Thursday, April 25
Shadow

تذکرہ ایک ماحول دوست ادیب کا| تحریر : مظہر اقبا ل مظہر

مظہر اقبا ل مظہر
پائیدار ترقی اور ماحولیاتی مسائل پر معاصر ادیبوں کی توجہ کم ہی جاتی ہے۔ تاہم یہ ایسے موضوعات ہیں جو بڑھتی ہوئی بیداری کے تناظر میں حالیہ برسوں میں ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ایک ادیب اپنےارد گرد کے  ماحول سے متاثر ہوکر اپنی سوچ ، فکر ، مطالعے اور رجحان کی وجہ سے ادب تخلیق کرتا ہے۔ موجودہ دور میں ماحولیاتی مسائل  تیزی سے بڑھے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ماحول سے جڑے موضوعات پربھی  اب دنیا کا بہترین ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ یہ تذکرہ ہے ایک ایسے ادیب کا جو اپنے  خوبصورت سفرناموں میں ہمارے ارد گرد کی ان سچائیوں  پر قلم اٹھاتے ہیں جن کا تعلق  تہذیب، ثقافت اور تاریخ کے ساتھ ساتھ ہمارے ماحول سے بھی ہے۔
جاوید خان اردو نثر لکھتے ہیں اور ضلع پونچھ راولاکوٹ سے تعلق کی وجہ سے  ٹھیٹھ  پہاڑی بولتے ہیں۔منصور آفاق کے الفاظ میں شبنم کے موتیوں سے بھرا  یہ وہی راولاکوٹ ہے جس کے ہر سنگ میں چشم آب دار دکھائی دیتی ہے۔ جاوید خان   درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔  بطور سفرنگار ان کی  پہچان جنم بھومی تک ہی محدود  نہیں بلکہ   خط متارکہ  کے آرپار بھی ہے۔  اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جن موضوعات پر انہوں نے  قلم اٹھایا وہ سرحدوں کے تابع نہیں ہیں۔ مجھے ان کی تحریروں سے ایک ایسے ادیب کی جھلک دکھائی دیتی ہے جو ماحول دوست ہی نہیں بلکہ ماحول پرور بھی ہے۔
راولاکوٹ کے مخصوص پہاڑی لہجے میں بات کرنے والے جاوید خان موجودہ دور میں  خطہ کشمیر سے تعلق رکھنے والےبہترین نثر نگاروں میں شامل ہیں۔”ہندوکش کے دامن میں”  “جہاں کیلاشابستے ہیں ” اور ” عظیم ہمالیہ کے حضور” لکھ کر اپنی مٹی سے لازوال محبت کی داستان رقم کر چکے ہیں۔ چترال و کیلاش کے پہاڑوں کا ذکر ہو یا  وادئ کمراٹ کی پگڈنڈیوں کا ،  پیر پنجال  کی  برف پوش چوٹیوں کی بات ہو   یا   بالاکوٹ اورناران   کی آبشاروں کی ،  جسّہ پیر پہاڑی کے عقب میں دھند میں لپٹے سورج کی کتھا ہو یا  برف کی چارد میں لپٹے تولی پیر کاتذکرہ ،  کس میر کی سرکش ندیوں اور غضبناک نالوں  کے قصّے ہوں یا  دھیرکوٹ کے شوریدہ سر برساتی چھبّروں کی کہانی،  جاوید خان کا قلم صرف مٹی سے محبت کی داستانیں رقم کرنا جانتا ہے۔
وہ جس سلیقے سے اپنی  مٹی پر چلتے  ہیں اس سے کئی زیادہ ہنرمندی سے اس کی سجاوٹ میں چاہتوں کی حلاوت ملالیتے ہیں۔ جھرنے،چشمے،آبشاریں اور ندیاں جس قلم کار کے پسندیدہ موضوعات ہوں،  اس کے قلم کا بہاؤ  بہتے دریا کی لہروں کی مانند ہوتا ہے۔کوئی بند، پشتہ یا دیوار اس کے آگے عاجز ہے۔   زمین سے جُڑےانسانوں کے مزاج بھی زمین زاد ہوتے ہیں۔ وہ کوزہ گر  طبع  بھی ہوئے تو   خوئے   سنگ تراش  رکھیں گے۔جب بھی بات  کریں گے تو لیلائے وطن کے گیسو سلجھانے کی ۔مٹی کی خوشبو سے دوری ان کے لیے سوہان روح ہوتی ہے۔ا نجمن ترقی پسند مصنفین کی طرف سے سال 2019 کے بہترین سفرنگار کا ایوارڈ حاصل کرنے کشمیردھرتی کو چند روز کے لیے چھوڑ کر کراچی جانا پڑا تو واپسی پر  سفر کا دلچسپ  احوال بیان کیا۔ اپنی کراچی یاترا  کے تذکرے کا  اختتام کچھ یوں کیا جیسے  سات سمندر پار سے ہو کر آنے والا اپنے جذبات کا اظہار کررہا ہو۔ ” ٹھنڈی ٹھار ہمالیائی ہواؤں نے گودے میں سرد نیزے چبھوتے ہوئے پوچھا ۔بیٹے ۔۔۔! ہمیں بھولے تو نہیں نا۔”( کراچی آرٹس کونسل میں دو دن۔۔جاویدخان)
وادئ پرل کی زرخیزدھرتی پر  عاجزی سے چلتے پھرتے جاوید خان  کسی ماہر سنگ تراش سے کم نہیں ہیں۔ کبھی کسی سنگریزے سے ٹھوکر کھا کر یا خود رو جھاڑی سے الجھ کر   اپنا راستہ نہیں بدلتے ،بلکہ نگین دل  دھرتی  سے عقیدت کے  پھول چن کر  اپنی دُھن میں چلتے جاتے ہیں یا کسی  مدھر سُر ندی کے کنارے بیٹھ کر اس کے سرگم سروں  کی لے پر سر دھننے لگتے ہیں۔ انہیں  مٹی پہ چلنے کا سلیقہ آتا ہے ، تبھی اس  پر کِھلنے والے بیل بوٹے کی تراش خراش کا ہی سوچتے ہیں۔ ایک پیکر محبت شخص کی  محبت   جب رنگ نکالتی ہے تو خوشبوکی مانند  چہار سُو پھیل جاتی ہے، پیوست ہوجائے تو سرتاپا  ڈھل جاتی ہے۔ اور جس  محبت کے سوتے کشمیر کی چشمہ سار دھرتی  سے پھوٹتے ہوں اسے خود نمائی کی لیے  کسی کرشمہ ساز ی کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔  پھر بھی جب  قلم اٹھا لیں تو  دل و دماغ میں پیوست ہونے والے الفاظ و تراکیب  گھڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔
جموں وکشمیر میں جنگلات کی اہمیت کے حوالے سے تاریخی پس منظر میں لکھا گیا میرا ایک کالم ان کے سامنے آیا توانہیں لگا کسی نے ٹھہرے ہوئے تالاب  میں پتھر پھینک دیا ہے۔وہ نہ جانے کب سے    کلر کھائی بنجر  دھرتی پر سبزہ اگنے کے انتظار میں تھے۔ جھٹ سے برقی پیغامات کا سلسلہ چل پڑا۔لگے ہاتھوں سوئٹزرلینڈ  اور جرمنی کے  ماحول دوست گھروں کی چند ویڈیوز بھی  بھیج دیں اوراس خواہش کا اظہار بھی کر ڈالا کہ کیا ہمارے ہاں (جموں وکشمیر میں) بھی   ایسے ایکو فرینڈلی اور ارتھ فرینڈلی گھر  بن  سکتےہیں ؟ عرض کیا حضور کیوں نہیں بن سکتے ؟ سب کچھ ممکن ہے اگر ارادہ مصمم ہو ۔ مگر ہمارا مسئلہ وسائل اور انجنیئرنگ کا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے موٹیویشن کا ہے۔   اگر لوگ ماحول سے دوستی کرنا چاہیں گے تو گھر بھی ماحول دوست بنا لیں گے۔
محض تین چار دہائیاں پیچھے چلے جائیں  جب سیمنٹ ، لوہے اور جستی چادروں کی چھتوں والے گھروں کا رواج نہیں تھاتو یہ ہمارے ہی لوگ تھے جو کچی مٹی کے گھروں میں رہتے تھے ۔ ان گھروں کے لیے سارا تعمیراتی سامان ماحول دوست ہوتا تھا۔ جاوید خان کی بھیجی ہوئی ایک ویڈیو میں  جرمنی  کے ایک ماحول دوست گھر کی بھوسا بھری دیواروں پر مٹی کی لیپ کی گئی ہے۔ راولاکوٹ کے جاوید خان جانتے ہیں کہ کہ نصف صدی پہلے  ہمارے ہاں گھر ایسے ہی تھے۔  پاکستان اور  ہندوستان کے بے شمار دیہاتوں میں بھوسے اور مٹی سے بنے گھر آج بھی موجود ہیں۔ یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ  اب جرمنی اور سوئیٹزرلینڈ جیسے امیر ممالک  کے خوشحال لوگ ایسے گھر بنانا چاہتے ہیں۔
جن گھروں  کو یورپ میں  توانائی کی بچت اور آلودگی سے پاک قدرتی مکانات کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے ہم سب نے اپنا بچپن ان سے ملتے جُلتے  گھروں میں گزارا ہے۔  جرمنی  میں مٹی سے پلستر کئے ہوئے  ایسے  گھروں کی دیواریں ماحول دوست ہوتی ہیں۔ ایک دیوار کھڑی کرنے کے لیے دو پتلی سی  مٹی کی دیواروں میں بھوسا  بھر دیا جاتا ہےاور اسے مٹی سے ہی لیپ دیا جاتا ہے۔  ایسے بھی گھر بنائے جار ہے ہیں جو زلزلے جیسی قدرتی آفات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تعمیراتی کام کا تجربہ نہ رکھنے والے لوگ بھی انتہائی کم خرچ پر ایسے گھر بنا سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact