Thursday, April 18
Shadow

Day: November 27, 2021

حویلی اور اس کا تاریخی ورثہ۔۔ تحقیق: ظہیر ایوب۔

حویلی اور اس کا تاریخی ورثہ۔۔ تحقیق: ظہیر ایوب۔

آرٹیکل
تحقیق: ظہیر ایوب تقسیم  کے انقلاب تک سرزمینِ حویلی علم و دانش کا گہوارہ تھی۔جس کی دانش کا معترف اک زمانہ رہا ہے۔اس کی زرخیز مٹی نے چراغ حسن حسرت جیسے سلطان القلم پیدا کئے۔ان کے دیگر تین بھائی بھی شاعر تھے۔ان کے علاوہ کرشن چندر بھی حویلی ہی کی کوکھ میں شہرۂ آفاق افسانہ نگار بنے۔اسی مٹی نے مہندر ناتھ اور ٹھاکر پونچھی جیسے ادیب پیدا کئے۔چراغ حسن حسرت تو اپنی ادیبانہ،شاعرانہ اور صحافیانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر بین الاقوامی پلیٹ فارم تک چلے گئے البتہ حویلی کی رونقیں بحال رکھنے کیلئے دیگر بہت سارے شعراء کرام موجود تھے جن میں عبدالقادر خزین،فرزند علی یاس بخاری،تحسین جعفری،سید احمد درد،امام الدین ہدہد،سرون ناتھ آفتاب،ضیاء الحسن ضیاء اور سراج الحسن سراج وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اکثر دوست احباب حویلی نام کی وجۂ تسمیہ پوچھتے رہتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق مقبوضہ پونچھ شہر کی چار تحصیلیں تھ...
اجڑتے  اخبار سٹال – کہانی کار :  انعام الحسن کاشمیری

اجڑتے اخبار سٹال – کہانی کار : انعام الحسن کاشمیری

تصویر کہانی
کہانی کار اور تصویر : انعام الحسن کاشمیری اس معمر شخص کو نظر کی کمزوری کے باعث شاید اپنی زندگی کے واحد لطف اخبار بینی میں قدرے دشواری پیش آرہی ہے اور اسی لیے محدب عدسہ کا سہارا لے کر تکلیف کے باوجود اس شوق دیرینہ کی تکمیل کی جارہی پے۔۔۔ پہلے ہر اخبار کے سٹال پر ایسے بزرگ نظرآتے تھے مگر اب یہ سٹال اخبارات کی زائد قیمتوں اور بچ جانیوالے سٹاک کی عدم واپسی کے باعث دھیرے دھیرے اجڑتے جارہے ہیں۔۔۔ایک وقت آئے گا کہ دیگر قدیم پیشوں کی طرح اخباری ہاکر کا پیشہ بھی دم توڑ دے گا۔۔۔۔ ٹیکنالوجی نے بہت سی روایات کو تاریخ کا حصہ بنادیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم سہولیات تلاش کرتے کرتے زندگی کے اصل حسن اور اس کے اصل لطف سے ہی محروم ہوتے چلے جارہے ہیں۔۔ کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیںجا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لاعبد الحمید عدم ...
انصاف کی تلاش : باسط علی

انصاف کی تلاش : باسط علی

آرٹیکل
باسط علی  محمد رفیق کیانی ضلع باغ کےدور افتادہ گاوں لوہار بیلہ ناڑ شیر علی خان سے تعلق رکھنے والا ایک سادہ لوح اور سفید پوش شہری ہے۔ موصوف پیشے کے لحاظ سے ایک مزدور ہیں۔ سال2015کے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں موصوف کاچھوٹا سا مکان اور تمام زمین سیلاب کی نذر ہوگئ تھی۔ حکومت کی طرف سے 30 ہزار روپے کی انتہائی قلیل رقم بطور معاوضہ دی گئ تھی جو نئی زمین خرید کر دوبارہ مکان تعمیر کرنے کے لۓ ناکافی تھی۔ رفیق کیانی کا ایک جواں سال بیٹا تھا جس کی عمر لگ بھگ 18 سال تھی۔ باپ کی غربت اور بیچارگی کو دیکھتے ہوئے اس نے بھی پڑھائی چھوڑ کر باپ کے ساتھ محنت مزدوری کرنا شروع کردی۔  گھر کا آشیانہ چھن جانے کے بعد اس پسماندہ خاندان نے پاکستان کے شہرراولپنڈی کا رخ کیا۔ جہاں یہ پانچ افراد پہ مشتمل خاندان جن میں معذور ماں باپ دو جواں سالہ بیٹیاں اور ایک نوجوان بیٹاشامل تھے کراۓ کے ایک چھوٹے سے مکان می...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact