب ہے

عندلیب نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر لکھتی ہیں بلکہ ان کے کلام میں رومانویت اور تغزل کے عناصر بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار کے مصرعے بڑی چابکدستی سے بُنے ہوتے ہیں- ہر شعر میں نئی بات ہوتی ہے۔ منفرد انداز اور تیکھا و دلکش لہجہ ان کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں- ان کی اس غزل کے یہ اشعار دیکھیں-

چاۓ کا کپ وہ شام یاد بھی ہے
کیا تمہیں میرا نام یاد بھی ہے

ہاں میرے ساتھ کام تھا نا تمہیں
اب تمہیں اپنا  کام یاد بھی ہے

 وہ کہانی کہ جس میں دونوں تھے
اس کا وہ اختتام یاد بھی ہے

جو تیرے آنے پہ میں کرتی تھی
وہ مرا اہتمام یاد بھی ہے

مختصر بحر میں عندلیب صاحبہ کو کمال حاصل ہے۔ ان کا ہر شعر بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے- یہ سہلِ ممتنع کی شاعرہ ہیں۔ آسان لفظوں میں بے اختیارانہ انداز جس میں جذبات کا والہانہ پن بھی ابھر کر سامنے آتا ہو, ان کے کلام کی اہم خوبیاں ہیں-
ان کے چند نمائندہ اشعار بھی قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں

بظاہر ہے بہت اچھی حویلی
مگر اندر سے  زہریلی حویلی

ہماری خواہشوں کو کھا گئی ہے
کسی  زندان کے  جیسی  حویلی

پرندے گیت گاتے پھول کھلتے
اے کاش ہوتی کبھی  ایسی حویلی

کسی بھی جیل کو دیکھو تو جانو
 اگر تم نے نہیں دیکھی حویلی

یہاں پتھر کے جیسے لوگ سارے
ہے یوں بھی ساری پتھر کی حویلی

یہاں میں ہوں  یا اک صیاد میرا
کوئی آتا نہیں میری حویلی 

عندلیب صرف عشق و محبوب کی شاعری نہیں کرتیں بلکہ ملک اور قوم کی فلاح کے لئے بھی آواز اٹھاتی ہیں اور حکومت سے اپنے مطالبات کا تقاضا کرتی نظر آتی ہیں
ان کی یہ نظم اس بات کی تصدیق کرتی ہے-


نظم

“عالمی رہنماؤں سے”

 عالمی رہنماؤں کی ہو خیر
جن کے کاندھے پہ ساری دنیا کی
ذمے داری کا بوجھ ہے یوں بھی
کونسی کمپنی کو لانا ہے
 کونسی مٹا کے چھوڑنا ہے
اسلحے کے یہ سب کے سب انبار
 کس ملک کو ضرور بیچنے ہیں
کتنی فصلوں کو کتنے پھولوں کو
 زہر آلود کرنا ہوتا ہے
کس کو قرضے کے نیچے لانا ہے
کس کی گردن میں طوق ڈالنا ہے
یعنی ہر راستے کو جانتے ہیں 
عالمی رہنماؤں کو لیکن
امن کا راستہ ہی یاد نہیں                                                                   

آج ملک میں دہشت گردی ہے- نوجوان ہاتھوں میں اسلحہ اٹھائے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں اور اپنی جان گنوا رہے ہیں- عندلیب جی نے ایسے ہی ایک اسلحہ پر اپنے خیالات کو پیش کیا ہے-

نظم

“بندوق”

سرحدوں
کے درمیاں رکھی ہوئی بندوق نے 
دو دلوں کو آج تک
ایک سینے میں نہیں رہنے دیا
اس طرف والوں نے یوں بھی اس طرف کے عشق میں
پیار کے دو بول کہنے تھے مگر
بیچ میں رکھی ہوئی بندوق نے سینے ہی چھلنی کیے
اور وہ اس سے زیادہ کر بھی کیا  سکتی بھلا                                           


کب کسی کی بھی حیا کرتے ہیں
لوگ تو لوگ ہوا کرتے ہیں

 تجھ کو جلدی ہے بچھڑ جانے کی
جا تجھے خود سے جدا کرتے ہیں

 ہم چراغوں کی محبت میں یہاں
ان  ہواؤں  سے لڑا کرتے ہیں

 ہم تو وہ ہیں جو یہاں ڈوبتے وقت
ناخداؤں سے گلہ کرتے ہیں

  ہاں سہولت سے تری جاں جاۓ
 ہم تیرے حق میں دعا کرتے ہیں

 ہاۓ وہ پیڑ گرايا  کس  نے
ہم جہاں  آ کے رکا کرتے ہیں

 کل کسی دشت میں آے تھے نظر
آپ جس  تس سے جفا  کرتے ہیں

 میں ایک طرف عندلیب راٹھور صاحبہ کی نظمیں پڑھ کر متاثر ہوتی ہوں تو دوسری طرف جب ان کی غزلیں نظر سے گذرتی ہیں تب میں ان کی مہارت اور مشاقی کی قائل ہوجاتی ہوں- کتنی خوبی سے یہ چھوٹی بحور کی غزل نبھا جاتی ہیں اور بھرپور اظہار کا سلیقہ بنائے رکھتی ہیں- 
عندلیب صاحبہ کے لئے میں اپنی مقدور بھر جتنا بھی لکھ پائی یہ میری خوش قسمتی ہے ورنہ سورج کو چراغ دکھانا کس کے بس کی بات ہے- اللہ محترمہ عندلیب صاحبہ کو ادب کا چمکتا و دمکتا ستارہ بنائے اور انہیں عوام کی خدمت کے صلے میں دنیا و آخرت میں بہترین اجر عطا فرمائے- آمین!

One thought on “درد کی شاعرہ۔۔۔ عندلیب راٹھور تحریر : فوزیہ ردا”
  1. Qalam ki nok ne alfaazon ko kis qadar khubi se taraasha hai . Waadi ka husn ke peeche daabee aahaiN bhi goongh uthiN haiN aap ki tahreeroN mai.
    Sone pe suhaaga aap ke tehreeri husn ko meeraaj ki bulandi ataa ki hai mohtarma fauzia Rida ne

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact