Saturday, April 27
Shadow

Month: November 2021

ہندو کش کے دامن میں۔۔۔جاوید کا ایک اور دلکش سفر نامہ۔تبصرہ / پروفیسر محمد ایاز کیانی

ہندو کش کے دامن میں۔۔۔جاوید کا ایک اور دلکش سفر نامہ۔تبصرہ / پروفیسر محمد ایاز کیانی

تبصرے
۔۔تبصرہ : پروفیسر محمد ایاز کیانیمعروف ادیب اور متعدد سفر ناموں کے خالق مستنصر حسین تارڑ نے سفر نامے کے بارے میں لکھا ہے کہ"سفر نامہ ایسی آوارہ صنف ہے جسے محض قادر الکلامی اور زبان دانی سے نہیں لکھا جا سکتاجب تک لکھنے والےکے اندر جنون جہاں گردی نہ ہو حیرت کی کائنات نہ ہو اور طبع میں خانہ بدوشی اور آورگی نہ ہو"-ایک دور تھا کہ معاشرے کے دو طبقات پڑھنے پڑھانے سے دلچسپی رکھتے تھےایک استاد اور دوسرا مولوی۔مگر یہ گئے دنوں کی بات ہے اب استادپڑھتا ہے اور نہ ہی مولوی۔اس صورتحال میں تعلیمی ادارے اور منبر و محراب دونوں ہی بے روح ہو چکے ہیں۔علمی تشنگی استاد دور کر سکتاہے نہ منبر و محراب کے وارث۔کچھ عرصہ پہلے تک ایک دینی جماعت کے لوگ پڑھنے لکھنے سے کافی رغبت رکھتے تھے۔سٹڈی سرکلز ہوتے مختلف موضوعات کی باریکیوں پر کھل کر بحث ہوتی اس طرح گنجلک مسئلوں کی باریکیاں کھل کر روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی تھیں۔ل...
حویلی اور اس کا تاریخی ورثہ۔۔ تحقیق: ظہیر ایوب۔

حویلی اور اس کا تاریخی ورثہ۔۔ تحقیق: ظہیر ایوب۔

آرٹیکل
تحقیق: ظہیر ایوب تقسیم  کے انقلاب تک سرزمینِ حویلی علم و دانش کا گہوارہ تھی۔جس کی دانش کا معترف اک زمانہ رہا ہے۔اس کی زرخیز مٹی نے چراغ حسن حسرت جیسے سلطان القلم پیدا کئے۔ان کے دیگر تین بھائی بھی شاعر تھے۔ان کے علاوہ کرشن چندر بھی حویلی ہی کی کوکھ میں شہرۂ آفاق افسانہ نگار بنے۔اسی مٹی نے مہندر ناتھ اور ٹھاکر پونچھی جیسے ادیب پیدا کئے۔چراغ حسن حسرت تو اپنی ادیبانہ،شاعرانہ اور صحافیانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر بین الاقوامی پلیٹ فارم تک چلے گئے البتہ حویلی کی رونقیں بحال رکھنے کیلئے دیگر بہت سارے شعراء کرام موجود تھے جن میں عبدالقادر خزین،فرزند علی یاس بخاری،تحسین جعفری،سید احمد درد،امام الدین ہدہد،سرون ناتھ آفتاب،ضیاء الحسن ضیاء اور سراج الحسن سراج وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اکثر دوست احباب حویلی نام کی وجۂ تسمیہ پوچھتے رہتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق مقبوضہ پونچھ شہر کی چار تحصیلیں تھ...
اجڑتے  اخبار سٹال – کہانی کار :  انعام الحسن کاشمیری

اجڑتے اخبار سٹال – کہانی کار : انعام الحسن کاشمیری

تصویر کہانی
کہانی کار اور تصویر : انعام الحسن کاشمیری اس معمر شخص کو نظر کی کمزوری کے باعث شاید اپنی زندگی کے واحد لطف اخبار بینی میں قدرے دشواری پیش آرہی ہے اور اسی لیے محدب عدسہ کا سہارا لے کر تکلیف کے باوجود اس شوق دیرینہ کی تکمیل کی جارہی پے۔۔۔ پہلے ہر اخبار کے سٹال پر ایسے بزرگ نظرآتے تھے مگر اب یہ سٹال اخبارات کی زائد قیمتوں اور بچ جانیوالے سٹاک کی عدم واپسی کے باعث دھیرے دھیرے اجڑتے جارہے ہیں۔۔۔ایک وقت آئے گا کہ دیگر قدیم پیشوں کی طرح اخباری ہاکر کا پیشہ بھی دم توڑ دے گا۔۔۔۔ ٹیکنالوجی نے بہت سی روایات کو تاریخ کا حصہ بنادیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم سہولیات تلاش کرتے کرتے زندگی کے اصل حسن اور اس کے اصل لطف سے ہی محروم ہوتے چلے جارہے ہیں۔۔ کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیںجا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لاعبد الحمید عدم ...
انصاف کی تلاش : باسط علی

انصاف کی تلاش : باسط علی

آرٹیکل
باسط علی  محمد رفیق کیانی ضلع باغ کےدور افتادہ گاوں لوہار بیلہ ناڑ شیر علی خان سے تعلق رکھنے والا ایک سادہ لوح اور سفید پوش شہری ہے۔ موصوف پیشے کے لحاظ سے ایک مزدور ہیں۔ سال2015کے تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں موصوف کاچھوٹا سا مکان اور تمام زمین سیلاب کی نذر ہوگئ تھی۔ حکومت کی طرف سے 30 ہزار روپے کی انتہائی قلیل رقم بطور معاوضہ دی گئ تھی جو نئی زمین خرید کر دوبارہ مکان تعمیر کرنے کے لۓ ناکافی تھی۔ رفیق کیانی کا ایک جواں سال بیٹا تھا جس کی عمر لگ بھگ 18 سال تھی۔ باپ کی غربت اور بیچارگی کو دیکھتے ہوئے اس نے بھی پڑھائی چھوڑ کر باپ کے ساتھ محنت مزدوری کرنا شروع کردی۔  گھر کا آشیانہ چھن جانے کے بعد اس پسماندہ خاندان نے پاکستان کے شہرراولپنڈی کا رخ کیا۔ جہاں یہ پانچ افراد پہ مشتمل خاندان جن میں معذور ماں باپ دو جواں سالہ بیٹیاں اور ایک نوجوان بیٹاشامل تھے کراۓ کے ایک چھوٹے سے مکان می...
مجید امجد-خود نگر اور تنہا شاعر۔- جھنگ

مجید امجد-خود نگر اور تنہا شاعر۔- جھنگ

رائٹرز
مجید امجد  مجید امجد ۲۹ جون ۱۹۱۴ کو جھنگ صدر (مگھیانہ) میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک غریب اور شریف گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ابھی وہ دو برس کے تھے کہ جب ان کی والدہ اپنے شوہر سے الگ ہو کر میکے آ گئیں۔ امجد نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا سے حاصل کی جن کا شمار جھنگ کے صوفیا میں ہوتا تھا۔ گھر سے ملحقہ مسجد میں انھوں نے چند سال قرآن، اسلامیات، فارسی، عربی اور طب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔۱۹۳۰  میں میٹرک اور ۱۹۳۲ میں انٹرمیڈیٹ کے امتحان جھنگ میں دوسرے درجے میں پاس کیے اور پھر ۱۹۳۴میں اسلامیہ کالج (ریلوے روڈ) لاہور سے بی اے کی ڈگری بھی درجۂ دوم میں حاصل کی۔اس زمانے میں دنیا عظیم اقتصادی بحران کا شکار تھی اس لیے ملازمتیں عنقا تھیں۔ مجید امجد جھنگ میں ایک مقامی ہفت روزہ اخبار ’’عروج‘‘ سے بطور مدیر وابستہ ہو گئے۔ پھر کچھ عرصہ کلرک کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ۱۹۴۴ میں دوسری عالمی جنگ...
پیر چناسی کا یادگار سفر:  شبیر احمد ڈار

پیر چناسی کا یادگار سفر: شبیر احمد ڈار

سیر وسیاحت
شبیر احمد ڈار          تاریخی مقامات کی سیر کا بچپن سے ہی شوق رہا ۔ اسکول ، کالجز اور یونی ورسٹی میں یہ شوق مزید پروان چڑھا جہاں اپنے ہم جماعتی طلبہ اور قابل عزت اساتذہ کرام کے ساتھ بہت سے یارگار سفر کرنے کا موقع ملا ۔  23 اکتوبر 2021ء کو " میجر ایوب شہید کالج باغ " کے سنگ " پیر چناسی " کا یادگار سفر کرنے کا موقع ملا جس میں راقم کے ساتھ ادارہ ہذا کے صدر معلم جناب توصیف احمد ، ادارہ ہذا کے معلمین اور عزیز طلبہ شامل تھے  ۔کل تعداد 29 تھی ۔  اس مطالعاتی دورے کے لیے کوسٹر کا انتخاب کیا گیا جو سفر کے لیے نہایت موزوں ہے یہ یادگار سفر صبح آٹھ بجے باغ آزادکشمیر سے شروع ہوا تمام طلبہ نے وقت کی پابندی کا خاص خیال رکھا۔  موسم خوش گوار تھا , ہلکی دھوپ کے ساتھ ٹھنڈی ہوائیں بھی چل رہی تھی اور گاڑی میں طلبہ خوشی سے اس سفر کو یادگار بنانے میں مصروف تھے...
کشمیر کا کرب/ احسان الحق

کشمیر کا کرب/ احسان الحق

آرٹیکل
احسان الحقظالمو!اپنی قسم پہ نازاں نہ ہودوربدلے گاوقت کی بات ہےوہ ضرورسنے گاصدائیں میری، کیاتمہاراخداہے ہمارانہیںکشمیرکے معصوم بچوں کامستقل یتیمی کاہے۔کشمیرکے دونوں اطراف معصوم بے زبان بچوں سے ان کے ”بابا“چھین لئے گے۔ مظفرآبادمیں ایک سفاک قتل کے عوض ایک گودمیں پڑے بچے سے اس کی ماں چھین لی گئی،معصوم بچوں نے حوالات کے اندراپنے قاتل باپ کے ساتھ ٹھٹھری رات میں وقت گزارا،انہیں کیاپتہ کہ جیل/تھانہ کیاہے۔اسلام آبادمیں میٹروکے غیرفعال باتھ روم سے آزادکشمیرکی ایک بارہ سالہ بچی صالحہ کی لاش کاملناجوجہلم ویلی کھلانہ کی رہائشی تھی،جس کاقاتل اس کاباپ نکلا۔مقبوضہ کشمیرمیں معصوم بچیوں سے ان کا ”بابا“ چھین لیاگیا۔روتی بلکتی ان کی مائیں اپنے سرتاجوں کی لاشیں لینے کیلئے سردی کی شدت میں سڑک پربیٹھی ہیں۔وہ صدائیں شاید ہمارے کانوں تک پہنچی ہوں گی اوریقیناپہنچی ہیں ”جوبچی یہ سوال کرتی ہے کہ میرے پاپانے کیاتھاکہ...
کتھیاڑہ سے پیدل تولی پیر/ محمد ضیافت خاں

کتھیاڑہ سے پیدل تولی پیر/ محمد ضیافت خاں

سیر وسیاحت
محمد ضیافت خاں ۔  شاید آٹھویں جماعت میں تھے اور یہ غالباً 1994 کا واقعہ ہے جب بڑے بھائی صاحب نے اپنے دوستوں سے تولی پیر کی سیر کا پروگرام ترتیب دے دیا۔ خبر،، لیک،، ہونے پر ہم منتیں ترلے کرنے لگے۔ لیکن بھائ صاحب ،، ناخن ہر بال نہ جمنے،، دیں۔ پھر ہم نے سفارش دھونس دھاندلی کے حربے آزمائے۔  بھائ صاحب نے،، حق کی آواز ،، کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوشش کی۔ لیکن ہم نے،، کھُریاں،، رگڑ کر ان کو شیشے میں اتار ہی دیا۔ یہ کوی مئی کے وسط کا دن تھا۔ اذان فجر کے ساتھ دوستوں کی،، گُرگُر،، سٹارٹ ہوئ۔ کھانا پینا پیک ہوا اور کم از کم پندرہ مجاہدین عازم تولی پیر ہوئے۔  شاید،،دواری،، کے صحت افزا مقام پر نماز فجر ادا ہوئی۔ حکم یہ تھا کہ بلا ضرورت کھانا بھی نہیں اور پینا بھی نہیں کیونکہ راستہ طویل اور ذرائع مشکل ہیں۔  دوسرا پڑوا ۔۔ چھوءا ،، کے جنگل کے اوپر چراہ گاہ کے وسط میں تھا۔  سر...
×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact